غزہ

روس کی اس بربریت کو میڈیا پر پرزور طریقے سے دکھایا جا رہا تھا

Jvqazi@gmail.com

غزہ کی داستان کو کیسے رقم کیا جائے۔ ایک تاریخ ہے لہو سے سینچی ہوئی اور لہو سے ہی لکھی جاسکتی ہے۔

ایک ایسی ندی ہے لہوکی جو تھمنے کا نام ہی نہیں لیتی، ہر طرف تباہی کی تصاویر، تباہ شدہ عمارتیں، روتے بلکتے بچے، لاشوں کے ڈھیر، سب بے یار و مددگار ! اسرائیل کی بے رحمانہ کارروائیاں۔ اسرائیل نے منگل کوغزہ میں ایک اسپتال پر میزائل داغ دیے جس کے نتیجے میں پانچ سو افراد شہید ہوئے۔ اس قتل عام میں زیادہ تعداد بچوں اور عورتوں کی تھی جو شہید ہوئے۔

دنیا میں خونریزی اور بربریت کے معیار غزہ سے کم ملیں گے۔ حال ہی میں امریکا سمیت تمام مغربی ممالک یوکرین میں روسی اقدام کی مذمت کر رہے تھے۔

روس کی اس بربریت کو میڈیا پر پرزور طریقے سے دکھایا جا رہا تھا۔ روس کے اس اقدام پر ان کا ایک واضح موقف تھا لیکن فلسطین کی تباہی پر سب کی آنکھیں بند اور لب سلے ہوئے ہیں۔

حماس کی ابتدائی کارروائی کو ہم اچھا نہیں سمجھتے، وہ اس طرح سے کہ کسی بھی عام اور نہتے شہری کو یرغمال بنانا یا قتل کرنا غلط ہے ، یہ کارروائی کرتے وقت حماس نے بھی نہیںسوچاکہ غزہ میں بسے ہوئے لوگوں کا کیا ہوگا؟ جنگیں اس طرح نہیں لڑی جاتیں۔اب تک غزہ کے مسئلے پر کسی مسلمان ملک کا واضح مؤقف سامنے نہیں آیا، نہ ہی کوئی ثالثی کے لیے آگے بڑھا۔

غزہ کے لوگ اس وقت انسانی بنیادوں پر دنیا سے مدد کے طلبگار ہیں۔مغربی دنیا کی امن پالیسی یوکرین کے لیے کچھ اور ہے اور فلسطین کے لیے کچھ اور جب یوکرین میں جنگ کا آغاز ہوا تو کیسے مغربی ممالک امداد کو پہنچے اور اسرائیل کی جارحیت کو کس طرح سے نظر انداز کیا جا رہا ہے بلکہ یہ احساس دلایا جا رہا ہے کہ امریکا اس جارحیت کی بھرپور حمایت کر رہا ہے۔

اسرائیل کو اس چڑھائی کے لیے تمام جنگی سامان مہیا کیا جا رہا ہے۔ اس وقت تک لگ بھگ پانچ ہزار فلسطینی اس جنگ میں جاں بحق ہو جا چکے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہیں اور لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ اس جنگ کی پہل حماس نے کی لیکن حماس کے ان اقدام کے پیچھے بھی لگتا ہے کہ بہت کچھ ہوسکتا ہے۔

یورپ کے بہت سے ممالک، صحافی، انسانی حقوق کے ادارے، سول سوسائٹی اور عوام، فلسطین پر ڈھائے گئے، اس ظلم کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ اسکاٹ لینڈ کی حکومت اور پارلیمنٹ نے اس جارحیت کی بھرپور مذمت کی ہے مگر برطانیہ یہ جرأت نہ کرسکا۔ اسرائیل نے غزہ کے ایک اور '' کویت اسپتال'' کو خالی کرنے اور اس پر بمباری کرنے کی دھمکی دے دی ہے مگر اس اسپتال کے ڈاکٹرز نے خالی کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

پوری دنیا میں اسرائیل کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ نیتن یاہو ان سفاک اقدامات کی وجہ سے اپنی عوام میں مقبول ہوا ہے بلکہ شعور رکھنے والے یہودی بھی نیتن یاہو کے اس اقدام کی مذمت کر رہے ہیں۔

ماضی میں نیتن یاہوکو ایسے جنگی اقدامات پر اسرائیلیوں کی حمایت حاصل ہوتی تھی، مقبولیت ملتی تھی مگر اب اسرائیلی اس سوچ کی طرف بڑھ رہے ہیں کہ نیتن یاہو جنگی جنونیت کا شکار ہے۔ حال ہی میں نیتن یاہو نے اپنی سپریم کورٹ کے اختیارات کو کم کرنے کے لیے، پارلیمنٹ سے قانون سازی کروانے کی کوشش کی مگر اس قانون سازی کے خلاف نیتن یاہوکو اسرائیلیوں کی پر زور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور نتیجتاً قانون سازی نہ ہو سکی۔

حماس کے حملے کے بعد نیتن یاہو کی یہ خواہش ہوگی کہ کسی طرح اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت کو واپس بحال کرسکے اور یہ بھی حیران کن بات ہے کہ حماس نے ایک منظم حملہ کیا اور اسرائیل کو اس حملے کی پہلے سے خبر نہ ہو سکی۔


