قائد ملت سیاست و قیادت کا سفر
وہ ہماری قومی و سیاسی تاریخ کا روشن باب ہیں
لیاقت علی خاں ہماری قومی جدوجہد، سیاسی منظرنامے اور ملکی تاریخ کی ایک بے حد اہم شخصیت ہیں۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ اُن چند ممتاز لوگوں میں سب سے نمایاں ہیں جنھوں نے پہلے تشکیلِ وطن کے مراحل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور پھر تعمیرِ وطن میں بھی گراں قدر خدمات انجام دیں۔
حصولِ آزادی کی ساری دوڑ دھوپ میں وہ قائدِاعظم محمد علی جناح کے سب سے معتمد ساتھی تھے اور مسلسل ان کے شانہ بہ شانہ رہے۔ قائداعظم کی سیاسی زندگی میں ایک مرحلہ ایسا آیا تھا، جب وہ ہندوستان کے حالات، ہندوؤں کی سیاسی کارگزاری اور مسلمانانِ ہند کے سماجی و سیاسی طرزِعمل سے دل برداشتہ ہوگئے تھے۔
ہندوستان چھوڑ کر وہ واپس برطانیہ چلے گئے تھے اور اُن کا خیال تھا کہ وہ باقی زندگی وہیں پر وکالت کرتے ہوئے بسر کریں گے۔ ظاہر ہے، یہ اُن کی سخت بد دلی کا زمانہ تھا۔ قائداعظم نہایت محکم مزاج لوگوں میں تھے۔ ایک بار کوئی فیصلہ کرلیتے تو اُس پر بہرطور قائم رہتے۔
ہندوستان کی سیاست سے دست برداری کا یہ فیصلہ بھی محمد علی جناح نے یقیناً بہت سوچ سمجھ کر کیا ہوگا، اور اب اس رائے میں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں تھا۔
تاہم مسلمانانِ ہند کی خاطر انھیں خلافِ مزاج اس فیصلے کو بدلنا پڑا۔ بلاشبہ اس معاملے میں متعدد شخصیات نے حتی المقدور کردار ادا کیا، جن میں علامہ اقبال، نواب سلیم اللہ خان اور مولانا شوکت علی جوہر ایسے لوگ شامل تھے، لیکن اس سلسلے میں سب سے بڑھ کر خدمات انجام دیں نواب زادہ لیاقت علی خان نے۔ یہ انھی کا سب سے مؤثر اور فیصلہ کن کردار تھا، جس نے بالآخر محمد علی جناح کو اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور کردیا۔
محققین نے لکھا ہے کہ جب قائداعظم نے اپنے فیصلے پر نظرِثانی سے قطعی طور پر انکار کردیا تھا اور برِصغیر کے مسلمانوں کے متعدد سیاسی راہنما اس انکار پر افسردہ تھے اور مایوسی کا اظہار کررہے تھے، اس وقت بھی لیاقت علی خان کو یقین تھا کہ وہ قائداعظم کو ہندوستان کی سیاست میں واپس لانے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ آخر اُن کی امید بر آئی، کوششیں کامیاب ہوئیں اور قائداعظم نے ہندوستان لوٹ کر برِصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی قیادت کا بیڑا اٹھایا۔
وطن واپسی کے بعد قائداعظم نے سب سے پہلے اپنی تمام تر توجہ مسلمانوں کی سیاسی قیادت کو متحد اور اُن کی قومی قوت کو فعال اور مؤثر بنانے پر مرکوز کی۔ اس کام میں لیاقت علی خان نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ لیاقت علی خان ہندوستان کے ایک ممتاز گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ اُن سے پہلی پیڑھی کے لوگ اپنے سماجی و سیاسی رسوخ کی بنا پر پہچانے جاتے تھے۔ زراعت اور جاگیرداری کے ساتھ ساتھ ملکی سیاست میں بھی ان کا عمل دخل تھا۔
گھر کے ان حالات و عوامل نے ابتدا ہی سے لیاقت علی خان کی سیاسی شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ اپنی سیاسی زندگی کے آغاز سے ہی سیاسی شعور کے حامل نظر آتے ہیں، اور ان کا ذہن اپنے سماجی اہداف، سیاسی مقاصد اور شخصی طرزِعمل کے بارے میں اوّلین دور سے ہی بالکل صاف تھا۔
ظاہر ہے، اس ضمن میں گھر کے ماحول اور ملکی حالات نے نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ یہی وجہ رہی ہوگی کہ لیاقت علی خان نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں وہ وکالت کے لیے اوکسفرڈ چلے گئے۔ علی گڑھ یونی ورسٹی اور اوکسفرڈ دونوں اداروں نے ان کے سیاسی ذہن کو مزید صاف کرنے اور سیاست میں اپنے کردار کے تعین میں پوری مدد فراہم کی۔
