عوام کے لیے ریلیف

ہمارے معاشی مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ ہم درآمدات کے بجائے برآمدات بڑھانے پر توجہ دیں

ہمارے معاشی مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ ہم درآمدات کے بجائے برآمدات بڑھانے پر توجہ دیں—فوٹو: فائل

ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کے جاری استحکام کے باعث حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑی کمی کا اعلان کردیا، پٹرول کی قیمت میں 40 روپے کمی کی گئی ہے، جب کہ ڈیزل 15 روپے سستا کردیا گیا ہے۔

قیمتوں میں بھاری کمی کے بعد پٹرول کی فی لیٹر قیمت 283.38 روپے ہوگئی ہے، جب کہ ڈیزل 303.18 روپے پر آگیا ہے۔ مٹی کا تیل بائیس روپے جب کہ لائٹ ڈیزل انیس روپے فی لیٹر سستا ہوا ہے۔

بلاشبہ یہ ایک بڑا ریلیف ہے لیکن اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی کمی ہوئی ہے ۔ ہمارے حکومتی ڈھانچے کی یہ کمزوری ہے کہ وہ قیمتوں کو کنٹرول نہیں کر پاتے۔ جیسے ہی ڈالر کا ریٹ بڑھتا ہے، فوری طور پر قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔

جیسے ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ حکومتی اجازت نامے کے بنا نہیں بڑھ سکتا، لیکن پاکستان میں پٹرول کی قیمت بڑھتے ہی ٹرانسپورٹر کرائے بڑھا دیتے ہیں ۔ اس سے حکومت کے انتظامی میکنزم میں خرابی کی نشاندہی ہوتی ہے۔

5 ستمبر کو ڈالر کی قدر 308 روپے کے ساتھ پاکستانی تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھی۔ اب امریکی ڈالر کی قیمت 277 روپے ہے۔ ڈالر کی قدر میں کمی کے بعد پاکستانی عوام کو توقع تھی کہ شاید اب حالات بہتری کی جانب جائیں گے اور اشیا ضروریہ کی قیمتوں میں یقینی کمی واقع ہوگی۔

لیکن ایسا نہیں ہوا ،ادارہ شماریات کے مطابق گزشتہ ہفتے 19 اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ ان میں ٹماٹر، پیاز، لہسن، انڈے، گوشت، ایل پی جی، بجلی، چائے، چاول، گیس اور آلو وغیرہ شامل ہیں۔

مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈالر کی بنیاد پر مہنگائی بڑھنے سے ان تمام اشیا کی قیمتوں میں اضافہ تو فوری طور پر ہو جاتا ہے لیکن ڈالر کی قدر میں کمی آئی ہے تو اب اتنی ہی رفتار سے ان اشیا کی قیمتیں کم کیوں نہیں ہوئیں؟ترقی یافتہ ملکوں میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ بہت آہستہ ہوتا ہے۔ لیکن جن ممالک کے حکومتی ڈھانچے ٹھیک نہیں ہوتے وہاں ہر کوئی اپنے نفع کو مد نظر رکھ کر چلتا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں بھی بغیر ڈنڈے کے کمی نہیں ہوتی، جیسے ڈالر پر کریک ڈاؤن ہوا تو ڈالر کی قیمت کم ہوئی۔

قیمتوں میں فوری کمی نہ ہونے کا سبب یہ ہے کہ ایک مخصوص طریقہ ہے کہ لوگ منافع کماتے ہیں اور انھیں عادت ہو جاتی ہے اور دوسری جانب قیمتیں کم ہونے میں بھی وقت لگتا ہے کیونکہ بڑے کاروباری لوگ بنڈلز کے حساب سے چیزیں خریدتے ہیں، اور پھر اگر قیمتیں گر جاتی ہیں تو ان کے پاس مہنگے داموں میں موجود جو مال ہوتا ہے اس کے ختم ہونے تک وہ اسی قیمت پر بیچتے ہیں۔

قیمتیں جب بڑھنی ہوں تو فوراً بڑھ جاتی ہیں اور اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہمارے ہاں ایڈمنسٹریٹو اسٹرکچر اتنے مضبوط نہیں ہوتے۔ ہر شہر میں ہول سیل اور ریٹیل میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے، اگر دوسرے شہروں میں جائیں تو جغرافیائی اعتبار سے چیزوں کی قیمتیں بھی مختلف ہوتی چلی جاتی ہیں۔

