مداح نہیں سخت حریف بنیں
الگ فارمیٹ ہوتا تو ایک، دو بڑی ٹیموں کو ہرا کر دوسروں کے نتائج کی مدد سے سیمی فائنل میں پہنچ جاتے
''8 بار تو ہار گئے، اب تو تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے گانا بھی سننے کا دل نہیں کرتا''میچ کے بعد ایک پاکستان کرکٹ شائق کو کسی سے یہ کہتے سنا تو میری ہنسی چھوٹ گئی، ''ٹیم اتنی بْری شکست کا شکار ہوئی اور آپ کو ہنسی آ رہی ہے، کیا دکھ نہیں ہوا''۔
ایک صاحب نے جب یہ کہا تو میرے کچھ کہنے سے پہلے ایک اور شخص نے فقرہ کسا ''ارے ان کو تو چھوڑو، اپنے کپتان کو کتنا دکھ تھا یہ دیکھا، میچ کے بعد وہ ویراٹ کوہلی سے شرٹ مانگنے چلے گئے۔
ہم یہاں انھیں کوہلی سے بہتر قرار دینے کیلیے سوشل میڈیا پر بھارتیوں سے لڑتے رہتے ہیں اور وہ ''فین بوائے'' بنے ہوئے ہیں'' میں یہ دلچسپ گفتگو مزید سننا چاہتا تھا لیکن کسی ضروری کام سے جانا تھا اس لیے وہاں سے نکل پڑا، ارے میں یہ تو بتانا ہی بھول گیا کہ یہ باتیں کہاں ہوئیں، دراصل ہر اہم کرکٹ مقابلے سے قبل کراچی سمیت کئی شہروں میں بڑی اسکرینز لگائی جاتی ہیں جہاں لوگ اکھٹے ہو کر کھیل سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
بالکل اسٹیڈیم جیسا ماحول بن جاتا ہے، میں کچھ دیر کیلیے ایسی ہی ایک جگہ موجود تھا،پاکستان میں ہر شخص کرکٹ کا ایکسپرٹ ہے،جب سے ٹی وی چینلز کی بھرمار ہوئی سابق کرکٹرز کے وارے نیارے ہو گئے، اوسط درجے کے کھلاڑی بھی ورلڈکپ کے سیزن میں لاکھوں کما لیتے ہیں، ان دنوں بھی یہی حالات ہیں۔
بھارت کیخلاف میچ سے قبل سب نے ٹیم کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دیا، اب شکست پر زمین پر لا کر پٹخ دیا، یہی ہمارا اسٹائل ہے، اگر میچ سے پہلے کوئی یہ کہتا کہ ٹیم متوازن نہیں جیتنا مشکل ہے تو ظاہر ہے اسے خوب برا بھلا کہا جاتا،اس لیے سب نے ہوا کے رخ پر بات کی،اب ایکدم سے تمام خامیاں نظر آنے لگی ہیں، اگر ہم سچے دل سے سوچیں تو اسکواڈ مضبوط ہی نہیں ہے۔
جب تمام ٹیمیں ورلڈکپ کی تیاریاں کر رہی تھیں، ہمارے چیف سلیکٹر انضمام الحق اپنی تنخواہ اور کنٹریکٹ کے لیے استعفے کی دھمکیاں دے رہے تھے، غیرملکی کھلاڑی نیٹ پر صلاحیتیں نکھار رہے تھے تو ہمارے پلیئرز بورڈ سے سینٹرل کنٹریکٹ کے پیسے بڑھوانے کیلیے لڑ رہے تھے، ہمارے اہم فاسٹ بولر نسیم شاہ انجرڈ ہو گئے۔
اسپنرز آؤٹ آف فارم ہیں، جس بولنگ پر ناز تھا وہ اب بالکل لو لیول کی لگ رہی ہے، اس پر ایسا تو ہونا ہی تھا،شکر ہے پہلا میچ نیدرلینڈز سے ہوا جس سے فاتحانہ آغاز آسان بن گیا، یہ اور بات ہے کہ ٹاپ آرڈر بیٹنگ کی ناکامی نے دن میں تارے دکھا دیے تھے، پھر سری لنکا کے خلاف بلاشبہ اچھی کارکردگی دکھاتے ہوئے ریکارڈ ہدف عبور کیا۔
اس وقت ہم یہ بھول گئے کہ آئی لینڈرز کا بولنگ اٹیک انتہائی ناتجربہ کار اور کمزور ہے،البتہ بھارت نے سب کچھ اچھی طرح یاد کرا دیا، دنیا بھر میں پاور پلے پر ٹیمیں خوب رنز بناتی ہیں، ہمارے کھلاڑی اب بھی نائنٹیز کی کرکٹ کھیل رہے ہیں کہ پہلے وکٹیں بچاؤ، آخر میں مار دھاڑ کریں گے۔