جوانی کے زمانے میں ہی لیاقت علی خان اپنے معاشرے کے ان لوگوں میں تھے جو توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔ اُن کی پروقار شخصیت، باشعور مزاج، تیز ذہن اور متین کردار نے اُس دور کے تجربہ کار لوگوں کو ابتدائی دور میں ہی ان کی طرف مائل کردیا تھا۔ اوکسفرڈیونی ورسٹی سے ابھی ان کی تعلیم پوری نہیں ہوئی تھی کہ ہندوستان کی سب سے فعال سیاسی جماعت کانگریس کے بعض نمائندوں نے ان سے رابطہ کیا اور انھیں اپنی پارٹی میں شرکت کی دعویٰ دی۔
لیاقت علی خان کا سیاسی شعور بلند تھا اور قومی اہداف چوںکہ اُن کے ذہن میں بالکل واضح تھے، اس لیے انھوں نے قطعیت سے اِس دعوت کو مسترد کردیا، اور مسلمانوں کی سیاسی جماعت مسلم لیگ سے وابستہ ہوئے۔ لیاقت علی خان جس دور میں مسلم لیگ سے وابستہ ہوئے، اُس وقت تک مسلمانوں کی یہ سیاسی جماعت اپنی قومی زندگی میں نمایاں ہونے کے باوجود ہندوستان کی سیاسی صورتِ حال میں وہ کردار ادا کرنے سے قاصر تھی جو مسلمانوں کی آزادی کے لیے مطلوب تھا۔ لیاقت علی خان نے اس جماعت کی بہتر انداز سے شیرازہ بندی اور مؤثر سیاسی اثر و رسوخ کے لیے بزرگ اور ہم عصر راہنماؤں کے ساتھ مل کر بھرپور تگ و دو کی۔ اپنے زمانے کی ضرورت کے مطابق اس کی نئی تشکیل اور استحکام کے لیے جدید خطوط پر کام کیا۔
مسلمانانِ ہند کے سیاسی سفر اور آزادی کی جدوجہد میں جن سیاسی راہنماؤں نے شبانہ روز کام کیا اور پورے استقلال کے ساتھ قائداعظم کے دست و بازو بنے اُن میں لیاقت علی خان کو اس لیے بھی اہمیت حاصل ہے کہ انھوں نے ایک طرف انگریز حکمرانوں اور سیاسی ہندو قیادت کا سامنا کیا۔
ان کے سیاسی حربوں کو سمجھتے ہوئے اپنے سیاسی اہداف اور جدوجہد کی حکمتِ عملی طے کی، جب کہ دوسری طرف انھوں نے اپنی قوم کے مضمحل اعصاب کو طاقت دے کر ان کو اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑا ہونے میں بھی مدد دی۔ یہ کام یقینا ان کے خاندان کے سماجی اور تہذیبی رجحانات اور اثرات کی وجہ سے ممکن ہوا۔
لیاقت علی خان ہندوستان کے ایسے خاندان کے چشم و چراغ تھے جسے فرنگی حکمرانوں کے دربار میں بھی اہم گردانا جاتا تھا۔ وہ ایک نواب خاندان کے فرد تھے، لیکن جب انھوں نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا تو اپنے نوابی کروفر کو کبھی راستے کی رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ اُن کی ساری سیاسی تگ و تاز، حتیٰ کہ وزیرِاعظم پاکستان کی حیثیت سے بھی ان کا کام بار بار اس حقیقت کا ثبوت فراہم کرتا ہے کہ وہ خاندانی ٹھاٹھ باٹھ کو بھلا کر خود کو محض ایک سیاسی ورکر سمجھتے تھے۔ یہی وہ جذبہ تھا جس کی بنا پر اپنی قومی خدمات کو انھوں نے ہمیشہ اپنے لیے اعزاز کا باعث گردانا اور زندگی کے تمام امور میں اُن کو ترجیح دی۔
قیامِ پاکستان کے بعد اس نوآزاد ملک کے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح نے انھیں اس نظریاتی ریاست کا پہلا وزیرِاعظم نامزد کیا۔
انھوں نے 15 اگست 1947ء کو یہ عہدہ سنبھالا اور تادمِ آخر اس پر فائز رہے۔ علاوہ ازیں انھی دنوں میں انھوں نے وزیرِخارجہ کی حیثیت سے بھی کام کیا اور یہ منصب 27 دسمبر 1949ء تک اُن کے پاس رہا۔ بعد میں سر ظفر اللہ خان نے یہ ذمے داری سنبھالی۔ لیاقت علی خان امورِ کشمیر کے بھی وزیر رہے اور اپنی شہادت تک یہ خدمات انجام دیتے رہے۔
