پاکستان میں 60 سے 80 کی دہائی میں ریلیز ہونے والی فلموں کے پوسٹرز کی منفرد نمائش
نمائش میں فلموں کے بورڈز اور پوسٹر کو گیلری کی زینت بنایا گیا ہے، 8 آرٹسٹوں نے 40 سے زائد پینٹگز بنائی ہیں
شہر قائد میں قائم آرٹ گیلری میں فلمی یادوں کے نام سے 15 روزہ مصوری کی منفرد نمائش کا آغاز ہوگیا، منفرد نمائش میں 60 سے 80 کی دہائی میں پاکستان میں ریلیز ہونے والی فلموں کے پوسٹرز اور بورڈز کے خوبصورت ، دیدہ زیب ڈیزائن بنائے گئے ہیں۔
نمائش میں پاکستانی سینیما گھروں میں 60 سے 80 کی دہائی میں ریلیز ہونے والی فلموں کے بورڈز اور پوسٹر کو گیلری کی زینت بنایا گیا ہے، اس نمائش میں 8 آرٹسٹوں نے 40 سے زائد پینٹگزمیں وحید مراد زیبا کی فلم ارمان، اعجاز، فردوس کی ہیررانجھا، ندیم نشو کی فلم بازی کے علاوہ بھارتی فلموں بھارتی فلموں مدرانڈیا،مغل اعظم، میرانام جوکر، تاج محل جبکہ ہالی ووڈ کی معرکتہ الارا فلموں ڈاکٹرنو، دی گارڈ فادراورٹائٹینک کے تصویری شکل میں پوسٹربھی بنائے ہیں۔
معروف ڈائجسٹ کے سرورق ڈیزائن کرنے والے مصورظفرصدیقی نے پاکستان فلم انجمن، آنسو بہائے پتھروں نے، تم ہی ہومحبوب میرے کے پوسٹرکتاب کے ٹائٹل کےانداز میں پینٹ کیے جبکہ مصور زاہد حسین نے فلم رنگیلا اور منورظریف، انسان اور گدھا کے پوسٹرزکو سگریٹ کے فلٹرزکو جوڑکر انتہائی دیدہ زیب اندازمیں تصویری شکل دی ہے۔
آرٹ ون 62 گیلری کلفٹن میں فلمی یادیں کے نام سے تصویری نمائش کا افتتاح ہوا، جس میں مصوروں کے علاوہ فنون لطیفہ اورمختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شریک ہوئے۔
مصورعباس کمانگر، مہتاب علی،نثاربشیر،رستم خان،پروفیسررحمت خان،سعید نقوی،ظفرصدیقی اور زاہد حسین نے سن 60سے 80اور90کی دہائی کے وسط میں بننے والی پاکستانی، بھارتی اورہالی ووڈ کی مشہور ومعروف فلموں ارمان،مولاجٹ، بازی، مغل اعظم، ہیررانجھا، رام وشیام، داغ، بابل، دیدار، گنگا وجمنا، آن، درد، مدرانڈیا، مغل اعظم، دی گڈ دی بیڈ اینڈ دی اگلی کے علاوہ ڈاکٹرنو، دی گارڈ فادر، ٹائٹینک کے پوسٹرکے علاوہ وحید مراد کے پوٹریٹ بھی بنائے۔
مصوروں نے ڈیجیٹل آن پیپر، آئل آن کینوس، واٹرآن پیپر،ایکرلیک آن پیپر، ڈیجیٹل آن کینوس کے ذریعے قصہ پارینہ بن جانے والی فلموں کی یادوں کو دوبارہ تازہ کیا۔
