اسحاق ڈار کیخلاف ریفرنس میں عدالتی دائرہ اختیار پر فیصلہ محفوظ
سپریم کورٹ فیصلے کی روشنی میں اب دوبارہ سماعت کی جا رہی ہے
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی عدالت نے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار و دیگر ملزمان کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات ریفرنس میں عدالتی دائرہ اختیار پر فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔
سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر افضل قریشی کے علاوہ اسحاق ڈار کے وکیل قاضی مصباح اور دیگر وکلاء عدالت میں پیش ہوئے۔
قاضی مصباح ایڈوکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 22 نومبر 2022ء کو بری کرنے کی درخواست پر دلائل سنے گئے، احتساب عدالت نے اسحاق ڈار کو بری کرنے کی درخواست پر فیصلہ بھی سنایا تھا، اسحاق ڈار کے ریفرنس پر احتساب عدالت فیصلہ پہلے ہی کر چکی ہے۔
نیب پراسیکیوٹر افضل قریشی نے کہا کہ ابھی تو پراسیکیوٹر نے بتانا ہے کہ کیس کو چلانا بھی بنتا ہے یا نہیں، احتساب عدالت نے اپنا مائنڈ بتا دیا ہوا ہے، داخل دفتر کرنا ٹھیک تھا۔
عدالت نے کہا کہ کیا نئے قانون کا اس پر اطلاق ہوتا ہے؟ جس پر قاضی مصباح ایڈوکیٹ نے کہا کہ ریفرنس بند کرنے کے بجائے اسحاق ڈار کو بری کیا گیا تھا، پراسیکیوشن اسحاق ڈار کے خلاف ثبوت پیش کرنے پر ناکام رہی، سیکشن 9 اے فائیو کو بھی ختم کر دیا گیا، کیس سے تعلق ہی نہیں رہا، مکمل دلائل سننے کے بعد فیصلہ سنایا گیا۔
عدالت کے جج محمد بشیر نے کہا کہ ایک بار اور دلائل سن لیں گے، آپ کو تو دلائل یاد ہوں گے۔
قاضی مصباح ایڈوکیٹ نے کہا کہ ضرور، آپ کے سامنے دلائل دینے کے لیے ہی کھڑے ہیں، احتساب عدالت نے فیصلے میں تحریر کیا تفتیش کسی وجہ سے ٹھیک طرح سے نہیں ہوئی، عدالت کو بتانا چاہتے ہیں کہ تفتیش کا طریقہ کار کیا تھا، کوئی ایسا گواہ نہیں آیا جس پر تفتیشی افسر نے کہا ہو کہ اثاثہ جات سے متعلق دستاویزات غلط ہیں، جے آئی ٹی اور نہ ہی تفتیشی افسر کوئی ثبوت اسحاق ڈار کے خلاف لایا، تفتیشی افسر نے جو ثبوت اکٹھے کرنے چاہیے تھے، نہیں کیے۔
وکیل صفائی قاضی مصباح نے احتساب عدالتوں کے دیگر اثاثہ جات سے متعلق فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اپنی اتھارٹی کا ناجائز فائدہ اٹھانے کا الزام تو اسحاق ڈار پر ہے ہی نہیں، اسحاق ڈار پر الزام صرف بطور پبلک آفس ہولڈر اثاثہ جات میں اضافے کا ہے، پاکستان میں ٹیکس دیکھنے والے ادارے کے مطابق اسحاق ڈار کے خلاف کوئی ثبوت نہیں، 2002 سے 2008 تک اسحاق ڈار نے عرب امارات میں کام کیا۔ اسحاق ڈار نے الیکشن کمیشن میں گوشواروں میں سب کچھ ڈیکلیئر کیا ہے، اسحاق ڈار کے کوئی خفیہ اثاثے تفتیشی افسر، جے آئی ٹی کو نہیں ملے، اسحاق ڈار نے اپنی بیرونِ ملک کی آمدن بھی الیکشن کمیشن میں ظاہر کی، تفتیشی افسر اور جے آئی ٹی نے اسحاق ڈار کے معاملے پر بددیانتی کی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ اسحاق ڈار نے اثاثہ جات میں شمار کیا، آمدن میں ظاہر نہیں کیا؟ جس پر وکیل صفائی نے کہا کہ تفتیشی افسر، جے آئی ٹی نے تسلیم کیا کہ اسحاق ڈار نے آمدن میں بھی ظاہر کیا، تفتیشی افسر نے لکھا کہ ہجویری ٹرسٹ و آرگنائزیشن کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں لیا، ہجویری ٹرسٹ و آرگنائزیشن کا تعلق اسحاق ڈار سے نہیں، جے آئی ٹی شریکِ ملزمان کے بیان پر کیسے ثبوت ریکارڈ کرسکتی ہے،اسحاق ڈار کے خلاف مکمل کیس فوٹوکاپیوں پر بنایاگیا،واضح ثبوت موجود نہیں، شریک ملزمان کے ثبوتوں پر کیس بنایاہواتھا، جب دورانِ ٹرائل پوچھاگیاتو تفتیشی افسر نے بتایا کہ مجھے صرف ریفرنس فائل کرنے کاکہاتھا، اسحاق ڈار پر اثاثہ جات چھپانے اور ٹیکس نہ دینے کا الزام ہے، ایسا تو کچھ کیاہی نہیں،
