بنگلورو میں پاکستان ٹیم کا بھارتی شائق

مجھے حیرت ہوئی، وہ لڑکا بھارتی شرٹ پہنے ہوا تھا، اس نے بتایا کہ وہ ’’کرکٹ پاکستان ‘‘ پر میری ویڈیوز دیکھتا ہے

(فوٹو: اسکرین شارٹ)

''اچھا بھائی اپنا خیال رکھیے گا'' جب واہگہ بارڈر پر رخصت کرتے ہوئے عباس رضا نے گلے لگتے ہوئے بڑے جذباتی انداز میں یہ کہا تو مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی، موجودہ حالات میں اگر کوئی پاکستانی بھارت جائے تو قریبی لوگوں کو بخیریت واپسی تک فکر تو رہتی ہے۔

بھارت نے اس بار پاکستانیوں کے لیے ویزے کا حصول انتہائی مشکل رکھا، دنیا میں کہیں بھی کرکٹ میچ ہو ایکریڈیشن کے حامل صحافیوں کو تو ویزا مل ہی جاتا ہے،البتہ اس بار ایسا نہیں ہوا، آئی سی سی نے بہت کوشش کی لیکن اسے زیادہ کامیابی نہ ملی، پاکستان سے محض 8،10 صحافیوں کو ہی بھارت جانے کا اجازت نامہ ملا۔

ان میں سے ایک میں بھی ہوں،مجھے جب انڈین ہائی کمیشن سے پاسپورٹ دینے کیلیے کال آئی تو اگلی صبح ہی کوریئر کمپنی کے دفتر میں دستاویزات کے ساتھ جمع کرا دیا، مگر دو دن بعد پھر پیغام ملا کہ پاسپورٹ تو ملا ہی نہیں کوریئر والوں کا کچھ مسئلہ ہو گیا۔

مزید پڑھیں: ورلڈکپ 2023 : شاہین آفریدی نے اب تک کا اہم اعزاز حاصل کرلیا

میرا ارادہ پاک بھارت میچ دیکھنے کیلیے احمد آباد جانے کا تھا مگر جب کراچی میں پاسپورٹ واپس ملا تو میچ کے 10 اوورز ہوچکے تھے،میں جب بھی بھارت گیا انٹری پوائنٹ دہلی ہی رہا، اس بار بھارت نے دہلی کے ساتھ واہگہ اور ممبئی کا بھی آپشن دیا کہ تینوں میں سے کسی بھی شہر سے آمد اور واپسی ممکن ہے۔

مزید پڑھیں: ورلڈکپ؛ انتہا پسند بھارتی پولیس نے فینز کو 'پاکستان زندہ باد' کے نعرے لگانے سے روک دیا

پہلے آسانی تھی کراچی سے پی آئی اے کی پرواز سے براہ راست چند گھنٹوں میں بھارت پہنچ جاتے تھے، اب دبئی،قطر یا کسی اور ملک کی ایئرلائنز سے جانا پڑتا ہے، میں نے واہگہ کا آپشن لیا کہ نیا تجربہ ہو جائے گا، وہاں پہنچا تو سناٹے نے استقبال کیا، پہلے جب ویزے میں اتنی سختی نہیں تھی تو ہزاروں لوگ آتے جاتے تھے اب محدود تعداد میں ہی شہری آ جا سکتے ہیں، امیگریشن وغیرہ کا معاملہ چند منٹ میں ہی مکمل ہوگیا۔



میرے سوا شاید3،4 ہی اور لوگ تھے،چند قدم چل کر بھارتی حدود میں داخل ہوگیا، جہاں جاتے ہی پاسپورٹ کی تفصیلات چیک کی گئیں، پھر ایک کتا سامان سونگھنے آیا، وہاں سے ایک بار پھر پاسپورٹ اور سامان چیک کرانے کے بعد بس کے انتظار میں بٹھا دیاگیا،خیر وہاں کافی وقت لگا اور کئی بار تلاشی بھی ہوئی، پولیو ڈراپ لینے کا سرٹیفکیٹ دکھایا پھر بھی دوبارہ قطرے پلائے گئے اور انڈین سرٹیفکیٹ دیا، جب اٹاری سے امرتسر جانے کیلیے ٹیکسی میں بیٹھا تب بھی ایک اہلکار پاسپورٹ چیک کرنے آیا۔


میں سمجھا اب یہ مرحلہ ختم ہو گیا لیکن تھوڑے آگے ایک چیک پوسٹ پر ٹیکسی سے اتر کر پھر پاسپورٹ اور ویزا دکھانا پڑا، وہاں سے امرتسر ایئرپورٹ پہنچا جہاں چند گھنٹے بعد بنگلورو کی فلائٹ تھی،بھارت اور پاکستان کی کرنسی میں کافی فرق آ چکا، بھارتی ایک روپے کی ویلیو تقریبا ساڑھے تین روپے پاکستانی ہے، بھارت میں پاکستانی کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈز بھی نہیں چلتے، اس لیے ڈومیسٹک ٹکٹس اور ہوٹل کی بکنگ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، بنگلور آمد کے بعد عالمی معیار کا ایئرپورٹ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی، بنگلور بھارت کا تیسرا سب سے بڑی آبادی والا شہر ہے، یہاں لٹریسی ریٹ 80 فیصد سے زائد اور یہ آئی ٹی کا اہم مرکز ہے۔