فلمی یادیں تصوری نمائش میں 40 سے زائد پینٹنگزرکھی گئی ہیں،مشہورڈائجسٹ کے سرورق بنانے والے آرٹسٹ ظفرصدیقی نے واٹرآن کلرکے ذریعے پاکستانی فلم انجمن، آنسو بہائے پتھروں نے، تم ہی ہو محبوب میرے سمیت دیگر کے پوسٹرانتہائی دیدہ زیب اندازمیں پینٹ کیے ہیں جبکہ مصور زاہد حسین نے فلم رنگیلا اور منورظریف،انسان اورگدھا کے پوسٹرزکوسگریٹ کے فلٹرکوجوڑکر انتہائی دیدہ زیب اندازمیں تصویری شکل دی ہے۔
ہم اپنے بچوں کو کیا بتائیں گے کہ اداکار اعجاز اور فردوس کا کیا مقام تھا؟ ساجد حسن
نمائش میں شریک اداکارساجد حسن کا ایکسپریس نیوزسے گفتگومیں کہنا تھا کہ آرٹ کو اس اندازمیں پیش کرنا بہت ہی منفرد تصور ہے، جس زمانے میں ہم جوان تھے تب فلموں کو ایسی عوامی شہرت ملاکرتی تھی، اس دورمیں فلموں کے بڑے بڑے بورڈز ہوا کرتے تھے، سینما کو پاپولر کرنے کا اور آرٹ اورآرٹسٹ کو مشہورکرنے کا یہ ایک بہترین عمل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان تصویروں میں جمالیاتی حسن دکھائی دے رہا ہے، فلم ہیررانجھا کے پوسٹرمیں اعجاز اور فردوس کو دیکھ کردلی مسرت ہوئی، اب ہم اپنے بچوں کو کیا بتائیں کہ ان کا کیا مقام ہوا کرتا تھا، یہ اپنے وقت کے نامی گرامی فلمی اداکار بلکہ سپر اسٹار ہوا کرتے تھے ہماری جو تاریخ ہے،اس کا مطالعہ انتہائی ضروری ہے اورخاص طورپران تصویروں کے ذریعے ندیم،وحیدمراد اورمحمدعلی کی فنی خدمات اوران کی یاد کونمایاں کرنے کے لیے جو اہتمام کیا گیا ہے،وہ لائق تحسین ہے۔
'نئی ٹیکنالوجی کی وجہ سے مصوری کا فن ناپید ہوگیا'
آرٹ ون 62گیلری کے کیوریٹرجنید حامد کے مطابق پاکستانی فلموں کا جو کلچرتھا اور جس زمانے میں پاکستان فلم انڈسٹری عروج پرتھی، یہ وہ وقت ہے سن 60 کی دہائی سے 90کی دہائی کا جب ہم لوگ بتدریج بڑے ہورہے تھے،اس زمانے میں پینافلیکس والا دورنہیں آیا تھا،یہ وہ وقت ہے جب فلمی پوسٹرہاتھ سے پینٹ کیے جاتے تھے،اس دورمیں نایاب آرٹسٹ ہوتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ جو 30 اور 40 فٹ لمبے اورچوڑے پوسٹراور بورڈز پردے پربناتے تھے، اب وہ سب کچھ ناپید ہوچکا ہے،نئی ٹیکنالوجی کی وجہ سے ماضی کا وہ فن ناپید ہوگیا،اورعصر حاضر کی جدید ٹیکنالوجی کے بعد اب وہ فن ختم ہوگیا۔
'چھوٹی سی کوشش کر کے ماضی کے ہیروز کو خراج تحسین پیش کیا ہے'
سینئرآرٹسٹ مہتاب علی کا کہنا تھا کہ بچپن میں فلمیں دیکھا کرتے تھے،جیسے سپراسٹاروحید مراد کی سن 66 میں ریلیز ہونے والی فلم ارمان کی بات کرتے ہیں کہ وہ فلم سینما پربھی دیکھی، ٹی وی پر دیکھی اور14 اگست اوردیگرتہواروں پرسڑکوں پربھی چلا کرتی تھی، ہم تمام آرٹسٹوں نے سوچا کہ پاکستان، ہالی ووڈ اوربولی ووڈ کے ان تمام فنکاروں کو خراج تحسین پیش کیا جائے، جن کے قد آدم پوسٹراوربورڈزسینما گھروں کی زینت بناکرتے تھے، اسی خیال کی وجہ سے ماضی کے ان ہیروزکو خراج تحسین پیش کیا گیا۔
