بچوں کی ضروریات پوری کردینا ہی کافی نہیں
شریف باپ کے بیٹے کیسے سیریل کلرز بنے، ایک عبرت آموز کہانی
بچے وہ نوخیز پھول ہیں جو ذرا سی عدم توجہی سے کُمہلا سکتے ہیں، اُن کے ساتھ غفلت کا رویہ روا رکھا جائے تو عین ممکن ہے کہ کوئی ناقابل تلافی نقصان سرزد ہو جائے۔
بلاشبہ والدین کا کل اثاثہ بل کہ متاع حیات ان کی اولاد ہی ہوتی ہے، وہ اپنی طرف سے بچوں کی ضروریات پوری کرنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھتے لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ بچوں کی ضروریات پوری کر دینا ہی کافی نہیں، اس نکتے کو نظرانداز کر کے بعض اوقات وہ اپنے لیے زندگی کو سوہانِ روح بنا لیتے ہیں اور پھر بے بسی اور لاچاری کی تصویر بنے غم و اندوہ کی کیفیت ہی میں دنیا سے گذر جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک دل سوز واقعہ گجرات کے گائوں کمالہ چک کے رہائشی دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کے باپ55 سالہ ریٹائرڈ فوجی محمد یوسف کے ساتھ پیش آیا۔ محمد یوسف کی عمر کا بیش تر حصہ اپنی اولاد کی پرورش کرنے کے لیے نوکری کرتے گزرا لیکن جب اس کے آرام سے زندگی بسر کرنے کے دن آئے تو ایسے واقعات سے دوچار ہو گیا کہ زندگی اس کے لیے ازیت بن کر رہ گئی۔
ملازمت سے سبک دوشی کے بعد وہ بیٹی کے ساتھ عمر ہ کی ادائی کے لیے سعودی عرب روانہ ہو گیا اور اسی دوران اُس کے بڑے بیٹے بائیس سالہ عدنان قاسم نے ملحقہ مکان میں رہائش پذیر اپنے خالہ زاد عبدالفاروق کو معمولی سی توتکار پر قتل کر دیا اور چھٹے بھائی عبدالرحمٰن سمیت گرفتار ہو کر جیل بھیج دیا گیا تاہم عبدالرحمٰن بعد میں رہا ہو گیا۔ باپ آخر باپ ہوتا ہے، چاہتا تھا کہ بیٹے سے غلطی تو بہ ہرحال سرزد ہو چکی ہے لیکن اب وہ کسی طرح رہا ہو جائے۔ عدنان قاسم کی رہائی کے لیے برادری سے بات چلی تو پنچائیت نے محمد یوسف کو فیصلہ سنایا کہ وہ پندرہ سے بیس لاکھ روپے معاوضہ ادا کرے اور گائوں اور مکان چھوڑ دے۔
مرتا کیا نہ کرتا محمد یوسف نے بچوں کی بھلائی کے لیے دل پر پتھر رکھ کر چند ماہ قبل مطالبہ پورا کیا، گائوں کو خیرباد کہا اور بھمبر روڈ پر کرائے کے مکان میں اٹھ آیا لیکن بوڑھے باپ کی تقدیر میں ابھی آرام نہیں تھا۔ اُس کے بڑے بیٹے کی رہائی کے لیے سیشن کورٹ گجرات کے احاطے میں صلح کے لیے قانونی تقاضے پورے کیے ہی جا رہے تھے کہ جلالپورجٹاں سٹی تھانہ کے ایس ایچ او افتخار تارڑ کی ٹیم نے اُس کے دوسرے بیٹے انیس سالہ عبدالرحمٰن کو گارمنٹس کی دکان چلانے والے جواں سال مہر قیصر ندیم کے قتل کے الزام میں ڈرامائی انداز میں گرفتار کر لیا۔ مقتول جلالپورجٹاں انجمن تاجراں کے صدر میر فہیم اقبال کا برادرِ نسبتی تھا اور اسے3 مئی 2014 کو دن دیہاڑے قتل کیا گیا تھا۔