مسلمانانِ ہند نے انگریز حکمرانوں اور ہندو اکثریت سے نجات پاکر آزاد وطن تو بے شک حاصل کرلیا تھا، لیکن آزادی کے فوری بعد کا زمانہ بڑے مسائل اور دباؤ کا دور تھا۔ ہندوستان کے پہلے وزیرِاعظم جواہر لعل نہرو سرکارِ انگلشیہ کے متعین کردہ آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور ان کی بیگم ایڈوینا سے قربت و تعلق کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ریڈ کلف کا بنایا ہوا تقسیم کا نقشہ آخر آخر میں تبدیل کرانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
نتیجتاً پاکستان کا جغرافیائی نقشہ وہ نہ تھا جو پہلے پہل سیاسی جستجو اور مذاکرات کے بعد طے ہوا تھا۔ اس ہیرپھیر نے نوآزاد ریاست کے لیے بعض گمبھیر مسائل پیدا کیے تھے۔ ان مسائل سے نمٹنا اور ریاست کو مستحکم بنیادوں پر کھڑا کرنا آسان کام نہ تھا۔ دوسری طرف قائداعظم کی صحت تیزی سے خرابی کی طرف جارہی تھی۔
اس کے باوجود انھوں نے ملک کے دونوں بازوؤں (مشرقی اور مغربی پاکستان) کے مابین اتحاد، ذرائع اور وسائل کی تقسیم، ملک کی قومی زبان اور ایسے بعض دیگر امور کو سنبھالنے اور طے کرنے میں ہر ممکن کاوش جاری رکھی۔ تاہم آزادی کے محض تیرہ ماہ بعد قائداعظم کے انتقال کے بعد ملک کے معاملات اور مسائل کا بہت سا بار لیاقت علی خان کے کاندھوں پر آرہا۔ خصوصاً ہندوستان پاکستان کے تعلقات اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے۔
کشمیر کے معاملے میں لیاقت علی خان نے مسلسل مصالحت کا رویہ اختیار کیا۔ وہ اس مسئلے کو افہام و تفہیم اور بات چیت سے حل کرنا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ہندوستان میں اپنے ہم منصب جواہر لعل نہرو سے بات چیت بھی کی۔ دونوں کے مابین ایک معاہدہ بھی طے پایا جو لیاقت نہرو معاہدے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بعض مؤرّخین نے لکھا ہے کہ کشمیر کے معاملے میں لیاقت علی خاں کی حکمتِ عملی سے قائداعظم اپنے آخری وقت میں زیادہ مطمئن نہ رہے تھے۔ انھوں نے ان کے طرزِعمل کو اپنے وزیرِاعظم کی کم زوری کہا تھا اور اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ بات چیت کے بجائے حربی اقدام سے اپنا مقصد حاصل کرنا چاہیے۔
تاہم لیاقت علی خان نہ صرف دو عالمی جنگوں کے حالات دیکھ چکے تھے، بلکہ پاکستان ہندوستان کے درمیان آزادی کے فوری بعد کے عرصے میں جنگی جھڑپوں کا بھی پوری طرح جائزہ لے چکے تھے۔ چناںچہ وہ سمجھتے تھے کہ جنگی حکمتِ عملی نوزائیدہ ریاست کے حق میں نیک فال نہ ہوگی۔ اس کا ایک اور بھی اہم سبب تھا۔ اُس وقت پاکستانی فوج کی کمان انگریز جنرل ڈگلس گریسی کے ہاتھ میں تھی۔ ڈگلس گریسی کو جنرل فرینک والٹر میسروی کی جگہ تعینات کیا گیا تھا۔ فرینک والٹر پاکستان آرمی کے پہلے سربراہ تھے۔
تقسیم کے فوری بعد جب کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تناؤ کی فضا جنگ کی حد تک جاپہنچی تو آرمی چیف فرینک والٹر کو پیش قدمی کا حکم دیا گیا۔ فوج کے سربراہ نے اس حکم کی تعمیل سے انکار کردیا۔
لیاقت علی خان نے اس حقیقت کو ہرگز فراموش نہ کیا ہوگا۔ اب اگرچہ دوسرا شخص فوج کا سربراہ تھا، لیکن وہ بھی انگریز ہی تھا۔ اس حقیقت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے لیاقت علی خان ضرور محسوس کرتے ہوں گے کہ حربی اقدام کا فیصلہ اس وقت کارآمد نہیں ہوسکتا، جب تک افواجِ پاکستان کی کمان کسی مقامی مسلمان کے ہاتھ میں نہ ہو۔
قیامِ پاکستان کے فوری بعد کے زمانے میں ہی یہاں مختلف نوعیت کے مسائل نے سر اٹھا لیا تھا۔ ان میں سے ایک 1951ء کی وہ بغاوت بھی تھی جس میں فوج کے بعض افراد شامل تھے جو ملک میں کمیونسٹ سوشلسٹ نظام کے خواہاں تھے۔ لیاقت علی خان کی ذہنی قربت اُس وقت امریکا اور برطانیہ کے سیاسی، سماجی اور معاشی نظام سے تھی۔ اُس وقت انھوں نے امریکا کا دورہ بھی کیا تھا اور امریکی صدر ٹرومین سے ملے بھی تھے۔
