غزہ میں زمینی کارروائی
غزہ کی پٹی میں آباد فلسطینی قریب پچھلے بارہ دنوں سے اسرائیل کی اندھا دھند فضائی بمباری کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس وقت سوال یہ ہے کہ اسرائیلی فوج 'جو غزہ کو گھیرے ہوئے ہے' کب زمینی کارروائی کا آغاز کرتی ہے۔
عبرتناک بات یہ ہے کہ ماضی میں فلسطین کی آزادی کے لیے سب سے زیادہ متحرک رہنے والے ممالک میں سے ایک 'مصر' مظلوم فلسطینیوں کے لیے آنے والی امداد کو اپنی سرحد پر روکے ہوئے ہے کہ جب تک امریکی اجازت نہ ہو گی کوئی چیز سرحد پار نہیں جائے گی۔ امریکا کی خارجہ پالیسی کا بنیادی نکتہ ہے کہ جو ملک امریکی مفاد کے لیے تعاون نہ کرے وہاں حکومت ہی گرا دی جائے اور اپنے ایجنٹوں کو اقتدار میں لے آیا جائے۔
مصر میں بھی محمد مُرسی کی حکومت اسی لیے گرائی گئی کہ اُس نے محصور فلسطینیوں کے لیے اپنی سرحد کھول دی تھی۔ یہاں اپنے پاکستان میں بھی امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ اور مقبول رہنماؤں کو ٹھکانے لگانے کی تاریخ بڑی کربناک ہے۔ اس مہینے کی سات تاریخ کو فلسطین کی جہادی تنظیم 'حماس' کے عسکری ونگ نے جنوبی اسرائیل میں اسرائیلی ٹھکانوں پر اچانک حملہ کردیا تھا۔
یہ حملہ اتنا اچانک اور اس کی شدت اور پھیلاؤ اس قدر زیادہ تھا کہ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس حملے کے نتیجے میں ڈیڑھ ہزار اسرائیلی ہلاک ہوئے جب کہ ڈیڑھ سو سے زائد کو یرغمال بنالیا گیا۔ مغربی میڈیا اس حملے کو دوسرا 'ہولو کاسٹ' اور 9/11 قرار دے رہا ہے۔ حماس نے یہ حملہ یہودیوں کے سب سے مقدس مذہبی دن 'یوم کپور' کے موقع پر کیا۔
آج سے 50 برس قبل عرب ممالک کی اتحادی افواج نے 6 اکتوبر 1973 کو اسرائیل پر جو بڑا حملہ کیا تھا، وہ بھی 'یوم کپور' پر کیا گیا تھا۔ جہاں ایک طرف یہودی یوم کپور کا تہوار منا رہے تھے، تو وہیں مسلمانوں کے ہاں ماہ رمضان چل رہا تھا۔ اسی لیے اسے 'جنگ رمضان' بھی کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ متوقع تھا اسرائیل کی طرف سے اس کا شدید ردعمل سامنے آیا اور حماس کے زیر کنٹرول 'غزہ' کے علاقے پر 6000 سے زائد بم گرائے جا چکے ہیں جس سے پورا علاقہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔
جو بمباری غزہ پر کی گئی ہے وہ افغانستان پر امریکی حملے کے دوران پورے ایک سال میں کی جانے والی بمباری سے بھی زیادہ ہے۔ آخر حماس نے ایسا حملہ کیوں کیا جس کے نتیجے میں مکمل تباہی کا خطرہ سامنے نظر آرہا تھا؟ جواب یہ ہے کہ عالمی سفارتکاری میں اس بات کے واضح اشارے مل رہے تھے کہ سعودی عرب سمیت مشرق وسطیٰ کے اہم ممالک اس بات پر کم و بیش آمادہ ہو چکے تھے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے راستے میں مسئلہ فلسطین کو رکاوٹ نہیں بننے دیا جائے گا۔
