سرکاری ملازمین کی پنشن پر حملہ
نگراں حکومتوں نے اپنی حدود سے تجاوزکرنا شروع کردیا۔ اب حکومت سرکاری ملازمین کو ریٹائرمنٹ پر ملنے والی پنشن کو کم کرنے کا فیصلہ کرنے پر آمادہ ہے۔
روزنامہ ایکسپریس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن کی ادائیگی کے بل کا بڑھتا ہوا بوجھ کم کرنے کے لیے پنشن اسکیم 2023میں اہم ترامیم کا فیصلہ کیا ہے مگر مسلح افواج کو اس تجویز سے مبرا قرار دیا گیا ہے۔
ماہرین نے جو تجاویز تیار کی ہیں، ان کے مطابق ریٹائرڈ ملازمین کی وفات کے بعد پنشن کی مدت 10 سال تک مقرر کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے، تاہم وفات پانے والے ملازم کا کوئی بچہ معذور ہوگا تو اس صورت میں غیر معینہ مدت کے لیے پنشن ملے گی۔
پنشن اصلاحات کے لیے تیار کی جانے والی سمری میں یہ تجویز بھی ہے کہ شہداء کی فیملی پنشن کی میعاد 20 سال مقرر کی جائے۔ ملازمین کی ریٹائرمنٹ ان کی پنشن کا تعین آخری 36 ماہ کی تنخواہ رقم کے 70 فیصد کی بنیاد پر ہوگی۔
ریٹائرڈ ملازمین کے لیے ایک اور بری تجویز یہ ہے کہ پنشن میں اضافہ میں سالانہ اضافہ کی رقم ایک رکھی جائے گی۔ پنشن میں افراطِ زر کی شرح سے اضافہ ہوگا، مگر یہ اضافہ 10 فیصد تک ہوگا۔ یہ شرح اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک حکومت پنشن قواعد پر نظرثانی نہیں کرتی۔ اسی طرح سرکاری ملازمین 25 سال کی ملازمت پر ریٹائرمنٹ لیتے ہیں تو ریٹائرمنٹ کی عمر تک 3 فیصد سالانہ جرمانہ وصول کیا جائے گا۔
طے کردہ قواعد و ضوابط کے مطابق خام پنشن کا زیادہ سے زیادہ 25 فیصد تک کمیوٹ کرا سکیں گے، اس وقت یہ شرح 35 فیصد ہے۔ چند سال قبل پنشن میں 30 سال سے زیادہ ملازمت پر سالانہ 3 فی صد اضافہ کیا جاتا تھا جو کہ 10 فیصد تک تھا۔ پنشن میں کمی کے بارے میں تیار ہونے والی تجاویز سرکاری ملازمین کا ریٹائرمنٹ کے بعد مستقبل تاریک کر دیں گی۔
سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کے موجودہ قواعد و ضوابط کے تحت اس وقت ریٹائر ہونے والے ملازم کی آخری تنخواہ پر 65 فیصد یا کمیوٹیشن کا 35 فیصد ادا کیا جاتا ہے، اگر نئے فارمولہ پرعملدرآمد ہوا تو ریٹائرڈ ملازم کی پنشن میں 35فیصد تک کمی ہوگی۔
پنشن کے اضافہ کو افراطِ زرکی شرح سے منسلک توکیا گیا ہے مگر یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ پنشن میں سالانہ اضافہ 10 فیصد سے زیادہ نہیں ہوگا۔
گزشتہ دو برسوں میں افراطِ زرکی شرح تین ہندسوں تک بڑھی ہے اور اسی ماہ افراطِ زرکی شرح 34 فیصد کے قریب ہے، یوں اگر پنشن میں 10 فیصد اضافہ ہوا تو یہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے مقابلہ میں انتہائی کم ہوگا۔ پنشن کے بارے میں اس سمری میں ایک تجویز یہ بھی ہے کہ ملازم کی وفات کے بعد بیوہ کو صرف 10 سال تک پنشن ملے گی، اگر ملازم کا کوئی معذور بچہ ہو تو پنشن ساری زندگی ملے گی، اگر بیوہ کے انتقال کے بعد غیر شادی شدہ، طلاق یافتہ یا بیوہ لڑکی ہو تو پنشن ان کے نام منتقل ہوجائے گی۔
