مٹتی ہوئی معاشرتی اقدار
کہتے ہیں کسی معاشرے کو مفلوج کرناہو تو اس کی اقدار چھین لو
کسی بھی معاشرے کی بات کی جائے تو اس میں سب سے اہم کردار اقدار کا ہوتا ہے۔ یہ معاشرتی اقدار ہی ہوتی ہیں جو کسی معاشرے کو دوسرے معاشرے سے منفرد بناتی ہیں۔ افراد میں جو انسانی و اخلاقی اقدار پیدا ہوتی ہیں تو ان کی داغ بیل معاشرتی اقدار ہی ڈالتی ہیں۔رویے اور سوچ اپنی اقدار سے جنم لیتے ہیں۔
دنیا کے ترقی یافتہ معاشرے اپنی اقدار کی بدولت پروان چڑھے ہیں ۔ کہتے ہیں کسی معاشرے کو مفلوج کرناہو تو اس کی اقدار چھین لو۔ یعنی اقدار کی حیثیت کسی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی سی ہوتی ہے۔اور اس کو پہنچنے والی کوئی بھی چوٹ اسے مفلوج کر سکتی ہے۔جسمانی معذوری تو کسی انسان کو ترقی سے نہیں روک سکتی مگر ذہنی و اخلاقی گراوٹ کا شکار معاشرہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔ گزشتہ دہائیوں میں پاکستانی معاشرے نے جہاں بہت سے میدانوں میں ترقی کی ہے وہی ایک تاریک گراوٹ کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ اور وہ تاریکی کا پہلو معاشرتی اقدار و روایات وضع ہو رہا ہے۔
معاشرے میں اخلاقی گراوٹ بڑھنے لگی ہے۔احساس، رواداری اوراخلاق و کردار بلند نہ ہو تو نسل انسانی اور حیوانات میں فرق نہیں رہتا۔ انسان کو اشرف المخلوقات اسی لئے کہا گیا ہے کہ وہ شعور رکھتا ہے۔ خاندان بناتا ہے معاشرے کی تجدید ِ نو میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ آج ہم اپنی بدلتی ہوئی اقدار پر نظر ثانی کرتے ہوئے انھیں بہتر بنانے کی چند تجاویز پر غور کریں گے۔
خاندان کی حیثیت ایک فیول سٹیشن کی سی ہے۔ جہاں سے ہم زندگی میںآگے بڑھنے کی طاقت کو حاصل کرتے ہیں۔انسانی معاشرے کی اساس خاندان ہی ہے۔ جب ہم خاندان کی تشکیل کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد میاں بیوی اور بچے ہیں۔
یوں تو کہا جاتا ہے کہ میاں بیوی گاڑی کے دو پہیئے ہیں اور توازن کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔آج ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے اور میاں بیوی جو شادی کے بندھن میں بندھے ہیں وہ بھی ایک دوسرے سے بیزار دکھائی دیتے ہیں۔ وہ وقت اور محبت جس کا یہ رشتہ متقاضی ہے وہ سب ایک دوسرے کو دینے کے بجائے موبائل اور سوشل میڈیا کو دے کر دونوں ایک دوسرے کی حق تلفی کرتے ہیں۔
یہ بات یاد رکھی چاہیئے کہ میاں بیوی کا رشتہ ہی وہ رشتہ ہے جو کائنات میں سب سے پہلے دو انسانوں کے بیچ قائم ہوا۔اور یہ رشتہ تقاضا کرتا ہے کہ ایک دوسرے کو مکمل طور پر قبول کیا جائے۔ایک دوسرے کو مذہبی اور قانونی طور پر اپنا لینے کا نام ہی شادی نہیں بلکہ دونوں کا ایک دوسرے کو ذہنی و قلبی طور پر اپنانا شادی ہے۔جب دو لوگ ایک دوسرے سے مخلص ہوں اور محبت کریں تب ہی ایک مضبوط خاندان جنم لے گا۔
شادی ایک اہم مرحلہ ہے۔لیکن افسوس کے ساتھ شادی کو لے کر ہمارے معاشرے کی اقدار بری طرح متاثر ہو چکی ہیں۔یہاں شادی کو ایک اہم فریضہ سمجھ کر نہیں بلکہ دکھاوا سمجھ کر کیا جاتاہے۔