سب سے نمایاں اظہار اسرائیلی وزیر اؑعظم کے اقوام متحدہ سے حالیہ خطاب میں سامنے آیا جب انھوں نے کہا کہ '' عربوں سے تعلقات معمول پر لانے میں مسئلہ فلسطین کو اب ' ویٹو' کی حیثیت حاصل نہیں رہی۔'' یعنی عرب اس بات پر راضی ہو گئے ہیں کہ فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل جیسا چاہے سلوک کرے اس کا اثر عرب ، اسرائیل تعلقات پر نہیں پڑے گا۔
ہم پاکستانی ذرا سا ذہنوں پر زور دیں تو کیا ہمیں بھی یہی سبق نہیں پڑھایا جاتا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے میں مسئلہ کشمیر کو مت لاؤ۔ تجارت کرو، راستے کھولو، کلچرل سرگرمیاں کرو، کشمیر یوں کو بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑ دو۔غزہ میں زمینی کارروائی کے حوالے سے بات کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ جنگ کی نفسیات کے کچھ اہم نقاط کا ذکر کر لیا جائے۔ انسان کی اسلحہ سازی میں ہوشربا ترقی خوف کی مرہون منت ہے۔
ہتھیاروں کی ہلاکت خیزی میں جتنا اضافہ ہو رہا ہے اُسی قدر لڑنے والوں کے درمیان فاصلہ بھی بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ تلوار کے زمانے میں مقابلہ دو ہاتھ کی دوری کے ساتھ ہوتا تھا، اب فاصلہ سیکڑوں ہزاروں کلومیٹرز پر محیط ہے۔
انسان دوسرے کو دور، بہت دور سے مار دینا چاہتا ہے۔ جن اقوام نے یہ ترقی حاصل کی ہے ان کی افواج میں نفسیاتی طور پر ایک احساس راسخ ہوا ہے کہ وہ دشمن کے قریب جانے سے گریز کی طرف مائل ہیں۔ دوسری جانب بے دست و پا، اپنے حقوق اور آزادی کے لیے لڑنے والوں کی نفسیات اس سے بالکل اُلٹ ہے۔ اُن کی اصل طاقت ہی دشمن سے فاصلہ گھٹانے میں ہے۔
امریکا جیسی بڑی عالمی عسکری قوت نے عراق اور افغانستان میں فوجی کارروائیوں میں زمینی فوج اُس وقت داخل کی جب وہ اپنی دانست میں دشمن کو فضا سے ہی ملیامیٹ کر چکا تھا۔ بالکل یہی حکمت عملی اسرائیل نے اختیار کی ۔
بنیادی نکتہ یہ ہے کہ دشمن بمباری کرنیوالے طیاروں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اُس کے ہتھیار اُس بلندی تک مار نہیں کرتے جہاں حملہ آور طیارے پرواز کرتے ہیں، بس یہی فرق ان ممالک کو کسی پر بھی چڑھ دوڑنے پر اُکساتا ہے۔اب آتے ہیں اسرائیل کے زمینی حملے کی طرف۔ صورتحال تو یہی بتاتی ہے کہ زمینی کارروائی ضرور ہو گی، حالانکہ عسکری تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ فوج غزہ میں داخل کرنے کا مطلب طویل گوریلا جنگ میں اُلجھنا ہے۔اسرائیل کے تمام سیاست دان زمینی کارروائی پر زور دے رہے ہیں۔
وزیر اعظم نیتن یاہو کی پالیسیوں کو حماس کے حملے کا موجب قرار دیا جا رہا ہے لہٰذا وہ بھی سیاسی اعتبار سے یہ داغ دھونا چاہتے ہیں۔ اسرائیلی عوام کے سر پر خون سوار ہے ، بات کسی حملے کا جواب دینے تک محدود نہیں رہی بلکہ مطالبہ انتقام کا ہے چاہے کتنا ہی خون کیوں نہ بہا دیا جائے۔جو خفیہ اطلاعات سامنے آرہی ہیں اُن کے مطابق اسرائیلی افواج بڑے پیمانے پر عسکری وسائل ، خوراک اور گولہ بارود ذخیرہ کر رہی ہیں کیونکہ ان کی عسکری قیادت کے اندازوں کے مطابق کارروائی کئی مہینوں تک جاری رہ سکتی ہے۔