امریکا اُس وقت پاکستان کے استحکام کے لیے اس کی مالی امداد بھی کررہا تھا۔ تاہم خوش گوار باہمی تعلقات کا یہ دورانیہ مختصر ہی رہا اور اس میں پہلی دراڑ اُس وقت نمایاں ہوئی جب لیاقت علی خان نے اقوامِ متحدہ کے ذریعے مسئلۂ کشمیر کو حل کرنے کے لیے امریکی تعاون کا سوال اٹھایا۔
امریکا نے اس معاملے میں سردمہری کا رویہ اختیار کیا۔ بعد ازاں جب امریکا نے چاہا کہ لیاقت علی خان ایران میں تیل کے کنووں کو امریکی تصرف میں لانے کے لیے معاونت کریں تو انھوں نے امریکا کو مسئلہ کشمیر یاد دلایا۔ اس پر دونوں ملکوں کے مابین خوش گوار تعلقات کا دور رخصت ہوا۔ مزید تناؤ کی فضا اُس قت پیدا ہوئی جب امریکا کو وہ ہوائی اڈّے خالی کرنے کے لیے کہا گیا جو اُس نے یہاں جنوبی ایشیا کی صورتِ حال پر نظر رکھنے کے لیے حاصل کیے ہوئے تھے۔
اس سے پہلے سوویت روس کی جانب سے لیاقت علی خان کو دورے کی دعوت دی گئی تھی، لیکن اسے پاکستان کی سیاسی قیادت نے درخورِ اعتنا نہیں گردانا تھا۔ اب امریکا سے تناؤ کے حالات بنے تو روس اور چین کی طرف توجہ دی گئی۔
یہی وہ دور تھا جب آگے چل کر فوج کی 1951ء کی بغاوت کا واقعہ سامنے آیا۔ دوسری طرف بلوچستان میں علاحدگی پسند عنصر شدت سے نمایاں ہوا۔ یہی نہیں، بلکہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے مابین بھی حالات کی تبدیلی، بلکہ اُن اختلافات کا نقشہ ابھرنے لگا جو بعد ازاں مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی بنیاد ثابت ہوئے۔
مختصر یہ کہ لیاقت علی خان کی وزارتِ عظمیٰ کا زمانہ مسلسل دباؤ اور مسائل سے عبارت رہا۔ مؤرّخین، سیاسی تجزیہ نگار اور سماجی مبصرین لیاقت علی خان کے بعض اقدامات اور فیصلوں پر اعتراضات اٹھاتے ہیں۔ لیاقت علی خان بھی اپنی تمام تر سیاسی بصیرت اور تجربے کے باوجود دوسروں کی طرح گوشت پوست کے انسان تھے۔ انسان خطا کا پتلا ہے۔ دانستہ نہ سہی، نادانستہ طور پر اس سے غلطیاں سرزد ہوسکتی ہیں۔
نہیں کہا جاسکتا کہ لیاقت علی خان کے تمام فیصلے اور اقدامات سو فی صد درست تھے، لیکن اس حقیقت میں شک کی رتی برابر گنجائش نہیں ہے کہ پاکستان اُن کی آرزو کی منزل تھی۔ اس ملک کا جغرافیائی اور نظریاتی وجود اُن کے لیے سب سے بڑی اور جان سے بڑھ کر عزیز شے تھی۔ اس کا سب سے بڑا اور کھلا ثبوت ان کی شہادت ہے۔ انھوں نے جان کی پروا نہیں کی، لیکن ملک کے مفاد سے غافل نہ ہوئے۔
ابتلا، دباؤ، مسائل اور تناؤ کے اس دورانیے میں جب وہ اس ملک کو مستحکم بنیادوں پر کھڑا کرنے میں مصروف تھے، ان کے گرد خارجی اور داخلی دونوں سطح پر سازشوں کے جال بنے جارہے تھے۔ تمام تر کا نہ سہی، لیکن ان حالات کا انھیں کسی قدر اندازہ ضرور تھا۔ وہ جانتے تھے کہ انھیں اور ان کے ملک کو نقصان پہنچانے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ وہ ان پر قابو پانا اور وطنِ عزیز کو گرداب سے نکالنا چاہتے تھے۔
وقت نے لیکن اس کی مہلت نہ دی۔ ان کے خلاف باریکی سے بنایا گیا سازشوں کا جال عیاری اور کامیابی سے استعمال کیا گیا۔ 16 اکتوبر 1951ء کو جب وہ راول پنڈی کے کمپنی باغ میں ایک بڑے عوامی جلسے سے خطاب کررہے تھے، سعید اکبر ببرک نامی شخص نے قریب سے لیے گئے صاف نشانے پر دو فائر کیے۔
