چند اچھے لوگ
ہمارے معاشرہ اور سیاست میں اب صرف ہیجان رہ گیا ہے۔ آپ کو ہر جانب خود ساختہ ماہرین کے بیانات اور ٹی وی شوزنظرآئینگے
KARACHI:
ہمارے معاشرہ اور سیاست میں اب صرف ہیجان رہ گیا ہے۔ آپ کو ہر جانب خود ساختہ ماہرین کے بیانات اور ٹی۔ وی شوز نظر آئینگے جس میں وہ ایسے باتیں کرتے ہیں جس میں وہ جج، جیوری اور جلاد، سب کچھ خود نظر آئینگے۔ جذباتیت، اونچی آواز، دلیل کے بغیر گفتگو اور سطحی تجزیے، یہ وہ ملغوبہ ہے جو ہر طرف دیکھنے کو مل رہا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ میں قطعاً غلط ہوں! مگر مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہمارے اکثر اینکر پرسنز اور ان کے سامنے بیٹھے ہوئے مہمان، کسی تیاری کے بغیر آ جاتے ہیں۔ تجزیہ کی بنیاد صرف اور صرف سنجیدہ مطالعہ ہے۔ David Frost نے دنیائے صحافت کے بہترین انٹرویوز کیے تھے۔ آپ اس کی آواز کا اتار چڑھائو اور مہذب ہونے کا عنصر ملاحظہ فرمائیں۔ آپ اس کی تحقیق اور مطالعہ سے حیران رہ جائینگے۔ وہ اونچی آواز میں کبھی نہیں بولا۔ اس کا لباس اس کی سنجیدگی کے مطابق نظر آتا تھا۔ مگر ہم اپنے ٹی۔ وی ٹاک شوز اور ان کے اینکر پرسنز کے متعلق جتنی کم بات کریں، اتنا ہی بہتر ہے۔
اس جہالت کا شعوری نتیجہ ہیجان اور جذباتیت ہے کیونکہ اسے پیدا کرنے کے لیے صرف غیر سنجیدگی چاہیے مگر میںمایوس نہیں ہوں۔ ہر قوم ایسے مشکل وقت سے گزر کر آگے نکلی ہے۔ میں سیاست پر قطعاً لکھنا نہیں چاہتا حالانکہ میرے خاندان میں تقریباً چالیس سے پینتالیس برس سے صرف الیکشن اور سیاست در سیاست ہے۔ میں سیاست دانوں میں رہتا اور زندگی گزارتا ہوں۔ درون خانہ کئی داستانیں میرے سامنے رو پذیر ہوئی ہیں۔ مگر لکھنے کو جی نہیں کرتا۔ میں اپنے موضوع سے ہٹتا جا رہا ہوں۔
گوجرہ میں گورنمنٹ کالج کے ایک استاد مولوی غلام رسول صاحب تھے۔ بنیادی طور پر وہ اردو کے پروفیسر تھے۔ مگر عربی اور فارسی پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ 1988ء میں میرا ان سے پہلا تعارف ہوا۔ مجھے فارسی اور عربی سیکھنے کا شوق تھا۔ دوسری وجہ یہ کہ نئی نئی اردو غزل کہنا شروع کی تھی۔ میں مولوی صاحب سے اصلاح لیا کرتا تھا۔ مولوی صاحب خود شعر نہیں کہتے تھے یا یوں کہیے کہ بہت کم کہتے تھے مگر ان میں غزل موزوں کرنے کی خداداد صلاحیت موجود تھی۔مولوی غلام رسول اب اس دنیا میں نہیں، خدا انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔
