ایک اعلان ایک تدبیر
اب یہ اعلان تو آپ نے سن لیا ہوگا کہ حکومت نے گیارہ لاکھ افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کافیصلہ کیاہے
لوگ حکومتوں کو لاکھ براکہیں ، عوام ان سے کتنے ہی شاکی کیوں نہ ہوں لیکن ان میں ایک خوبی بڑی زبردست ہے کہ ''اپنوں'' کابہت خیال رکھتی ہیں اوراس میں کسی حکومت کی تخصیص بھی نہیں، ہرقسم کی حکومت ہو سکتی ہے ، سلیکٹیڈ یا الیکٹیڈ، امپورٹڈ ہو یا ایکسپورٹڈ ہو ، خاندانی جمہوری ہو یاعوامی جمہوری ، نگران ہو یا دیگراں۔
اب یہ اعلان تو آپ نے سن لیا ہوگا کہ حکومت نے گیارہ لاکھ افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کافیصلہ کیاہے۔اب ہوگا کیا، محکمے اورادارے ''متحرک'' ہوجائیں گے ،اداروں کے کارکن یہاں وہاں پھیل کر افغان مہاجرین کو ڈھونڈیں گے اگر افغان مہاجر نہ بھی ملیں تو کوئی بات نہیں کسی کو بھی پکڑ کر نچوڑا جا سکتاہے ۔
ایک مرتبہ پہلے بھی ایسا ہوچکاہے، افغان مہاجرین کے ساتھ جو کچھ سرکاری ادارے اورلوگ کرتے رہے وہ تو اپنی جگہ ، جہاں کہیں بھی کوئی افغان مہاجر تھا، اس کے سرکاری اہل کاروں کے ساتھ معاملات تو '' قائد اعظم'' کے ذریعے طے پاگئے ، لیکن اہل کار تو اب کام پر لگ چکے تھے چنانچہ ایسے واقعے بھی ہونے لگے بلکہ ہمارے ایک سادہ لوح عزیز کے ساتھ بھی ہوا تھا وہ ایک سیدھا ساداکسان تھا، کسی کام پر پشاورگیا کہ پولیس والوں کے ہتھے چڑھ گیا۔
اس نے شناختی کارڈ دکھایا لیکن ''قانون'' نے کہا کہ کارڈ تو مہاجروں نے بھی بنائے ہوئے ہیں چلو تھانے میں ہم اس کارڈ کی نادرا سے تصدیق کروائیں گے اگر نادرا نے تصدیق کی تو چھوڑدیں گے۔
ظاہرہے تھانے جانے کامطلب حوالات میں بند ہونا تھا اورپھر نہ جانے نادرا سے تصدیق میں کتنا وقت لگے گا چنانچہ اس نے بھی نادرا کے بجائے قائد اعظم سے تصدیق کروانا بہتر سمجھا اورجن سادہ لوح دیہاتیوں کے پاس شناختی کارڈ نہ ہوتے وہ تو فوراً قائد اعظم کاسہارالے لیتے۔
وہ مشہور و معروف کہانی تو ہرکسی کو معلوم ہے جب ایک چور ایک مکان میں نقب لگاتے ہوئے شہید ہوگیا تھا اورمالک مکان پر مقدمہ چلاتھا۔ لیکن یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ آخر ایک چورکے مرنے پر اتنا بڑا مقدمہ کیسے قائم ہوا اور چلا۔ لوگ تو مرتے رہتے ہیں لیکن کہیں شنوائی نہیں ہوتی تو اس چور میں کیاسرخاب کے پرلگے تھے یاوہ کوئی وی آئی پی تھا کہ کئی روز مقدمہ چلتا رہا بہت سارے لوگ پکڑے گئے۔
ہوا یوں کہ اس چورکاخاندان جب سرکاری اداروں سے مایوس ہوگیا تو چوروں ڈاکوؤںاور لٹیروں کی تنظیم کے چیئرمین کے پاس اپنی فریاد لے کرگئے ، تنظیم کے چیئرمین نے ان کی فریاد کاسختی سے نوٹس لیا اورفوراً بادشاہ سلامت سے ملاقات کی بلکہ دھمکی دی کہ اگر اس مقدمے کو خصوصی طورپر نہیں لیاگیااور مرحوم چورکو سرکاری طورپر انصاف نہیں ملا تو میں فوراً اپنی برادری کو کام چھوڑ ہڑتال کی کال دے دوں گا اورجب سارے چور ڈاکو لٹیرے اسمگلر منشیات فروش یعنی تمام پیشہ ور ہڑتال کردیںگے توسرکاری محکمے ٹھپ ہوکر رہ جائیں گے کیوں کہ ان کی تنخواہیں تو مہنگائی کے اونٹ کے منہ میں زیرہ بھی نہیں اورسب کا کام ہمارے دم قدم سے چلتاہے ،ظاہرہے کہ سرکاری ادارے اوراہل کار حکومت کے درپے ہوجائیں گے ۔