زمینی کارروائی میں تاخیر کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ اسرائیلی انٹیلی جنس ابھی تک اُن مقامات کا درست پتہ معلوم نہیں کر پائی جہاں اسرائیلی یرغمالیوں کو رکھا گیا ہے۔ اسرائیل کے فیصلہ سازوں میں دائیں بازو کے سیاست دان سمجھتے تھے کہ حماس فائدہ مند دشمن ہے جس نے فلسطینیوں کو تقسیم کر رکھا ہے اور یوں اسرائیل پر دباؤ کم ہے لیکن اب اسرائیل میں اس رائے کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔
اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل محدود جنگوں میں جو اہداف حاصل کرلیا کرتا تھا اب جو لامحدود جنگ وہ شروع کرنا چاہتا ہے اس میں بھی ان کا حصول ممکن نہیں رہے گا۔ اسرائیل کی زمینی کارروائی محدود وقت کے لیے تو کامیابی دے سکتی ہے لیکن مقامی آبادی کے حماس کے ساتھ ہونے کے باعث اسرائیل کے لیے جانی اور مالی نقصان ناقابل برداشت ہوجائے گا۔ اس کے باوجود معاملات جہاں پہنچ چکے ہیں واپسی کی اُمید کم ہے۔
عالمی سطح پر مسلم دنیا کی عمومی بے عملی کے باعث حماس کے لیے صورتحال اچھی نہیں۔ ایسے مسلم ممالک اور سیاسی گروہ بھی موجود ہیں جو ہر قیمت پر فلسطینیوں کو مدد فراہم کرنے کی کوشش کریں گے جس کے نتیجے میں اسلامی ملکوں پر بے پناہ دباؤ آئے گا اور حالات مزید بگڑنے کا اندیشہ دامن گیر رہے گا۔ اس صورتحال سے نکلنے کی واحد سبیل یہی ہے کہ اسرائیل کی طرح فلسطینیوں کو بھی ان کا آزاد ملک مل جائے لیکن اس کا امکان دور دور تک نظر نہیں آتا۔
عبرتناک بات یہ ہے کہ ماضی میں فلسطین کی آزادی کے لیے سب سے زیادہ متحرک رہنے والے ممالک میں سے ایک 'مصر' مظلوم فلسطینیوں کے لیے آنے والی امداد کو اپنی سرحد پر روکے ہوئے ہے کہ جب تک امریکی اجازت نہ ہو گی کوئی چیز سرحد پار نہیں جائے گی۔ امریکا کی خارجہ پالیسی کا بنیادی نکتہ ہے کہ جو ملک امریکی مفاد کے لیے تعاون نہ کرے وہاں حکومت ہی گرا دی جائے اور اپنے ایجنٹوں کو اقتدار میں لے آیا جائے۔
مصر میں بھی محمد مُرسی کی حکومت اسی لیے گرائی گئی کہ اُس نے محصور فلسطینیوں کے لیے اپنی سرحد کھول دی تھی۔ یہاں اپنے پاکستان میں بھی امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ اور مقبول رہنماؤں کو ٹھکانے لگانے کی تاریخ بڑی کربناک ہے۔ اس مہینے کی سات تاریخ کو فلسطین کی جہادی تنظیم 'حماس' کے عسکری ونگ نے جنوبی اسرائیل میں اسرائیلی ٹھکانوں پر اچانک حملہ کردیا تھا۔
یہ حملہ اتنا اچانک اور اس کی شدت اور پھیلاؤ اس قدر زیادہ تھا کہ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس حملے کے نتیجے میں ڈیڑھ ہزار اسرائیلی ہلاک ہوئے جب کہ ڈیڑھ سو سے زائد کو یرغمال بنالیا گیا۔ مغربی میڈیا اس حملے کو دوسرا 'ہولو کاسٹ' اور 9/11 قرار دے رہا ہے۔ حماس نے یہ حملہ یہودیوں کے سب سے مقدس مذہبی دن 'یوم کپور' کے موقع پر کیا۔
