ہیں کواکب کچھ

آخرکار یہ معمہ بھی حل ہوگیا کہ اُس کی تنخواہ اور مراعات میں یک بیک اضافہ کیوں ہوگیا ہے

S_afarooqi@yahoo.com

عبدالمجید ایک پینٹ فیکٹری ورکر تھا۔ اُس کا کام تھا۔ اُس کی ڈیوٹی صبح نو بجے سے شروع ہوکر شام پانچ بجے تک ختم ہوجاتی تھی ۔ فیکٹری سے نکل کر اُسے پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے شہر کے نواحی علاقہ میں واقع اپنے گھر واپس جانا ہوتا تھا۔

اُس کا یہی روزمرہ کا معمول تھا۔ ایک مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ ایک بھاری ڈرم پھسل کر اُس کے پیر پر آ پڑا جس کی مرہم پٹی کے لیے مالک نے اُسے روزانہ کچھ رقم ادا کی لیکن شدید تکلیف ہونے کے باوجود عبدالمجید کو چھٹی نہ مل سکی۔

فیکٹری کا مالک اسے کچھ نہ کچھ رقم ازراہِ نوازش ادا کردیا کرتا تھا جسے وہ مزدور مالک کی ہمدردی سے تعبیر کرتا تھا لیکن اِس عنایت کا اصل مقصد یہ تھا کہ پرندہ قفس سے نکل کر کہیں اور نہ چلا جائے۔

ایک دفعہ یہ ہوا کہ فیکٹری کے ایک گوشہ میں جہاں کچھ کاٹھ کباڑ پڑا ہوا تھا آگ لگ گئی۔ سادہ لوح منیجر کو پتا چلا تو وہ بُری طرح گھبرا گیا اور اُس نے فوراً فائر بریگیڈ کو اطلاع کردی جس کے بعد فائر بریگیڈ کا عملہ آگ بجھانے کے لیے آگیا۔

منیجر نے فیکٹری مالک کو بھی اِس ناخوشگوار واقعے کے بارے میں ٹیلیفون پر مطلع کردیا اور پھر تھوڑی دیر بعد وہ بھی تشریف لے آیا اور منیجر پر برس پڑے کہ اُس نے ایسا کیوں کیا؟ منیجر نے معذرت تو کر لی لیکن اِس بات پر حیرانی ہوئی کہ مالک نے ایسا کیوں کیا؟منیجر نے ایک بات یہ بھی نوٹ کی تھی کہ جب کچھ خاص لوگ فیکٹری مالک سے ملاقات کے لیے آتے تھے تو اُن کی خوب آؤ بھگت اور خاطر تواضع کی جاتی تھی۔

منیجر کو اِن تمام باتوں پر حیرانی ہوئی اور اُسے جستجو ہوئی کہ آخر اِس کا راز کیا ہے۔ ایک روز یہ ہوا کہ جب سیٹھ صاحب سے ملاقات کے لیے چند مہمان آئے تو اتفاقاً کسی کام سے منیجر کا اُدھر جانا ہوگیا۔ دیکھا تو معلوم ہوا کہ فائر بریگیڈ کے افسران موجود تھے۔ سیٹھ صاحب کے لیے اُس کا اُس وقت وہاں جانا قطعی غیر متوقع تھا۔


اُس نے بھانپ لیا کہ سیٹھ صاحب کو اُس وقت اُس کا وہاں آنا ناگوار گزرا تھا لیکن انھوں نے گویا کڑوا گھونٹ پی لیا تھا۔منیجر کو حیرانی اِس بات پر ہوئی کہ معاملہ تو کبھی کا گزر چکا تھا لیکن فائر بریگیڈ کے افسران کے وہاں آنے کا مقصد کیا تھا۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر بھید کیا تھا۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا اُس کے تجسس میں اضافہ ہورہا تھا۔

اُس کے ذہن میں ایک کھلبلی مچی ہوئی تھی۔پھر یہ ہوا کہ جب وہ وہاں سے پلٹنے لگا تو اُس کے کانوں میں یہ آواز پڑی کہ'' میں آپ کو کیا بتاؤں کہ میرا کتنا بھاری نقصان ہوگیا ہے۔ میرے منیجر نے آپ کو اطلاع دینے میں بہت دیر لگا دی۔

میری مشکل یہ ہے کہ مجھے اب سارا جلا ہوا خام مال امپورٹ کرنا پڑے گا جس میں کافی دیر لگ جائے گی اور پروڈکشن رُک جائے گی جس کا نقصان اِس کے علاوہ ہوگا۔ میں آپ کا بہت شکرگزار ہوں کہ آپ نے جلد آکر آگ پر قابو پالیا اور نقصان سے بچا لیا۔''منیجر اپنے کمرے میں واپس آکر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ راتوں رات امیر بننے کا ہنر کیا ہوتا ہے۔

عبدالمجید سے رازدارانہ انداز میں گفتگو کرنے کے بعد یہ راز بھی فاش ہوگیا کہ سیٹھ صاحب کے مہمانانِ خصوصی میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کا تعلق اُس محکمہ سے ہے جنھیں روزانہ پروڈکشن کا حساب دینا ہوتا ہے۔ہوتا یہ ہے کہ جتنا مال تیار ہوتا ہے اُس کی مقدار بتانا ہوتی ہے تاکہ اُسی حساب سے ٹیکس ادا کیا جائے۔ منیجر کو یہ موٹی سی بات سمجھنے میں ذرا بھی دقت پیش نہیں آئی کہ اصل معاملہ کیا ہے۔ یہ مائنس پلس کا سیدھا سادہ سوال تھا۔

اِس کے بعد منیجر کو صاف پتا چل گیا کہ حاضری رجسٹر میں عبدالمجید کی پورے ماہ کی حاضری کیوں نہیں دکھائی جاتی اور لیبر ڈپارٹمنٹ کے افسران کی خاطر مدارات کیوں کی جاتی ہیں؟ آخرکار یہ معمہ بھی حل ہوگیا کہ اُس کی تنخواہ اور مراعات میں یک بیک اضافہ کیوں ہوگیا ہے اور اُس کی پذیرائی کس لیے کی جارہی ہے؟ یکایک ایک معنی خیز مسکراہٹ اُس کے لبوں پر پھیل گئی اور اُس نے دل ہی دل میں کہا:

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
Load Next Story