دونوں گولیاں لیاقت علی خان کے سینے میں پیوست اور جان لیوا ثابت ہوئیں۔ انھیں فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا جہاں خون دینے اور بچانے کی کوشش کی گئی، لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے۔ انھوں نے جس عزم، خلوص اور محبت سے اپنے وطن اور افرادِ قوم کے لیے خدمات انجام دیں، وہ ہماری قومی و سیاسی تاریخ کا روشن باب ہیں۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ اُن چند ممتاز لوگوں میں سب سے نمایاں ہیں جنھوں نے پہلے تشکیلِ وطن کے مراحل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور پھر تعمیرِ وطن میں بھی گراں قدر خدمات انجام دیں۔
حصولِ آزادی کی ساری دوڑ دھوپ میں وہ قائدِاعظم محمد علی جناح کے سب سے معتمد ساتھی تھے اور مسلسل ان کے شانہ بہ شانہ رہے۔ قائداعظم کی سیاسی زندگی میں ایک مرحلہ ایسا آیا تھا، جب وہ ہندوستان کے حالات، ہندوؤں کی سیاسی کارگزاری اور مسلمانانِ ہند کے سماجی و سیاسی طرزِعمل سے دل برداشتہ ہوگئے تھے۔
ہندوستان چھوڑ کر وہ واپس برطانیہ چلے گئے تھے اور اُن کا خیال تھا کہ وہ باقی زندگی وہیں پر وکالت کرتے ہوئے بسر کریں گے۔ ظاہر ہے، یہ اُن کی سخت بد دلی کا زمانہ تھا۔ قائداعظم نہایت محکم مزاج لوگوں میں تھے۔ ایک بار کوئی فیصلہ کرلیتے تو اُس پر بہرطور قائم رہتے۔
ہندوستان کی سیاست سے دست برداری کا یہ فیصلہ بھی محمد علی جناح نے یقیناً بہت سوچ سمجھ کر کیا ہوگا، اور اب اس رائے میں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں تھا۔
تاہم مسلمانانِ ہند کی خاطر انھیں خلافِ مزاج اس فیصلے کو بدلنا پڑا۔ بلاشبہ اس معاملے میں متعدد شخصیات نے حتی المقدور کردار ادا کیا، جن میں علامہ اقبال، نواب سلیم اللہ خان اور مولانا شوکت علی جوہر ایسے لوگ شامل تھے، لیکن اس سلسلے میں سب سے بڑھ کر خدمات انجام دیں نواب زادہ لیاقت علی خان نے۔ یہ انھی کا سب سے مؤثر اور فیصلہ کن کردار تھا، جس نے بالآخر محمد علی جناح کو اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور کردیا۔
محققین نے لکھا ہے کہ جب قائداعظم نے اپنے فیصلے پر نظرِثانی سے قطعی طور پر انکار کردیا تھا اور برِصغیر کے مسلمانوں کے متعدد سیاسی راہنما اس انکار پر افسردہ تھے اور مایوسی کا اظہار کررہے تھے، اس وقت بھی لیاقت علی خان کو یقین تھا کہ وہ قائداعظم کو ہندوستان کی سیاست میں واپس لانے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ آخر اُن کی امید بر آئی، کوششیں کامیاب ہوئیں اور قائداعظم نے ہندوستان لوٹ کر برِصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی قیادت کا بیڑا اٹھایا۔
وطن واپسی کے بعد قائداعظم نے سب سے پہلے اپنی تمام تر توجہ مسلمانوں کی سیاسی قیادت کو متحد اور اُن کی قومی قوت کو فعال اور مؤثر بنانے پر مرکوز کی۔ اس کام میں لیاقت علی خان نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ لیاقت علی خان ہندوستان کے ایک ممتاز گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ اُن سے پہلی پیڑھی کے لوگ اپنے سماجی و سیاسی رسوخ کی بنا پر پہچانے جاتے تھے۔ زراعت اور جاگیرداری کے ساتھ ساتھ ملکی سیاست میں بھی ان کا عمل دخل تھا۔
گھر کے ان حالات و عوامل نے ابتدا ہی سے لیاقت علی خان کی سیاسی شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ اپنی سیاسی زندگی کے آغاز سے ہی سیاسی شعور کے حامل نظر آتے ہیں، اور ان کا ذہن اپنے سماجی اہداف، سیاسی مقاصد اور شخصی طرزِعمل کے بارے میں اوّلین دور سے ہی بالکل صاف تھا۔
ظاہر ہے، اس ضمن میں گھر کے ماحول اور ملکی حالات نے نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ یہی وجہ رہی ہوگی کہ لیاقت علی خان نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں وہ وکالت کے لیے اوکسفرڈ چلے گئے۔ علی گڑھ یونی ورسٹی اور اوکسفرڈ دونوں اداروں نے ان کے سیاسی ذہن کو مزید صاف کرنے اور سیاست میں اپنے کردار کے تعین میں پوری مدد فراہم کی۔