سرکاری آڈیٹرز کا کہنا ہے کہ یہ شق غلط استعمال ہوتی ہے، اگر خاندان میں بعض کیسوں میں 40 سے 50 سال تک پنشن دی جاتی ہے۔ یہ صورتحال تشویش ناک تو ہے مگر چند افراد کی بدعنوانی کی سزا بیوہ کو دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
ہر صورت میں بیوہ کو تمام عمر پنشن ملنی چاہیے۔ ایک اور افسوس ناک تجویز یہ بھی ہے کہ سرکاری ملازمت کے دوران شہید ہونے والے ملازمین کے لواحقین کو صرف 10 سال تک پنشن ملے گی۔ اس تجویزسے سرکاری ملازمین خاص طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں میں قربانی کا جذبہ کم ہوجائے گا۔
وفاق اور خیبر پختون خوا کی حکومتوں نے دہشت گردی میں جاں بحق ہونے والے پولیس اہلکاروں، اساتذہ اور دیگر عملہ کے لیے خصوصی پیکیج دینے کا فیصلہ کیا تھا مگر سندھ میں ایسے کسی پیکیج کا اعلان نہیں ہوا، اگر حکومت ہر شہید ہونے والے سرکاری ملازم کے لواحقین کو خصوصی پیکیج دیتی ہے تو پھر 10 سال کی پابندی درست ہے۔
دوسری صورت میں یہ شق سرکاری ملازمین بالخصوص پولیس فورس میں مایوسی پھیلانے کا باعث ہوگی۔ موجودہ قوانین کے تحت 25 سال تک ملازمت کرنے والا شخص ریٹائرمنٹ کے تمام فوائد حاصل کرتا ہے مگر نئی تجویز کے تحت ریٹائرمنٹ کی عمر تک کے حساب سے 3 فیصد سالانہ جرمانہ اس کی پنشن سے حذف کیا جائے گا۔
ادھر پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ کی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ سرکاری ملازمین میں سب سے زیادہ مراعات عدالتی شعبے کو حاصل ہیں۔
عدالتی شعبہ کے بعد پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس PAS جس میں خاص طور پر ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ شامل ہے کو مراعات حاصل ہیں۔ پی اے ایس کے افسران کو کئی ایسے الاؤنس اور خصوصی الاؤنس ملتے ہیں جو دیگر سرکاری ملازمین کو حاصل نہیں ہیں۔
گزشتہ دنوں ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ وفاقی حکومت نے بورڈ آف ریونیو کے سیکریٹریٹ میں کام کرنے والے افسران کے الاؤنس بحال کر دیے ہیں مگر اس سرکلر میں تحریر کیا گیا ہے کہ فیلڈ افسران کو اپنا خیال کچھ رکھنا ہوگا۔
ان رپورٹوں کے جائزہ سے واضح ہوتا ہے کہ عدلیہ اور ڈی ایم جی کے علاوہ باقی سرکاری ملازمین کو بہت کم مراعات حاصل ہیں۔ عجیب بات ہے کہ کراچی میں سیکریٹریٹ میں کام کرنے والے افسروں کو جو الاؤنس ملتے ہیں وہ الاؤنس سیکریٹریٹ سے چند میٹر پر قائم حکومت سندھ کے ملازمین کو حاصل نہیں ہیں۔ سرکاری ملازمین کی اکثریت کو مکمل میڈیکل کوریج حاصل نہیں ہے۔
