انیق احمد کے تفردات

انیق احمد نے نگراں حکومت میں وزارت کا منصب قبول کیا تو یاروں کو حیرت ہوئی

farooq.adilbhuta@gmail.com

تو بات یہ ہے، پیارے صاحب کہ اس شب ہم نے کراچی کو یاد کیا، دل کھول کر باتیں کیں اور پھر یہ جانا کہ اگر کوئی صاحب دل کسی سبب سے فیصلے کرنے والے مراکز میں جگہ پا لے تو کیا کیا کرشمے ظہور میں آتے ہیں۔ کچھ سر گزشت اس اجمال کی برادر محترم خورشید ندیم بیان کر چکے ہیں، کچھ تفصیل میں جانتا ہوں لیکن اس سے پہلے کچھ تذکرہ کراچی کا ہو جائے۔

اشرف یار خان اصل میں تو میرے کلاس فیلو ہیں پھر جج ہوئے پھر صوفی بنے آج کل اپنا صوف برقرار رکھتے ہوئے ججوں کو کسی صورت یہ بھی سکھا رہے ہیں کہ بھلے لوگو، اس منصب کے تقاضے کیا ہیں اور فیصلے کرنے کا سلیقہ کیا ہے۔

شفاعت یار خان ان ہی کے بڑے بھائی ہیں اور جب کبھی اسلام آباد تشریف لاتے ہیں، شرف باریابی بخشتے ہیں۔ اس بار ہم چائے خانے میں مل بیٹھے اور سوچا کہ یہ جو کوچہ صحافت میں گرد اٹھنے کا سلسلہ دراز ہوئے چلا جاتا ہے، اس کا علاج کیسے ہو؟ ایسے مباحث میں سہیل چوہدری کا حصہ ہمیشہ بہترین ہوتا ہے، اس بار بھی ہوا لیکن اصل کہانی کچھ اور ہے۔

ہوا یہ کہ وہیں بیٹھے بیٹھے شفاعت بھائی نے کسی سے فون پر بات کی کہ و ہ چائے خانے میں بیٹھے ہیں اور فاروق عادل بھی موجود ہے۔ ان صاحب نے کہا کہ اس سے کہو کہ وہ کہیں نہ جائے میں پہنچتا ہوں پھر وہ صاحب آ پہنچے۔ پر جوش معانقے کے بعد کہنے لگے کہ پیارے صاحب ہم نے بھی آپ کو یہیں پکڑنا تھا۔ یہ انیق احمد تھے۔

انیق احمد کون ہیں اور ادب و ثقافت سے لے کر تہذیب نفس کے نازک شعبے تک ان کی خدمات کیا ہیں، یہ تذکرہ طویل ہے۔ اس لیے بس اتنا ہی کہتا ہوں کہ آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں۔ اس گزارش کے بعد مجھے قبلہ جون ایلیا صاحب کو یاد کرنے دیجیے۔ جون صاحب سلطنت شاعری کے درویش تھے اور شعر یوں پڑھتے تھے گویا محبوب کی بارگاہ میں قربان ہو چکے لیکن اس قربانی کا حسن یہ تھا کہ وہ بے چارے محبوب کے حلقوم پر بھی چھری چلا جاتے۔

ان کا دوستوں، ارادت مندوں اور عزیزوں کو مخاطب کرنے کا انداز نرالا تھا۔ وہ انھیں پیارے صاحب کہہ کر مخاطب کرتے تو پیار کے معنی معلوم ہو جاتے۔ انیق احمد نے اسی روایت میں زندگی پیدا کی ہے۔ اس شب جس پیار سے انھوں نے یہ کلمہ دہرایا، سوکھے دل کی کلیاں کھل اٹھیں اور کراچی کی وہ بہاریں ایف سکس کے چائے خانے میں سانس لینے لگیں جن کی پرکیف فضاؤں میں ہم آشفتہ سروں نے وادی ادب و ثقافت کے پیروں میں جگہ پائی اور ایسے مراتب پر سرفراز ہوئے جن کی قدر ہم ہی جانتے ہیں۔