میں گوجرہ اسسٹنٹ کمشنر کے طور پر دو سال تک رہا۔ اس فیلڈ پوسٹنگ میں میرا اصل موضوع "عام آدمی" ہی رہا۔ اور یہ موضوع آج بھی قائم ہے۔ میں علم و ادب سے تھوڑا سا ہٹ کر عرض کروں۔ صرف اس لیے، کہ آپ کو اندازہ ہو کہ پرانے افسر کس طرز کے تھے اور ان کی اکثریت کس طرح میرٹ پر چلنے کی بھر پور کوشش کرتی تھی۔ مجھے ایک دن دفتر میں فون آیا کہ وزیر اعلیٰ کے سیکریٹری فرید الدین احمد بات کرینگے۔ مجھے قطعاً اس عہدہ کی اہمیت کا علم نہیں تھا۔ آپریٹر نے فون ملایا۔
فرید صاحب نے میرا نام لے کر انتہائی شائستہ طریقہ سے میرا حال پوچھنا شروع کیا۔ پھر کہنے لگے کہ کل آپ صبح نو بجے لاہور میرے دفتر آ سکتے ہیں۔ مجھے ان کے دفتر کا علم نہیں تھا۔ انھوں نے بڑے تحمل سے 7 کلب روڈ کا راستہ سمجھایا۔ میں اگلے دن نو بجے ان کے دفتر پہنچ گیا۔ مجھے آج تک یاد ہے۔ فرید صاحب نے بغیر بازوئوں کا ایک خوبصورت سویٹر پہنا ہوا تھا۔ مجھے بٹھا کر کہنے لگے کہ ابھی تھوڑی دیر میں ایک وفاقی وزیر آئینگے۔ ان کا ایک ذاتی مسئلہ ہے۔ اور یہ کیس آپ کے والد کی عدالت میں ہے۔ میرے والد اس وقت سیشن جج تھے۔ فرید صاحب کہنے لگے، یہ کام آپ نے سن لینا ہے مگر آپ نے اپنے والد کو سفارش نہیں کرنی۔
میں نے جواباً کہا کہ سر میں اپنے والد کے سامنے کرسی پر بیٹھنے کی جرات نہیں کر سکتا، کام کہنا تو خیر میرے تصور سے ہی باہر ہے۔ اور بطور اسسٹنٹ کمشنر مجھے اپنے والد سے جوتے کھانے کا کوئی شوق نہیں۔ فرید صاحب نے بڑی خوبصورت بات کی۔ کہنے لگے میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ آپ وفاقی وزیر کی بات سن لینا، مگر سفارش ہر گز نہ کرنا۔ اور اگر اس وزیر نے وزیر اعلیٰ کو تمہاری شکایت کی تو میں سنبھال لونگا۔ خیر بالکل ایسے ہی ہوا۔ یہ وہ لوگ تھے جو سول سروس کی پہچان تھے۔ مجھ سے کسی نے بھی بعد میں کچھ نہیں پوچھا۔ فرید صاحب نے وزیر اعلیٰ سے خود بات کر لی تھی۔
اس وقت وزیر اعلیٰ میاں نواز شریف تھے۔ میں اس دور کے نواز شریف کو آج کے وزیر اعظم کے تناظر میں دیکھتا ہوں، تو حیرت ہوتی ہے کہ زمانہ لوگوں کو کس طرح تبدیل کرتا ہے۔ فرید الدین کافی عرصہ وزیر اعلیٰ کے سیکریٹری رہے۔ سیالکوٹ کے ایک ایم۔پی۔اے نے ان سے بد تمیزی کی تو وہ دفتر سے گھر آ گئے۔ نواز شریف کے والد، میاں شریف خود چل کر فرید صاحب کے گھر گئے مگر وہ دوبارہ اپنے دفتر نہیں گئے۔ انکو اپنی عزت اور قدر کا بہت خیال تھا۔ تھوڑے عرصے بعد انھوں نے استعفیٰ دے دیا۔