سرکاری ملازمت کے لیے بروقت پنشن کا حصول ایک اور درد ناک باب کھولنے کے مترادف ہے۔ ریٹائر ہونے والے ملازم کو پہلے اپنے محکمہ میں سفارش یا کمیشن دے کر فائل کو آگے بڑھانا ہوتا ہے۔ اس کے اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفاتر کے معاملات اور زیادہ گھمبیر ہوجاتے ہیں۔
سرکاری ملازمت کی ایک کشش تو اختیارات کا حصول ہوتا ہے تو دوسری ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن ، جی پی فنڈ اور گریجویٹی کی رقم ملنے کی ہوتی ہے، مگر اختیارات کا معاملہ پولیس اور چند دیگر وزارتوں تک محدود ہے۔
پنجاب میں اساتذہ اور دیگر ملازمین نے تعلیمی اداروں کو نجی تحویل میں دینے اور پنشن کی کمی کے خلاف تحریک شروع کی۔ پنجاب کے ہر ضلع کے سیکڑوں اساتذہ اور دیگر ملازمین کو اپنے حق کے لیے احتجاج کرنا پڑا اور ان کی گرفتاریاں ہوئیں، انھیں جیلوں میں بند کیا گیا۔ اس بات کا امکان ہے کہ یہ تحریک وفاق اور دیگر صوبوں تک پھیل جائے گی۔
عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے سربراہوں کا کہنا ہے کہ غریبوں پر ٹیکس کم ہونا چاہیے۔ زیادہ بوجھ امیر پر ہونا چاہیے مگر غریب سرکاری ملازمین سے جینے کا حق چھینا جا رہا ہے۔ نیو لبرل ازم کے فلسفہ کا اطلاق صرف سرکاری ملازمین پر ہونے جا رہا ہے۔
یورپی ممالک میں ہر شہری کو پنشن ملتی ہے۔ بھارت کی حکومت نے 18 سال کی عمر کو پہنچنے والے ہر شہری کو پنشن کے نیٹ ورک میں شامل ہونے کا منصوبہ شروع کیا ہے، مگر پاکستان میں یہ مراعات کم کی جا رہی ہیں، یہ معاملہ نگراں حکومت کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ اس کو منتخب حکومت پر چھوڑ دینا چاہیے۔
روزنامہ ایکسپریس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن کی ادائیگی کے بل کا بڑھتا ہوا بوجھ کم کرنے کے لیے پنشن اسکیم 2023میں اہم ترامیم کا فیصلہ کیا ہے مگر مسلح افواج کو اس تجویز سے مبرا قرار دیا گیا ہے۔
ماہرین نے جو تجاویز تیار کی ہیں، ان کے مطابق ریٹائرڈ ملازمین کی وفات کے بعد پنشن کی مدت 10 سال تک مقرر کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے، تاہم وفات پانے والے ملازم کا کوئی بچہ معذور ہوگا تو اس صورت میں غیر معینہ مدت کے لیے پنشن ملے گی۔
پنشن اصلاحات کے لیے تیار کی جانے والی سمری میں یہ تجویز بھی ہے کہ شہداء کی فیملی پنشن کی میعاد 20 سال مقرر کی جائے۔ ملازمین کی ریٹائرمنٹ ان کی پنشن کا تعین آخری 36 ماہ کی تنخواہ رقم کے 70 فیصد کی بنیاد پر ہوگی۔
ریٹائرڈ ملازمین کے لیے ایک اور بری تجویز یہ ہے کہ پنشن میں اضافہ میں سالانہ اضافہ کی رقم ایک رکھی جائے گی۔ پنشن میں افراطِ زر کی شرح سے اضافہ ہوگا، مگر یہ اضافہ 10 فیصد تک ہوگا۔ یہ شرح اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک حکومت پنشن قواعد پر نظرثانی نہیں کرتی۔ اسی طرح سرکاری ملازمین 25 سال کی ملازمت پر ریٹائرمنٹ لیتے ہیں تو ریٹائرمنٹ کی عمر تک 3 فیصد سالانہ جرمانہ وصول کیا جائے گا۔