پہلے تو عبدالرحمٰن کو بچانے کے لیے اُس کی وکیل بہن نے گجرات بار کے سابق صدراور اپنے سینیئر کولیگ کی خدمات حاصل کر کے اُس کی عبوری ضمانت کروالی مگر پولیس نے ہاتھ آئے قاتل کو اپنے شکنجے سے نکلتا دیکھ کر سیشن کورٹ سے باہر آتے ہی اسے والد اور بہنوئی سمیت دبوچ لیا، جس پر وکلا کے وفد نے ملزم کے لواحقین کے ہم راہ ڈی پی او سے بھی ملاقات کر کے شکایت کی مگر ڈی پی او رائے اعجاز نے معاملہ کی نزاکت کو دیکھتے اور حالات سے آگاہی ہونے پر پولیس کا مخصوص انداز اپناتے ہوئے ان کے جذبات کو ٹھنڈا کر کے بھیج دیا۔
اُدھر جب دُبلے پتلے اور بہ ظاہر پڑھاکو نظر آنے والے عبدالرحمٰن سے پولیس نے تفتیش کی اور مقتول مہر قیصر کی دکان سے اُٹھائے گئے موبائل، اُس کے استعمال اور اُس کی فروخت کی رسید ملزم عبدالرحمٰن کے سامنے رکھی تو پولیس کے بہ قول مقتول کو اعتراف جرم کرتے ہی بنی کہ اُس نے بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر مقتول کوسر میں گولی مار کر قتل کیا تھا اور جائے وقوعہ سے اُس کا پرس اور دل موہ لینے والا موبائل بھی اُٹھا لیا تھا، جسے چند روز استعمال کرنے کے بعد اُس نے 5300 روپے میں ایک مقامی دکان دار کو فروخت کر دیا۔ 4 مئی کو اس نے یو بی ایل بینک میںاکائونٹ کھلوا کر رقم جمع کروائی، بنک میں اس کے علاوہ اُس نے 4500 روپے اضافی بھی جمع کروا دیے۔
ابھی اس کیس کی تفتیش جاری تھی کہ ڈی پی او رائے اعجاز نے 27 فروری 2014 کو محلہ فاروق آباد جلالپورجٹاںکے ا ندھے قتل کے حوالے سے تھانے جا کر ازخود ملزم سے روایتی انداز میں تفتیش کا آغاز کیا تو عبدالرحمٰن نے مظفر علی کو بھی سرکے دائیں اور بائیں کن پٹی پر گولیاں مار کر ہلاک کرنے کا اعتراف کیا۔ اس نے جائے وقوعہ کا تصویر ی نقشہ بھی کھینچا اور بتایا کہ وہ مظفر علی کو جانتا تک نہیں تھا مگر وقوعہ کی رات مظفر اُسے اپنے ڈرائنگ روم لے گیا، جہاں اُس نے اُسے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر بے فکری سے سو گیا تو اُس نے پہلے سے اپنے پاس موجود پستول سے فائر کرکے اُسے قتل کر دیا اور بھاگ نکلا۔
اس واردات میں اُسے کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ ابھی دو قتلوں کی تفتیش میں پولیس الجھی ہوئی تھی کہ عبدالرحمٰن نے بغیر کسی خوف و خطر کے اچانک ایس ایچ او کے سامنے 2 فروری 2013 کو اپنے ہی گائوں کمالہ چک کی مسجد عمر فاروق میں نو سال سے امامت کے فرائض انجام دینے والے تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کے باپ قاری جاوید اختر کو سفاکی سے قتل کرنے کا بھی انکشاف کیا۔ عبدالرحمٰن نے ایکسپریس کو بتایا کہ مقتول قاری جاوید اختر اس کا دینی اُستاد تھا وہ اہلِ خانہ کے اصرار پر کئی سال سے اُس سے درس لے رہا تھا تاہم اس نے بتایا کہ ان قتلوں کی وجوہات اور اُس کی زندگی کو تباہ کرنے والا اُس کا یہ ہی اُستاد تھا، جس نے اسے جنسی تشدد کا نشانہ بنائے رکھا اور اسے بلیک میل کرتا رہا۔ عبدالرحمٰن نے یہ حیرت انگیز انکشاف بھی کیا کہ مقتول اما م مسجد اُسے اپنے ساتھ نکاح کر لینے پر بھی آمادہ کرتا رہا۔
