فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ
فلسطین کی سرزمین نہ صرف وہاں کے عوام بلکہ عرب عوام کے لیے بھی وطنی تقدیس کی حامل ہے
اس وقت فلسطین عوامی مزاحمت اور صہیونی جبر کے درمیان کشمکش، دنیا کا سب سے اہم موضوع بحث ہے۔
فلسطین کی سر زمین نصف صدی سے زائد عرصے سے اپنی شناخت کے بنیادی مسئلے سے دوچار ہے اور وہاں کے عوام اول دن سے صہیونی تسلط اور جبر کے خلاف لہو رنگ جدوجہد کر رہے ہیں، یوں تو دنیا میں کئی ایک ممالک ایسے ہیں جہاں جبر کی استحصالی قوتوں نے عوام کی اکثریت کو یرغمال بنا رکھا ہے اور وہ ظلم و ستم کے شکنجے میں جکڑی اپنے حقوق کی آواز اٹھا رہی ہیں مگر جو ظلم و ستم فلسطینیوں پر ڈھایا گیا۔
اس سے زیادہ ہولناک، خوفناک اور درد ناک عمل شاید ہی کہیں اور دہرایا گیا ہو کہ ایک خطہ امریکی و برطانوی استعماریت کے نتیجے میں اپنا جغرافیہ ہی گم کر بیٹھا ہو اور وہاں کے حقیقی باشندوں کو ان کے گھروں سے بے دخل، قتل اور منتشر کر کے یورپ و امریکا سے لائی گئی صہیونی اقلیت کو نہ صرف یہ کہ وہ خطہ دے دیا گیا ہو بلکہ اکثریت والے خطہ زمین کا حقیقی نام ہی مٹا دیا گیا ہو اور اس پہ مستزاد یہ کہ وہاں کے اصل و حقیقی باشندوں کو اپنے ہی گھر میں بغیر کسی ہجرت کے بے وطن کردیا گیا ہو اور اسرائیل نام کا عفریت ان کی حقیقی پہچان کو ہی نگل گیا ہو۔
فلسطین کی سرزمین نہ صرف وہاں کے عوام بلکہ عرب عوام کے لیے بھی وطنی تقدیس کی حامل ہے بلکہ پوری امت مسلمہ کی القدس سے ملی وابستگی بھی ہے کہ وہاں مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس جیسے دینی اہمیت کے حامل مقامات مقدسہ ہیں جو اہل عرب کی نظر میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بعد سب سے زیادہ فضیلت رکھتے ہیں۔
مسئلہ فلسطین کا دائرہ یہیں تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک اہم عالمی اور انسانی مسئلہ بھی ہے جس کو امریکا اور اس کے حواریوں کے علاوہ پوری دنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے میں مسئلہ فلسطین کے حل کی قراردادیں بھی موجود ہیں۔
اگرچہ فلسطینیوں کی لہو میں ڈوبی ہوئی جدوجہد عالمی سطح پر اپنی اہمیت منوا چکی ہے مگر اس کے خلاف استعماری پروپیگنڈے کے زیر اثر ایسے عناصر نے بھی جنم لیا جو اس جدوجہد کی اہمیت کو سبوتاژ کرنے میں سرگرم ہوگئے جس کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ فلسطین کے دل میں خنجر گھونپنے والی استعماری طاقتوں، امریکا اور یورپ کی مقتدرہ قوتوں کو عوام الناس کی نظروں سے اوجھل کرتے ہوئے ان کی نفرت کا تمام تر رخ اسرائیل یا یہودی فرقے کی طرف کردیا گیا۔ حالانکہ اگر آپ تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت اظہرمن الشمس ہے کہ یہودی ماضی میں کبھی بھی اس قابل نہیں رہے کہ وہ مسلمانوں سے ان کا کوئی خطہ اور طاقت حاصل کرسکیں چہ جائیکہ وہ کوئی مسلمانوں کا مقدس مقام چھین کر اس پر نصف صدی سے زائد عرصے کے لیے قابض ہو جائیں۔ کیا کوئی عقل مند یہ مان سکتا ہے کہ اسرائیل امریکی چھتری کے بغیر اپنا وجود قائم رکھ سکتا ہے؟ اس پہ مستزاد یہ کہ وہ پورے علاقے کا پولیس مین بن جائے۔
