پاک چین دوستی معاشرتی تعمیر‘ مربوط اقوام
ہماری دیرینہ روایات کے مطابق ہم اپنے بنیادی مسائل پر ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں
پاک چین تعلقات بہت خاص نوعیت کے حامل ہیں۔ یہ بھائی چارے ' دوستی اور اعتماد کا وہ باب ہے جس کی بنیاد ستر سال سے زائد عرصہ قبل رکھی گئی تھی۔
دونوں ممالک کی اس وقت کی قیادت نے انتہائی بالغ نظری سے ایک مستحکم تعلق کا آغاز کیا جو ہر گزرتے برس کے ساتھ ساتھ مزید مؤثر' مضبوط اور توانا تر ہوتا گیا۔ نہایت مہارت اور ہوشمندی سے تشکیل دیا گیا یہ خاص تعلق وقت کی ہر آزمائش پر پورا اترا ہے اور لمبے عرصے کی تزویراتی شراکت پر محیط ہے۔
میں مکمل اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان اور پاکستان کے لوگ اس تعلق کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور فخر سے چین کو ا پنا بہترین دوست قرار دیتے ہیں۔ یہ بات انتہائی خوش کن ہے کہ چینی قوم بھی آہنی بھائی کی اصطلاح فقط پاکستان کے لیے استعمال کرتی ہے۔
پاکستان اور چین کی لازوال شراکت داری اور گہری دوستی دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے اور یہ ہمارے عوام کا تاریخی انتخاب ہے۔ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہماری خارجہ پالیسی کا اہم ترین ستون ہیں۔
چین کے ساتھ قریبی دوستی کو پاکستانی عوام کی مستقل حمایت حاصل ہے۔بے مثال دوستی پر مبنی دو برادر ممالک کا یہ بھائی چارہ وقت کے ہر امتحان پر پورا اترتا آیا ہے اور دونوں ممالک ہر قسم کے تغیرات زمانہ سے بے نیاز ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔
دونوں ممالک کے باہمی تعاون اور تزویراتی شراکت کا یہ پودا اب ایک تناور درخت بن چکا ہے اور اس کی پیار بھری جڑیں ہمارے لوگوں کے دلوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔
دونوں ممالک کے عوام کے مابین محبت و الفت کا یہ رشتہ درحقیقت ''پہاڑوں سے بلند' سمندر سے گہرا اور شہد سے میٹھا'' ہے۔چین کے پہلے وزیراعظم چو این لائی نے ایک بار کہا تھا چین اور پاکستان کے عوام کے درمیان دوستانہ روابط زمانہ قدیم سے ہیں۔ یقیناً پاک چین تعلقات ہمارے لوگوں کے درمیان موجود قدیم تہذیبی رشتوں کا تسلسل ہیں۔
قدیم شاہراہ ریشم کے ذریعے ہونے والی تجارت اور جغرافیائی قربت دونوں عظیم ایشیائی تہذیبوں میں قربت کا سبب بنی۔ زمانہ ٔ قدیم سے چین کے راہب اور مفکر ٹیکسلا اور پاکستان میں موجود بدھ مت کے دیگر مقامات کا سفر کرتے آئے ہیں جس کے ذریعے گندھارا آرٹ اور بدھ مت کی حکمت چین تک پہنچی جو دونوں قوموں کے مابین ایک لازوال بندھن کا باعت بنی۔پاک چین تعلقات کا تاریخی ارتقاء اور علاقائی اور عالمی منظر نامے کے تناظر میں اس کی بڑھتی ہوئی اہمیت بین الریاستی تعلقات میں مثالی حیثیت کی حامل ہے۔
مضبوط سیاسی حمایت' باہمی اعتماد اور ہمہ جہت عملی تعاون سے سات دہائیوں میں تشکیل پانے والا یہ منفرد رشتہ اب ایک مضبوط تزویراتی شراکت داری کی شکل اختیار کر چکا ہے۔میں عالمی تعاون کے لیے بیجنگ میں ہونے والے تیسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں شرکت کر رہا ہوں۔