ملزم کے مطابق ایک دن اس کے ضمیر نے اسے بہت ملامت کیا تو اس کے پاس اس اذیت سے چھٹکارے کا اس کے پاس کوئی اور حل نہ تھا کہ جاوید اختر کو راستے سے ہٹا دے لہٰذا اس نے 5 ہزار روپے میں ایک پستول خریدا اور قاری کو ملحقہ گائوں جسو سرائے چلنے پر راضی کر لیا، اس گاؤں میں لا کر اس نے ایک مناسب مقام پر مقتول کو مثانے او ر سینے میں گولیاں مار کر ابدی نیند سلا دیا اور موٹر سائیکل پر گھرچلا آیا ''مجھے ذرہ بھر بھی خوف محسوس نہیں ہوا'' (واللہ اعلم بالصواب)۔ عبدالرحمٰن کا کہناہے کہ وہ اپنے کیے پر کسی صورت شرمند ہ نہیں کیوں کہ اسے انصاف ملتا نظر نہیں آرہا تھا۔ اب اگر گہرائی میں جاکر دیکھنے کی کوشش کی جائے تو لامحالہ کوئی نہ کوئی ایسی نفسیاتی کڑی مل سکتی ہے جس سے پتا چل سکتا ہے کہ والدین کی کس کوتاہی نے عبدالرحمٰن کو سیریل قاتل بننے پر مجبور کردیا۔
انسپکٹر افتخار تارڑ نے ایکسپریس کو بتایا کہ اگر عبدالرحمٰن کو گرفتار نہ کیا جاتا تو مزید جرائم بھی سرزد ہونے کا خدشہ تھا۔ قتل کی ان وارداتوں میں صرف ایک مقتول قاری جاوید ہی ایسا تھا جو شادی شدہ تھا جب کہ مقتول مہر قصیر ندیم اور مظفر انصاری غیر شادی شدہ تھے، ان میں سے مظفر بیرون ملک سے وطن واپس ایا تھا اور کچھ عرصہ بعد اس کی شادی ہونے والی تھی۔ ملزم عبدالرحمٰن نے جو شرٹ زیب تن کر رکھی ہے، اس پر ''دل تیرا وی کردا وے'' جیسے الفاظ تحریر ہیں جو اس کے مشکوک اخلاق کے غماز ہیں، اس کے علاوہ اس کے موبائل کا ڈیٹا نکلوانے پر معلوم ہوا کہ وہ اپنی ''تسکین'' کے لیے دوسروں کو شہوت بھرے میسیجز بھی بھیجتا رہا ہے، اس طرح جو شکار اُس میں پھنس جاتا بعد میں موت ہی اس کا انجام نکلتا۔ پولیس کے مطابق اس طرح کے اندھے قتل کے مزید کئی انکشافات کی توقع ہے۔
سیریل کلر عبدالرحمٰن کے قریبی حلقوں اور عزیزوں، دوستوں کا کہنا ہے کہ اُس نے نویں جماعت تک گورنمنٹ ہائی اسکول کمالہ چک سے تعلیم حاصل کی اور اب وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے زیر اہتمام امتحانات کی تیاری کر رہا تھا۔ چھے ماہ قبل اُسے ایک خاص طرح کے دورے بھی پڑتے رہے ہیں، علاج معالجے اور دم درود کے لیے اُس کی ضعیف والدہ اسے یہاں وہاں لے جاتی رہی۔ ایسے واقعات کے ذمہ دار معاشرہ کے وہ سبھی افراد ہیں جو اپنے بچوں کو مدرسوں، مساجد، اسکولوں، ٹیوشن سنٹروں پر بھجوا کر خود کو اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ قرار دے لیتے ہیں۔ اگر والدین دوستانہ ماحول اور کھلی آنکھوں بچوں کی پرورش کریں تو شاید کوئی عبدالرحمٰن یا 100بچوں کا قاتل جاوید اقبال نہ بن پائے۔