دوران سماعت شریک ملزم کے وکیل کی جانب سے بھی زائد اثاثہ جات سے متعلق ریفرنس پر لگائے گئے الزامات پر دلائل دیے گئےاور کہا گیا کہ کوئی ریکارڈ پر ثبوت ہمارے خلاف نہیں، اسحاق ڈار نے جو ریکارڈ دیا اسی پر کیس بنایا گیا، اسحاق ڈار نے جو ریکارڈ جمع کروایا، اسی پر جے آئی ٹی اور تفتیشی افسر نے تفتیش کی، تفتیشی افسر، جے آئی ٹی اپنی طرف سے کوئی ثبوت سامنے نہیں لائے۔
ڈونیشن کے حوالے سے پراسیکیوشن نے کہا کہ ریکارڈ بلکل درست ہے، اسحاق ڈار و دیگر کے خلاف ریفرنس میں کچھ ہے ہی نہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا نیب پراسیکیوٹر جواب الجواب میں کچھ کہنا چاہیں گے، جسپر نیب پراسیکیوٹر افضل قریشی نے کہا کہ سپریم کورٹ فیصلے میں احتساب عدالت کو ڈائریکشن دی ہے کہ کیسز کو دوبارہ دیکھا جائے، کسی عدالت کی طرف سے مزید تحقیقات کرنے کی کوئی ڈائریکشن بھی نہیں، سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو مزید کیس کو جانچنے کی ڈائریکشن دی ہے۔
وکیل صفائی قاضی مصباح نے کہا کہ اگر نیب والے کوئی نئے ثبوت لے کر آتے ہیں تو دلائل دے سکتے ہیں، جب اسحاق ڈار کی درخواستِ بریت دائر کی تب تک نیب پراسیکیوٹر اپنا ثبوت بند کر چکے تھے۔
عدالت نے کہا کہ نیب کہتی ہے اسحاق ڈار کے خلاف کوئی ثبوت نہیں، فریقین کے دلائل مکمل ہونے ہونے پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت21 اکتوبر تک کے لیے ملتوی کر دی۔
یاد رہے کہ احتساب عدالت نے اس سے قبل اسحاق ڈار کے خلاف مذکورہ ریفرنس داخل دفتر کر دیا تھا اور سپریم کورٹ فیصلے کی روشنی میں اب دوبارہ سماعت کی جا رہی ہے۔
سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر افضل قریشی کے علاوہ اسحاق ڈار کے وکیل قاضی مصباح اور دیگر وکلاء عدالت میں پیش ہوئے۔
قاضی مصباح ایڈوکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 22 نومبر 2022ء کو بری کرنے کی درخواست پر دلائل سنے گئے، احتساب عدالت نے اسحاق ڈار کو بری کرنے کی درخواست پر فیصلہ بھی سنایا تھا، اسحاق ڈار کے ریفرنس پر احتساب عدالت فیصلہ پہلے ہی کر چکی ہے۔
نیب پراسیکیوٹر افضل قریشی نے کہا کہ ابھی تو پراسیکیوٹر نے بتانا ہے کہ کیس کو چلانا بھی بنتا ہے یا نہیں، احتساب عدالت نے اپنا مائنڈ بتا دیا ہوا ہے، داخل دفتر کرنا ٹھیک تھا۔
عدالت نے کہا کہ کیا نئے قانون کا اس پر اطلاق ہوتا ہے؟ جس پر قاضی مصباح ایڈوکیٹ نے کہا کہ ریفرنس بند کرنے کے بجائے اسحاق ڈار کو بری کیا گیا تھا، پراسیکیوشن اسحاق ڈار کے خلاف ثبوت پیش کرنے پر ناکام رہی، سیکشن 9 اے فائیو کو بھی ختم کر دیا گیا، کیس سے تعلق ہی نہیں رہا، مکمل دلائل سننے کے بعد فیصلہ سنایا گیا۔
عدالت کے جج محمد بشیر نے کہا کہ ایک بار اور دلائل سن لیں گے، آپ کو تو دلائل یاد ہوں گے۔
قاضی مصباح ایڈوکیٹ نے کہا کہ ضرور، آپ کے سامنے دلائل دینے کے لیے ہی کھڑے ہیں، احتساب عدالت نے فیصلے میں تحریر کیا تفتیش کسی وجہ سے ٹھیک طرح سے نہیں ہوئی، عدالت کو بتانا چاہتے ہیں کہ تفتیش کا طریقہ کار کیا تھا، کوئی ایسا گواہ نہیں آیا جس پر تفتیشی افسر نے کہا ہو کہ اثاثہ جات سے متعلق دستاویزات غلط ہیں، جے آئی ٹی اور نہ ہی تفتیشی افسر کوئی ثبوت اسحاق ڈار کے خلاف لایا، تفتیشی افسر نے جو ثبوت اکٹھے کرنے چاہیے تھے، نہیں کیے۔