آج سے 50 برس قبل عرب ممالک کی اتحادی افواج نے 6 اکتوبر 1973 کو اسرائیل پر جو بڑا حملہ کیا تھا، وہ بھی 'یوم کپور' پر کیا گیا تھا۔ جہاں ایک طرف یہودی یوم کپور کا تہوار منا رہے تھے، تو وہیں مسلمانوں کے ہاں ماہ رمضان چل رہا تھا۔ اسی لیے اسے 'جنگ رمضان' بھی کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ متوقع تھا اسرائیل کی طرف سے اس کا شدید ردعمل سامنے آیا اور حماس کے زیر کنٹرول 'غزہ' کے علاقے پر 6000 سے زائد بم گرائے جا چکے ہیں جس سے پورا علاقہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔
جو بمباری غزہ پر کی گئی ہے وہ افغانستان پر امریکی حملے کے دوران پورے ایک سال میں کی جانے والی بمباری سے بھی زیادہ ہے۔ آخر حماس نے ایسا حملہ کیوں کیا جس کے نتیجے میں مکمل تباہی کا خطرہ سامنے نظر آرہا تھا؟ جواب یہ ہے کہ عالمی سفارتکاری میں اس بات کے واضح اشارے مل رہے تھے کہ سعودی عرب سمیت مشرق وسطیٰ کے اہم ممالک اس بات پر کم و بیش آمادہ ہو چکے تھے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے راستے میں مسئلہ فلسطین کو رکاوٹ نہیں بننے دیا جائے گا۔
سب سے نمایاں اظہار اسرائیلی وزیر اؑعظم کے اقوام متحدہ سے حالیہ خطاب میں سامنے آیا جب انھوں نے کہا کہ '' عربوں سے تعلقات معمول پر لانے میں مسئلہ فلسطین کو اب ' ویٹو' کی حیثیت حاصل نہیں رہی۔'' یعنی عرب اس بات پر راضی ہو گئے ہیں کہ فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل جیسا چاہے سلوک کرے اس کا اثر عرب ، اسرائیل تعلقات پر نہیں پڑے گا۔
ہم پاکستانی ذرا سا ذہنوں پر زور دیں تو کیا ہمیں بھی یہی سبق نہیں پڑھایا جاتا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے میں مسئلہ کشمیر کو مت لاؤ۔ تجارت کرو، راستے کھولو، کلچرل سرگرمیاں کرو، کشمیر یوں کو بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑ دو۔غزہ میں زمینی کارروائی کے حوالے سے بات کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ جنگ کی نفسیات کے کچھ اہم نقاط کا ذکر کر لیا جائے۔ انسان کی اسلحہ سازی میں ہوشربا ترقی خوف کی مرہون منت ہے۔
ہتھیاروں کی ہلاکت خیزی میں جتنا اضافہ ہو رہا ہے اُسی قدر لڑنے والوں کے درمیان فاصلہ بھی بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ تلوار کے زمانے میں مقابلہ دو ہاتھ کی دوری کے ساتھ ہوتا تھا، اب فاصلہ سیکڑوں ہزاروں کلومیٹرز پر محیط ہے۔
انسان دوسرے کو دور، بہت دور سے مار دینا چاہتا ہے۔ جن اقوام نے یہ ترقی حاصل کی ہے ان کی افواج میں نفسیاتی طور پر ایک احساس راسخ ہوا ہے کہ وہ دشمن کے قریب جانے سے گریز کی طرف مائل ہیں۔ دوسری جانب بے دست و پا، اپنے حقوق اور آزادی کے لیے لڑنے والوں کی نفسیات اس سے بالکل اُلٹ ہے۔ اُن کی اصل طاقت ہی دشمن سے فاصلہ گھٹانے میں ہے۔