شادی بیاہ کی فضول رسومات جو رشتہ دیکھنے سے لے کر شادی ہوجانے کے بعد تک جاری رہتی ہیں اصراف اور فضول خرچی کے سوا کچھ نہیں۔اسلام آسانی کا دین ہے اور یہ کبھی لوگوں کے لئے مشکلات کا پسندنہیں کرتا۔یہ سادگی کا درس دیتا ہے ۔ جہاں نکاح کو آسان بنا کر معاشرے میں مرد و عورت کا پاکیزہ تعلق پروان چڑھ سکے۔جہیز کی لعنت اور ہندوانا رسومات کا قلع قمع کرنا اس کی اساس ہے۔شادی کے لئے انتخاب ہو یا ولیمہ ہماری اسلامی اقدار کہتی ہیں کہ اس کو کسی کے لئے مشکل نہ بنایا جائے۔
والدین اور اولاد کا رشتہ اس دنیا میں بیش قیمت رشتہ ہے جو بے لوث اور بے غرض ہوتا ہے۔اولاد کی تربیت اور شفقت و محبت سب والدین کی ذمہ داری ہے ۔ جہاں والدین ان ذمہ داریوںمیں غفلت برتتے ہیں وہاںمعاشرے میں بگاڑ پیدا ہونے لگتا ہے۔گھر کا ماحول اس ضمن میں اہم ہے،تربیت جتنی لڑکیوں کے لئے اہم ہے لڑکوں کی تربیت بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ لڑکیوں کی تربیت اور کردار کو لے کر حد سے زیادہ حساسیت کا شکار رہتے ہیں جبکہ لڑکوں کو اس معاملے میں چھوٹ دے کرمعاشرے میںبگاڑ پیدا کرنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔بچوں کو اچھے برے سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔
انھیں ہر وقت ٹیکنالوجی کی آغوش میں دینے سے کئی بہتر ہے کہ شروع سے ان کا رشتہ قلم اور کتاب سے جوڑا جائے۔ کتابیں شعور دیتی ہیں۔ کتب بینی کی عادت سے بچوں میں چیزوںکو سمجھنے اور پرکھنے کا شعور پروان چڑھتا ہے۔اگر والدین خود اخلاق و کردار کا بہترین نمونہ نہیں بنیں گے اور اعلی اخلاقی اقدار کو بچوں میں منتقل کرنے سے قاصر رہیں گے تو ایک بہترین معاشرے کی تکمیل ناممکن ہے۔
کوئی بھی انسان تنہا معاشرہ نہیں بنا سکتا۔رشتے وہ خوبصورت ڈور ہیں جو زندگی میں خوشیوں کی پتنگ کو اونچا اڑنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔ ہماری اقدار ہمیں اپنے رشتوںسے محبت اور اخلاص سے پیش آنے کی تلقین کرتی ہیں۔ لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں رشتوں میں منفی رویوں کا رجحان پروان چڑھ رہا ہے۔
قریبی رشتوں پر لطیفے بنا کر ان کی حرمت کو پامال کیا جاتا ہے۔بلکہ آج کل تو بچوںکو یہ تک نہیں معلوم ہوتا کہ ان کے انتہائی قریبی رشتے کونسے ہیں۔ انفرادیت بری چیز نہیں مگر انفرادیت کے پیچھے لگ کر اجتماعیت کے فوائد کو کھو دینے والے بے نام و نشان رہ جاتے ہیں۔ رشتہ داری نبھانا ضروری ہے کسی کے سکھ دکھ میں اس کے ساتھ کھڑا ہونا بھی قابل ستائش عمل ہے لیکن جو بات یہاں سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ ہر خاندان کی اپنی ایک نجی زندگی ہے جسے اپنی مرضی سے گزارنا ان کا حق ہے۔کسی کے معاملات میں بلاوجہ دخل دینا یا ان کے نجی معاملات پر تبصرے کرنا قطعاً ہماری اقدار نہیں۔
حسد وہ بیماری ہے جو انسان کی نیکیوںکو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ جب کسی کے پاس کچھ اچھا دیکھیں تو رشک کا اظہار کریں حسد کا نہیں اور بہتر کے حصول کے لئے اپنی مثبت توانائیوں کو صرف کریں۔ منفی سوچ اور منفی اقدام آپ کو اطمینانِ قلب سے محروم کر دیتے ہیں۔