سابق بھارتی اسٹارز راہول ڈریوڈ اور انیل کمبلے کا تعلق اسی شہر سے ہے، ہوٹل میں ساتھی صحافی فیضان لاکھانی نے مجھے میرا ایکریڈیشن کارڈ دیا، فیضان آل راؤنڈر ہیں، وہ ہر کھیل کو یکساں اہمیت دیتے ہیں، ان کے ساتھ ایک اور محنتی رپورٹر عتیق الرحمان بھی تھے،پاکستان سے عباس شبیر اور اعجاز باکھری بھی آئے ہوئے ہیں، کچھ خبریں بھیجنے کے بعد آرام کیا، اگلی صبح ناشتے کے وقت ریسٹورنٹس میں مختلف اخبارات دیکھے تو ایکسپریس کے مرحوم ایڈیٹر طاہر نجمی یاد آئے، میں جب بھی ملک سے باہر جاتا تو ان کے لیے وہاں سے اخبارات ضرور لے کر آتا تھا، ناشتے کے بعد میں بنگلور کے ایک مال چلا گیا وہاں سے کچھ شاپنگ کی۔

مزید پڑھیں: ورلڈکپ؛ پاکستانی بالرز ڈیوڈ وارنر کو فارم میں لے آئے

پھر ہوٹل آ کر وہاں سے اسٹیڈیم روانہ ہوا، اسٹیڈیم کے اطراف کی سڑکوں پر ٹریفک رواں اور فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے لوگ اپنے انکلوژرز میں داخل ہو رہے تھے، وہاں ایک شائق کو پاکستانی ٹیم شرٹ میں ملبوس دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی، میں نے ان سے بات چیت کی تو بتایا کہ وہ بنگلور سے ہی تعلق رکھتے ہیں اور پڑوسی ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان کو سپورٹ کر رہے ہیں، تھوڑا آگے گیا تو کسی نے نام لے کر پکارا، مجھے حیرت ہوئی، وہ لڑکا بھارتی شرٹ پہنے ہوا تھا، اس نے بتایا کہ وہ ''کرکٹ پاکستان '' پر میری ویڈیوز دیکھتا ہے۔

ساتھ یہ بھی کہا کہ بابر اعظم دوستی یاری میں ٹیم منتخب کرتا ہے اس لیے پاکستان ٹیم کی کارکردگی اچھی نہیں ہے، ایک اور صاحب گرین شرٹ پہن کر آئے تھے،انھوں نے بتایا کہ نیدرلینڈز میں رہتے ہیں اس لیے ویزا مل گیا، ایونٹ میں دونوں ٹیموں کو سپورٹ کر رہے ہیں، وہاں موجود بعض شائقین نے چہرے پر ہرا اور سفید رنگ پینٹ بھی کرایا ہوا تھا،اسٹیڈیم کے باہر ڈھائی سو روپے میں بعض لوگ آسٹریلیا اور بھارت کی شرٹس فروخت کر رہے تھے، کئی نوجوان وارنر،اسمتھ و دیگر کے نام کی شرٹس پہنے دکھائی دیے۔

مزید پڑھیں: عماد وسیم نے بابراعظم سے ناخوشگوار تعلق کے سوال کو 'پیچیدہ' قرار دیدیا

؎ایک جگہ بلیک میں ٹکٹ فروخت کرنے والے کو بھی دیکھا، اسٹیڈیم گوکہ مکمل نہیں بھرا ہوا تھا مگر پھر بھی بڑی تعداد میں شائقین پہنچے، کھانے کے وقت وقار یونس سے بھی ملاقات ہوئی، حالانکہ اس وقت 20،22 اوورز ہی ہوئے تھے لیکن وقار یونس نے پیشگوئی کر دی کہ 350 سے زائد رنز بنیں گے، سب جانتے ہیں کہ چناسوامی اسٹیڈیم کی پچ بیٹنگ کیلیے انتہائی سازگار اور باؤنڈریز بھی چھوٹی ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستانی کھلاڑیوں سے شائقین کی بدسلوکی؛ عرفان پٹھان نے نیا جواز پیش کردیا

اس کے باوجود بابر اعظم نے ٹاس جیت کر آسٹریلیا کو بیٹنگ دینے کا حیران کن فیصلہ کیا، اس کے بعد ڈیوڈ وارنر کا آغاز میں ہی کیچ ڈراپ ہو گیا،پھر دونوں نے بہت بڑی پارٹنر شپ بنا دی، جب پہلی وکٹ گری تو ''دل دل پاکستان'' نغمہ چلایا گیا مگر آواز بہت کم تھی، شائقین نے آسٹریلیوی بیٹرز کو خوب سپورٹ کیا، وارنر وارنر کے نعرے بھی لگتے رہے،آئی سی سی کا ایونٹ ہے اس لیے اسٹیڈیم میں انتظامات بہت اچھے ہیں، آسٹریلیا نے پاکستانی بولرز کی خوب پٹائی لگا دی اور 367رنز بنا لیے، اب میں چائے پینے جا رہا ہوں، ویسے بھی الفاظ زیادہ ہو گئے،انشااللہ باقی باتیں کل بتاتا ہوں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
Load Next Story