آج کی سول سروس میں ایسے لوگ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ آج تو افسر ہر اس سازش میں شریک ہوتے ہیں جن سے ان کے ساتھیوں کو تکلیف پہنچے۔ آپ غور کیجیے۔ آج کے اہم عہدوں پر فائز افسران میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے لوگوں کو بے عزت کرنا اور تکلیف پہنچانا۔ یہ اَمر اب پنجاب سے نکل کر وفاقی حکومت تک پہنچ چکا ہے۔ میری معلومات ہیں کہ وزیر اعظم کو اب اپنے ارد گرد کے افسروں کے منفی رویوں کے متعلق بہت کچھ پتہ چل چکا ہے، مگر وہ کسی مصلحت کی وجہ سے خاموش ہیں۔
خیر بات شعر و ادب سے شروع ہوئی اور سول سرو س کے ریگستان تک پہنچ گئی ہے۔ واپس اپنے موضوع پر آتا ہوں۔ بہاولپور کے کمشنر مرتضیٰ بیگ برلاس تھے۔ یہ1991-92ء کی بات ہے۔ جب میں اس شہر میں سرکاری پوسٹنگ پر پہنچا تو میں انکو بالکل نہیں جانتا تھا۔ میں ان کی شکل تک سے واقف نہیں تھا۔ مجھے یہ بھی علم نہیں تھا کہ وہ ایک سکہ بند شاعر ہیں۔ خیر آہستہ آہستہ جب مجھے برلاس صاحب کی شخصیت کے ادبی پہلوئوں کو جاننے کا موقعہ ملا۔ یہ میرے لیے ایک جہان حیرت تھا۔
میری دانست میں، برلاس صاحب کو سرکار کی نوکری کا سب سے بڑا نقصان یہ پہنچا کہ شعراء نے انکو سرکاری ملازم گردانا اور سرکاری بابوئوں نے انکو صرف شاعر سمجھا۔ خیر، برلاس صاحب، ایک بہترین شاعر تھے۔ مجھے ایسا کوئی مہینہ یاد نہیں جب انھوں نے بہاولپور میں کوئی خوبصورت اور یاد گار مشاعرہ منعقد نہ کروایا ہو۔ وہ دنیا جہان سے شاعروں کو ڈھونڈ نکالتے تھے۔ انکو بہالپور آنے کا زاد راہ مہیا کرتے تھے۔ ان کے رہنے کا انتظام کرتے تھے۔ اور پھر سرکٹ ہائوس میں مشاعروں کی نشست ہوا کرتی تھی۔
انھوں نے پاکستان کے ہر چھوٹے اور بڑے حصے سے نامور اور گمنام، یعنی ہر طرز کے شعراء کو دعوت دی۔ ان کی عزت کی اور ہر خاص و عام کو موقعہ دیا کہ وہ اچھے شاعروں کا کلام سن سکیں۔ ایک بار انھوں نے احمد پور شرقیہ میں ایک بین الاقوامی سطح کا مشاعرہ منعقد کیا۔ دہلی کے مشاعروں کی روایت کے مطابق نواب صلاح الدین سے اس کی صدارت کروائی۔ یہ نشست شام ڈھلے شروع ہو کر صبح تین بجے تک چلتی رہی۔ نواب صاحب اپنے روائتی لباس اور ترکی ٹوپی میں جم کر پوری رات بیٹھے رہے۔ پاکستان کا ہر شاعر تو موجود ہی تھا مگر امریکا، برطانیہ اور مشرق وسطیٰ تک سے مختلف شعراء مدعو کیے گئے تھے۔
ان مشاعروں کے علاوہ ہر ہفتے کوئی نہ کوئی شخصی نشست کا بھی اہتمام کیا جاتا تھا۔ ایک یا دو شاعروں کو بلا کر سرکٹ ہائوس میں ان سے کلام سننے کے علاوہ ہر صاحب محفل ان سے سوال و جواب کا ایک خوبصورت سلسلہ روا رکھتا تھا۔ یہ ایک نئی روایت تھی کہ حاضرین مجلس ان بڑے لوگوں سے ذاتی سطح پر گفتگو کریں اور ان سے غیر رسمی جوابات حاصل کریں۔ یہ ایک ایسی خوبصورت روایت تھی جسے برقرار رہنا چاہیے۔ میں نے احمد ندیم قاسمی، امجد اسلام امجد، منیر نیازی، سلیم کوثر، قتیل شفائی، فیضان عارف، نوشی گیلانی اور بے شمار بلند پایہ شعراء اکرام کو ان مشاعروں میں کئی بار سنا۔