ہماری قیمتوں کو کنٹرول کرنے والی کمیٹیاں غیر مؤثر ہیں، جس کی وجہ سے قیمتیں اتنی آسانی سے کم نہیں ہوتیں۔ گزشتہ برس غیر متوقع اور تباہ کُن سیلاب نے تیس ارب ڈالر کا نقصان کیا ہے رہائشی مکانات گرنے اور کم ہوتی زرعی پیداوار جیسے نقصانات کا مداوا کرنے کے لیے جس صدقِ دل سے کام کرنے کی ضرورت تھی تاکہ متاثرین کی بحالی ہوسکے اُس کا فقدان ہے۔

اسی بنا پر ابھی تک بحالی کا کام ادھورا ہے خوراک میں خود کفالت سے محروم ہونے کا تقاضا تھا کہ غیر آباد کھلیان کو کاشت کے قابل بنایا جاتا مگر ہو یہ رہا ہے کہ زرعی رقبہ رہائشی کالونیاں نگلتی جا رہی ہیں لیکن صاحبانِ اقتدار ہنوز ایسا کوئی طریقہ کار نہیں بنا سکے، جس سے تیزی سے کم ہوتے زرعی رقبے کی رفتار پر قابو پایا جا سکے۔


اِس لاپرواہی کی وجہ سے پاکستان جیسے زرعی ملک کا اربوں ڈالر چینی، گندم، خوردنی تیل جیسی اجناس درآمد کرنے پر خرچ ہورہا ہے بڑھتے درآمدی بل کے باوجود ذمے داران ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نقصان برداشت کررہے ہیں اگر خوراک میں خود کفالت ہی حاصل کر لی جائے تو کسی حد تک معاشی دباؤ کم ہو سکتا ہے۔ پاکستان کو کچھ دوست ممالک اور چند ایک عالمی اِداروں سے بائیس ارب ڈالر کی مالی معاونت حاصل ہو جائے گی۔

اِس میں سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات کے اسٹیٹ بینک کے پاس رکھوائے ڈیپازٹ تک شامل ہیں۔ آئی ایم ایف کے اعداد و شمار کے مطابق قرضے جی ڈی پی کے اسی فیصد تک ہو چکے ہیں، یہ خطرے والی صورتحال ہے جسے بہتر کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر آمدن کے ذرایع بڑھانا ہوں گے تاکہ اسی فیصد ہونے والے بیرونی قرضے 2027 تک جی ڈی پی کے ساٹھ فیصد تک لائے جا سکیں، مگر اِس حوالے سے جس جادوگری کی ضرورت ہے۔

اُس حساب سے کام ہو تا نظر نہیں آرہا، آج بھی شاہ خرچیاں جاری ہیں بے مقصد بڑے بڑے وفود بیرونِ ملک لے جانے کا سلسلہ جاری ہے حالانکہ ضرورت اِس امر کی ہے کہ معاشی بہتری کے لیے اخراجات کم کرتے ہوئے بچتوں پر توجہ دی جائے اور غیر ضروری اخراجات کو ختم کیا جائے۔

بنیادی طور پر چونکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس کی 70 فیصد آبادی زراعت سے وابستہ ہے مگر بدقسمتی دیکھیے کہ اس کے باوجود ہمیں گندم جیسی بنیادی ضرورت کی جنس درآمد کرنا پڑ رہی ہے یہاں ہر حکومت گندم کٹائی کی سیزن میں سرگرداں رہتی ہے کہ گندم کی پیداوار کم ہوئی تو کہاں سے سستی گندم ملے گی تاکہ ملکی ضروریات پوری ہوں، گنے کی کرشنگ سیزن کے دوران حکومت اس فکر میں مبتلا دکھائی دیتی ہے کہ چینی کی پیداوار کتنی کم ہوگی تاکہ ملکی ضروریات کے لیے آرڈرز دیے جائیں۔

یہ حالات یقیناً المیے سے کم نہیں کہ زرعی کہلانے والا ملک برآمد تو کیا کرے گا درآمد کی فکر میں مبتلا رہتا ہے زرعی زمینیں دھڑا دھڑ رہائشی اور دیگر مقاصد کے لیے استعمال کی جا رہی ہیں اگر یہی ٹرینڈ جاری رہا تو ہم مستقبل قریب میں قحط سالی کا شکار ہوسکتے ہیں۔