یہ یاد رکھیں آپ کسی کا نصیب اس سے نہیں چھین سکتے۔تو رشتوں کو تعلقات کو کسی صلح کی توقع کئے بنااحترام دیں۔اپنے بچوں کو اپنے اصل کی پہچان ضرور کروائیں مگر ان کے اندر نسلی تعصب اور تفاخر پیدا کرنے کے بچائے انھیں خود ایک اچھا انسان بن کر معاشرے کے لئے قابل فخر فرد بنانا سیکھائیں۔
خواتین معاشرے کی اہم رکن ہیں۔ ہماری بدلتی اقدار نے خواتین کے حوالے سے بھی کچھ منفی رویوں کو اپنا لیا ہے جو کہ افسوسناک ہے۔بدقسمتی سے خواتین کو ہراسمینٹ اوردیگر ایسے معاملات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کہ ناقابل برداشت ہیں۔خواتین چاہے چار دیواری میں ہوں یا چار دیواری سے باہر ، خواہ وہ محرم ہوں یا نامحرم ان کا احترام کرنا لازم ہے۔اس سے متعصبانہ سلوک اور ان کے حقوق نہ دینا سراسر زیادتی ہے۔
ایک تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ خواتین اپنے اصل حقوق کو پہچاننے سے قاصر ہیں اور معاشرے میں ایسی دوڑ کا حصہ بن گئی ہیں جو ان کے شایان ِ شان نہیں۔ اسلام کی بات کی جائے تو اسلام میں خواتین کو وراثت میں، جائیداد میں حق دیا ہے۔ عورت کی معاشی کفالت کی ذمہ داری مرد پر ڈالی ہے۔ مہر اور شادی سے متعلق مختلف معملات میں خواتین کو زیادہ سے زیادہ سہولت اور افضلیت دی ہے۔یہاں تک کے خاتون کا درجہ اتنا بلند کر دیا کہ بطورِ ماں اس کے قدموں تلے جنت رکھ دی۔
تہذیب کسی بھی معاشرے کو سنوارتی ہے۔ اس کے اثرات متاثرکن اور دیرپا ہوتے ہیں۔ تہذیب سے مراد رہن سہن اور انداز و اطور کے آداب ہیںجو کسی بھی گرو کے افراد کو دوسروں سے ممتاز کرتے ہیں۔ہماری اقدار ہمیں لوگوں سے میل جول اور دیگر معمولات کے حوالے سے بہترین انداز میں برتاؤ کرنا سیکھاتی ہیں۔
وہ چاہے گھر کے دسترخواںپر بیٹھنے کے آداب ہوں یا سڑک پر چلنے کے ۔ آج کل گھر وں اور سڑکوں پر ہمیں بدتہذیبی کے جو مظاہرے دکھائی دیتے ہیں ان کی بڑی وجہ تربیت اور تہذیب کی کمی ہے۔ والدہ ہو یا والد دونوں پر لازم ہے کہ اپنے بچے کی اچھی سے اچھی تربیت کریں۔ انھیں سیکھائیں کہ جب کسی سے ملنا ہے تو کیسے آداب ہیں، دسترخواں پر بیٹھنا ہے تو اللّٰہ کا نام لے کر اور شکر ادا کر کے کھانا ہے، کھانا اتنا ہی ڈالنا ہے جتنی ضرورت ہو، پلیٹ میں ادھورا کھانا نہیں چھوڑنا، دنیاوی فائدوں اور مادیت پرستی کے لئے خود کو اپنی اقدار کو نہیں روندنا ، اپنا پہناوا بے حیائی کا مظہر نہیں بنانا، سڑک پہ چلنا ہے تو اپنا ہی نہیں دوسرے کا بھی احساس کرنا ہے، لائن میں لگنا ہے تو تحمل کا مظاہرہ کیسے کرنا ہے۔زندگی میں کہیں کامیابی نہ ملے تو صبر کیسے کرنا ہے۔
اقدار کے بدلنے سے معاشرتی تانے بانے بکھرنے لگتے ہیں جس کے اثرات خطرناک ہوتے ہیں جیسے حلال و حرام کی تمیز جس بھی معاشرے میںختم ہوجاتی ہے، لوگوں کے لئے تفریح کے مناسب مواقع نہیں ہوتے ، صحت مند مشاغل کو فروغ نہیں دیا جاتا، ہنر اور پیشہ وارانہ تعلیم نہیں دی جاتی وہاں غربت، جرائم ،مضر صحت عادات پروان چڑنے لگتی ہیں۔ جہاں عدل و انصاف کی فراہمی نہ ہو وہاں لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے میں عار نہیں سمجھتے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی اقدارکو پہچانیں اور ان میں تجدید نو کا امکان ملخوظِ خاطر رکھتے ہوئے معاشرے کو خوشحال بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