ایک دفعہ کمشنر ہائوس میں ہندوستان سے آئے ہوئے ایک مزاحیہ شاعر کو سننے کا موقع ملا۔ میں ان کا نام بھو ل گیا ہوں۔ یقین کیجیے، ایک چھوٹی سے نشست میں مزاح اور قہقہوں کا ایک سیلاب تھا۔ کئی خواتین و حضرات تو ہنستے ہنستے بے حال ہوگئے۔ برلاس صاحب، لاہور میں گارڈن ٹائون میں ایک پانچ مرلے کے مکان میں رہتے ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کو وہ مقام اور قدر و منزلت نہیں ملی جو کہ ان کا جائز حق ہے۔
پتہ نہیں! میں ان لوگوں کے متعلق کیوں لکھ رہا ہوں! ان بڑے لوگوں کو یاد رکھنے کا وقت کسی کے پاس نہیں! یہ زمانے کی گرد میں گم ہو چکے ہیں یا قافلہ زیست میں گردش کا سفر مکمل کر رہے ہیں۔ جب میں اپنے اردگرد کے ماحول سے مایوس ہوتا ہوں، تو ان اور ان جیسے لوگوں کو یاد کرتا ہوں۔ پھر مجھے اپنے اردگرد توازن کا احساس ہوتا ہے۔ مجھے معاشرہ میں زندگی کی رمق بھی محسوس ہوتی ہے! یہ نفیس شخص ہی ہمارے بے ربط معاشرہ کا حسن ہیں۔ مگر یہ نایاب ہیرے اتنے کمیاب کیوں ہیں! یہ صرف گنتی کے افراد کیوں ہیں! ہو سکتا ہے ان کی تعداد بہت زیادہ ہو؟ مگر میری نظر سے تو گزرے ہیں صرف چند اچھے لوگ!
ہمارے معاشرہ اور سیاست میں اب صرف ہیجان رہ گیا ہے۔ آپ کو ہر جانب خود ساختہ ماہرین کے بیانات اور ٹی۔ وی شوز نظر آئینگے جس میں وہ ایسے باتیں کرتے ہیں جس میں وہ جج، جیوری اور جلاد، سب کچھ خود نظر آئینگے۔ جذباتیت، اونچی آواز، دلیل کے بغیر گفتگو اور سطحی تجزیے، یہ وہ ملغوبہ ہے جو ہر طرف دیکھنے کو مل رہا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ میں قطعاً غلط ہوں! مگر مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہمارے اکثر اینکر پرسنز اور ان کے سامنے بیٹھے ہوئے مہمان، کسی تیاری کے بغیر آ جاتے ہیں۔ تجزیہ کی بنیاد صرف اور صرف سنجیدہ مطالعہ ہے۔ David Frost نے دنیائے صحافت کے بہترین انٹرویوز کیے تھے۔ آپ اس کی آواز کا اتار چڑھائو اور مہذب ہونے کا عنصر ملاحظہ فرمائیں۔ آپ اس کی تحقیق اور مطالعہ سے حیران رہ جائینگے۔ وہ اونچی آواز میں کبھی نہیں بولا۔ اس کا لباس اس کی سنجیدگی کے مطابق نظر آتا تھا۔ مگر ہم اپنے ٹی۔ وی ٹاک شوز اور ان کے اینکر پرسنز کے متعلق جتنی کم بات کریں، اتنا ہی بہتر ہے۔