دنیا بھر کی ترقی کے لیے دس برس قبل شروع ہونے والا یہ پروگرام صدر شی جن پنگ کی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ہم صدر شی جن پنگ کی مدبرانہ صلاحیتوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنھوں نے دس سال قبل ترقی کے لیے بنی نو ع انسان کو ایک کمیونٹی قرار دیتے ہوئے مشترکہ مستقبل کے لیے عالمی ترقیاتی شراکت داری اور عالمی گورننس کا نیا تصور پیش کیا ۔
صدر شی بین الاقوامی تعاون و تبادلے کے خیال تازہ کے مؤجد ثابت ہوئے ہیں اور انھوں نے دنیا کی آپسی جڑت کا اچھوتا مگر قابل عمل ماڈل پیش کیا ہے جس کی عملی شکل بتدریج سامنے آتی جا رہی ہے۔اس مدبرانہ تصور کا مرکزی نکتہ ایک ایسی سماجی اور اقتصادی ترقی ہے جس میں سب شامل ہوں' سب کا فائدہ ہو اور سب کی فتح ہو۔
یہ ایک آپس میں جڑی ہوئی صاف ستھری' پرامن اور خوبصورت دنیا کا تصور ہے۔ ایک ایسی دنیا جو سب کے لیے ہے اور جس میں کسی کے لیے کوئی خطرہ نہیں۔جوں جوں ہم اس خیال کی گہرائی میں اترتے ہیں' ہمیں واضح ہوتا جاتا ہے کہ یہ تصور قدیم چینی فلسفے اور حکمت پر مبنی ہے۔
چینی تصور تیان زی ہے (Tianxihe) جسے ہم اردو میں ''آسمان کے نیچے ہم آہنگی'' کہہ سکتے ہیں' پوری دنیا کی طرف اشارہ کرتا ہے اور پائیدار امن کے لیے تنوع کو تسلیم کرتے ہوئے باہمی تعاون پر زور دیتا ہے۔
چینی ریاستی کونسل کی جانب سے حال ہی میں ایک وائٹ پیپر جاری کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ بی آر آئی مشترکہ مستقبل کی عالمی برادری کا ایک اہم ستون ہے۔
بی آر آئی کے بعد سامنے آنے والے تصورات بشمول گلوبل ڈویلپمنٹ انیشٹیو (GDI) ' گلوبل سیکیورٹی انیشیٹو (DSI) اور گلوبل سولائزیشن انیشیٹو (GCI) سے ''مشترکہ کمیونٹی'' کا تصور مزید واضح ہو جاتا ہے۔پاکستان بی آر آئی میں شامل ہونے والے اولین ممالک میں سے ہے۔
چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے پرچم بردار کے طور پر سی پیک پاک چین تعلقات میں اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ سی پیک کے ذریعے اقتصادی تعاون اور Connectivityپاک چین تعلقات کا مرکزی نقطہ بن چکے ہیں اور اس وقت دونوں ممالک پہلے سے کہیں زیادہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
سی پیک اقتصادی خوشحالی اور رابطے کے حوالے سے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے خواب کی بہترین تعبیر کے طور پر سامنے آیا ہے۔ سی پیک پاکستان کے سماجی و اقتصادی منظر نامے میں انقلابی تبدیلیاں لاتا جا رہا ہے۔ اس سے جدید انفرااسٹرکچر وجود میں آیاہے' علاقائی رابطے بہتر ہوئے ہیں' توانائی کی کمی پوری ہوئی ہے اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔
اس سال پاکستان نے CPEC کی کامیاب پہلی دہائی کے موقعے پر کئی تقریبات اور سرگرمیوں کی میزبانی کی۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری کی دس سالہ تقریبات میں شرکت کے لیے صدر شی جن پنگ کے خصوصی ایلچی کی حیثیت سے چین کے نائب وزیراعظم ہی لائفنک پاکستان تشریف لائے جن کا پاکستان میں خیر مقدم کرتے ہوئے ہمیںبے حد مسرت ہوئی۔
