حماس بمقابلہ اسرائیل کیا جنگ مسئلے کا حل ہے پہلا حصہ

حماس کے حملے سے زیادہ نقصان غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں کو اٹھانا پڑ رہا ہے

zahedahina@gmail.com

چند دنوں پہلے اس خبر نے اچانک پوری دنیا کو چونکا دیا کہ حماس کے فوجیوں نے اسرائیل پر حملہ کردیا ہے۔ اس حملے کے بعد حماس اور اسرائیل کے درمیان باقاعدہ جنگ شروع ہوگئی جو تاحال جاری ہے۔

2006 میں لبنان اور اسرائیل کے درمیان ایک بڑی لڑائی ہوئی تھی جو 35 دن جاری رہی جس میں بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا تھا۔ حماس کے حملے کے چند دنوں کے اندر اسرائیل کو 2006 کی جنگ سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ محتاط ترین اندازوں کے مطابق اب تک اس لڑائی میں سیکڑوں افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں۔ غزہ کا ایک بڑا حصہ اسرائیلی بمباری سے ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔

اسرائیل پر یہ فوجی حملہ عسکریت پسند حماس او ر اسلامی جہاد نامی تنظیم کی جانب سے کیا گیا ہے جو اسرائیل کے وجود کو کسی بھی قیمت پر تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس کے برعکس زمینی حقائق کافی مختلف ہیں۔بہت سے اسلامی ملک جن میں ترکی سرفہرست ہے اسرائیل کو باضابطہ طور پر تسلیم کر چکے ہیں۔ترکی اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا اسلامی ملک تھا جس نے مارچ 1949 میں اسرائیل کو تسلیم کرلیا تھا۔ اس وقت ان دونوں ملکوں کے درمیان سالانہ اربوں ڈالر کی تجارت ہوتی ہے۔

خلیجی ریاستیں اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کررہی ہیں اور سعودی عرب بھی اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لانے کے لیے مذاکرات میں مصروف ہے۔ عرب ملکوں میںمصر نے سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کیا اور اس کے بعد اردن، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش بھی اسرائیل کو تسلیم کرچکے ہیں۔ اس صورت حال میں حماس کی جانب سے اسرائیل پر جو حملہ کیا گیا ہے اس کی مسلم دنیا بالخصوص عرب ممالک کی جانب سے ماضی کی طرح کی پرجوش حمایت نظر نہیں آرہی ہے۔

حماس کے حملے سے زیادہ نقصان غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں کو اٹھانا پڑ رہا ہے کیونکہ حماس نامی تنظیم کی غزہ کے علاقے میں بالادستی ہے اور وہ وہیں سے اسرائیل کے خلاف حملے کرتی ہے۔ اسرائیل کے شہر یروشلم میں کافی خوف و ہراس ہے لیکن مالی اور جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔

اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا جارہا ہے کہ اسرائیل کی اتنی بڑی انٹیلی جنس ناکام کیوں ہوئی اور حکومت حماس کے حملے سے بے خبر کیوں رہی۔ اس کی بہت سے وجوہ ہوسکتی ہیں تاہم، اس حقیقت سے ہم بہت کم واقف ہیں کہ اسرائیل کے عوام کی ایک بڑی تعداد غزہ پر اسرائیلی قبضے کو پسند نہیں کرتی۔

اسرائیلی فوجی یہاں تک کہ ائیر فورس کے پائلٹ تک فلسطینیوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کو بے مقصد اور بلاجواز محسوس کرتے ہیں۔ ایسے میں ہمیں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان موجود محاذ آرائی اور فلسطینی عوام کے لیے اسرائیل کے اندر اور مغرب میں موجود حمایت کا غیر جذباتی جائزہ لینا چاہیے تاکہ اصل حقیقت ہمارے سامنے آسکے۔

تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 1881 میں فلسطین کے علاقے میں یہودیوں کی ایک بہت بڑی ہجرت ہوئی جہاں انھوں نے اپنی بستیاں قائم کرلیں۔ اس وقت اس خطے کا نقشہ بالکل مختلف تھا۔ فلسطین کا علاقہ سلطنت عثمانیہ کے قبضے میں تھا، فلسطین کا زیادہ تر حصہ ریگستانی تھا۔

یہودیوں نے فلسطین میں آنے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ یروشلم ان کا سب سے مقدس شہر تھا۔ فلسطین میں اس وقت بھی مسلمان، عیسائی اور یہودی رہا کرتے تھے لیکن ان کے درمیان محاذ آرائی اور دشمنی نہیں تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ فلسطین میں قائم بستیاں ایک دوسرے سے کافی دور اور الگ تھلگ ہوا کرتی تھیں۔

فلسطین کا موجودہ مسئلہ برطانیہ کا پیدا کردہ ہے۔ پہلی جنگ عظیم میں عرب، سلطنت عثمانیہ کے خلاف نبردآزما تھے اور ان میں عرب قوم پرستی کا جذبہ عروج پر تھا۔ برطانیہ نے عرب قوم پرستوں کو یہ جھانسہ دیا کہ ترک ''استعمار ''کی شکست کے بعد عرب علاقے ان کے حوالے کردیے جائینگے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے یہودیوں کو یقین دلایا کہ جنگ میں فتح کے بعد فلسطین کو ان کا ملک بنا دیا جائے گا۔


پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کی ہار کے بعد فرانس اور برطانیہ نے مشرق وسطیٰ کے مختلف حصوں کو آپس میں بانٹ لیا اور موجودہ فلسطین برطانیہ کے قبضے میں آگیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ معاشی لحاظ سے تقریباً دیوالیہ ہوگیا تھا اور وہ بڑی عجلت میں اپنے مقبوضہ علاقوں سے دستبردار ہونے لگا۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد 1947میں ایک خستہ حال بحری جہاز فرانس سے فلسطین کی طرف روانہ ہوا تھا' اس میں نازی قید سے رہائی پانے والے 4500 تباہ حال اور فاقوں سے نڈھال یہودی سوار تھے۔ یہ لوگ جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد مختلف کیمپوں میں زندگی بسر کررہے تھے اور اس امید پر زندہ تھے کہ شاید کوئی ملک انھیں قبول کرلے۔

اس وقت کچھ صیہونیوں نے ان نیم مردہ لوگوں کو نہ صرف فلسطین تک پہنچانے بلکہ دنیا اور بہ طور خاص برطانوی اور یورپی عوام کی توجہ ان کی حالت زار کی جانب مبذول کرانے کے لیے یہ طے کیا کہ وہ ایک جہاز میں حیفہ بھیجے جائینگے جس کی ناکہ بندی برطانوی بحریہ نے کررکھی تھی اور یہ خبردارکررکھاتھا کہ کسی کو بھی اس ناکہ بندی کو توڑنے کی اجازت نہیںدی جائے گی۔

یہ جہاز جس کا نام Exodus رکھا گیا تھا جب حیفہ کی بندرگاہ سے کچھ فاصلے پر تھا تو اسے برطانوی بحریہ کی طرف سے واپس جانے کا حکم ملا جسے ''اکزاڈس'' کے پولش کپتان نے ماننے سے انکار کردیا۔ برطانوی بحریہ کے تین تباہ کن جہاز برطانوی فوج کے جوانوں کے ساتھ ''اکزاڈس'' پر چڑھ دوڑے اور انھوں نے بہ جبر اس جہاز کو واپس بھیجنا چاہا، وہ لوگ جو اپنی زندگی سے تنگ آچکے تھے ان میں سے کوئی ڈنڈا اور کوئی گوشت کے بند ڈبے لے کر ان ''شیر دل'' جوانوں سے نبرد آزما ہوا۔