اس جہالت کا شعوری نتیجہ ہیجان اور جذباتیت ہے کیونکہ اسے پیدا کرنے کے لیے صرف غیر سنجیدگی چاہیے مگر میںمایوس نہیں ہوں۔ ہر قوم ایسے مشکل وقت سے گزر کر آگے نکلی ہے۔ میں سیاست پر قطعاً لکھنا نہیں چاہتا حالانکہ میرے خاندان میں تقریباً چالیس سے پینتالیس برس سے صرف الیکشن اور سیاست در سیاست ہے۔ میں سیاست دانوں میں رہتا اور زندگی گزارتا ہوں۔ درون خانہ کئی داستانیں میرے سامنے رو پذیر ہوئی ہیں۔ مگر لکھنے کو جی نہیں کرتا۔ میں اپنے موضوع سے ہٹتا جا رہا ہوں۔
گوجرہ میں گورنمنٹ کالج کے ایک استاد مولوی غلام رسول صاحب تھے۔ بنیادی طور پر وہ اردو کے پروفیسر تھے۔ مگر عربی اور فارسی پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ 1988ء میں میرا ان سے پہلا تعارف ہوا۔ مجھے فارسی اور عربی سیکھنے کا شوق تھا۔ دوسری وجہ یہ کہ نئی نئی اردو غزل کہنا شروع کی تھی۔ میں مولوی صاحب سے اصلاح لیا کرتا تھا۔ مولوی صاحب خود شعر نہیں کہتے تھے یا یوں کہیے کہ بہت کم کہتے تھے مگر ان میں غزل موزوں کرنے کی خداداد صلاحیت موجود تھی۔مولوی غلام رسول اب اس دنیا میں نہیں، خدا انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔
میں گوجرہ اسسٹنٹ کمشنر کے طور پر دو سال تک رہا۔ اس فیلڈ پوسٹنگ میں میرا اصل موضوع "عام آدمی" ہی رہا۔ اور یہ موضوع آج بھی قائم ہے۔ میں علم و ادب سے تھوڑا سا ہٹ کر عرض کروں۔ صرف اس لیے، کہ آپ کو اندازہ ہو کہ پرانے افسر کس طرز کے تھے اور ان کی اکثریت کس طرح میرٹ پر چلنے کی بھر پور کوشش کرتی تھی۔ مجھے ایک دن دفتر میں فون آیا کہ وزیر اعلیٰ کے سیکریٹری فرید الدین احمد بات کرینگے۔ مجھے قطعاً اس عہدہ کی اہمیت کا علم نہیں تھا۔ آپریٹر نے فون ملایا۔
فرید صاحب نے میرا نام لے کر انتہائی شائستہ طریقہ سے میرا حال پوچھنا شروع کیا۔ پھر کہنے لگے کہ کل آپ صبح نو بجے لاہور میرے دفتر آ سکتے ہیں۔ مجھے ان کے دفتر کا علم نہیں تھا۔ انھوں نے بڑے تحمل سے 7 کلب روڈ کا راستہ سمجھایا۔ میں اگلے دن نو بجے ان کے دفتر پہنچ گیا۔ مجھے آج تک یاد ہے۔ فرید صاحب نے بغیر بازوئوں کا ایک خوبصورت سویٹر پہنا ہوا تھا۔ مجھے بٹھا کر کہنے لگے کہ ابھی تھوڑی دیر میں ایک وفاقی وزیر آئینگے۔ ان کا ایک ذاتی مسئلہ ہے۔ اور یہ کیس آپ کے والد کی عدالت میں ہے۔ میرے والد اس وقت سیشن جج تھے۔ فرید صاحب کہنے لگے، یہ کام آپ نے سن لینا ہے مگر آپ نے اپنے والد کو سفارش نہیں کرنی۔