بات بادشاہ سلامت کی سمجھ دانی میں آگئی کہ اگر ان لوگوں نے جو سرکاری اورقانون نافذ کرنے والوں کے ان داتا اورپالن ہار نے ہڑتال کردی تو ملک کاسارا نظام ٹھپ ہوکر رہ جائے گا چنانچہ اس نے سخت نوٹس لیتے ہوئے اس مقدمے کو ترجیحی بنیادوں پرچلانے کافرمان جاری کردیا اوریہی ایک اچھے سربراہ اور سربراہوں کی نشانی ہے کہ وہ اپنے اداروں اوراہل کاروں کاہردم خیال رکھے ۔
اب یہ اعلان تو آپ نے سن لیا ہوگا کہ حکومت نے گیارہ لاکھ افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کافیصلہ کیاہے۔اب ہوگا کیا، محکمے اورادارے ''متحرک'' ہوجائیں گے ،اداروں کے کارکن یہاں وہاں پھیل کر افغان مہاجرین کو ڈھونڈیں گے اگر افغان مہاجر نہ بھی ملیں تو کوئی بات نہیں کسی کو بھی پکڑ کر نچوڑا جا سکتاہے ۔
ایک مرتبہ پہلے بھی ایسا ہوچکاہے، افغان مہاجرین کے ساتھ جو کچھ سرکاری ادارے اورلوگ کرتے رہے وہ تو اپنی جگہ ، جہاں کہیں بھی کوئی افغان مہاجر تھا، اس کے سرکاری اہل کاروں کے ساتھ معاملات تو '' قائد اعظم'' کے ذریعے طے پاگئے ، لیکن اہل کار تو اب کام پر لگ چکے تھے چنانچہ ایسے واقعے بھی ہونے لگے بلکہ ہمارے ایک سادہ لوح عزیز کے ساتھ بھی ہوا تھا وہ ایک سیدھا ساداکسان تھا، کسی کام پر پشاورگیا کہ پولیس والوں کے ہتھے چڑھ گیا۔
اس نے شناختی کارڈ دکھایا لیکن ''قانون'' نے کہا کہ کارڈ تو مہاجروں نے بھی بنائے ہوئے ہیں چلو تھانے میں ہم اس کارڈ کی نادرا سے تصدیق کروائیں گے اگر نادرا نے تصدیق کی تو چھوڑدیں گے۔
ظاہرہے تھانے جانے کامطلب حوالات میں بند ہونا تھا اورپھر نہ جانے نادرا سے تصدیق میں کتنا وقت لگے گا چنانچہ اس نے بھی نادرا کے بجائے قائد اعظم سے تصدیق کروانا بہتر سمجھا اورجن سادہ لوح دیہاتیوں کے پاس شناختی کارڈ نہ ہوتے وہ تو فوراً قائد اعظم کاسہارالے لیتے۔
وہ مشہور و معروف کہانی تو ہرکسی کو معلوم ہے جب ایک چور ایک مکان میں نقب لگاتے ہوئے شہید ہوگیا تھا اورمالک مکان پر مقدمہ چلاتھا۔ لیکن یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ آخر ایک چورکے مرنے پر اتنا بڑا مقدمہ کیسے قائم ہوا اور چلا۔ لوگ تو مرتے رہتے ہیں لیکن کہیں شنوائی نہیں ہوتی تو اس چور میں کیاسرخاب کے پرلگے تھے یاوہ کوئی وی آئی پی تھا کہ کئی روز مقدمہ چلتا رہا بہت سارے لوگ پکڑے گئے۔
ہوا یوں کہ اس چورکاخاندان جب سرکاری اداروں سے مایوس ہوگیا تو چوروں ڈاکوؤںاور لٹیروں کی تنظیم کے چیئرمین کے پاس اپنی فریاد لے کرگئے ، تنظیم کے چیئرمین نے ان کی فریاد کاسختی سے نوٹس لیا اورفوراً بادشاہ سلامت سے ملاقات کی بلکہ دھمکی دی کہ اگر اس مقدمے کو خصوصی طورپر نہیں لیاگیااور مرحوم چورکو سرکاری طورپر انصاف نہیں ملا تو میں فوراً اپنی برادری کو کام چھوڑ ہڑتال کی کال دے دوں گا اورجب سارے چور ڈاکو لٹیرے اسمگلر منشیات فروش یعنی تمام پیشہ ور ہڑتال کردیںگے توسرکاری محکمے ٹھپ ہوکر رہ جائیں گے کیوں کہ ان کی تنخواہیں تو مہنگائی کے اونٹ کے منہ میں زیرہ بھی نہیں اورسب کا کام ہمارے دم قدم سے چلتاہے ،ظاہرہے کہ سرکاری ادارے اوراہل کار حکومت کے درپے ہوجائیں گے ۔
بات بادشاہ سلامت کی سمجھ دانی میں آگئی کہ اگر ان لوگوں نے جو سرکاری اورقانون نافذ کرنے والوں کے ان داتا اورپالن ہار نے ہڑتال کردی تو ملک کاسارا نظام ٹھپ ہوکر رہ جائے گا چنانچہ اس نے سخت نوٹس لیتے ہوئے اس مقدمے کو ترجیحی بنیادوں پرچلانے کافرمان جاری کردیا اوریہی ایک اچھے سربراہ اور سربراہوں کی نشانی ہے کہ وہ اپنے اداروں اوراہل کاروں کاہردم خیال رکھے ۔