بلاشبہ والدین کا کل اثاثہ بل کہ متاع حیات ان کی اولاد ہی ہوتی ہے، وہ اپنی طرف سے بچوں کی ضروریات پوری کرنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھتے لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ بچوں کی ضروریات پوری کر دینا ہی کافی نہیں، اس نکتے کو نظرانداز کر کے بعض اوقات وہ اپنے لیے زندگی کو سوہانِ روح بنا لیتے ہیں اور پھر بے بسی اور لاچاری کی تصویر بنے غم و اندوہ کی کیفیت ہی میں دنیا سے گذر جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک دل سوز واقعہ گجرات کے گائوں کمالہ چک کے رہائشی دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کے باپ55 سالہ ریٹائرڈ فوجی محمد یوسف کے ساتھ پیش آیا۔ محمد یوسف کی عمر کا بیش تر حصہ اپنی اولاد کی پرورش کرنے کے لیے نوکری کرتے گزرا لیکن جب اس کے آرام سے زندگی بسر کرنے کے دن آئے تو ایسے واقعات سے دوچار ہو گیا کہ زندگی اس کے لیے ازیت بن کر رہ گئی۔
ملازمت سے سبک دوشی کے بعد وہ بیٹی کے ساتھ عمر ہ کی ادائی کے لیے سعودی عرب روانہ ہو گیا اور اسی دوران اُس کے بڑے بیٹے بائیس سالہ عدنان قاسم نے ملحقہ مکان میں رہائش پذیر اپنے خالہ زاد عبدالفاروق کو معمولی سی توتکار پر قتل کر دیا اور چھٹے بھائی عبدالرحمٰن سمیت گرفتار ہو کر جیل بھیج دیا گیا تاہم عبدالرحمٰن بعد میں رہا ہو گیا۔ باپ آخر باپ ہوتا ہے، چاہتا تھا کہ بیٹے سے غلطی تو بہ ہرحال سرزد ہو چکی ہے لیکن اب وہ کسی طرح رہا ہو جائے۔ عدنان قاسم کی رہائی کے لیے برادری سے بات چلی تو پنچائیت نے محمد یوسف کو فیصلہ سنایا کہ وہ پندرہ سے بیس لاکھ روپے معاوضہ ادا کرے اور گائوں اور مکان چھوڑ دے۔
مرتا کیا نہ کرتا محمد یوسف نے بچوں کی بھلائی کے لیے دل پر پتھر رکھ کر چند ماہ قبل مطالبہ پورا کیا، گائوں کو خیرباد کہا اور بھمبر روڈ پر کرائے کے مکان میں اٹھ آیا لیکن بوڑھے باپ کی تقدیر میں ابھی آرام نہیں تھا۔ اُس کے بڑے بیٹے کی رہائی کے لیے سیشن کورٹ گجرات کے احاطے میں صلح کے لیے قانونی تقاضے پورے کیے ہی جا رہے تھے کہ جلالپورجٹاں سٹی تھانہ کے ایس ایچ او افتخار تارڑ کی ٹیم نے اُس کے دوسرے بیٹے انیس سالہ عبدالرحمٰن کو گارمنٹس کی دکان چلانے والے جواں سال مہر قیصر ندیم کے قتل کے الزام میں ڈرامائی انداز میں گرفتار کر لیا۔ مقتول جلالپورجٹاں انجمن تاجراں کے صدر میر فہیم اقبال کا برادرِ نسبتی تھا اور اسے3 مئی 2014 کو دن دیہاڑے قتل کیا گیا تھا۔