پاکستان سی پیک کے دوسرے مرحلے میں اعلیٰ معیار کے حامل منصوبوں پر کم کے لیے تیار ہے اور دوسرے مرحلے کی کامیاب تکمیل کے لیے پر عزم ہے۔ ہم سی پیک کو ترقی اور روزگار کی فراہمی کا اہم ذریعہ جانتے ہیں اور سبز معیشت ' نئی ٹیکنالوجی' مل جل کر ترقی کرنے اور کھلی معیشت کے لیے چین کی تجاویز سے ا تفاق کرتے ہیں۔
پاکستان جی ڈی آئی گروپ آف فرینڈز کا بھی ایک اہم رکن ہے اور اس نے اسے مزید ٹھوس شکل دینے میں فعال کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان GDI کے تحت پہلا ترجیحی شراکت دار اور GDI مفاہمت نامے پر دستخط کرنے والا پہلا ملک ہونے کی حیثیت سے تعلیم' صحت' موسمیاتی تبدیلی اور غربت میں کمی کے شعبوں میں تعاون سے بروقت انداز میں مستفید ہونے کے لیے تیار ہے۔
اس طرح ہمیں پائیدار ترقی کے مقاصد بروقت حال کرنے میں مدد ملے گی۔پاکستان GSI کی بھی حمایت کرتا ہے اور اسے اقوام متحدہ کے چارٹر اور کثیر الجہتی اصولوں اور اندرونی معاملات میں عدم مداخلت سے مطابق جانتا ہے۔
مدت سے حل طلب تنازعات اور دہشت گردی سے نقصان اٹھانے کی بنا پر ہم جنوبی ایشیا میں علاقائی امن کو یقینی بنانے کے لیے باہمی احترام پر مبنی بات چیت کی بھی حمایت کرتے ہیں۔GCI صدر شی جن پنگ کا ایک اور تاریخی اور بروقت اقدام ہے۔
جس میں تنوع' پرامن بقائے باہمی' ایک دوسرے سے سیکھنے اور جامعیت کے احترام کو فروغ دیا گیا ہے جو اختلاف اور تفرقہ سے دو چار دنیا میں تہذیب کے درمیان مکالمے' امن اور مفاہمت کا ذریعہ ہو سکتا ہے۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے ارشادات کی روشنی میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے مقاصد ہمیشہ ''اندرونی و بیرونی امن'' رہے ہیں۔
لہٰذا' صدر شی جن پنگ کی طرف سے پیش کیے گئے ان اہم اقدامات کی توثیق پاکستان کے لیے فطری تھی۔تنازعات ' معاشی کساد بازاری' غذائی عدم تحفظ' سماجی عدم مساوات اور موسمیاتی تبدیلی جیسے متعدد چیلنجوں سے دوچار دنیا میں پاک چین اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کی ا ہمیت بہت زیادہ ہے۔ یہ دونوں ممالک کے عوام کے لیے فخر اور سکون کا باعث ہے اور خطے کے اندر اور باہر امن و استحکام کا عنصر ہے۔ ہمارا ماضی' حال اور مستقبل کا رشتہ ہے۔ اور کوئی چیز اس حقیقت کو بدل نہیں سکتی۔
ہماری دیرینہ روایات کے مطابق ہم اپنے بنیادی مسائل پر ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم پاکستان کی خود مختاری' علاقائی سالمیت' اقتصادی استحکام اور جموں و کشمیر کے معاملے پر چین کی اصولی حمایت کے لیے اس کے شکر گزار ہیں۔ ہم ون چائنا پالیسی کے لیے اپنی وابستگی اور تائیوان' ہانگ کانگ' تبت' سنکیانگ اور بحیرہ جنوبی چین سمیت اس کے بنیادی مسائل پر چین کی حمایت کا اعادہ کرتے ہیں۔
قریبی دوستوں' اسٹرٹیجک پارٹنرز اور آہنی بھائیوں کی حیثیت سے پاکستان اور چین مشترکہ مستقبل کی منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہماری دوستی آنے والے دنوں میں مزید مضبوط ہو گی اور آنے والے برسوں میں اس کو مزید فروغ حاصل ہو گا۔
پاک چین دوستی زندہ باد!