فلمی یادیں تصویری نمائش 30اکتوبرتک جاری رہےگی۔
نمائش میں پاکستانی سینیما گھروں میں 60 سے 80 کی دہائی میں ریلیز ہونے والی فلموں کے بورڈز اور پوسٹر کو گیلری کی زینت بنایا گیا ہے، اس نمائش میں 8 آرٹسٹوں نے 40 سے زائد پینٹگزمیں وحید مراد زیبا کی فلم ارمان، اعجاز، فردوس کی ہیررانجھا، ندیم نشو کی فلم بازی کے علاوہ بھارتی فلموں بھارتی فلموں مدرانڈیا،مغل اعظم، میرانام جوکر، تاج محل جبکہ ہالی ووڈ کی معرکتہ الارا فلموں ڈاکٹرنو، دی گارڈ فادراورٹائٹینک کے تصویری شکل میں پوسٹربھی بنائے ہیں۔
معروف ڈائجسٹ کے سرورق ڈیزائن کرنے والے مصورظفرصدیقی نے پاکستان فلم انجمن، آنسو بہائے پتھروں نے، تم ہی ہومحبوب میرے کے پوسٹرکتاب کے ٹائٹل کےانداز میں پینٹ کیے جبکہ مصور زاہد حسین نے فلم رنگیلا اور منورظریف، انسان اور گدھا کے پوسٹرزکو سگریٹ کے فلٹرزکو جوڑکر انتہائی دیدہ زیب اندازمیں تصویری شکل دی ہے۔
آرٹ ون 62 گیلری کلفٹن میں فلمی یادیں کے نام سے تصویری نمائش کا افتتاح ہوا، جس میں مصوروں کے علاوہ فنون لطیفہ اورمختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شریک ہوئے۔
مصورعباس کمانگر، مہتاب علی،نثاربشیر،رستم خان،پروفیسررحمت خان،سعید نقوی،ظفرصدیقی اور زاہد حسین نے سن 60سے 80اور90کی دہائی کے وسط میں بننے والی پاکستانی، بھارتی اورہالی ووڈ کی مشہور ومعروف فلموں ارمان،مولاجٹ، بازی، مغل اعظم، ہیررانجھا، رام وشیام، داغ، بابل، دیدار، گنگا وجمنا، آن، درد، مدرانڈیا، مغل اعظم، دی گڈ دی بیڈ اینڈ دی اگلی کے علاوہ ڈاکٹرنو، دی گارڈ فادر، ٹائٹینک کے پوسٹرکے علاوہ وحید مراد کے پوٹریٹ بھی بنائے۔
مصوروں نے ڈیجیٹل آن پیپر، آئل آن کینوس، واٹرآن پیپر،ایکرلیک آن پیپر، ڈیجیٹل آن کینوس کے ذریعے قصہ پارینہ بن جانے والی فلموں کی یادوں کو دوبارہ تازہ کیا۔
فلمی یادیں تصوری نمائش میں 40 سے زائد پینٹنگزرکھی گئی ہیں،مشہورڈائجسٹ کے سرورق بنانے والے آرٹسٹ ظفرصدیقی نے واٹرآن کلرکے ذریعے پاکستانی فلم انجمن، آنسو بہائے پتھروں نے، تم ہی ہو محبوب میرے سمیت دیگر کے پوسٹرانتہائی دیدہ زیب اندازمیں پینٹ کیے ہیں جبکہ مصور زاہد حسین نے فلم رنگیلا اور منورظریف،انسان اورگدھا کے پوسٹرزکوسگریٹ کے فلٹرکوجوڑکر انتہائی دیدہ زیب اندازمیں تصویری شکل دی ہے۔