پہلے تو عبدالرحمٰن کو بچانے کے لیے اُس کی وکیل بہن نے گجرات بار کے سابق صدراور اپنے سینیئر کولیگ کی خدمات حاصل کر کے اُس کی عبوری ضمانت کروالی مگر پولیس نے ہاتھ آئے قاتل کو اپنے شکنجے سے نکلتا دیکھ کر سیشن کورٹ سے باہر آتے ہی اسے والد اور بہنوئی سمیت دبوچ لیا، جس پر وکلا کے وفد نے ملزم کے لواحقین کے ہم راہ ڈی پی او سے بھی ملاقات کر کے شکایت کی مگر ڈی پی او رائے اعجاز نے معاملہ کی نزاکت کو دیکھتے اور حالات سے آگاہی ہونے پر پولیس کا مخصوص انداز اپناتے ہوئے ان کے جذبات کو ٹھنڈا کر کے بھیج دیا۔
اُدھر جب دُبلے پتلے اور بہ ظاہر پڑھاکو نظر آنے والے عبدالرحمٰن سے پولیس نے تفتیش کی اور مقتول مہر قیصر کی دکان سے اُٹھائے گئے موبائل، اُس کے استعمال اور اُس کی فروخت کی رسید ملزم عبدالرحمٰن کے سامنے رکھی تو پولیس کے بہ قول مقتول کو اعتراف جرم کرتے ہی بنی کہ اُس نے بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر مقتول کوسر میں گولی مار کر قتل کیا تھا اور جائے وقوعہ سے اُس کا پرس اور دل موہ لینے والا موبائل بھی اُٹھا لیا تھا، جسے چند روز استعمال کرنے کے بعد اُس نے 5300 روپے میں ایک مقامی دکان دار کو فروخت کر دیا۔ 4 مئی کو اس نے یو بی ایل بینک میںاکائونٹ کھلوا کر رقم جمع کروائی، بنک میں اس کے علاوہ اُس نے 4500 روپے اضافی بھی جمع کروا دیے۔
ابھی اس کیس کی تفتیش جاری تھی کہ ڈی پی او رائے اعجاز نے 27 فروری 2014 کو محلہ فاروق آباد جلالپورجٹاںکے ا ندھے قتل کے حوالے سے تھانے جا کر ازخود ملزم سے روایتی انداز میں تفتیش کا آغاز کیا تو عبدالرحمٰن نے مظفر علی کو بھی سرکے دائیں اور بائیں کن پٹی پر گولیاں مار کر ہلاک کرنے کا اعتراف کیا۔ اس نے جائے وقوعہ کا تصویر ی نقشہ بھی کھینچا اور بتایا کہ وہ مظفر علی کو جانتا تک نہیں تھا مگر وقوعہ کی رات مظفر اُسے اپنے ڈرائنگ روم لے گیا، جہاں اُس نے اُسے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر بے فکری سے سو گیا تو اُس نے پہلے سے اپنے پاس موجود پستول سے فائر کرکے اُسے قتل کر دیا اور بھاگ نکلا۔
اس واردات میں اُسے کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ ابھی دو قتلوں کی تفتیش میں پولیس الجھی ہوئی تھی کہ عبدالرحمٰن نے بغیر کسی خوف و خطر کے اچانک ایس ایچ او کے سامنے 2 فروری 2013 کو اپنے ہی گائوں کمالہ چک کی مسجد عمر فاروق میں نو سال سے امامت کے فرائض انجام دینے والے تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کے باپ قاری جاوید اختر کو سفاکی سے قتل کرنے کا بھی انکشاف کیا۔ عبدالرحمٰن نے ایکسپریس کو بتایا کہ مقتول قاری جاوید اختر اس کا دینی اُستاد تھا وہ اہلِ خانہ کے اصرار پر کئی سال سے اُس سے درس لے رہا تھا تاہم اس نے بتایا کہ ان قتلوں کی وجوہات اور اُس کی زندگی کو تباہ کرنے والا اُس کا یہ ہی اُستاد تھا، جس نے اسے جنسی تشدد کا نشانہ بنائے رکھا اور اسے بلیک میل کرتا رہا۔ عبدالرحمٰن نے یہ حیرت انگیز انکشاف بھی کیا کہ مقتول اما م مسجد اُسے اپنے ساتھ نکاح کر لینے پر بھی آمادہ کرتا رہا۔