دنیا کے ترقی یافتہ معاشرے اپنی اقدار کی بدولت پروان چڑھے ہیں ۔ کہتے ہیں کسی معاشرے کو مفلوج کرناہو تو اس کی اقدار چھین لو۔ یعنی اقدار کی حیثیت کسی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی سی ہوتی ہے۔اور اس کو پہنچنے والی کوئی بھی چوٹ اسے مفلوج کر سکتی ہے۔جسمانی معذوری تو کسی انسان کو ترقی سے نہیں روک سکتی مگر ذہنی و اخلاقی گراوٹ کا شکار معاشرہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔ گزشتہ دہائیوں میں پاکستانی معاشرے نے جہاں بہت سے میدانوں میں ترقی کی ہے وہی ایک تاریک گراوٹ کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ اور وہ تاریکی کا پہلو معاشرتی اقدار و روایات وضع ہو رہا ہے۔
معاشرے میں اخلاقی گراوٹ بڑھنے لگی ہے۔احساس، رواداری اوراخلاق و کردار بلند نہ ہو تو نسل انسانی اور حیوانات میں فرق نہیں رہتا۔ انسان کو اشرف المخلوقات اسی لئے کہا گیا ہے کہ وہ شعور رکھتا ہے۔ خاندان بناتا ہے معاشرے کی تجدید ِ نو میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ آج ہم اپنی بدلتی ہوئی اقدار پر نظر ثانی کرتے ہوئے انھیں بہتر بنانے کی چند تجاویز پر غور کریں گے۔
خاندان کی حیثیت ایک فیول سٹیشن کی سی ہے۔ جہاں سے ہم زندگی میںآگے بڑھنے کی طاقت کو حاصل کرتے ہیں۔انسانی معاشرے کی اساس خاندان ہی ہے۔ جب ہم خاندان کی تشکیل کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد میاں بیوی اور بچے ہیں۔
یوں تو کہا جاتا ہے کہ میاں بیوی گاڑی کے دو پہیئے ہیں اور توازن کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔آج ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے اور میاں بیوی جو شادی کے بندھن میں بندھے ہیں وہ بھی ایک دوسرے سے بیزار دکھائی دیتے ہیں۔ وہ وقت اور محبت جس کا یہ رشتہ متقاضی ہے وہ سب ایک دوسرے کو دینے کے بجائے موبائل اور سوشل میڈیا کو دے کر دونوں ایک دوسرے کی حق تلفی کرتے ہیں۔
یہ بات یاد رکھی چاہیئے کہ میاں بیوی کا رشتہ ہی وہ رشتہ ہے جو کائنات میں سب سے پہلے دو انسانوں کے بیچ قائم ہوا۔اور یہ رشتہ تقاضا کرتا ہے کہ ایک دوسرے کو مکمل طور پر قبول کیا جائے۔ایک دوسرے کو مذہبی اور قانونی طور پر اپنا لینے کا نام ہی شادی نہیں بلکہ دونوں کا ایک دوسرے کو ذہنی و قلبی طور پر اپنانا شادی ہے۔جب دو لوگ ایک دوسرے سے مخلص ہوں اور محبت کریں تب ہی ایک مضبوط خاندان جنم لے گا۔
شادی ایک اہم مرحلہ ہے۔لیکن افسوس کے ساتھ شادی کو لے کر ہمارے معاشرے کی اقدار بری طرح متاثر ہو چکی ہیں۔یہاں شادی کو ایک اہم فریضہ سمجھ کر نہیں بلکہ دکھاوا سمجھ کر کیا جاتاہے۔