میں نے جواباً کہا کہ سر میں اپنے والد کے سامنے کرسی پر بیٹھنے کی جرات نہیں کر سکتا، کام کہنا تو خیر میرے تصور سے ہی باہر ہے۔ اور بطور اسسٹنٹ کمشنر مجھے اپنے والد سے جوتے کھانے کا کوئی شوق نہیں۔ فرید صاحب نے بڑی خوبصورت بات کی۔ کہنے لگے میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ آپ وفاقی وزیر کی بات سن لینا، مگر سفارش ہر گز نہ کرنا۔ اور اگر اس وزیر نے وزیر اعلیٰ کو تمہاری شکایت کی تو میں سنبھال لونگا۔ خیر بالکل ایسے ہی ہوا۔ یہ وہ لوگ تھے جو سول سروس کی پہچان تھے۔ مجھ سے کسی نے بھی بعد میں کچھ نہیں پوچھا۔ فرید صاحب نے وزیر اعلیٰ سے خود بات کر لی تھی۔
اس وقت وزیر اعلیٰ میاں نواز شریف تھے۔ میں اس دور کے نواز شریف کو آج کے وزیر اعظم کے تناظر میں دیکھتا ہوں، تو حیرت ہوتی ہے کہ زمانہ لوگوں کو کس طرح تبدیل کرتا ہے۔ فرید الدین کافی عرصہ وزیر اعلیٰ کے سیکریٹری رہے۔ سیالکوٹ کے ایک ایم۔پی۔اے نے ان سے بد تمیزی کی تو وہ دفتر سے گھر آ گئے۔ نواز شریف کے والد، میاں شریف خود چل کر فرید صاحب کے گھر گئے مگر وہ دوبارہ اپنے دفتر نہیں گئے۔ انکو اپنی عزت اور قدر کا بہت خیال تھا۔ تھوڑے عرصے بعد انھوں نے استعفیٰ دے دیا۔
آج کی سول سروس میں ایسے لوگ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ آج تو افسر ہر اس سازش میں شریک ہوتے ہیں جن سے ان کے ساتھیوں کو تکلیف پہنچے۔ آپ غور کیجیے۔ آج کے اہم عہدوں پر فائز افسران میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے لوگوں کو بے عزت کرنا اور تکلیف پہنچانا۔ یہ اَمر اب پنجاب سے نکل کر وفاقی حکومت تک پہنچ چکا ہے۔ میری معلومات ہیں کہ وزیر اعظم کو اب اپنے ارد گرد کے افسروں کے منفی رویوں کے متعلق بہت کچھ پتہ چل چکا ہے، مگر وہ کسی مصلحت کی وجہ سے خاموش ہیں۔
خیر بات شعر و ادب سے شروع ہوئی اور سول سرو س کے ریگستان تک پہنچ گئی ہے۔ واپس اپنے موضوع پر آتا ہوں۔ بہاولپور کے کمشنر مرتضیٰ بیگ برلاس تھے۔ یہ1991-92ء کی بات ہے۔ جب میں اس شہر میں سرکاری پوسٹنگ پر پہنچا تو میں انکو بالکل نہیں جانتا تھا۔ میں ان کی شکل تک سے واقف نہیں تھا۔ مجھے یہ بھی علم نہیں تھا کہ وہ ایک سکہ بند شاعر ہیں۔ خیر آہستہ آہستہ جب مجھے برلاس صاحب کی شخصیت کے ادبی پہلوئوں کو جاننے کا موقعہ ملا۔ یہ میرے لیے ایک جہان حیرت تھا۔
میری دانست میں، برلاس صاحب کو سرکار کی نوکری کا سب سے بڑا نقصان یہ پہنچا کہ شعراء نے انکو سرکاری ملازم گردانا اور سرکاری بابوئوں نے انکو صرف شاعر سمجھا۔ خیر، برلاس صاحب، ایک بہترین شاعر تھے۔ مجھے ایسا کوئی مہینہ یاد نہیں جب انھوں نے بہاولپور میں کوئی خوبصورت اور یاد گار مشاعرہ منعقد نہ کروایا ہو۔ وہ دنیا جہان سے شاعروں کو ڈھونڈ نکالتے تھے۔ انکو بہالپور آنے کا زاد راہ مہیا کرتے تھے۔ ان کے رہنے کا انتظام کرتے تھے۔ اور پھر سرکٹ ہائوس میں مشاعروں کی نشست ہوا کرتی تھی۔