جوانی کے زمانے میں ہی لیاقت علی خان اپنے معاشرے کے ان لوگوں میں تھے جو توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔ اُن کی پروقار شخصیت، باشعور مزاج، تیز ذہن اور متین کردار نے اُس دور کے تجربہ کار لوگوں کو ابتدائی دور میں ہی ان کی طرف مائل کردیا تھا۔ اوکسفرڈیونی ورسٹی سے ابھی ان کی تعلیم پوری نہیں ہوئی تھی کہ ہندوستان کی سب سے فعال سیاسی جماعت کانگریس کے بعض نمائندوں نے ان سے رابطہ کیا اور انھیں اپنی پارٹی میں شرکت کی دعویٰ دی۔
لیاقت علی خان کا سیاسی شعور بلند تھا اور قومی اہداف چوںکہ اُن کے ذہن میں بالکل واضح تھے، اس لیے انھوں نے قطعیت سے اِس دعوت کو مسترد کردیا، اور مسلمانوں کی سیاسی جماعت مسلم لیگ سے وابستہ ہوئے۔ لیاقت علی خان جس دور میں مسلم لیگ سے وابستہ ہوئے، اُس وقت تک مسلمانوں کی یہ سیاسی جماعت اپنی قومی زندگی میں نمایاں ہونے کے باوجود ہندوستان کی سیاسی صورتِ حال میں وہ کردار ادا کرنے سے قاصر تھی جو مسلمانوں کی آزادی کے لیے مطلوب تھا۔ لیاقت علی خان نے اس جماعت کی بہتر انداز سے شیرازہ بندی اور مؤثر سیاسی اثر و رسوخ کے لیے بزرگ اور ہم عصر راہنماؤں کے ساتھ مل کر بھرپور تگ و دو کی۔ اپنے زمانے کی ضرورت کے مطابق اس کی نئی تشکیل اور استحکام کے لیے جدید خطوط پر کام کیا۔
مسلمانانِ ہند کے سیاسی سفر اور آزادی کی جدوجہد میں جن سیاسی راہنماؤں نے شبانہ روز کام کیا اور پورے استقلال کے ساتھ قائداعظم کے دست و بازو بنے اُن میں لیاقت علی خان کو اس لیے بھی اہمیت حاصل ہے کہ انھوں نے ایک طرف انگریز حکمرانوں اور سیاسی ہندو قیادت کا سامنا کیا۔
ان کے سیاسی حربوں کو سمجھتے ہوئے اپنے سیاسی اہداف اور جدوجہد کی حکمتِ عملی طے کی، جب کہ دوسری طرف انھوں نے اپنی قوم کے مضمحل اعصاب کو طاقت دے کر ان کو اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑا ہونے میں بھی مدد دی۔ یہ کام یقینا ان کے خاندان کے سماجی اور تہذیبی رجحانات اور اثرات کی وجہ سے ممکن ہوا۔
لیاقت علی خان ہندوستان کے ایسے خاندان کے چشم و چراغ تھے جسے فرنگی حکمرانوں کے دربار میں بھی اہم گردانا جاتا تھا۔ وہ ایک نواب خاندان کے فرد تھے، لیکن جب انھوں نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا تو اپنے نوابی کروفر کو کبھی راستے کی رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ اُن کی ساری سیاسی تگ و تاز، حتیٰ کہ وزیرِاعظم پاکستان کی حیثیت سے بھی ان کا کام بار بار اس حقیقت کا ثبوت فراہم کرتا ہے کہ وہ خاندانی ٹھاٹھ باٹھ کو بھلا کر خود کو محض ایک سیاسی ورکر سمجھتے تھے۔ یہی وہ جذبہ تھا جس کی بنا پر اپنی قومی خدمات کو انھوں نے ہمیشہ اپنے لیے اعزاز کا باعث گردانا اور زندگی کے تمام امور میں اُن کو ترجیح دی۔
قیامِ پاکستان کے بعد اس نوآزاد ملک کے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح نے انھیں اس نظریاتی ریاست کا پہلا وزیرِاعظم نامزد کیا۔
انھوں نے 15 اگست 1947ء کو یہ عہدہ سنبھالا اور تادمِ آخر اس پر فائز رہے۔ علاوہ ازیں انھی دنوں میں انھوں نے وزیرِخارجہ کی حیثیت سے بھی کام کیا اور یہ منصب 27 دسمبر 1949ء تک اُن کے پاس رہا۔ بعد میں سر ظفر اللہ خان نے یہ ذمے داری سنبھالی۔ لیاقت علی خان امورِ کشمیر کے بھی وزیر رہے اور اپنی شہادت تک یہ خدمات انجام دیتے رہے۔