یہ طریقہ اب فرسودہ ہو چکا، امام الحق مسلسل ناکامیوں کا شکار ہیں، پہلے چچا چیف سلیکٹر کی وجہ سے ان کی قبل از وقت ٹیم میں انٹری ہوئی اب ان کی وجہ سے نکالا نہیں جاتا، جب فخر زمان کو آؤٹ آف فارم ہونے پر باہر کیا جا سکتا ہے تو امام کو ریسٹ دینا کیوں ممکن نہیں؟
بابر اعظم اور محمدرضوان بلاشبہ بہت زبردست بیٹنگ کرتے ہیں لیکن بعض اوقات اس دوران رن ریٹ کو اہمیت نہیں دی جاتی، ہردیک پانڈیا نے میچ کے بعد ایک انٹرویو میں بھی اس کی نشاندہی کر دی،افغانستان نے دفاعی چیمپئن انگلینڈ کو کیسے شکست دے دی؟
یہ جاننے کیلیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں، آپ ان کی بیٹنگ دیکھ لیں،ہمارے پاس چھکے لگانے والے بیٹرز ہی موجود نہیں،آپ کو اعظم خان جیسے کرکٹرز کو موقع دینا ہی ہوگا، وہ بھاری جسامت میں بھی کئی سائز زیرو والوں سے بہتر ہے، شاہد آفریدی کی مدد لیں کہ ملک بھر سے پاورہٹرز تلاش کرو، قومی ٹیم کسی کی جاگیر نہیں، فخر کو بھی باہر کرنے سے قبل 11،12 مواقع دے کر مزید ناکامی کا شکار ہونے دیا۔
شاداب خان کے ساتھ بھی ایسا ہو رہا ہے، اگر وہ اچھا پرفارم نہیں کر رہے تو اسامہ میر کو کھلائیں، نائب کپتان ہوتے ہوئے شان مسعود کو بھی تو باہر رکھا گیا تھا تو اب کیا نیا ہو جائے گا، بابر بطور کپتان بولڈ فیصلے کرتے ہوئے کتراتے ہیں،اپنے اعتماد کے کھلاڑیوں کو ہی چانسز دیتے ہیں، سعود شکیل کی مثال سامنے ہے، کتنی تاخیر سے کھلایا گیا،کپتان آؤٹ آف فارم پلیئرز کو ریسٹ دیں تاکہ وہ پھر واپس آ سکیں، مسلسل کھلا کر مزید دباؤ کا شکار کرنا تو خود ان کے ساتھ ہی ظلم ہے۔
مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہمارے کھلاڑی بھارتیوں سے کچھ زیادہ ہی مرعوب ہو گئے ہیں، ساتھ سیلفیز لینا، شرٹس مانگنا یہ سب کچھ اگر نیدرلینڈز جیسی ٹیموں کے پلیئرز کریں تو سمجھ آتا ہے، آپ تو خود سپراسٹارز ہیں اور سابق عالمی چیمپئن ٹیم کی نمائندگی کر رہے ہیں، فین نہیں سخت حریف بنیں، ہمارے فاسٹ بولرز بھی اچھا پرفارم نہیں کر رہے، شاہین آفریدی کو نجانے کس کی نظر لگ گئی، حارث رؤف دل کھول کر رنز دے رہے ہیں۔
اسپنرز بھی ناکام ہیں، ایسے میں کسی ٹیم کو کیسے جلد آؤٹ کریں گے؟ الگ فارمیٹ ہوتا تو ایک، دو بڑی ٹیموں کو ہرا کر دوسروں کے نتائج کی مدد سے سیمی فائنل میں پہنچ جاتے،ورلڈکپ میں آپ کو 9 میچز جیتنے ہیں، یہاں صرف نیدرلینڈز ، سری لنکا اور بنگلہ دیش کو ہرا کر کام نہیں بنے گا، مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے بولرز 4 اوورز کرنے کے عادی ہیں،10 اوورز میں کارکردگی برقرار نہیں رکھ پاتے،مکی آرتھر نے انگلش کاؤنٹی ڈاربی شائر کی ناؤ ڈبوئی اب پاکستان سے ڈالرز کما کر چلے جائیں گے۔
ابھی سے وہ جوازتراش کر اپنا دامن بچا رہے ہیں، خیر اب بھی ٹیم باہر نہیں ہوئی، سرفراز احمد کی زیرقیادت چیمپئنز ٹرافی میں بھی بھارت سے پہلے شکست ہوئی پھر اسی کو فائنل میں زیر کر کے ٹائٹل جیتا، اب بھی ایسا ممکن ہے لیکن پہلے خود پر تو یقین کریں کہ جیت سکتے ہیں، ورنہ ''تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے'' سن کر ہی دل بہلاتے رہیں۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