انھوں نے پاکستان کے ہر چھوٹے اور بڑے حصے سے نامور اور گمنام، یعنی ہر طرز کے شعراء کو دعوت دی۔ ان کی عزت کی اور ہر خاص و عام کو موقعہ دیا کہ وہ اچھے شاعروں کا کلام سن سکیں۔ ایک بار انھوں نے احمد پور شرقیہ میں ایک بین الاقوامی سطح کا مشاعرہ منعقد کیا۔ دہلی کے مشاعروں کی روایت کے مطابق نواب صلاح الدین سے اس کی صدارت کروائی۔ یہ نشست شام ڈھلے شروع ہو کر صبح تین بجے تک چلتی رہی۔ نواب صاحب اپنے روائتی لباس اور ترکی ٹوپی میں جم کر پوری رات بیٹھے رہے۔ پاکستان کا ہر شاعر تو موجود ہی تھا مگر امریکا، برطانیہ اور مشرق وسطیٰ تک سے مختلف شعراء مدعو کیے گئے تھے۔
ان مشاعروں کے علاوہ ہر ہفتے کوئی نہ کوئی شخصی نشست کا بھی اہتمام کیا جاتا تھا۔ ایک یا دو شاعروں کو بلا کر سرکٹ ہائوس میں ان سے کلام سننے کے علاوہ ہر صاحب محفل ان سے سوال و جواب کا ایک خوبصورت سلسلہ روا رکھتا تھا۔ یہ ایک نئی روایت تھی کہ حاضرین مجلس ان بڑے لوگوں سے ذاتی سطح پر گفتگو کریں اور ان سے غیر رسمی جوابات حاصل کریں۔ یہ ایک ایسی خوبصورت روایت تھی جسے برقرار رہنا چاہیے۔ میں نے احمد ندیم قاسمی، امجد اسلام امجد، منیر نیازی، سلیم کوثر، قتیل شفائی، فیضان عارف، نوشی گیلانی اور بے شمار بلند پایہ شعراء اکرام کو ان مشاعروں میں کئی بار سنا۔
ایک دفعہ کمشنر ہائوس میں ہندوستان سے آئے ہوئے ایک مزاحیہ شاعر کو سننے کا موقع ملا۔ میں ان کا نام بھو ل گیا ہوں۔ یقین کیجیے، ایک چھوٹی سے نشست میں مزاح اور قہقہوں کا ایک سیلاب تھا۔ کئی خواتین و حضرات تو ہنستے ہنستے بے حال ہوگئے۔ برلاس صاحب، لاہور میں گارڈن ٹائون میں ایک پانچ مرلے کے مکان میں رہتے ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کو وہ مقام اور قدر و منزلت نہیں ملی جو کہ ان کا جائز حق ہے۔
پتہ نہیں! میں ان لوگوں کے متعلق کیوں لکھ رہا ہوں! ان بڑے لوگوں کو یاد رکھنے کا وقت کسی کے پاس نہیں! یہ زمانے کی گرد میں گم ہو چکے ہیں یا قافلہ زیست میں گردش کا سفر مکمل کر رہے ہیں۔ جب میں اپنے اردگرد کے ماحول سے مایوس ہوتا ہوں، تو ان اور ان جیسے لوگوں کو یاد کرتا ہوں۔ پھر مجھے اپنے اردگرد توازن کا احساس ہوتا ہے۔ مجھے معاشرہ میں زندگی کی رمق بھی محسوس ہوتی ہے! یہ نفیس شخص ہی ہمارے بے ربط معاشرہ کا حسن ہیں۔ مگر یہ نایاب ہیرے اتنے کمیاب کیوں ہیں! یہ صرف گنتی کے افراد کیوں ہیں! ہو سکتا ہے ان کی تعداد بہت زیادہ ہو؟ مگر میری نظر سے تو گزرے ہیں صرف چند اچھے لوگ!