فلسطین اور ہماری منافقت
ماحول سہما سہما تھا، ہر طرف خاموشی اور مایوسی کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ لوگوں کو اس بات پر افسوس ہے کہ اسرائیل کے وحشیانہ ظلم سے 'فلسطینی' اپنی ہی سرزمین پر پرائے ہونے کے ساتھ ساتھ ظلم و زیادتی اور بربریت کا شکار ہورہے ہیں۔
ایسی صورتِ حال میں ٹی وی چینل گھماتے گھماتے ایک پروگرام پر نظر پڑی۔ ٹی وی کی آواز اونچی کرتے ہی پروگرام کی طرف نظر جمالی۔ پروگرام میں ایک میزبان اور اس کے ساتھ چار مہمان جن میں: ایک 'میڈیائی تجزیہ نگار'، ایک 'فیس بکی مؤرخ'، ایک 'فلمی مؤرخ' اور ایک مذہبی رہنما موجود تھے۔ پروگرام شروع ہوتا ہے۔
میزبان، میڈیائی تجزیہ نگار سے: سر !یہ بتائیے کہ اسرائیل فلسطین پر مسلسل ظلم و زیادتی کر رہا ہے، آخر یہ سلسلہ کب تک جاری رہےگا؟
میڈیائی تجزیہ نِگار (ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ): دیکھیے بات یہ ہے کہ اس وقت حماس کو حملہ نہیں کرنا چاہیے تھا، جنگ و جدل کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا۔ دیکھ لیجیے اس وقت اسرائیل نے آپ کا کیا حال کردیا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ صورتِ حال کا جائزہ لیجیے۔
میزبان: لیکن سر! غلط تو غلط ہے ناں؟
میڈیائی تجزیہ نگار: دیکھیے آپ سے میں نے عرض کیا ناں، کہ جنگ میں پہل آپ نے کی ہے تو اب تیار رہیے۔
میزبان، فیس بکی مؤرخ سے: سر! جیسا کہ ہمارے معزز میڈیائی تجزیہ نگار نے واضح کیا، اب تاریخی طور پر دیکھا جائے تو اسرائیلیوں نے یہاں پر پناہ لی تھی اور اب قابض ہوگئے ہیں، ذرا سوچیے کیا یہ زیادتی نہیں؟
فیس بکی مؤرخ: دیکھیں بات یہ ہے کہ میں نے ایک پوسٹ میں باقاعدہ تفصیل سے پڑھا تھا کہ یہ جگہ اصل میں فلسطینیوں کی تھی ہی نہیں، تو پھر اس پر ہم اپنا حق کیوں جتلا رہے ہیں؟ بلکہ کسی نے مجھے واٹس ایپ پر قرآنِ مجید کی ایک آیت شیئر کی تھی جس کا مفہوم یہ ہے (فیس بکی مؤرخ نے بنا سیاق و سباق بتاتے ہوئے آیت پڑھی) کہ 'اللہ نے یہ جگہ تمھارے لیے (اسرائیل) کےلیے لکھ دی ہے (المائدہ: ۲۱)'۔ اب اتنے حوالوں کے بعد بھی ہم دعویٰ کریں تو زیادتی کس طرف سے ہوگی؟
میزبان، سوچتے ہوئے: ج جی جی لیکن بات یہ ہے...
فیس بکی مؤرخ: بات کیا... آپ مانیں کہ یہ جگہ ہماری ہے ہی نہیں۔
میزبان: اچھا چلیے میں دوبارہ آپ کے پاس واپس آتا ہوں۔
میزبان، فلمی مؤرخ سے: سر !یہ بتائیے کہ آپ نے تو بہت کچھ پڑھا ہے، آپ ڈراموں اور فلموں کی تاریخ پر بڑی دسترس رکھتے ہیں، یہ بتائیے کہ اس طرح کے ظلم و ستم آپ نے فلموں میں بھی کہیں دیکھے ہیں؟
فلمی مؤرخ: دیکھیں ایک مشہور فلم ہے جس کا نام ہے Kingdom of Heaven ہے۔ اس فلم میں ایک منظر دکھایا گیا ہے کہ جب یروشلم مسلمانوں نے فتح کیا، تو اس وقت عیسائی کمانڈر ہتھیار ڈالتے ہوئے کہتا ہے کہ ''میرا دل کرتا ہے کہ میں یہ پتھر کی عمارتیں گرا دوں۔ تم ان پتھروں کے لیے ہی تو لڑ رہے ہو۔ کئی جنگیں تم نے لڑیں۔ ہزاروں انسان مارے گئے۔ صرف ان پتھروں سے بنی عمارتوں کے حصول کےلیے'' ان ڈائیلاگ سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں نے ماضی میں کوئی اچھے کام نہیں کیے، اب اصل میں 'عمل کا ردعمل' ہورہا ہے، تو ہم مسلمانوں کو بھی وہ وقت یاد کرنا چاہیے۔
میزبان، سر! سر! فی الفور کیا ہونا چاہیے؟
فلمی مؤرخ: دیکھیں ایک اور مشہور فلم تھی جس کا نام تھا...
میزبان: سر! بس بس، ہمارے معزز مذہبی رہنما بھی یہاں موجود ہیں، میں ان سے اس مسئلے کا تصفیہ پوچھتا ہوں۔
میزبان: حضرت! یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟
مذہبی رہنما: دیکھیے اسرائیل ایک ناسور ہے اور ناسور کا خاتمہ اس وقت ہوتا ہے جب یہ ناسور جڑ سے اکھاڑا جائے۔ ہم سب مسلمانوں کو یہاں پہنچ کر ان کفار کے ظلم سے آزادی لینی چاہیے۔ آپ کو یاد ہے کہ ان کے ساتھ 'ہٹلر' نے کیا کیا تھا؟
میزبان: جی حضرت! لیکن ہٹلر کا یہ عمل رسول اللہ کی سنت کے مطابق تھا؟
مولوی صاحب: بس یہی تو معاملہ آپ لوگوں کا کہ فوراً ہم دردیاں آجاتی ہیں، یہودی وہ بدنسل قوم ہے جس نے تمام انبیا کو ستایا۔ کیا آپ نے قرآن پڑھا (غصے سے)۔
ماحول میں خاموشی چھاگئی۔
میزبان: حضرت، کیا ہم انھیں ختم کردیں؟ یہ تو بہت طاقت ورہیں!
مولوی صاحب: دیکھیے اقبالؒ نے فرمایا تھا:
تھے ہمی ایک ترے معرکہ آراؤں میں
خشکیوں میں کبھی لڑتے، کبھی دریاؤں میں
دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں
شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہاںداروں کی
کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی
مولوی صاحب نے اشعار کے بعد گلا کھنکھارتے ہوئے فرمایا۔ 'اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ کو برباد کرے، آمین'۔
میزبان: ناظرین پروگرام کا وقت ختم ہوا، ان شاء اللہ کل پھر اسی وقت ملاقات ہوگی، تب تک کےلیے اجازت، اللہ حافظ۔
پروگرام ختم ہوا تو میں نے بیگم کو آواز دی۔
بیگم: جی کہیے؟
میں نے پوچھا: کھانے میں کیا پکا ہے؟
بیگم: آج تو کچھ بھی نہیں پکا۔
میں نے کہا: اوہو! چلو باہر 'میکڈونلڈز' چلتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