ایک صاحب نے جب یہ کہا تو میرے کچھ کہنے سے پہلے ایک اور شخص نے فقرہ کسا ''ارے ان کو تو چھوڑو، اپنے کپتان کو کتنا دکھ تھا یہ دیکھا، میچ کے بعد وہ ویراٹ کوہلی سے شرٹ مانگنے چلے گئے۔
ہم یہاں انھیں کوہلی سے بہتر قرار دینے کیلیے سوشل میڈیا پر بھارتیوں سے لڑتے رہتے ہیں اور وہ ''فین بوائے'' بنے ہوئے ہیں'' میں یہ دلچسپ گفتگو مزید سننا چاہتا تھا لیکن کسی ضروری کام سے جانا تھا اس لیے وہاں سے نکل پڑا، ارے میں یہ تو بتانا ہی بھول گیا کہ یہ باتیں کہاں ہوئیں، دراصل ہر اہم کرکٹ مقابلے سے قبل کراچی سمیت کئی شہروں میں بڑی اسکرینز لگائی جاتی ہیں جہاں لوگ اکھٹے ہو کر کھیل سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
بالکل اسٹیڈیم جیسا ماحول بن جاتا ہے، میں کچھ دیر کیلیے ایسی ہی ایک جگہ موجود تھا،پاکستان میں ہر شخص کرکٹ کا ایکسپرٹ ہے،جب سے ٹی وی چینلز کی بھرمار ہوئی سابق کرکٹرز کے وارے نیارے ہو گئے، اوسط درجے کے کھلاڑی بھی ورلڈکپ کے سیزن میں لاکھوں کما لیتے ہیں، ان دنوں بھی یہی حالات ہیں۔
بھارت کیخلاف میچ سے قبل سب نے ٹیم کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دیا، اب شکست پر زمین پر لا کر پٹخ دیا، یہی ہمارا اسٹائل ہے، اگر میچ سے پہلے کوئی یہ کہتا کہ ٹیم متوازن نہیں جیتنا مشکل ہے تو ظاہر ہے اسے خوب برا بھلا کہا جاتا،اس لیے سب نے ہوا کے رخ پر بات کی،اب ایکدم سے تمام خامیاں نظر آنے لگی ہیں، اگر ہم سچے دل سے سوچیں تو اسکواڈ مضبوط ہی نہیں ہے۔
جب تمام ٹیمیں ورلڈکپ کی تیاریاں کر رہی تھیں، ہمارے چیف سلیکٹر انضمام الحق اپنی تنخواہ اور کنٹریکٹ کے لیے استعفے کی دھمکیاں دے رہے تھے، غیرملکی کھلاڑی نیٹ پر صلاحیتیں نکھار رہے تھے تو ہمارے پلیئرز بورڈ سے سینٹرل کنٹریکٹ کے پیسے بڑھوانے کیلیے لڑ رہے تھے، ہمارے اہم فاسٹ بولر نسیم شاہ انجرڈ ہو گئے۔
اسپنرز آؤٹ آف فارم ہیں، جس بولنگ پر ناز تھا وہ اب بالکل لو لیول کی لگ رہی ہے، اس پر ایسا تو ہونا ہی تھا،شکر ہے پہلا میچ نیدرلینڈز سے ہوا جس سے فاتحانہ آغاز آسان بن گیا، یہ اور بات ہے کہ ٹاپ آرڈر بیٹنگ کی ناکامی نے دن میں تارے دکھا دیے تھے، پھر سری لنکا کے خلاف بلاشبہ اچھی کارکردگی دکھاتے ہوئے ریکارڈ ہدف عبور کیا۔
اس وقت ہم یہ بھول گئے کہ آئی لینڈرز کا بولنگ اٹیک انتہائی ناتجربہ کار اور کمزور ہے،البتہ بھارت نے سب کچھ اچھی طرح یاد کرا دیا، دنیا بھر میں پاور پلے پر ٹیمیں خوب رنز بناتی ہیں، ہمارے کھلاڑی اب بھی نائنٹیز کی کرکٹ کھیل رہے ہیں کہ پہلے وکٹیں بچاؤ، آخر میں مار دھاڑ کریں گے۔
یہ طریقہ اب فرسودہ ہو چکا، امام الحق مسلسل ناکامیوں کا شکار ہیں، پہلے چچا چیف سلیکٹر کی وجہ سے ان کی قبل از وقت ٹیم میں انٹری ہوئی اب ان کی وجہ سے نکالا نہیں جاتا، جب فخر زمان کو آؤٹ آف فارم ہونے پر باہر کیا جا سکتا ہے تو امام کو ریسٹ دینا کیوں ممکن نہیں؟