انیق احمد نے نگراں حکومت میں وزارت کا منصب قبول کیا تو یاروں کو حیرت ہوئی۔ یہ شخص آج قرآن حکیم کا ہو کر رہ گیا ہے۔ ہر صبح ایک آیت پڑھ کر اہل وطن کو سناتا ہے اور انھیں نیکی کی طرف بلاتا ہے۔ انیق احمد کی عادت یہ ہے کہ جس کام میں ہاتھ ڈالتے ہیں ، اس کے کمال تک پہنچتے ہیں۔ شعر و ادب کی دنیا میں سرگرم عمل تھے تو ایک پرچہ نکالا، چھ یا شاید آٹھ صفحات کا، نام تو اس وقت میں اس کا بھولتا ہوں لیکن یہ بات کبھی نہیں بھول سکتا کہ اس چند ورقی پرچے میں انیق احمد جو مباحث چھیڑتے، آگ لگا دیتے۔

صرف کراچی کے صف اول کے ادیب ان مباحث میں سرگرمی سے حصہ نہ لیتے بلکہ ملک بھر کے ادیب شریک ہو جاتے۔ ہم نے کس کس بزرگ ادیب کے نامے اس پرچے میں نہیں پڑھے۔ اچھا ہو کہ انیق احمد کبھی وقت نکالیں اور وہ نامے اپنے کسی برخوردار کے ذریعے مرتب کر کے شایع کرا دیں۔ پاکستانی ادب کی تاریخ خود بخود مرتب ہو جائے گی۔

انیق احمد سے میری ملاقاتوں کا زمانہ طویل ہے اس لیے زیادہ طویل بات ممکن نہیں لیکن یہ تذکرہ بہت ضروری ہے کہ ڈھلتی ہوئی ہر شام ہم نیپا کے بس اسٹاپ پر پوائنٹ ( جامعہ کراچی کی بس)کے انتظار میں ایک دوسرے کو کھڑا پاتے۔ ہر شام ہم عظیم المرتبت جون ایلیا کے با برکت تذکرے سے بات شروع کرتے پھر ان ادبی مباحث کا ذکرہوتا جو انیق نے اپنے پرچے میں چھیڑ رکھی ہوتیں۔


ایک بار میں نے بے تکلفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ یار، کب تک اپنے پلے سے یہ 'کار خیر' انجام دیتے رہو گے؟ لمبے تڑنگے انیق احمد جو اس زمانے میں نسبتاً پتلے بھی تھے، خم ٹھونک کر کہا کہ جب تک جان میں جان ہے۔ اب انیق کی باری تھی۔

کہنے لگے کہ ابے، تو جو یہ روز اپنی گپھا سے آگ کا دریا پڑھ کر نکلتا ہے اور اخبار میں بیٹھ کر الٹی سیدھی خبریں بناتا ہے، کب تک اپنے آپ کو یوں ہی تقسیم کیے رکھے گا۔

انیق نے سیدھا میری دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھ دیا تھا، اس لیے میں نے نہایت تمکنت کے ساتھ کہا کہ صحافت میری زندگی ہے، انیق بھائی اور جن خبروں کو آپ الٹا سیدھا کہتے ہیں ، یہ ہماری سیاست ہے۔ میری بات ابھی مکمل ہوئی نہیں تھی کہ انیق احمد نے ہمیشہ کی طرح اپنے فیصلہ کن انداز میں کہا کہ سیاست؟ مائی فٹ۔ اس کے ساتھ ہی اپنا دایاں پاؤں بھی زور سے زمین پر مارا۔

سیاست کے بارے میں اس قسم کارویہ رکھنے والے انیق احمد نے جب وزارت کا منصب قبول کیا تو یہ پس منظر تھا جس کی وجہ سے مجھے حیرت ہوئی۔ اس حیرت کی پہلی دیوار تب ٹوٹی جب اس برس سیرت کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سالانہ کانفرنس وزارت مذہبی امور کا سالانہ وظیفہ ہے۔