وکیل صفائی قاضی مصباح نے احتساب عدالتوں کے دیگر اثاثہ جات سے متعلق فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اپنی اتھارٹی کا ناجائز فائدہ اٹھانے کا الزام تو اسحاق ڈار پر ہے ہی نہیں، اسحاق ڈار پر الزام صرف بطور پبلک آفس ہولڈر اثاثہ جات میں اضافے کا ہے، پاکستان میں ٹیکس دیکھنے والے ادارے کے مطابق اسحاق ڈار کے خلاف کوئی ثبوت نہیں، 2002 سے 2008 تک اسحاق ڈار نے عرب امارات میں کام کیا۔ اسحاق ڈار نے الیکشن کمیشن میں گوشواروں میں سب کچھ ڈیکلیئر کیا ہے، اسحاق ڈار کے کوئی خفیہ اثاثے تفتیشی افسر، جے آئی ٹی کو نہیں ملے، اسحاق ڈار نے اپنی بیرونِ ملک کی آمدن بھی الیکشن کمیشن میں ظاہر کی، تفتیشی افسر اور جے آئی ٹی نے اسحاق ڈار کے معاملے پر بددیانتی کی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ اسحاق ڈار نے اثاثہ جات میں شمار کیا، آمدن میں ظاہر نہیں کیا؟ جس پر وکیل صفائی نے کہا کہ تفتیشی افسر، جے آئی ٹی نے تسلیم کیا کہ اسحاق ڈار نے آمدن میں بھی ظاہر کیا، تفتیشی افسر نے لکھا کہ ہجویری ٹرسٹ و آرگنائزیشن کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں لیا، ہجویری ٹرسٹ و آرگنائزیشن کا تعلق اسحاق ڈار سے نہیں، جے آئی ٹی شریکِ ملزمان کے بیان پر کیسے ثبوت ریکارڈ کرسکتی ہے،اسحاق ڈار کے خلاف مکمل کیس فوٹوکاپیوں پر بنایاگیا،واضح ثبوت موجود نہیں، شریک ملزمان کے ثبوتوں پر کیس بنایاہواتھا، جب دورانِ ٹرائل پوچھاگیاتو تفتیشی افسر نے بتایا کہ مجھے صرف ریفرنس فائل کرنے کاکہاتھا، اسحاق ڈار پر اثاثہ جات چھپانے اور ٹیکس نہ دینے کا الزام ہے، ایسا تو کچھ کیاہی نہیں،
دوران سماعت شریک ملزم کے وکیل کی جانب سے بھی زائد اثاثہ جات سے متعلق ریفرنس پر لگائے گئے الزامات پر دلائل دیے گئےاور کہا گیا کہ کوئی ریکارڈ پر ثبوت ہمارے خلاف نہیں، اسحاق ڈار نے جو ریکارڈ دیا اسی پر کیس بنایا گیا، اسحاق ڈار نے جو ریکارڈ جمع کروایا، اسی پر جے آئی ٹی اور تفتیشی افسر نے تفتیش کی، تفتیشی افسر، جے آئی ٹی اپنی طرف سے کوئی ثبوت سامنے نہیں لائے۔
ڈونیشن کے حوالے سے پراسیکیوشن نے کہا کہ ریکارڈ بلکل درست ہے، اسحاق ڈار و دیگر کے خلاف ریفرنس میں کچھ ہے ہی نہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا نیب پراسیکیوٹر جواب الجواب میں کچھ کہنا چاہیں گے، جسپر نیب پراسیکیوٹر افضل قریشی نے کہا کہ سپریم کورٹ فیصلے میں احتساب عدالت کو ڈائریکشن دی ہے کہ کیسز کو دوبارہ دیکھا جائے، کسی عدالت کی طرف سے مزید تحقیقات کرنے کی کوئی ڈائریکشن بھی نہیں، سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو مزید کیس کو جانچنے کی ڈائریکشن دی ہے۔
وکیل صفائی قاضی مصباح نے کہا کہ اگر نیب والے کوئی نئے ثبوت لے کر آتے ہیں تو دلائل دے سکتے ہیں، جب اسحاق ڈار کی درخواستِ بریت دائر کی تب تک نیب پراسیکیوٹر اپنا ثبوت بند کر چکے تھے۔
عدالت نے کہا کہ نیب کہتی ہے اسحاق ڈار کے خلاف کوئی ثبوت نہیں، فریقین کے دلائل مکمل ہونے ہونے پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت21 اکتوبر تک کے لیے ملتوی کر دی۔
یاد رہے کہ احتساب عدالت نے اس سے قبل اسحاق ڈار کے خلاف مذکورہ ریفرنس داخل دفتر کر دیا تھا اور سپریم کورٹ فیصلے کی روشنی میں اب دوبارہ سماعت کی جا رہی ہے۔