غزہ کا انسانی المیہ
فلسطین کی تحریک آزادی پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہونے کا احتمال ہے کہ جس کا فی الحال اندازہ لگانا بھی مشکل ہے
روس کی طرف سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی میں ''انسانی بنیادوں پر جنگ بندی '' کا مطالبہ کرنے سے متعلق قرارداد پر ماسکو 15رکنی کونسل میں کم از کم مطلوبہ نو ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔
روس کے مندوب نے سلامتی کونسل کو ''مغربی دنیا کی خود غرضی کا یرغمال'' قرار دیا۔ ادھر امریکی وزیر خارجہ کا دورہ مشرق وسطیٰ ناکام ہوگیا ہے۔
سعودی عرب، مصر اور اردنی حکام نے امریکی مطالبہ مسترد کر دیا۔ دوسری جانب ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ اگر امداد نہ پہنچی تو چوبیس گھنٹے میں انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔
اسرائیل حماس کے ساتھ ثالثی کی کوششوں کو مسترد کرچکا ہے ، امریکا اور مغربی یورپ مکمل طور پر اسرائیل کی حمایت میں سامنے آ چکا ہے ، جرمنی اور آسٹریا نے فلسطینیوں کی امداد روک دی ہے جس کے سبب ایک ملین بچوں کی زندگیاں متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
یہ امداد فلسطینیوں کی خوراک خاص طور پر بچوں پر خرچ کی جاتی تھی۔ اِس وقت فلسطینی علاقوں میں21 لاکھ افراد کو امداد کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے غزہ کے مکمل محاصرے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں بجلی، ایندھن اور کھانا بند ہونے سے صورتحال مزید سنگین ہو جائے گی۔
انھوں نے کہا ہے کہ بے یارو مددگار فلسطینیوں کے لیے انسانی امداد نہ روکی جائے۔ یورپی یونین نے بھی فلسطینیوں کے لیے اعلان کردہ 72کروڑ 80لاکھ ڈالر کی امداد بند کردی ہے ۔ یورپی کمیشن کی جانب سے امداد روکے جانے پر آئر لینڈ نے اعتراض اٹھایا اور اِس کا قانونی جواز بھی مانگ لیا ہے۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے کہہ دیا ہے کہ امریکا، اسرائیل کی مکمل حمایت کرتا ہے، اس حوالے سے کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے، امریکا یہودیوں اور اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے اور اس کی دفاعی ضروریات کو یقینی بنائے گا۔ یہ امریکا کی پرانی پالیسی ہے جس پر وہ کئی دہائیوں سے قائم چلا آ رہا ہے۔ امریکا نے ہمیشہ فلسطینیوں پر مظالم کی حمایت کی ہے۔
اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے جو فلسطینیوں کی سرزمین پر قبضہ کر کے بنائی گئی ہے۔ اب تک اسرائیلی سیکیورٹی ادارے ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کر چکا ہے اور اُن کے لیے زندگی ایک عذاب بن کر رہ گئی ہے۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے کوئی نئی بات نہیں کی۔ ہر امریکی صدر یہی زبان بولتا رہا ہے، مشرق وسطیٰ کے لیے امریکا کی پالیسی اسرائیل کی حمایت کے پر استوار ہے۔ یہ بات کوئی راز نہیں کہ ہر امریکی صدر مشرق وسطیٰ کے تناظر میں اسرائیل کی حمایت کرتا ہے۔
اس لیے صدر جوبائیڈن نے بھی روایتی پالیسی پر عمل کیا ہے ۔ ساری دنیا کو معلوم ہے کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں منی امریکا ہے۔
امریکا کی ساری خارجہ پالیسی اسی نکتے کے گرد گھومتی ہے کہ اسرائیل کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں اپنے مفادات کا تحفظ کیسے کرنا ہے۔ عراق، شام، یمن خود تباہ حال ہیں، ایران کی معیشت بھی دگرگوں ہے، کئی مسلم ممالک اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرچکے ہیں اور کئی کچھ شرائط کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے تیار ہیں اور وہ حماس کی حمایت نہیں کرتے۔
