خطے کی معیشت پر سامراجی حملے

جو ادارے سرکاری شعبے میں اربوں روپے ٹیکس ادا کیا کرتے تھے ملکی خزانہ اس سے بھی محروم ہوگیا

zb0322-2284142@gmail.com

ماضی میں جن اداروں کی نجکاری کی گئی، جن میں شوگر ملز، کھاد بنانے والی فیکٹریاں، گھی ملز اور سیمنٹ فیکٹریز وغیرہ خسارے میں نہیںجارہے تھے بلکہ ملک کو سالانہ سیکڑوں ارب روپے کما کر دے رہے تھے۔ ان اداروں کی نجکاری کی وجہ سے ملک اس خطیر رقم سے مستقل طور پر محروم ہوگیا اور اب 7 سو ارب روپے ملکی خزانے کے بجائے نجی مالکان کی جیبوں میں جمع ہورہے ہیں۔ یہ دعویٰ کہ نجکاری کا شکار کیے جانے والے اداروں کے مزدوروں کو نہیں نکالا جائے گا، بہت بڑا جھوٹ ثابت ہوا۔

ہر نجکاری کے بعد متعلقہ شعبے کی مصنوعات کو مہنگا کردیا گیا۔ جو ادارے سرکاری شعبے میں اربوں روپے ٹیکس ادا کیا کرتے تھے ملکی خزانہ اس سے بھی محروم ہوگیا۔ ملک کے اہم اداروں میں ایسے عناصر کو بھاری تنخواہوں اور مراعات دے کر کلیدی عہدوں پر پہنچادیا گیا، جس سے ان اداروںکا چہرہ داغ دار بنایا جاسکے اور ان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جا سکے۔ ابھی بھی آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کارپوریشن سالانہ اربوں روپے سرکار کو منافع کما کر دے رہا ہے، اس کے باوجود نجکاری کرنا، اداروں کو سامراجی جھولی میں ڈالنے کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے؟

افغانستان میںسامراجی ممالک قیمتی معدنیات کے ذخائر پر تسلط کے لیے ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں۔ امریکا کے ساتھ ساتھ ایران، چین اور ہندوستان کی ریاستیں بھی اس چال بازی اور پراکسی جنگ میں براہ راست ملوث ہیں۔ 13 جون 2010 کو نیویارک ٹائمز میں چھپنے والی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے مختلف علاقوں میں 1000 ارب ڈالر سے زائد مالیت کی معدنیات موجود ہیں۔ پینٹاگون کی ایک خفیہ رپورٹ کے مطابق افغانستان لیتھیم کا سعودی عرب ہے۔ لیتھیم جدید بیٹریوں میں استعمال ہونے والا معدنی عنصر ہے۔ اس کے علاوہ لوہے، تانبے، سونے اور کوبالٹ کے بھی ذخائر موجود ہیں۔ چین نے افغانستان کے صوبے لوگار میں واقع دنیا کے سب سے بڑے تانبے کے ذخائر میں آئناک پر 2008 سے 2010 تک 3.5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔

اس مقصد کے لیے وزیر معدنیات کو 30 ملین ڈالر کی رشوت دی گئی تھی تاہم اسکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد وزیر کو برطرف کردیا گیا۔ 2012 میں چین نے دریائے آمو کے پیندے میں کان کنی کرنے کے لیے حامد کرزئی اور جنرل رشید دوستم کو بھی اسی طرح نوازا۔ اس معاہدے کے بعد لاکھوں بیرل تیل اور گیس کے ذخائر ہتھے چڑھے ہیں۔ اپنے ملک میں خط غر بت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے 80 کروڑ افراد پر نظر ڈالنے کے بجائے ہندوستانی ریاست نے افغانستان کو 2 ارب ڈالر کی امداد دی ہے۔ افغانستان میں لوہے کی کان کنی پر ہندوستانی کمپنیاں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کررہی ہیں۔

اس بربادی اور خوں ریزی کا آغاز 3 جولائی 1979 کو امریکی سی آئی اے کے خفیہ آپریشن سائیکلون کے ساتھ ہوا تھا۔ سوشلسٹ انقلاب کے نتیجے میں قائم ہونے والی پی ڈی پی اے کی حکومت گرانے کے لیے امریکی سامراج خلیجی بادشاہتوں اور پاکستانی ریاست نے مجاہدین پیدا کیے۔ آج ان مجاہدین کے کئی دھڑے مختلف سامراجی قوتوں کے لیے خون ریزی کر رہے ہیں۔ افغانستان کے عوام اگر سامراج سے نفرت کرتے ہیں تو مذہبی انتہاپسندی سے بھی بیزار ہیں۔ افغانستان کے انتخابات دراصل سامراجی جکڑ کو جمہوری دستانہ پہنانے کی کو شش ہے۔