دونوں ممالک کی اس وقت کی قیادت نے انتہائی بالغ نظری سے ایک مستحکم تعلق کا آغاز کیا جو ہر گزرتے برس کے ساتھ ساتھ مزید مؤثر' مضبوط اور توانا تر ہوتا گیا۔ نہایت مہارت اور ہوشمندی سے تشکیل دیا گیا یہ خاص تعلق وقت کی ہر آزمائش پر پورا اترا ہے اور لمبے عرصے کی تزویراتی شراکت پر محیط ہے۔
میں مکمل اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان اور پاکستان کے لوگ اس تعلق کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور فخر سے چین کو ا پنا بہترین دوست قرار دیتے ہیں۔ یہ بات انتہائی خوش کن ہے کہ چینی قوم بھی آہنی بھائی کی اصطلاح فقط پاکستان کے لیے استعمال کرتی ہے۔
پاکستان اور چین کی لازوال شراکت داری اور گہری دوستی دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے اور یہ ہمارے عوام کا تاریخی انتخاب ہے۔ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہماری خارجہ پالیسی کا اہم ترین ستون ہیں۔
چین کے ساتھ قریبی دوستی کو پاکستانی عوام کی مستقل حمایت حاصل ہے۔بے مثال دوستی پر مبنی دو برادر ممالک کا یہ بھائی چارہ وقت کے ہر امتحان پر پورا اترتا آیا ہے اور دونوں ممالک ہر قسم کے تغیرات زمانہ سے بے نیاز ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔
دونوں ممالک کے باہمی تعاون اور تزویراتی شراکت کا یہ پودا اب ایک تناور درخت بن چکا ہے اور اس کی پیار بھری جڑیں ہمارے لوگوں کے دلوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔
دونوں ممالک کے عوام کے مابین محبت و الفت کا یہ رشتہ درحقیقت ''پہاڑوں سے بلند' سمندر سے گہرا اور شہد سے میٹھا'' ہے۔چین کے پہلے وزیراعظم چو این لائی نے ایک بار کہا تھا چین اور پاکستان کے عوام کے درمیان دوستانہ روابط زمانہ قدیم سے ہیں۔ یقیناً پاک چین تعلقات ہمارے لوگوں کے درمیان موجود قدیم تہذیبی رشتوں کا تسلسل ہیں۔
قدیم شاہراہ ریشم کے ذریعے ہونے والی تجارت اور جغرافیائی قربت دونوں عظیم ایشیائی تہذیبوں میں قربت کا سبب بنی۔ زمانہ ٔ قدیم سے چین کے راہب اور مفکر ٹیکسلا اور پاکستان میں موجود بدھ مت کے دیگر مقامات کا سفر کرتے آئے ہیں جس کے ذریعے گندھارا آرٹ اور بدھ مت کی حکمت چین تک پہنچی جو دونوں قوموں کے مابین ایک لازوال بندھن کا باعت بنی۔پاک چین تعلقات کا تاریخی ارتقاء اور علاقائی اور عالمی منظر نامے کے تناظر میں اس کی بڑھتی ہوئی اہمیت بین الریاستی تعلقات میں مثالی حیثیت کی حامل ہے۔
مضبوط سیاسی حمایت' باہمی اعتماد اور ہمہ جہت عملی تعاون سے سات دہائیوں میں تشکیل پانے والا یہ منفرد رشتہ اب ایک مضبوط تزویراتی شراکت داری کی شکل اختیار کر چکا ہے۔میں عالمی تعاون کے لیے بیجنگ میں ہونے والے تیسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں شرکت کر رہا ہوں۔