یہی وجہ ہے کہ کئی مسلم ممالک کا ردعمل بھی کمزور ہے ، صرف ایران کھل کر حماس کی کارروائیوں کی حمایت کررہا ہے یا پھر لبنان کی تنظیم حزب اﷲ اورشام کھل کر اسرائیل کی مخالفت کررہے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی بھی حماس کی حامی نہیں ہے، فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس اپنے طور پر سرگرم ہیں۔ بہرحال غزہ کی صورتحال پر سب کو تشویش ہے۔
فلسطین کی تحریک آزادی پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہونے کا احتمال ہے کہ جس کا فی الحال اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ بیشتر اسلامی ممالک نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ فلسطین کی تحریک آزادی کی حمایت کی ہے اور اب بھی کررہا ہے ۔
ایسے میں مشرق وسطیٰ کے وہ ممالک جن کے بغیر مشرق وسطیٰ، مشرق وسطیٰ نہیں اور جو ملک کسی مصنوعی ایجاد یا بندوبست کا شاخسانہ نہیں ہے۔
وہ اپنے علاقائی مفادات، سلامتی، معاشی استحکام اور سیاسی بنت کو ماضی کے برسوں میں ہی کیوں فریز کیے رکھیں گے۔ اس امر کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ غزہ کے باسیوں کے غزہ سے جبری انخلا کی اسرائیلی مہم کو خطے کے ملک اپنے جغرافیائی نظم کے لیے نئے چیلنجوں کے طور پر دیکھیں۔
فلسطینیوں کے اس ممکنہ جبری انخلا کو اسرائیل کی مستقبل کی سرحدی چھیڑ چھاڑ اور جنگی حربوں کے حوالے سے سوچنا شروع کر دیں کہ کل کلاں اسرائیل جبری طور پر نکالے گئے ان فلسطینیوں کا پیچھا کرتے ہوئے کہاں تک پہنچنے اور مارنے کی کوشش کر سکتا ہے، جس سے اسرائیل کے ہمسایہ ملکوں کا امن و استحکام اور معاشی ترقی کا پہیہ کس حد تک متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہو سکتا ہے۔
اسرائیل کا مجوزہ جغرافیہ اور سرحدیں تو پہلے ہی ہر ایک کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ اسرائیل بھی اہل غزہ کو بنا سوچے سمجھے غزہ کے جنوب میں صحرائے سینا کی طرف دھکیل نہیں رہا، اسی صحرائے سینا میں بنی اسرائیل 40 سال تک بھٹک بھٹک کر خوار ہوتے رہے تھے۔
لگتا یہ ہے کہ خود امریکی انتظامیہ یہ چاہتی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں یہ تنازعہ جاری ہے۔ اس کے دو مقاصد ہو سکتے ہیں مشرق وسطیٰ میں اسلامی ممالک پر دباؤ اور دوسرا خود امریکا میں موجود یہودی لابی کو اپنے زیر اثر رکھنا، تاکہ وہ اسرائیل کی وجہ سے امریکی سیاست میں اپنے کردار کے لیے، دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے محتاج رہیں۔
اُن کے لیے فنڈنگ کرتے رہیں اور اس مسئلے میں اُلجھ کر کسی دوسری طرف نہ دیکھیں۔ امریکی صدر جوبائیڈن کو یہودیوں کے مرنے کا اتنا ہی خیال ہے تو وہ آگے بڑھیں اور مشرق وسطیٰ ہی نہیں پوری دنیا کے امن کو خطرے میں ڈالنے والے اس دیرینہ تنازعہ کو برابری کی بنیاد پر حل کرنے کی کوششوں کو آغاز کریں۔
دنیا بھر کے غیر جانبدار مبصرین اس حقیقت کو مانتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں امن صرف اُسی صورت میں آ سکتا ہے جب دو ریاستی فارمولا نافذ کیا جائے۔ اسرائیل ایک جارح ملک ہے، مگر اُسے تمام حقوق حاصل ہیں جب کہ فلسطینی اپنی ریاست کے لیے جدوجہد کرنے پر مجبور ہیں۔
ایسے میں اسلامی ممالک کو ایک آواز ہونا چاہیے۔ فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ امریکا اور یورپی ممالک اِس وقت اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر خاموش ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ جنگوں سے تباہی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا، ہتھیار اور طاقت کے سر پر برتری ثابت کرنے کی خواہش بربادی کا باعث بنتی ہے۔ ہر مسئلے کا حل مذاکرات کی میز پر ہی نکلتا ہے۔ عالمی قوتوں کو اندھا دھند اسرائیل کا ساتھ دینے کے بجائے معاملے کی نزاکت کو سمجھنا چاہیے، اسرائیل کو روکنا چاہیے اور امن قائم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرنا چاہیے۔