ہم اپنے بچوں کو کیا بتائیں گے کہ اداکار اعجاز اور فردوس کا کیا مقام تھا؟ ساجد حسن
نمائش میں شریک اداکارساجد حسن کا ایکسپریس نیوزسے گفتگومیں کہنا تھا کہ آرٹ کو اس اندازمیں پیش کرنا بہت ہی منفرد تصور ہے، جس زمانے میں ہم جوان تھے تب فلموں کو ایسی عوامی شہرت ملاکرتی تھی، اس دورمیں فلموں کے بڑے بڑے بورڈز ہوا کرتے تھے، سینما کو پاپولر کرنے کا اور آرٹ اورآرٹسٹ کو مشہورکرنے کا یہ ایک بہترین عمل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان تصویروں میں جمالیاتی حسن دکھائی دے رہا ہے، فلم ہیررانجھا کے پوسٹرمیں اعجاز اور فردوس کو دیکھ کردلی مسرت ہوئی، اب ہم اپنے بچوں کو کیا بتائیں کہ ان کا کیا مقام ہوا کرتا تھا، یہ اپنے وقت کے نامی گرامی فلمی اداکار بلکہ سپر اسٹار ہوا کرتے تھے ہماری جو تاریخ ہے،اس کا مطالعہ انتہائی ضروری ہے اورخاص طورپران تصویروں کے ذریعے ندیم،وحیدمراد اورمحمدعلی کی فنی خدمات اوران کی یاد کونمایاں کرنے کے لیے جو اہتمام کیا گیا ہے،وہ لائق تحسین ہے۔
'نئی ٹیکنالوجی کی وجہ سے مصوری کا فن ناپید ہوگیا'
آرٹ ون 62گیلری کے کیوریٹرجنید حامد کے مطابق پاکستانی فلموں کا جو کلچرتھا اور جس زمانے میں پاکستان فلم انڈسٹری عروج پرتھی، یہ وہ وقت ہے سن 60 کی دہائی سے 90کی دہائی کا جب ہم لوگ بتدریج بڑے ہورہے تھے،اس زمانے میں پینافلیکس والا دورنہیں آیا تھا،یہ وہ وقت ہے جب فلمی پوسٹرہاتھ سے پینٹ کیے جاتے تھے،اس دورمیں نایاب آرٹسٹ ہوتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ جو 30 اور 40 فٹ لمبے اورچوڑے پوسٹراور بورڈز پردے پربناتے تھے، اب وہ سب کچھ ناپید ہوچکا ہے،نئی ٹیکنالوجی کی وجہ سے ماضی کا وہ فن ناپید ہوگیا،اورعصر حاضر کی جدید ٹیکنالوجی کے بعد اب وہ فن ختم ہوگیا۔
'چھوٹی سی کوشش کر کے ماضی کے ہیروز کو خراج تحسین پیش کیا ہے'
سینئرآرٹسٹ مہتاب علی کا کہنا تھا کہ بچپن میں فلمیں دیکھا کرتے تھے،جیسے سپراسٹاروحید مراد کی سن 66 میں ریلیز ہونے والی فلم ارمان کی بات کرتے ہیں کہ وہ فلم سینما پربھی دیکھی، ٹی وی پر دیکھی اور14 اگست اوردیگرتہواروں پرسڑکوں پربھی چلا کرتی تھی، ہم تمام آرٹسٹوں نے سوچا کہ پاکستان، ہالی ووڈ اوربولی ووڈ کے ان تمام فنکاروں کو خراج تحسین پیش کیا جائے، جن کے قد آدم پوسٹراوربورڈزسینما گھروں کی زینت بناکرتے تھے، اسی خیال کی وجہ سے ماضی کے ان ہیروزکو خراج تحسین پیش کیا گیا۔
فلمی یادیں تصویری نمائش 30اکتوبرتک جاری رہےگی۔