امریکا جیسی بڑی عالمی عسکری قوت نے عراق اور افغانستان میں فوجی کارروائیوں میں زمینی فوج اُس وقت داخل کی جب وہ اپنی دانست میں دشمن کو فضا سے ہی ملیامیٹ کر چکا تھا۔ بالکل یہی حکمت عملی اسرائیل نے اختیار کی ۔
بنیادی نکتہ یہ ہے کہ دشمن بمباری کرنیوالے طیاروں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اُس کے ہتھیار اُس بلندی تک مار نہیں کرتے جہاں حملہ آور طیارے پرواز کرتے ہیں، بس یہی فرق ان ممالک کو کسی پر بھی چڑھ دوڑنے پر اُکساتا ہے۔اب آتے ہیں اسرائیل کے زمینی حملے کی طرف۔ صورتحال تو یہی بتاتی ہے کہ زمینی کارروائی ضرور ہو گی، حالانکہ عسکری تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ فوج غزہ میں داخل کرنے کا مطلب طویل گوریلا جنگ میں اُلجھنا ہے۔اسرائیل کے تمام سیاست دان زمینی کارروائی پر زور دے رہے ہیں۔
وزیر اعظم نیتن یاہو کی پالیسیوں کو حماس کے حملے کا موجب قرار دیا جا رہا ہے لہٰذا وہ بھی سیاسی اعتبار سے یہ داغ دھونا چاہتے ہیں۔ اسرائیلی عوام کے سر پر خون سوار ہے ، بات کسی حملے کا جواب دینے تک محدود نہیں رہی بلکہ مطالبہ انتقام کا ہے چاہے کتنا ہی خون کیوں نہ بہا دیا جائے۔جو خفیہ اطلاعات سامنے آرہی ہیں اُن کے مطابق اسرائیلی افواج بڑے پیمانے پر عسکری وسائل ، خوراک اور گولہ بارود ذخیرہ کر رہی ہیں کیونکہ ان کی عسکری قیادت کے اندازوں کے مطابق کارروائی کئی مہینوں تک جاری رہ سکتی ہے۔
زمینی کارروائی میں تاخیر کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ اسرائیلی انٹیلی جنس ابھی تک اُن مقامات کا درست پتہ معلوم نہیں کر پائی جہاں اسرائیلی یرغمالیوں کو رکھا گیا ہے۔ اسرائیل کے فیصلہ سازوں میں دائیں بازو کے سیاست دان سمجھتے تھے کہ حماس فائدہ مند دشمن ہے جس نے فلسطینیوں کو تقسیم کر رکھا ہے اور یوں اسرائیل پر دباؤ کم ہے لیکن اب اسرائیل میں اس رائے کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔
اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل محدود جنگوں میں جو اہداف حاصل کرلیا کرتا تھا اب جو لامحدود جنگ وہ شروع کرنا چاہتا ہے اس میں بھی ان کا حصول ممکن نہیں رہے گا۔ اسرائیل کی زمینی کارروائی محدود وقت کے لیے تو کامیابی دے سکتی ہے لیکن مقامی آبادی کے حماس کے ساتھ ہونے کے باعث اسرائیل کے لیے جانی اور مالی نقصان ناقابل برداشت ہوجائے گا۔ اس کے باوجود معاملات جہاں پہنچ چکے ہیں واپسی کی اُمید کم ہے۔
عالمی سطح پر مسلم دنیا کی عمومی بے عملی کے باعث حماس کے لیے صورتحال اچھی نہیں۔ ایسے مسلم ممالک اور سیاسی گروہ بھی موجود ہیں جو ہر قیمت پر فلسطینیوں کو مدد فراہم کرنے کی کوشش کریں گے جس کے نتیجے میں اسلامی ملکوں پر بے پناہ دباؤ آئے گا اور حالات مزید بگڑنے کا اندیشہ دامن گیر رہے گا۔ اس صورتحال سے نکلنے کی واحد سبیل یہی ہے کہ اسرائیل کی طرح فلسطینیوں کو بھی ان کا آزاد ملک مل جائے لیکن اس کا امکان دور دور تک نظر نہیں آتا۔