فلسطین کا مقدمہ اب نیا رخ اختیار کر چکا ہے 'حماس جس پالیسی پر عمل پیرا ہے ' مسلم ممالک کی حکومتوں نے اس کی پذیرائی نہیں ہے ' مشرق وسطیٰ کی سیاست اور معیشت میں بھی نئی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ' مشرق وسطیٰ کے ممالک امریکا اور مغربی یورپی ممالک کے ساتھ اقتصادی اور معاشی بلاک میں شامل ہیں۔
اس لیے ان کی ترجیحات میں حماس پوری طرح فٹ نہیں آتی'ایران کی خارجہ پالیسی اسرائیل کی مخالفت پر استوار ہے 'انقلاب ایران کے بعد یہ پالیسی اختیار کی گئی ' شاہ ایران کے دورے حکومت میں اسرائیل مخالف خارجہ پالیسی نہیں تھی ' حزب اللہ بنیادی طورپر ایران کی حمایت یافتہ ہے 'یہی وجہ ہے کہ حزب اللہ غزہ میں حماس کی کارروائیوں کی حمایت کر رہی ہے حالانکہ دونوں گروپوں میں نظریاتی اختلافات انتہائی شدید ہیں۔
مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک جن میں اردن' متحدہ عرب امارات 'عمان' بحرین'قطر اور سعودی عرب شامل ہیں 'وہ فلسطین کی تحریک آزادی کے زبردست حامی ہیں تاہم حماس کے حوالے سے ان کا موقف الگ ہے 'امریکا اور مغربی یورپ کے ممالک کی حکومتوں کی پالیسی میں کوئی ابہام نہیں ہے 'وہ ماضی میں بھی اسرائیل کی حمایت اور مدد کرتے رہے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں ۔روس اور چین کا معاملہ مختلف ہے۔
دونوں ملک فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کی مذمت کر رہے ہیں لیکن اس کے لیے کوئی دو ٹوک اور عملی قدم اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں'روس اور چین اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر اپنے پتے کھیل رہے ہیں لیکن اس میں نقصان غزہ کے فلسطینیوں کا ہو رہا ہے۔
روس کے مندوب نے سلامتی کونسل کو ''مغربی دنیا کی خود غرضی کا یرغمال'' قرار دیا۔ ادھر امریکی وزیر خارجہ کا دورہ مشرق وسطیٰ ناکام ہوگیا ہے۔
سعودی عرب، مصر اور اردنی حکام نے امریکی مطالبہ مسترد کر دیا۔ دوسری جانب ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ اگر امداد نہ پہنچی تو چوبیس گھنٹے میں انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔
اسرائیل حماس کے ساتھ ثالثی کی کوششوں کو مسترد کرچکا ہے ، امریکا اور مغربی یورپ مکمل طور پر اسرائیل کی حمایت میں سامنے آ چکا ہے ، جرمنی اور آسٹریا نے فلسطینیوں کی امداد روک دی ہے جس کے سبب ایک ملین بچوں کی زندگیاں متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
یہ امداد فلسطینیوں کی خوراک خاص طور پر بچوں پر خرچ کی جاتی تھی۔ اِس وقت فلسطینی علاقوں میں21 لاکھ افراد کو امداد کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے غزہ کے مکمل محاصرے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں بجلی، ایندھن اور کھانا بند ہونے سے صورتحال مزید سنگین ہو جائے گی۔
انھوں نے کہا ہے کہ بے یارو مددگار فلسطینیوں کے لیے انسانی امداد نہ روکی جائے۔ یورپی یونین نے بھی فلسطینیوں کے لیے اعلان کردہ 72کروڑ 80لاکھ ڈالر کی امداد بند کردی ہے ۔ یورپی کمیشن کی جانب سے امداد روکے جانے پر آئر لینڈ نے اعتراض اٹھایا اور اِس کا قانونی جواز بھی مانگ لیا ہے۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے کہہ دیا ہے کہ امریکا، اسرائیل کی مکمل حمایت کرتا ہے، اس حوالے سے کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے، امریکا یہودیوں اور اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے اور اس کی دفاعی ضروریات کو یقینی بنائے گا۔ یہ امریکا کی پرانی پالیسی ہے جس پر وہ کئی دہائیوں سے قائم چلا آ رہا ہے۔ امریکا نے ہمیشہ فلسطینیوں پر مظالم کی حمایت کی ہے۔
اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے جو فلسطینیوں کی سرزمین پر قبضہ کر کے بنائی گئی ہے۔ اب تک اسرائیلی سیکیورٹی ادارے ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کر چکا ہے اور اُن کے لیے زندگی ایک عذاب بن کر رہ گئی ہے۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے کوئی نئی بات نہیں کی۔ ہر امریکی صدر یہی زبان بولتا رہا ہے، مشرق وسطیٰ کے لیے امریکا کی پالیسی اسرائیل کی حمایت کے پر استوار ہے۔ یہ بات کوئی راز نہیں کہ ہر امریکی صدر مشرق وسطیٰ کے تناظر میں اسرائیل کی حمایت کرتا ہے۔
اس لیے صدر جوبائیڈن نے بھی روایتی پالیسی پر عمل کیا ہے ۔ ساری دنیا کو معلوم ہے کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں منی امریکا ہے۔
امریکا کی ساری خارجہ پالیسی اسی نکتے کے گرد گھومتی ہے کہ اسرائیل کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں اپنے مفادات کا تحفظ کیسے کرنا ہے۔ عراق، شام، یمن خود تباہ حال ہیں، ایران کی معیشت بھی دگرگوں ہے، کئی مسلم ممالک اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرچکے ہیں اور کئی کچھ شرائط کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے تیار ہیں اور وہ حماس کی حمایت نہیں کرتے۔
یہی وجہ ہے کہ کئی مسلم ممالک کا ردعمل بھی کمزور ہے ، صرف ایران کھل کر حماس کی کارروائیوں کی حمایت کررہا ہے یا پھر لبنان کی تنظیم حزب اﷲ اورشام کھل کر اسرائیل کی مخالفت کررہے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی بھی حماس کی حامی نہیں ہے، فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس اپنے طور پر سرگرم ہیں۔ بہرحال غزہ کی صورتحال پر سب کو تشویش ہے۔
فلسطین کی تحریک آزادی پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہونے کا احتمال ہے کہ جس کا فی الحال اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ بیشتر اسلامی ممالک نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ فلسطین کی تحریک آزادی کی حمایت کی ہے اور اب بھی کررہا ہے ۔
ایسے میں مشرق وسطیٰ کے وہ ممالک جن کے بغیر مشرق وسطیٰ، مشرق وسطیٰ نہیں اور جو ملک کسی مصنوعی ایجاد یا بندوبست کا شاخسانہ نہیں ہے۔
وہ اپنے علاقائی مفادات، سلامتی، معاشی استحکام اور سیاسی بنت کو ماضی کے برسوں میں ہی کیوں فریز کیے رکھیں گے۔ اس امر کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ غزہ کے باسیوں کے غزہ سے جبری انخلا کی اسرائیلی مہم کو خطے کے ملک اپنے جغرافیائی نظم کے لیے نئے چیلنجوں کے طور پر دیکھیں۔
فلسطینیوں کے اس ممکنہ جبری انخلا کو اسرائیل کی مستقبل کی سرحدی چھیڑ چھاڑ اور جنگی حربوں کے حوالے سے سوچنا شروع کر دیں کہ کل کلاں اسرائیل جبری طور پر نکالے گئے ان فلسطینیوں کا پیچھا کرتے ہوئے کہاں تک پہنچنے اور مارنے کی کوشش کر سکتا ہے، جس سے اسرائیل کے ہمسایہ ملکوں کا امن و استحکام اور معاشی ترقی کا پہیہ کس حد تک متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہو سکتا ہے۔
اسرائیل کا مجوزہ جغرافیہ اور سرحدیں تو پہلے ہی ہر ایک کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ اسرائیل بھی اہل غزہ کو بنا سوچے سمجھے غزہ کے جنوب میں صحرائے سینا کی طرف دھکیل نہیں رہا، اسی صحرائے سینا میں بنی اسرائیل 40 سال تک بھٹک بھٹک کر خوار ہوتے رہے تھے۔