ہماری مجموعی قومی آمدن انتہائی کم ہے ہماری قوم محنتی قوم نہیں ہے بلکہ یہ تن آسانی کے سبب کوئی مناسب پیشہ تک اختیار کرنے سے قاصر ہے، پیشہ ورانہ اسکلز نہ ہونے کے برابر ہے، ملک کے اندر بھی غیر ہنر مند مزدوروں کی بہتات ہے اور باہر بھی ہم یہی جنس ایکسپورٹ کرتے ہیں، یہاں اکثر لوگ یہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ بیرونی قرضے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور کرپشن کے سبب بڑھے ہیں یہ کسی حد تک درست بھی ہے مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ قرضے چڑھنے کی وجہ منصوبہ بندی کے فقدان سمیت قوم کا لاابالی پن بھی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق ہم سالانہ پانچ ارب ڈالرز کی چائے درآمد کرتے ہیں، پانچ سات ارب کا شیمپو، صابن اور میک اپ کا سامان منگواتے ہیں، پانچ دس ارب ڈالرز کے موبائل فونز اور الیکٹرانک آلات منگواتے ہیں، اسی طرح کاریں اور دیگر پرتعیش اشیا سمیت کئی غیر ضروری چیزیں منگواتے ہیں جس کے بغیر بھی گزارا ممکن ہے ہم اگر چائے، سگریٹ، پرفیومز، شیمپو، الیکٹرانک آلات، موبائل، کمپیوٹرز اور گاڑیوں کی درآمد کو قابو کریں تو ہمارے بہت سے مسائل کا حل ممکن ہے۔

آئی ایم ایف کے آگے ہم ایک دو ارب ڈالرز کے لیے ہاتھ پیر جوڑتے رہتے ہیں مگر ہم پانچ ارب ڈالرز چائے کی چسکی میں اڑا دیتے ہیں، یعنی معیشت ہمارے اپنے ہی ہاتھوں برباد ہو رہی ہے۔

ہمارے معاشی مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ ہم درآمدات کے بجائے برآمدات بڑھانے پر توجہ دیں، ہم اس وقت اپنی آمدن سے زیادہ درآمدات کرتے ہیں ہمارے پاس پن بجلی کے لامتناہی وسائل موجود ہیں مگر ان سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ہم مہنگی فرنس آئل سے بجلی بناتے ہیں بجلی کے شعبے نے ہماری معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے حالانکہ دوچار روپے یونٹ پڑنے والی بجلی ہم پچاس روپے یونٹ میں خرید رہے ہیں۔

گردشی قرضے ختم کرنے کے بجائے ٹیرف بڑھانے پر زیادہ توجہ رہتی ہے، صرف بجلی کی مد میں ہم سالانہ اربوں ڈالرز ضایع کردیتے ہیں، گیس جس قیمت پر عوام کو مل رہی ہے اس کا تقاضا ہے کہ محکمہ گیس خود کفیل ہو بلکہ یہ اربوں روپے اثاثے بھی رکھتا ہو، مگر کمال ہے کہ حکومت کو اسے کئی ارب کا انجکشن لگانا پڑتا ہے، اسی طرح دیگر کئی شعبے ہیں جو سفید ہاتھی بن کر سالانہ اربوں ڈالرز ڈکارجاتے ہیں مگر اسے سدھارنے کے بجائے ہم قرضوں پر قرضے حاصل کرکے شادیانے بجاتے ہیں۔

ملکی معیشت کو درست خطوط پر استوارکرنے کے لیے ہم سب کو اپنی اپنی ذمے داریاں پوری کرنی ہونگی، فاضل اور غیر ضروری درآمدات بند کرنی ہونگی اور برآمدات بڑھانے پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی صنعتوں کو سہولیات دینی ہونگی، زراعت کے شعبے میں دورِجدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا ہوگا۔

روایتی اور متروک زراعت سے جدید زراعت کی جانب آنا ہوگا، محنتی قوم بننا ہوگا، ہر شہری کو اپنی ذمے داری خلوص نیت سے ادا کرنی ہوگی، حکومتوں کو قابل عمل منصوبے بنانے ہونگے، ملکی معیشت کی سدھار ہمہ جہت اقدامات سے ممکن ہے۔
Load Next Story