طے کردہ قواعد و ضوابط کے مطابق خام پنشن کا زیادہ سے زیادہ 25 فیصد تک کمیوٹ کرا سکیں گے، اس وقت یہ شرح 35 فیصد ہے۔ چند سال قبل پنشن میں 30 سال سے زیادہ ملازمت پر سالانہ 3 فی صد اضافہ کیا جاتا تھا جو کہ 10 فیصد تک تھا۔ پنشن میں کمی کے بارے میں تیار ہونے والی تجاویز سرکاری ملازمین کا ریٹائرمنٹ کے بعد مستقبل تاریک کر دیں گی۔
سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کے موجودہ قواعد و ضوابط کے تحت اس وقت ریٹائر ہونے والے ملازم کی آخری تنخواہ پر 65 فیصد یا کمیوٹیشن کا 35 فیصد ادا کیا جاتا ہے، اگر نئے فارمولہ پرعملدرآمد ہوا تو ریٹائرڈ ملازم کی پنشن میں 35فیصد تک کمی ہوگی۔
پنشن کے اضافہ کو افراطِ زرکی شرح سے منسلک توکیا گیا ہے مگر یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ پنشن میں سالانہ اضافہ 10 فیصد سے زیادہ نہیں ہوگا۔
گزشتہ دو برسوں میں افراطِ زرکی شرح تین ہندسوں تک بڑھی ہے اور اسی ماہ افراطِ زرکی شرح 34 فیصد کے قریب ہے، یوں اگر پنشن میں 10 فیصد اضافہ ہوا تو یہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے مقابلہ میں انتہائی کم ہوگا۔ پنشن کے بارے میں اس سمری میں ایک تجویز یہ بھی ہے کہ ملازم کی وفات کے بعد بیوہ کو صرف 10 سال تک پنشن ملے گی، اگر ملازم کا کوئی معذور بچہ ہو تو پنشن ساری زندگی ملے گی، اگر بیوہ کے انتقال کے بعد غیر شادی شدہ، طلاق یافتہ یا بیوہ لڑکی ہو تو پنشن ان کے نام منتقل ہوجائے گی۔
سرکاری آڈیٹرز کا کہنا ہے کہ یہ شق غلط استعمال ہوتی ہے، اگر خاندان میں بعض کیسوں میں 40 سے 50 سال تک پنشن دی جاتی ہے۔ یہ صورتحال تشویش ناک تو ہے مگر چند افراد کی بدعنوانی کی سزا بیوہ کو دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
ہر صورت میں بیوہ کو تمام عمر پنشن ملنی چاہیے۔ ایک اور افسوس ناک تجویز یہ بھی ہے کہ سرکاری ملازمت کے دوران شہید ہونے والے ملازمین کے لواحقین کو صرف 10 سال تک پنشن ملے گی۔ اس تجویزسے سرکاری ملازمین خاص طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں میں قربانی کا جذبہ کم ہوجائے گا۔
وفاق اور خیبر پختون خوا کی حکومتوں نے دہشت گردی میں جاں بحق ہونے والے پولیس اہلکاروں، اساتذہ اور دیگر عملہ کے لیے خصوصی پیکیج دینے کا فیصلہ کیا تھا مگر سندھ میں ایسے کسی پیکیج کا اعلان نہیں ہوا، اگر حکومت ہر شہید ہونے والے سرکاری ملازم کے لواحقین کو خصوصی پیکیج دیتی ہے تو پھر 10 سال کی پابندی درست ہے۔
دوسری صورت میں یہ شق سرکاری ملازمین بالخصوص پولیس فورس میں مایوسی پھیلانے کا باعث ہوگی۔ موجودہ قوانین کے تحت 25 سال تک ملازمت کرنے والا شخص ریٹائرمنٹ کے تمام فوائد حاصل کرتا ہے مگر نئی تجویز کے تحت ریٹائرمنٹ کی عمر تک کے حساب سے 3 فیصد سالانہ جرمانہ اس کی پنشن سے حذف کیا جائے گا۔