لگتا یہ ہے کہ خود امریکی انتظامیہ یہ چاہتی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں یہ تنازعہ جاری ہے۔ اس کے دو مقاصد ہو سکتے ہیں مشرق وسطیٰ میں اسلامی ممالک پر دباؤ اور دوسرا خود امریکا میں موجود یہودی لابی کو اپنے زیر اثر رکھنا، تاکہ وہ اسرائیل کی وجہ سے امریکی سیاست میں اپنے کردار کے لیے، دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے محتاج رہیں۔
اُن کے لیے فنڈنگ کرتے رہیں اور اس مسئلے میں اُلجھ کر کسی دوسری طرف نہ دیکھیں۔ امریکی صدر جوبائیڈن کو یہودیوں کے مرنے کا اتنا ہی خیال ہے تو وہ آگے بڑھیں اور مشرق وسطیٰ ہی نہیں پوری دنیا کے امن کو خطرے میں ڈالنے والے اس دیرینہ تنازعہ کو برابری کی بنیاد پر حل کرنے کی کوششوں کو آغاز کریں۔
دنیا بھر کے غیر جانبدار مبصرین اس حقیقت کو مانتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں امن صرف اُسی صورت میں آ سکتا ہے جب دو ریاستی فارمولا نافذ کیا جائے۔ اسرائیل ایک جارح ملک ہے، مگر اُسے تمام حقوق حاصل ہیں جب کہ فلسطینی اپنی ریاست کے لیے جدوجہد کرنے پر مجبور ہیں۔
ایسے میں اسلامی ممالک کو ایک آواز ہونا چاہیے۔ فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ امریکا اور یورپی ممالک اِس وقت اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر خاموش ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ جنگوں سے تباہی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا، ہتھیار اور طاقت کے سر پر برتری ثابت کرنے کی خواہش بربادی کا باعث بنتی ہے۔ ہر مسئلے کا حل مذاکرات کی میز پر ہی نکلتا ہے۔ عالمی قوتوں کو اندھا دھند اسرائیل کا ساتھ دینے کے بجائے معاملے کی نزاکت کو سمجھنا چاہیے، اسرائیل کو روکنا چاہیے اور امن قائم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرنا چاہیے۔
فلسطین کا مقدمہ اب نیا رخ اختیار کر چکا ہے 'حماس جس پالیسی پر عمل پیرا ہے ' مسلم ممالک کی حکومتوں نے اس کی پذیرائی نہیں ہے ' مشرق وسطیٰ کی سیاست اور معیشت میں بھی نئی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ' مشرق وسطیٰ کے ممالک امریکا اور مغربی یورپی ممالک کے ساتھ اقتصادی اور معاشی بلاک میں شامل ہیں۔
اس لیے ان کی ترجیحات میں حماس پوری طرح فٹ نہیں آتی'ایران کی خارجہ پالیسی اسرائیل کی مخالفت پر استوار ہے 'انقلاب ایران کے بعد یہ پالیسی اختیار کی گئی ' شاہ ایران کے دورے حکومت میں اسرائیل مخالف خارجہ پالیسی نہیں تھی ' حزب اللہ بنیادی طورپر ایران کی حمایت یافتہ ہے 'یہی وجہ ہے کہ حزب اللہ غزہ میں حماس کی کارروائیوں کی حمایت کر رہی ہے حالانکہ دونوں گروپوں میں نظریاتی اختلافات انتہائی شدید ہیں۔
مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک جن میں اردن' متحدہ عرب امارات 'عمان' بحرین'قطر اور سعودی عرب شامل ہیں 'وہ فلسطین کی تحریک آزادی کے زبردست حامی ہیں تاہم حماس کے حوالے سے ان کا موقف الگ ہے 'امریکا اور مغربی یورپ کے ممالک کی حکومتوں کی پالیسی میں کوئی ابہام نہیں ہے 'وہ ماضی میں بھی اسرائیل کی حمایت اور مدد کرتے رہے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں ۔روس اور چین کا معاملہ مختلف ہے۔
دونوں ملک فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کی مذمت کر رہے ہیں لیکن اس کے لیے کوئی دو ٹوک اور عملی قدم اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں'روس اور چین اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر اپنے پتے کھیل رہے ہیں لیکن اس میں نقصان غزہ کے فلسطینیوں کا ہو رہا ہے۔