ہیومین رائٹس واچ کے مطابق افغان پارلیمنٹ کے 80 فیصد ممبران منشیات کے دھندے میں ملوث جنگی سردار ہیں۔ خواتین کے حقوق کی آواز بلند کرنے والی بے باک رکن پارلیمنٹ ملالائی جویا کے الفاظ میں افغان پارلیمنٹ ڈرامہ ہے۔ امریکی سامراج کے اپنے نمایندوں نے 2009 کے انتخابات کو دھاندلی کی انتہا قرار دیا تھا۔ حالیہ انتخابات کے بارے میں مشہور جریدہ اکنامسٹ لکھتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے سابقہ سربراہ کے مطابق افغانستان کا ہر انتخاب فراڈ ہوتا ہے۔ دنیا میں ہیروئن کی کل پیداوار کا 90 فیصد افغانستان میں پیدا ہوتا ہے۔

اس کاروبار پر زیادہ تر انتہا پسند اور ان کے حلیف جنگجو سرداروں کا قبضہ ہے۔ سامراج کی جمہوریت ہو یا طالبان کی وحشت، افغان عوام کی نمایندگی کہیں نہیں ہے۔ لیکن یہ سمجھنا کہ افغانستان کے عوام رجعتی قوتوں سے ہار مان بیٹھے ہیں، ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ سرمایہ داری اور جاگیرداری کو اکھاڑ دینے والا جنوبی ایشیا کا پہلا انقلاب اپریل 1978 میں افغانستان میں ہی ہوا تھا۔ پھر افغان عوام ایک بار انگڑائی لے کر اٹھیں گے اور سامراجی غلامی سے نجات حاصل کرکے اشتمالی سماج کی جانب پیش قدمی کریں گے۔

ادھر ایران پر عالمی سامراج اور اندرون ملک میں سرمایہ دار محنت کش عوام پر ٹوٹ پڑے ہیں۔ ایرانی محنت کشوں کے لیے تنخواہ میں 25 فیصد اضافے کا تحفہ دیا گیا۔ سپریم لیبر کونسل نے اس سال کے لیے کم سے کم تنخواہ 48 لاکھ 70 ہزار تمن سے بڑھا کر 60 لا کھ 90 ہزار تمن کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ ایران میں افراط زر سرکاری طور پر 40 فیصد ہے۔ مرکزی بینک کے مطابق غذائی اجناس، جو محنت کش گھرانوں کے اخراجات کا بہت بڑا حصہ ہے، کی قیمتوں میں 54 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سب سے بڑھ کر اعتدال پسند حکومت نے توانائی کی قیمتوں میں فوری اضافہ کردیا ہے۔

پانی کی قیمت میں 20 فیصد، بجلی 23 فیصد اور گھریلو استعمال کی قدرتی گیس کی قیمتوں میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ روحانی کے وعدوں میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ ملکی قوانین پر عمل پیرا ہوگا جن کی رو سے کم سے کم اجرت افراط زر کی شرح کے مطابق ہو۔ پچھلے سال احمدی نژاد کی حکومت نے کم سے کم اجرت میں 25 فیصد اضافہ کیا تھا جب کہ افراط زر کی شرح 30.5 فیصد تھی۔ اس فیصلے کے تھوڑے عرصے بعد مزدور رہنمائوں نے حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کیا اور مطالبہ کیا کہ دونوں چیزوں کی شرح کے درمیان فرق کی رقم کو ادا کیا جائے۔ مزدور رہنما علی اکبر عیوضی کے مطابق عدالت نے مزدوروں کے حق میں فیصلہ دیا لیکن نئی حکومت یہ رقم ادا کرنے سے کترا رہی ہے۔

یہ ہمارے لیے کوئی حیرت کی بات نہیںہے۔ حسن روحانی ایران کے سرمایہ دار طبقے کے نمایندہ ہیں، جن کے مفادات مزدوروں کے مفادات سے متصادم ہیں۔ ان اقدامات کو ہمیں روحانی کی ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم میں شرکت کے پس منظر میں دیکھنا چاہیے، جہاں انھوں نے عالمی اقتصادی طاقتوں سے ایران میں سرمایہ کاری کرنے کی استدعا کی۔ پاکستان ہو، افغانستان یا ایران، نجکاری، سامراجی کاسہ لیسی اور سرمایہ داری مسائل کا کوئی حل نہیں۔ اس خطے میں سرمایہ داری کا خاتمہ کرکے ایک امداد باہمی کا نظام قائم کرکے عوام کو ان کے دکھوں سے نجات دلائی جاسکتی ہے۔
Load Next Story