مجھے کامل پانچ برس تک صدر ممنون حسین کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز حاصل رہا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ اس وزارت کے لوگ اس مبارک ذمے داری سے کیسے عہدہ برا ہوتے ہیں اور ہر سال کانفرنس کے موضوع کا انتخاب کیسے ہوتا ہے۔ میری کچھ جان پہچان اس وزارت میں بھی ہے۔ مجھے خبر ملتی رہی ہے کہ اس برس لوگ کس مصیبت میں مبتلا ہوئے۔

اصل میں ہوتا یہ ہے کہ بابو لوگ ایسے مواقع پر پرانے فائل نکال کر ان کی گرد جھاڑتے ہیں اور ان میں سے کوئی ایک موضوع نکال کر صاحب یعنی وزیر صاحب کی خدمت میں پیش کر دیتے ہیں۔ وزیر کو فائل پڑھنے سے کچھ رغبت ہوئی تو انھوں نے اس پر کچھ قلم لگا دیا ورنہ بات اسی طرح آگے بڑھ گئی۔ اس برس بھی یہی ہوتا لیکن دال یوں گل نہ سکی کہ سامنے انیق احمد تھے۔

میں تصور میں کر سکتا ہوں کہ انھوں نے دھیرے سے نگاہ اٹھا کر غور سے سیکریٹری صاحب کی طرف دیکھ کر اور ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا ہو گا کہ سیرت النبیﷺ کومیری اور آپ کی اور اس عہد کی زندگی سے جوڑیئے پیارے صاحب، بات تب بنے گی اور جو کوئی بھی ان کا مخاطب ہو گا، سوچ میں پڑ گیا ہو گا کہ اب میں کیا کروں؟

یہ مزاج کی اسی کیفیت کا فیض ہے کہ اس برس قومی سیرت النبی ﷺ کانفرنس کو پاکستان کے سب سے بڑے مسئلے یعنی معیشت سے منسلک کیا گیا اور صرف اتنا نہیں ہوا، اس قومی چیلنج سے نمٹنے کے لیے سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں قابل عمل تجاویز مرتب کر کے وزارت خزانہ کو بھی ارسال کر دی گئیں۔

اچھا ہو اگر شمشاد اختر صاحبہ بھی اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈال دیں۔ انیق احمد نے وزارت قبول کر کے ایک اچھا کام تو یہ کیا ہے جس کی کچھ تفصیلات قوم کے سامنے بھی آ چکی ہیں لیکن بہت سی باتیں شاید اپنے وقت پر سامنے آئیں۔ مختصراً اتنا کہہ دینا کافی ہو گا کہ انھوں نے چند اہل لوگوں کو اس کام پر لگا دیا ہے کہ وہ سیرت النبیﷺ کے ان پہلوؤں پر کام کریں جن کا تعلق ہمارے روز مرہ سے ہے اور کچھ ایسے پہلو جنھیں نظر انداز کر کے ہم اپنا دامن کانٹوں سے بھر چکے ہیں۔

توقع رکھنی چاہیے کہ معاشی پالیسیوں میں سیرت النبی کی روشنی میں اصلاح کے لیے جیسے غیر معمولی تجاویز سامنے لائی گئی ہیں، بالکل اسی طرح زندگی کے دیگر شعبوں کے لیے بھی خیر کی کوئی خبر ہمیں سننے کو ملے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ سیرت النبیﷺ کی پیروی کر کے ہی اپنی مشکلات آسان کر سکتے ہیں۔ انیق احمد دھن کے پکے ہیں جس کام میں لگ جائیں، کر کے چھوڑتے ہیں۔ میری دعائیں اور محبتیں ان کے ساتھ ہیں۔
Load Next Story