دنیا بھر کی ترقی کے لیے دس برس قبل شروع ہونے والا یہ پروگرام صدر شی جن پنگ کی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ہم صدر شی جن پنگ کی مدبرانہ صلاحیتوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنھوں نے دس سال قبل ترقی کے لیے بنی نو ع انسان کو ایک کمیونٹی قرار دیتے ہوئے مشترکہ مستقبل کے لیے عالمی ترقیاتی شراکت داری اور عالمی گورننس کا نیا تصور پیش کیا ۔
صدر شی بین الاقوامی تعاون و تبادلے کے خیال تازہ کے مؤجد ثابت ہوئے ہیں اور انھوں نے دنیا کی آپسی جڑت کا اچھوتا مگر قابل عمل ماڈل پیش کیا ہے جس کی عملی شکل بتدریج سامنے آتی جا رہی ہے۔اس مدبرانہ تصور کا مرکزی نکتہ ایک ایسی سماجی اور اقتصادی ترقی ہے جس میں سب شامل ہوں' سب کا فائدہ ہو اور سب کی فتح ہو۔
یہ ایک آپس میں جڑی ہوئی صاف ستھری' پرامن اور خوبصورت دنیا کا تصور ہے۔ ایک ایسی دنیا جو سب کے لیے ہے اور جس میں کسی کے لیے کوئی خطرہ نہیں۔جوں جوں ہم اس خیال کی گہرائی میں اترتے ہیں' ہمیں واضح ہوتا جاتا ہے کہ یہ تصور قدیم چینی فلسفے اور حکمت پر مبنی ہے۔
چینی تصور تیان زی ہے (Tianxihe) جسے ہم اردو میں ''آسمان کے نیچے ہم آہنگی'' کہہ سکتے ہیں' پوری دنیا کی طرف اشارہ کرتا ہے اور پائیدار امن کے لیے تنوع کو تسلیم کرتے ہوئے باہمی تعاون پر زور دیتا ہے۔
چینی ریاستی کونسل کی جانب سے حال ہی میں ایک وائٹ پیپر جاری کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ بی آر آئی مشترکہ مستقبل کی عالمی برادری کا ایک اہم ستون ہے۔
بی آر آئی کے بعد سامنے آنے والے تصورات بشمول گلوبل ڈویلپمنٹ انیشٹیو (GDI) ' گلوبل سیکیورٹی انیشیٹو (DSI) اور گلوبل سولائزیشن انیشیٹو (GCI) سے ''مشترکہ کمیونٹی'' کا تصور مزید واضح ہو جاتا ہے۔پاکستان بی آر آئی میں شامل ہونے والے اولین ممالک میں سے ہے۔
چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے پرچم بردار کے طور پر سی پیک پاک چین تعلقات میں اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ سی پیک کے ذریعے اقتصادی تعاون اور Connectivityپاک چین تعلقات کا مرکزی نقطہ بن چکے ہیں اور اس وقت دونوں ممالک پہلے سے کہیں زیادہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
سی پیک اقتصادی خوشحالی اور رابطے کے حوالے سے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے خواب کی بہترین تعبیر کے طور پر سامنے آیا ہے۔ سی پیک پاکستان کے سماجی و اقتصادی منظر نامے میں انقلابی تبدیلیاں لاتا جا رہا ہے۔ اس سے جدید انفرااسٹرکچر وجود میں آیاہے' علاقائی رابطے بہتر ہوئے ہیں' توانائی کی کمی پوری ہوئی ہے اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔
اس سال پاکستان نے CPEC کی کامیاب پہلی دہائی کے موقعے پر کئی تقریبات اور سرگرمیوں کی میزبانی کی۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری کی دس سالہ تقریبات میں شرکت کے لیے صدر شی جن پنگ کے خصوصی ایلچی کی حیثیت سے چین کے نائب وزیراعظم ہی لائفنک پاکستان تشریف لائے جن کا پاکستان میں خیر مقدم کرتے ہوئے ہمیںبے حد مسرت ہوئی۔