ملزم کے مطابق ایک دن اس کے ضمیر نے اسے بہت ملامت کیا تو اس کے پاس اس اذیت سے چھٹکارے کا اس کے پاس کوئی اور حل نہ تھا کہ جاوید اختر کو راستے سے ہٹا دے لہٰذا اس نے 5 ہزار روپے میں ایک پستول خریدا اور قاری کو ملحقہ گائوں جسو سرائے چلنے پر راضی کر لیا، اس گاؤں میں لا کر اس نے ایک مناسب مقام پر مقتول کو مثانے او ر سینے میں گولیاں مار کر ابدی نیند سلا دیا اور موٹر سائیکل پر گھرچلا آیا ''مجھے ذرہ بھر بھی خوف محسوس نہیں ہوا'' (واللہ اعلم بالصواب)۔ عبدالرحمٰن کا کہناہے کہ وہ اپنے کیے پر کسی صورت شرمند ہ نہیں کیوں کہ اسے انصاف ملتا نظر نہیں آرہا تھا۔ اب اگر گہرائی میں جاکر دیکھنے کی کوشش کی جائے تو لامحالہ کوئی نہ کوئی ایسی نفسیاتی کڑی مل سکتی ہے جس سے پتا چل سکتا ہے کہ والدین کی کس کوتاہی نے عبدالرحمٰن کو سیریل قاتل بننے پر مجبور کردیا۔
انسپکٹر افتخار تارڑ نے ایکسپریس کو بتایا کہ اگر عبدالرحمٰن کو گرفتار نہ کیا جاتا تو مزید جرائم بھی سرزد ہونے کا خدشہ تھا۔ قتل کی ان وارداتوں میں صرف ایک مقتول قاری جاوید ہی ایسا تھا جو شادی شدہ تھا جب کہ مقتول مہر قصیر ندیم اور مظفر انصاری غیر شادی شدہ تھے، ان میں سے مظفر بیرون ملک سے وطن واپس ایا تھا اور کچھ عرصہ بعد اس کی شادی ہونے والی تھی۔ ملزم عبدالرحمٰن نے جو شرٹ زیب تن کر رکھی ہے، اس پر ''دل تیرا وی کردا وے'' جیسے الفاظ تحریر ہیں جو اس کے مشکوک اخلاق کے غماز ہیں، اس کے علاوہ اس کے موبائل کا ڈیٹا نکلوانے پر معلوم ہوا کہ وہ اپنی ''تسکین'' کے لیے دوسروں کو شہوت بھرے میسیجز بھی بھیجتا رہا ہے، اس طرح جو شکار اُس میں پھنس جاتا بعد میں موت ہی اس کا انجام نکلتا۔ پولیس کے مطابق اس طرح کے اندھے قتل کے مزید کئی انکشافات کی توقع ہے۔
سیریل کلر عبدالرحمٰن کے قریبی حلقوں اور عزیزوں، دوستوں کا کہنا ہے کہ اُس نے نویں جماعت تک گورنمنٹ ہائی اسکول کمالہ چک سے تعلیم حاصل کی اور اب وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے زیر اہتمام امتحانات کی تیاری کر رہا تھا۔ چھے ماہ قبل اُسے ایک خاص طرح کے دورے بھی پڑتے رہے ہیں، علاج معالجے اور دم درود کے لیے اُس کی ضعیف والدہ اسے یہاں وہاں لے جاتی رہی۔ ایسے واقعات کے ذمہ دار معاشرہ کے وہ سبھی افراد ہیں جو اپنے بچوں کو مدرسوں، مساجد، اسکولوں، ٹیوشن سنٹروں پر بھجوا کر خود کو اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ قرار دے لیتے ہیں۔ اگر والدین دوستانہ ماحول اور کھلی آنکھوں بچوں کی پرورش کریں تو شاید کوئی عبدالرحمٰن یا 100بچوں کا قاتل جاوید اقبال نہ بن پائے۔