ان کے سراغ رساں ادارے اس عمل میں مکمل طور پر فیل ہوگئے۔ یہ کیسے ممکن ہے، ایسے کئی سوالات جنم لیتے ہیں کہ حال ہی میں دنیا کی توجہ یوکرین پر روسی جارحیت کے مسئلے پر مرکوز تھی۔ روس جو کل تک انسانی حقوق کی پامالی کرتا ہوا نظر آ رہا تھا اب وہ پیچھے رہ گیا اور وہ مہذب ممالک جوکل تک روس کی جارحیت کے مخالفین تھے فلسطین کے معاملے میں اسرائیل کی جارحیت کے ساتھ کھڑے ہیں۔

مغربی ممالک کی اسرائیل پرست پالیسی اس قدر مضبوط تھی کہ اسرائیل کے خلاف سوشل میڈیا کی مہم کو دبا دیا گیا۔ فیس بک نے اسرائیل کے خلاف مواد کو سنسر کر دیا۔

ایسی تمام تصاویر پر پابندی عائد کردی جس میں اسرائیل کی جارحیت اور سفاکی کو بے نقاب کیا جا رہا تھا۔ ٹویٹرکا مالک ایلن ماسک بھی اسلامو فوبیا کا شکار ہے۔ اس بڑھتے ہوئے تضاد سے امریکا کے سابق صدر ٹرمپ بھی ضرور مستفیض ہونگے کیونکہ وہ بھی اس جنگی جنونیت اور اسلامو فوبیا کو بڑھاوا دے رہا ہے۔

ٹرمپ صاحب کی طرح اور بھی جنونی ہونگے جو اپنے مفادات کو پانے کے لیے اس تضاد کو مزید ہوا دینے کی کوشش کرینگے۔ دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے اور اس بدلتی ہوئی دنیا میں امریکا کی طاقت بھی کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

غزہ میں اسپتال پر حملے کے بعد اسرائیل کا کردار اور واضح صورت انسانی اقدارکی سوچ رکھنے والے، حقائق کو پرکھنے والے اور ضمیرکی سننے والے تمام ممالک کے سامنے آ چکی ہے۔ مسٹر بائیڈن اسرائیل کو تھپکانے کے لیے اسرائیل پہنچ توگئے لیکن اب مسلم ممالک کے سربراہ اپنے داخلی دباؤکے تحت، ان سے ملنے کے لیے راضی نہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس مشکل گھڑی میں تمام مسلم امہ فلسطینی حکومت سے ملتے۔

بائیڈن صاحب، غزہ کے اسپتال پر اسرائیلی حملے پر ہمدردی تو کر رہے ہیں مگر اس کی مذمت نہیں کر رہے بلکہ وہ یہ ماننے کے لیے بھی تیار نہیں کہ غزہ کے اسپتال پر میزائل اسرائیل نے داغے ہیں، وہ اس کا ذمے دار کسی اورکو ٹھہرا رہے ہیں۔ دنیا کے نظام میں ایسی نا انصافیوں کی وجہ سے کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیا کو سزا، تیسری جنگ عظیم کی صورت میں بھگتنی پڑجائے۔

اسرائیل کے اندر ایک خوف ہے کہ وہ ایک چھوٹا ملک ہے اور اس کے چاروں اطراف عرب ممالک کا گھیرا ہے۔ اسرائیل کا نظریہ اس کا مذہب ہے اور جب اس مذہبی بیانیہ کی دعویدار ریاست بن جائے تو پھر چھٹکارا پانا مشکل ہے پھر اس مذہبی بیانیہ کے ساتھ ریاست بھی نظریاتی بن جاتی ہے۔ اسی نظریے کی بنیادوں پر ریاست اپنی خارجہ پالیسی ترتیب دیتی ہے۔

اس خارجہ پالیسی کی ترجیحات مرتب کرتی ہے۔ اسرائیل کو نریندر مودی بڑے بھائے، اسرائیل پاکستان کے ایٹمی طاقت ہونے سے خوفزدہ ہے۔

ہندوستان بھی کشمیر میں وہ ہی کچھ کر رہا ہے جو اسرائیل غزہ میں کر رہا ہے۔ ہندوستان کے عوام یقینا ایک دن مودی کو شکست دینگے لیکن اسرائیل کا معاملہ کچھ اور ہے، اگر اسرائیل سے نیتن یاہو چلا جائے گا تو نیتن یاہو جیسے کئی اور پیدا ہونگے۔ اس تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں نظریاتی ریاستوں کی بقا نہیں ہے۔

اسرائیل نیتن یاہوکے تناظر میں اور ہندوستان مودی کے تناظر میں مکمل طور پر نظریاتی ریاستیں ہیں۔ ہاں! مگر ان ریاستوں کی معیشت بہت مضبوط ہے۔

ابھی انھیں وہ دیمک نہیں لگا جو ہمیں ایک نظریاتی ریاست ہونے کی حیثیت میں لگ چکا ہے۔ ہمارے نظریاتی ریاست ہونے کی Alignment کرپشن، اسمگلنگ اور سیاست کی نذر ہوگئی۔ یہودیوں کے اندرکاروبار کی گھٹی ڈلی ہوئی ہے اور انھوں نے دنیا میں اپنے کاروبارکا لوہا منوایا ہے۔

اس وقت دنیا میں تین ارب کے قریب مسلمان بستے ہیں یعنی دنیا کی تقریباً 35% آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے مگر کیا مسلمان دنیا کے اداروں پر اتنا اثرورسوخ رکھتے ہیں؟ جتنا کہ ایک فیصد سے بھی کم آبادی رکھنے والے یہودی ان اداروں پر رکھتے ہیں۔
Load Next Story