مسلمانانِ ہند نے انگریز حکمرانوں اور ہندو اکثریت سے نجات پاکر آزاد وطن تو بے شک حاصل کرلیا تھا، لیکن آزادی کے فوری بعد کا زمانہ بڑے مسائل اور دباؤ کا دور تھا۔ ہندوستان کے پہلے وزیرِاعظم جواہر لعل نہرو سرکارِ انگلشیہ کے متعین کردہ آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور ان کی بیگم ایڈوینا سے قربت و تعلق کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ریڈ کلف کا بنایا ہوا تقسیم کا نقشہ آخر آخر میں تبدیل کرانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
نتیجتاً پاکستان کا جغرافیائی نقشہ وہ نہ تھا جو پہلے پہل سیاسی جستجو اور مذاکرات کے بعد طے ہوا تھا۔ اس ہیرپھیر نے نوآزاد ریاست کے لیے بعض گمبھیر مسائل پیدا کیے تھے۔ ان مسائل سے نمٹنا اور ریاست کو مستحکم بنیادوں پر کھڑا کرنا آسان کام نہ تھا۔ دوسری طرف قائداعظم کی صحت تیزی سے خرابی کی طرف جارہی تھی۔
اس کے باوجود انھوں نے ملک کے دونوں بازوؤں (مشرقی اور مغربی پاکستان) کے مابین اتحاد، ذرائع اور وسائل کی تقسیم، ملک کی قومی زبان اور ایسے بعض دیگر امور کو سنبھالنے اور طے کرنے میں ہر ممکن کاوش جاری رکھی۔ تاہم آزادی کے محض تیرہ ماہ بعد قائداعظم کے انتقال کے بعد ملک کے معاملات اور مسائل کا بہت سا بار لیاقت علی خان کے کاندھوں پر آرہا۔ خصوصاً ہندوستان پاکستان کے تعلقات اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے۔
کشمیر کے معاملے میں لیاقت علی خان نے مسلسل مصالحت کا رویہ اختیار کیا۔ وہ اس مسئلے کو افہام و تفہیم اور بات چیت سے حل کرنا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ہندوستان میں اپنے ہم منصب جواہر لعل نہرو سے بات چیت بھی کی۔ دونوں کے مابین ایک معاہدہ بھی طے پایا جو لیاقت نہرو معاہدے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بعض مؤرّخین نے لکھا ہے کہ کشمیر کے معاملے میں لیاقت علی خاں کی حکمتِ عملی سے قائداعظم اپنے آخری وقت میں زیادہ مطمئن نہ رہے تھے۔ انھوں نے ان کے طرزِعمل کو اپنے وزیرِاعظم کی کم زوری کہا تھا اور اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ بات چیت کے بجائے حربی اقدام سے اپنا مقصد حاصل کرنا چاہیے۔
تاہم لیاقت علی خان نہ صرف دو عالمی جنگوں کے حالات دیکھ چکے تھے، بلکہ پاکستان ہندوستان کے درمیان آزادی کے فوری بعد کے عرصے میں جنگی جھڑپوں کا بھی پوری طرح جائزہ لے چکے تھے۔ چناںچہ وہ سمجھتے تھے کہ جنگی حکمتِ عملی نوزائیدہ ریاست کے حق میں نیک فال نہ ہوگی۔ اس کا ایک اور بھی اہم سبب تھا۔ اُس وقت پاکستانی فوج کی کمان انگریز جنرل ڈگلس گریسی کے ہاتھ میں تھی۔ ڈگلس گریسی کو جنرل فرینک والٹر میسروی کی جگہ تعینات کیا گیا تھا۔ فرینک والٹر پاکستان آرمی کے پہلے سربراہ تھے۔
تقسیم کے فوری بعد جب کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تناؤ کی فضا جنگ کی حد تک جاپہنچی تو آرمی چیف فرینک والٹر کو پیش قدمی کا حکم دیا گیا۔ فوج کے سربراہ نے اس حکم کی تعمیل سے انکار کردیا۔
لیاقت علی خان نے اس حقیقت کو ہرگز فراموش نہ کیا ہوگا۔ اب اگرچہ دوسرا شخص فوج کا سربراہ تھا، لیکن وہ بھی انگریز ہی تھا۔ اس حقیقت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے لیاقت علی خان ضرور محسوس کرتے ہوں گے کہ حربی اقدام کا فیصلہ اس وقت کارآمد نہیں ہوسکتا، جب تک افواجِ پاکستان کی کمان کسی مقامی مسلمان کے ہاتھ میں نہ ہو۔
قیامِ پاکستان کے فوری بعد کے زمانے میں ہی یہاں مختلف نوعیت کے مسائل نے سر اٹھا لیا تھا۔ ان میں سے ایک 1951ء کی وہ بغاوت بھی تھی جس میں فوج کے بعض افراد شامل تھے جو ملک میں کمیونسٹ سوشلسٹ نظام کے خواہاں تھے۔ لیاقت علی خان کی ذہنی قربت اُس وقت امریکا اور برطانیہ کے سیاسی، سماجی اور معاشی نظام سے تھی۔ اُس وقت انھوں نے امریکا کا دورہ بھی کیا تھا اور امریکی صدر ٹرومین سے ملے بھی تھے۔