پاکستان سی پیک کے دوسرے مرحلے میں اعلیٰ معیار کے حامل منصوبوں پر کم کے لیے تیار ہے اور دوسرے مرحلے کی کامیاب تکمیل کے لیے پر عزم ہے۔ ہم سی پیک کو ترقی اور روزگار کی فراہمی کا اہم ذریعہ جانتے ہیں اور سبز معیشت ' نئی ٹیکنالوجی' مل جل کر ترقی کرنے اور کھلی معیشت کے لیے چین کی تجاویز سے ا تفاق کرتے ہیں۔
پاکستان جی ڈی آئی گروپ آف فرینڈز کا بھی ایک اہم رکن ہے اور اس نے اسے مزید ٹھوس شکل دینے میں فعال کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان GDI کے تحت پہلا ترجیحی شراکت دار اور GDI مفاہمت نامے پر دستخط کرنے والا پہلا ملک ہونے کی حیثیت سے تعلیم' صحت' موسمیاتی تبدیلی اور غربت میں کمی کے شعبوں میں تعاون سے بروقت انداز میں مستفید ہونے کے لیے تیار ہے۔
اس طرح ہمیں پائیدار ترقی کے مقاصد بروقت حال کرنے میں مدد ملے گی۔پاکستان GSI کی بھی حمایت کرتا ہے اور اسے اقوام متحدہ کے چارٹر اور کثیر الجہتی اصولوں اور اندرونی معاملات میں عدم مداخلت سے مطابق جانتا ہے۔
مدت سے حل طلب تنازعات اور دہشت گردی سے نقصان اٹھانے کی بنا پر ہم جنوبی ایشیا میں علاقائی امن کو یقینی بنانے کے لیے باہمی احترام پر مبنی بات چیت کی بھی حمایت کرتے ہیں۔GCI صدر شی جن پنگ کا ایک اور تاریخی اور بروقت اقدام ہے۔
جس میں تنوع' پرامن بقائے باہمی' ایک دوسرے سے سیکھنے اور جامعیت کے احترام کو فروغ دیا گیا ہے جو اختلاف اور تفرقہ سے دو چار دنیا میں تہذیب کے درمیان مکالمے' امن اور مفاہمت کا ذریعہ ہو سکتا ہے۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے ارشادات کی روشنی میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے مقاصد ہمیشہ ''اندرونی و بیرونی امن'' رہے ہیں۔
لہٰذا' صدر شی جن پنگ کی طرف سے پیش کیے گئے ان اہم اقدامات کی توثیق پاکستان کے لیے فطری تھی۔تنازعات ' معاشی کساد بازاری' غذائی عدم تحفظ' سماجی عدم مساوات اور موسمیاتی تبدیلی جیسے متعدد چیلنجوں سے دوچار دنیا میں پاک چین اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کی ا ہمیت بہت زیادہ ہے۔ یہ دونوں ممالک کے عوام کے لیے فخر اور سکون کا باعث ہے اور خطے کے اندر اور باہر امن و استحکام کا عنصر ہے۔ ہمارا ماضی' حال اور مستقبل کا رشتہ ہے۔ اور کوئی چیز اس حقیقت کو بدل نہیں سکتی۔
ہماری دیرینہ روایات کے مطابق ہم اپنے بنیادی مسائل پر ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم پاکستان کی خود مختاری' علاقائی سالمیت' اقتصادی استحکام اور جموں و کشمیر کے معاملے پر چین کی اصولی حمایت کے لیے اس کے شکر گزار ہیں۔ ہم ون چائنا پالیسی کے لیے اپنی وابستگی اور تائیوان' ہانگ کانگ' تبت' سنکیانگ اور بحیرہ جنوبی چین سمیت اس کے بنیادی مسائل پر چین کی حمایت کا اعادہ کرتے ہیں۔
قریبی دوستوں' اسٹرٹیجک پارٹنرز اور آہنی بھائیوں کی حیثیت سے پاکستان اور چین مشترکہ مستقبل کی منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہماری دوستی آنے والے دنوں میں مزید مضبوط ہو گی اور آنے والے برسوں میں اس کو مزید فروغ حاصل ہو گا۔
پاک چین دوستی زندہ باد!