شادی بیاہ کی فضول رسومات جو رشتہ دیکھنے سے لے کر شادی ہوجانے کے بعد تک جاری رہتی ہیں اصراف اور فضول خرچی کے سوا کچھ نہیں۔اسلام آسانی کا دین ہے اور یہ کبھی لوگوں کے لئے مشکلات کا پسندنہیں کرتا۔یہ سادگی کا درس دیتا ہے ۔ جہاں نکاح کو آسان بنا کر معاشرے میں مرد و عورت کا پاکیزہ تعلق پروان چڑھ سکے۔جہیز کی لعنت اور ہندوانا رسومات کا قلع قمع کرنا اس کی اساس ہے۔شادی کے لئے انتخاب ہو یا ولیمہ ہماری اسلامی اقدار کہتی ہیں کہ اس کو کسی کے لئے مشکل نہ بنایا جائے۔
والدین اور اولاد کا رشتہ اس دنیا میں بیش قیمت رشتہ ہے جو بے لوث اور بے غرض ہوتا ہے۔اولاد کی تربیت اور شفقت و محبت سب والدین کی ذمہ داری ہے ۔ جہاں والدین ان ذمہ داریوںمیں غفلت برتتے ہیں وہاںمعاشرے میں بگاڑ پیدا ہونے لگتا ہے۔گھر کا ماحول اس ضمن میں اہم ہے،تربیت جتنی لڑکیوں کے لئے اہم ہے لڑکوں کی تربیت بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ لڑکیوں کی تربیت اور کردار کو لے کر حد سے زیادہ حساسیت کا شکار رہتے ہیں جبکہ لڑکوں کو اس معاملے میں چھوٹ دے کرمعاشرے میںبگاڑ پیدا کرنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔بچوں کو اچھے برے سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔
انھیں ہر وقت ٹیکنالوجی کی آغوش میں دینے سے کئی بہتر ہے کہ شروع سے ان کا رشتہ قلم اور کتاب سے جوڑا جائے۔ کتابیں شعور دیتی ہیں۔ کتب بینی کی عادت سے بچوں میں چیزوںکو سمجھنے اور پرکھنے کا شعور پروان چڑھتا ہے۔اگر والدین خود اخلاق و کردار کا بہترین نمونہ نہیں بنیں گے اور اعلی اخلاقی اقدار کو بچوں میں منتقل کرنے سے قاصر رہیں گے تو ایک بہترین معاشرے کی تکمیل ناممکن ہے۔
کوئی بھی انسان تنہا معاشرہ نہیں بنا سکتا۔رشتے وہ خوبصورت ڈور ہیں جو زندگی میں خوشیوں کی پتنگ کو اونچا اڑنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔ ہماری اقدار ہمیں اپنے رشتوںسے محبت اور اخلاص سے پیش آنے کی تلقین کرتی ہیں۔ لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں رشتوں میں منفی رویوں کا رجحان پروان چڑھ رہا ہے۔
قریبی رشتوں پر لطیفے بنا کر ان کی حرمت کو پامال کیا جاتا ہے۔بلکہ آج کل تو بچوںکو یہ تک نہیں معلوم ہوتا کہ ان کے انتہائی قریبی رشتے کونسے ہیں۔ انفرادیت بری چیز نہیں مگر انفرادیت کے پیچھے لگ کر اجتماعیت کے فوائد کو کھو دینے والے بے نام و نشان رہ جاتے ہیں۔ رشتہ داری نبھانا ضروری ہے کسی کے سکھ دکھ میں اس کے ساتھ کھڑا ہونا بھی قابل ستائش عمل ہے لیکن جو بات یہاں سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ ہر خاندان کی اپنی ایک نجی زندگی ہے جسے اپنی مرضی سے گزارنا ان کا حق ہے۔کسی کے معاملات میں بلاوجہ دخل دینا یا ان کے نجی معاملات پر تبصرے کرنا قطعاً ہماری اقدار نہیں۔
حسد وہ بیماری ہے جو انسان کی نیکیوںکو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ جب کسی کے پاس کچھ اچھا دیکھیں تو رشک کا اظہار کریں حسد کا نہیں اور بہتر کے حصول کے لئے اپنی مثبت توانائیوں کو صرف کریں۔ منفی سوچ اور منفی اقدام آپ کو اطمینانِ قلب سے محروم کر دیتے ہیں۔
یہ یاد رکھیں آپ کسی کا نصیب اس سے نہیں چھین سکتے۔تو رشتوں کو تعلقات کو کسی صلح کی توقع کئے بنااحترام دیں۔اپنے بچوں کو اپنے اصل کی پہچان ضرور کروائیں مگر ان کے اندر نسلی تعصب اور تفاخر پیدا کرنے کے بچائے انھیں خود ایک اچھا انسان بن کر معاشرے کے لئے قابل فخر فرد بنانا سیکھائیں۔