امریکا اُس وقت پاکستان کے استحکام کے لیے اس کی مالی امداد بھی کررہا تھا۔ تاہم خوش گوار باہمی تعلقات کا یہ دورانیہ مختصر ہی رہا اور اس میں پہلی دراڑ اُس وقت نمایاں ہوئی جب لیاقت علی خان نے اقوامِ متحدہ کے ذریعے مسئلۂ کشمیر کو حل کرنے کے لیے امریکی تعاون کا سوال اٹھایا۔
امریکا نے اس معاملے میں سردمہری کا رویہ اختیار کیا۔ بعد ازاں جب امریکا نے چاہا کہ لیاقت علی خان ایران میں تیل کے کنووں کو امریکی تصرف میں لانے کے لیے معاونت کریں تو انھوں نے امریکا کو مسئلہ کشمیر یاد دلایا۔ اس پر دونوں ملکوں کے مابین خوش گوار تعلقات کا دور رخصت ہوا۔ مزید تناؤ کی فضا اُس قت پیدا ہوئی جب امریکا کو وہ ہوائی اڈّے خالی کرنے کے لیے کہا گیا جو اُس نے یہاں جنوبی ایشیا کی صورتِ حال پر نظر رکھنے کے لیے حاصل کیے ہوئے تھے۔
اس سے پہلے سوویت روس کی جانب سے لیاقت علی خان کو دورے کی دعوت دی گئی تھی، لیکن اسے پاکستان کی سیاسی قیادت نے درخورِ اعتنا نہیں گردانا تھا۔ اب امریکا سے تناؤ کے حالات بنے تو روس اور چین کی طرف توجہ دی گئی۔
یہی وہ دور تھا جب آگے چل کر فوج کی 1951ء کی بغاوت کا واقعہ سامنے آیا۔ دوسری طرف بلوچستان میں علاحدگی پسند عنصر شدت سے نمایاں ہوا۔ یہی نہیں، بلکہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے مابین بھی حالات کی تبدیلی، بلکہ اُن اختلافات کا نقشہ ابھرنے لگا جو بعد ازاں مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی بنیاد ثابت ہوئے۔
مختصر یہ کہ لیاقت علی خان کی وزارتِ عظمیٰ کا زمانہ مسلسل دباؤ اور مسائل سے عبارت رہا۔ مؤرّخین، سیاسی تجزیہ نگار اور سماجی مبصرین لیاقت علی خان کے بعض اقدامات اور فیصلوں پر اعتراضات اٹھاتے ہیں۔ لیاقت علی خان بھی اپنی تمام تر سیاسی بصیرت اور تجربے کے باوجود دوسروں کی طرح گوشت پوست کے انسان تھے۔ انسان خطا کا پتلا ہے۔ دانستہ نہ سہی، نادانستہ طور پر اس سے غلطیاں سرزد ہوسکتی ہیں۔
نہیں کہا جاسکتا کہ لیاقت علی خان کے تمام فیصلے اور اقدامات سو فی صد درست تھے، لیکن اس حقیقت میں شک کی رتی برابر گنجائش نہیں ہے کہ پاکستان اُن کی آرزو کی منزل تھی۔ اس ملک کا جغرافیائی اور نظریاتی وجود اُن کے لیے سب سے بڑی اور جان سے بڑھ کر عزیز شے تھی۔ اس کا سب سے بڑا اور کھلا ثبوت ان کی شہادت ہے۔ انھوں نے جان کی پروا نہیں کی، لیکن ملک کے مفاد سے غافل نہ ہوئے۔
ابتلا، دباؤ، مسائل اور تناؤ کے اس دورانیے میں جب وہ اس ملک کو مستحکم بنیادوں پر کھڑا کرنے میں مصروف تھے، ان کے گرد خارجی اور داخلی دونوں سطح پر سازشوں کے جال بنے جارہے تھے۔ تمام تر کا نہ سہی، لیکن ان حالات کا انھیں کسی قدر اندازہ ضرور تھا۔ وہ جانتے تھے کہ انھیں اور ان کے ملک کو نقصان پہنچانے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ وہ ان پر قابو پانا اور وطنِ عزیز کو گرداب سے نکالنا چاہتے تھے۔
وقت نے لیکن اس کی مہلت نہ دی۔ ان کے خلاف باریکی سے بنایا گیا سازشوں کا جال عیاری اور کامیابی سے استعمال کیا گیا۔ 16 اکتوبر 1951ء کو جب وہ راول پنڈی کے کمپنی باغ میں ایک بڑے عوامی جلسے سے خطاب کررہے تھے، سعید اکبر ببرک نامی شخص نے قریب سے لیے گئے صاف نشانے پر دو فائر کیے۔
دونوں گولیاں لیاقت علی خان کے سینے میں پیوست اور جان لیوا ثابت ہوئیں۔ انھیں فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا جہاں خون دینے اور بچانے کی کوشش کی گئی، لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے۔ انھوں نے جس عزم، خلوص اور محبت سے اپنے وطن اور افرادِ قوم کے لیے خدمات انجام دیں، وہ ہماری قومی و سیاسی تاریخ کا روشن باب ہیں۔