ادھر پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ کی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ سرکاری ملازمین میں سب سے زیادہ مراعات عدالتی شعبے کو حاصل ہیں۔
عدالتی شعبہ کے بعد پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس PAS جس میں خاص طور پر ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ شامل ہے کو مراعات حاصل ہیں۔ پی اے ایس کے افسران کو کئی ایسے الاؤنس اور خصوصی الاؤنس ملتے ہیں جو دیگر سرکاری ملازمین کو حاصل نہیں ہیں۔
گزشتہ دنوں ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ وفاقی حکومت نے بورڈ آف ریونیو کے سیکریٹریٹ میں کام کرنے والے افسران کے الاؤنس بحال کر دیے ہیں مگر اس سرکلر میں تحریر کیا گیا ہے کہ فیلڈ افسران کو اپنا خیال کچھ رکھنا ہوگا۔
ان رپورٹوں کے جائزہ سے واضح ہوتا ہے کہ عدلیہ اور ڈی ایم جی کے علاوہ باقی سرکاری ملازمین کو بہت کم مراعات حاصل ہیں۔ عجیب بات ہے کہ کراچی میں سیکریٹریٹ میں کام کرنے والے افسروں کو جو الاؤنس ملتے ہیں وہ الاؤنس سیکریٹریٹ سے چند میٹر پر قائم حکومت سندھ کے ملازمین کو حاصل نہیں ہیں۔ سرکاری ملازمین کی اکثریت کو مکمل میڈیکل کوریج حاصل نہیں ہے۔
سرکاری ملازمت کے لیے بروقت پنشن کا حصول ایک اور درد ناک باب کھولنے کے مترادف ہے۔ ریٹائر ہونے والے ملازم کو پہلے اپنے محکمہ میں سفارش یا کمیشن دے کر فائل کو آگے بڑھانا ہوتا ہے۔ اس کے اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفاتر کے معاملات اور زیادہ گھمبیر ہوجاتے ہیں۔
سرکاری ملازمت کی ایک کشش تو اختیارات کا حصول ہوتا ہے تو دوسری ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن ، جی پی فنڈ اور گریجویٹی کی رقم ملنے کی ہوتی ہے، مگر اختیارات کا معاملہ پولیس اور چند دیگر وزارتوں تک محدود ہے۔
پنجاب میں اساتذہ اور دیگر ملازمین نے تعلیمی اداروں کو نجی تحویل میں دینے اور پنشن کی کمی کے خلاف تحریک شروع کی۔ پنجاب کے ہر ضلع کے سیکڑوں اساتذہ اور دیگر ملازمین کو اپنے حق کے لیے احتجاج کرنا پڑا اور ان کی گرفتاریاں ہوئیں، انھیں جیلوں میں بند کیا گیا۔ اس بات کا امکان ہے کہ یہ تحریک وفاق اور دیگر صوبوں تک پھیل جائے گی۔
عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے سربراہوں کا کہنا ہے کہ غریبوں پر ٹیکس کم ہونا چاہیے۔ زیادہ بوجھ امیر پر ہونا چاہیے مگر غریب سرکاری ملازمین سے جینے کا حق چھینا جا رہا ہے۔ نیو لبرل ازم کے فلسفہ کا اطلاق صرف سرکاری ملازمین پر ہونے جا رہا ہے۔
یورپی ممالک میں ہر شہری کو پنشن ملتی ہے۔ بھارت کی حکومت نے 18 سال کی عمر کو پہنچنے والے ہر شہری کو پنشن کے نیٹ ورک میں شامل ہونے کا منصوبہ شروع کیا ہے، مگر پاکستان میں یہ مراعات کم کی جا رہی ہیں، یہ معاملہ نگراں حکومت کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ اس کو منتخب حکومت پر چھوڑ دینا چاہیے۔