نتیجے میں شیر دل نوجوان محفوظ رہے لیکن پناہ کی تلاش میں نکلنے والے تین لوگ مارے گئے اور 'اکزاڈس' کو بین الاقوامی پانیوں میں لنگر انداز ہوناپڑا۔ چند دنوں بعد یہ لوگ ایک دوسرے بحری جہاز پر منتقل کیے گئے اور واپس جرمنی بھیج دیے گئے جہاں سے نازی فوجیوں نے انھیں پولینڈ کے بدنام زمانہ کیمپوں میں دھکیل دیا تھا۔

پولینڈ اس وقت ہٹلر کی فوجوں کے قبضے میں تھا اور وہاںبے شمار یہودی کنسٹریشن کیمپوں میں اجتماعی طور پر ہلاک کیے گئے تھے۔ یہ ساڑھے چار ہزار یہودی جب واپس جرمنی پہنچائے گئے تو یورپ اور امریکا کی رائے عامہ برطانوی اور امریکی حکومتوں کے خلاف ہوگئی اور یہ واقعہ فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل نامی یہودی ریاست کے قیام میں ایک بڑا محرک ثابت ہوا۔

اس پس منظر میں اقوام متحدہ میں ووٹنگ کے ذریعے فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔ ایک حصہ یہودی آبادی جب کہ دوسرا حصہ عربوں کو دے دیا گیا۔ یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے مقدس مقامات کی موجودگی کے پیش نظر یروشلم کے شہر کو بین الاقوامی شہر قرار دیاگیا۔ اس تقسیم کو عربوںنے مسترد کردیا جب کہ یہودی آبادی نے اسے قبول کرلیا۔ اسرائیل کے وجود میں آنے کے بعد اسرائیل اور عربوں کے درمیان چھ روزہ جنگ ہوئی جس میں اسرائیل نے عرب ملکوں کے کئی علاقوں پر قبضہ کرلیا، جس میں غزہ کی پٹی اور مغربی کنارہ بھی شامل ہے۔

غزہ کی پٹی پر رہنے والے فلسطینیوں پر اسرائیلی ظلم کی داستان بہت پرانی ہے۔ یہ مقبوضہ علاقہ بجلی، پانی اور کھانے پینے کی زیادہ تر اشیاء کے لیے اسرائیل کا محتاج ہے۔ اسرائیل کی جانب سے اس وقت بھی غزہ کی ناکہ بندی کی جاچکی ہے جہاں غذائی بحران پیدا ہوچکا ہے۔ ایسا عمل 2010 میں کیا گیا تھا۔ اس وقت عالمی سطح پر ایک ''کاروان آزادی'' امدادی سامان لے کر غزہ کی جانب روانہ ہوا تھا۔

غزہ کے غذا سے محروم لوگوں کے لیے دنیا بھر کے 40ملکوں کے امن رضاکار غذائی اجناس ' دوائیں' سیمنٹ' دوسرا تعمیراتی سامان اور معذوروں کے لیے وہیل چیئر لے کر جارہے تھے کہ انھیں بین الاقوامی پانیوں میں پہلے بہ جبر روکا گیا اور پھر اسرائیلی بحری جنگی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں سے اسرائیلی''ایلیٹ کمانڈو'' امدادی سامان اور امن رضاکار لے جانے والے سب سے بڑے جہاز پر اترے۔

اس وقت جب صبح کاذب تھی' قتل اور خون کا بھیانک کھیل شروع ہوا۔ اس امدادی بیڑے پر ہونے والے وحشیانہ حملے کے فوراً بعد اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب میں فلسطینیوں کے حق میں اور اپنی حکومت کے خلاف سیکڑوں یہودیوں نے مظاہرہ کیا۔ اسی طرح اسرائیل میں چھپنے والے اخباروں میں بعض یہودی صحافیوں نے جرأت مندی سے اپنی حکومت کے اس سفاکانہ اقدام کے خلاف احتجاج کیا۔ (جاری ہے)
Load Next Story