بابر اعظم اور محمدرضوان بلاشبہ بہت زبردست بیٹنگ کرتے ہیں لیکن بعض اوقات اس دوران رن ریٹ کو اہمیت نہیں دی جاتی، ہردیک پانڈیا نے میچ کے بعد ایک انٹرویو میں بھی اس کی نشاندہی کر دی،افغانستان نے دفاعی چیمپئن انگلینڈ کو کیسے شکست دے دی؟
یہ جاننے کیلیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں، آپ ان کی بیٹنگ دیکھ لیں،ہمارے پاس چھکے لگانے والے بیٹرز ہی موجود نہیں،آپ کو اعظم خان جیسے کرکٹرز کو موقع دینا ہی ہوگا، وہ بھاری جسامت میں بھی کئی سائز زیرو والوں سے بہتر ہے، شاہد آفریدی کی مدد لیں کہ ملک بھر سے پاورہٹرز تلاش کرو، قومی ٹیم کسی کی جاگیر نہیں، فخر کو بھی باہر کرنے سے قبل 11،12 مواقع دے کر مزید ناکامی کا شکار ہونے دیا۔
شاداب خان کے ساتھ بھی ایسا ہو رہا ہے، اگر وہ اچھا پرفارم نہیں کر رہے تو اسامہ میر کو کھلائیں، نائب کپتان ہوتے ہوئے شان مسعود کو بھی تو باہر رکھا گیا تھا تو اب کیا نیا ہو جائے گا، بابر بطور کپتان بولڈ فیصلے کرتے ہوئے کتراتے ہیں،اپنے اعتماد کے کھلاڑیوں کو ہی چانسز دیتے ہیں، سعود شکیل کی مثال سامنے ہے، کتنی تاخیر سے کھلایا گیا،کپتان آؤٹ آف فارم پلیئرز کو ریسٹ دیں تاکہ وہ پھر واپس آ سکیں، مسلسل کھلا کر مزید دباؤ کا شکار کرنا تو خود ان کے ساتھ ہی ظلم ہے۔
مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہمارے کھلاڑی بھارتیوں سے کچھ زیادہ ہی مرعوب ہو گئے ہیں، ساتھ سیلفیز لینا، شرٹس مانگنا یہ سب کچھ اگر نیدرلینڈز جیسی ٹیموں کے پلیئرز کریں تو سمجھ آتا ہے، آپ تو خود سپراسٹارز ہیں اور سابق عالمی چیمپئن ٹیم کی نمائندگی کر رہے ہیں، فین نہیں سخت حریف بنیں، ہمارے فاسٹ بولرز بھی اچھا پرفارم نہیں کر رہے، شاہین آفریدی کو نجانے کس کی نظر لگ گئی، حارث رؤف دل کھول کر رنز دے رہے ہیں۔
اسپنرز بھی ناکام ہیں، ایسے میں کسی ٹیم کو کیسے جلد آؤٹ کریں گے؟ الگ فارمیٹ ہوتا تو ایک، دو بڑی ٹیموں کو ہرا کر دوسروں کے نتائج کی مدد سے سیمی فائنل میں پہنچ جاتے،ورلڈکپ میں آپ کو 9 میچز جیتنے ہیں، یہاں صرف نیدرلینڈز ، سری لنکا اور بنگلہ دیش کو ہرا کر کام نہیں بنے گا، مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے بولرز 4 اوورز کرنے کے عادی ہیں،10 اوورز میں کارکردگی برقرار نہیں رکھ پاتے،مکی آرتھر نے انگلش کاؤنٹی ڈاربی شائر کی ناؤ ڈبوئی اب پاکستان سے ڈالرز کما کر چلے جائیں گے۔
ابھی سے وہ جوازتراش کر اپنا دامن بچا رہے ہیں، خیر اب بھی ٹیم باہر نہیں ہوئی، سرفراز احمد کی زیرقیادت چیمپئنز ٹرافی میں بھی بھارت سے پہلے شکست ہوئی پھر اسی کو فائنل میں زیر کر کے ٹائٹل جیتا، اب بھی ایسا ممکن ہے لیکن پہلے خود پر تو یقین کریں کہ جیت سکتے ہیں، ورنہ ''تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے'' سن کر ہی دل بہلاتے رہیں۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)