خواتین معاشرے کی اہم رکن ہیں۔ ہماری بدلتی اقدار نے خواتین کے حوالے سے بھی کچھ منفی رویوں کو اپنا لیا ہے جو کہ افسوسناک ہے۔بدقسمتی سے خواتین کو ہراسمینٹ اوردیگر ایسے معاملات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کہ ناقابل برداشت ہیں۔خواتین چاہے چار دیواری میں ہوں یا چار دیواری سے باہر ، خواہ وہ محرم ہوں یا نامحرم ان کا احترام کرنا لازم ہے۔اس سے متعصبانہ سلوک اور ان کے حقوق نہ دینا سراسر زیادتی ہے۔
ایک تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ خواتین اپنے اصل حقوق کو پہچاننے سے قاصر ہیں اور معاشرے میں ایسی دوڑ کا حصہ بن گئی ہیں جو ان کے شایان ِ شان نہیں۔ اسلام کی بات کی جائے تو اسلام میں خواتین کو وراثت میں، جائیداد میں حق دیا ہے۔ عورت کی معاشی کفالت کی ذمہ داری مرد پر ڈالی ہے۔ مہر اور شادی سے متعلق مختلف معملات میں خواتین کو زیادہ سے زیادہ سہولت اور افضلیت دی ہے۔یہاں تک کے خاتون کا درجہ اتنا بلند کر دیا کہ بطورِ ماں اس کے قدموں تلے جنت رکھ دی۔
تہذیب کسی بھی معاشرے کو سنوارتی ہے۔ اس کے اثرات متاثرکن اور دیرپا ہوتے ہیں۔ تہذیب سے مراد رہن سہن اور انداز و اطور کے آداب ہیںجو کسی بھی گرو کے افراد کو دوسروں سے ممتاز کرتے ہیں۔ہماری اقدار ہمیں لوگوں سے میل جول اور دیگر معمولات کے حوالے سے بہترین انداز میں برتاؤ کرنا سیکھاتی ہیں۔
وہ چاہے گھر کے دسترخواںپر بیٹھنے کے آداب ہوں یا سڑک پر چلنے کے ۔ آج کل گھر وں اور سڑکوں پر ہمیں بدتہذیبی کے جو مظاہرے دکھائی دیتے ہیں ان کی بڑی وجہ تربیت اور تہذیب کی کمی ہے۔ والدہ ہو یا والد دونوں پر لازم ہے کہ اپنے بچے کی اچھی سے اچھی تربیت کریں۔ انھیں سیکھائیں کہ جب کسی سے ملنا ہے تو کیسے آداب ہیں، دسترخواں پر بیٹھنا ہے تو اللّٰہ کا نام لے کر اور شکر ادا کر کے کھانا ہے، کھانا اتنا ہی ڈالنا ہے جتنی ضرورت ہو، پلیٹ میں ادھورا کھانا نہیں چھوڑنا، دنیاوی فائدوں اور مادیت پرستی کے لئے خود کو اپنی اقدار کو نہیں روندنا ، اپنا پہناوا بے حیائی کا مظہر نہیں بنانا، سڑک پہ چلنا ہے تو اپنا ہی نہیں دوسرے کا بھی احساس کرنا ہے، لائن میں لگنا ہے تو تحمل کا مظاہرہ کیسے کرنا ہے۔زندگی میں کہیں کامیابی نہ ملے تو صبر کیسے کرنا ہے۔
اقدار کے بدلنے سے معاشرتی تانے بانے بکھرنے لگتے ہیں جس کے اثرات خطرناک ہوتے ہیں جیسے حلال و حرام کی تمیز جس بھی معاشرے میںختم ہوجاتی ہے، لوگوں کے لئے تفریح کے مناسب مواقع نہیں ہوتے ، صحت مند مشاغل کو فروغ نہیں دیا جاتا، ہنر اور پیشہ وارانہ تعلیم نہیں دی جاتی وہاں غربت، جرائم ،مضر صحت عادات پروان چڑنے لگتی ہیں۔ جہاں عدل و انصاف کی فراہمی نہ ہو وہاں لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے میں عار نہیں سمجھتے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی اقدارکو پہچانیں اور ان میں تجدید نو کا امکان ملخوظِ خاطر رکھتے ہوئے معاشرے کو خوشحال بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