مسئلہ فلسطین پیدا کرنے والی قوتیں ہی اس مسئلے کی ذمے دار ٹھہرتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کی مداخلت کے بغیر فلسطین اسرائیل تنازع میں کسی بھی موقع پر کوئی قابل قبول حل تلاش نہیں کیا جاسکا۔ دراصل یہ مسئلہ امریکی سامراج کا پیدا کردہ ہے جو اسرائیل نامی کٹھ پتلی کے ذریعے اہل فلسطین، عالم عرب، امت مسلمہ اور دنیائے انسانیت کو زچ کیے ہوئے ہے۔
آزادی فلسطین کی جدوجہد کرنے اور مسجد اقصیٰ کی بازیابی کے لیے جہاد کرنے والی قوتیں ہر منصف مزاج کی نظر میں لائق تحسین اور قابل ستائش رہی ہیں اور حقیقت طشت ازبام ہے کہ ان کی قربانیوں نے تاریخ کا ایک یادگار باب رقم کیا ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسلم امہ میں ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو عالمی سامراجی مفادات کے تحفظ اس جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کے لیے ان کی کردار کشی بھی کرتے رہتے ہیں۔
1942 کی عرب اسرائیل جنگ میں انھی مفاد پرست عناصر نے اسرائیل کی امریکی فتح کو ان کی خدا کے سامنے گریہ و زاری کا نتیجہ قرار دیا۔
ان عناصر کی نظر میں عربوں کی وہ تمام قومی قیادتیں اور تنظیمیں قابل گردن زدنی ہیں جنھوں نے اسرائیل اور اس کی سرپرست استعماری قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی۔ نہرسوئز کو طاغوتی قوتوں، امریکا، برطانیہ اور فرانس کے قبضے سے آزاد کرایا اور عربوں کو صہیونیت کے خلاف متحد کرنے کے لیے اپنی پوری زندگی داؤ پر لگا دی۔ عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل کئی علاقوں پر قابض ہوگیا اور اپنی درجنوں بستیاں قائم کرلیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جب کبھی اسرائیل کے ظلم و ستم کے خلاف اور فلسطین کے حق میں کوئی قرارداد پیش ہوتی تو امریکا اس کو ویٹو کر دیتا۔ ادھر جب عربوں پر دباؤ بڑھتا تو عرب سربراہی اجلاس بلا لیا جاتا جو فلسطینیوں کے حق کے حصول اور اسرائیلی بربریت اور ظلم و ستم کے خلاف موثر آواز اٹھانے، عملی منصوبہ بندی کرنے اور کوئی متفقہ، ٹھوس، جامع لائحہ عمل مرتب کرنے کے بجائے امریکی کیمپ کے عرب سربراہوں کی طوطا چشمی کے باعث پژمردگی کا باعث ہی بنتا۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین اپنے دشمن جاں اسرائیل کے ظلم و ستم اور اپنوں ہی کی سرد مہری و بے رخی کی بدولت آج تک جبر و ستم کی چکی میں پستا چلا آ رہا ہے اور اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی محض غیر فعال بن کر رہ گئی ہے۔
فلسطینی تنظیم حماس کے اسرائیل پر تازہ حملے کے بعد اسرائیل کے مظلوم فلسطینیوں پر اپنی بربریت و درندگی کا نیا کھیل شروع کردیا ہے۔ اسرائیلی فوج آبادیوں اور اسپتالوں پر راکٹ حملے کر رہی ہے، بستیاں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں، ہزاروں فلسطینی شہید و زخمی ہیں جب کہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔
مسئلہ فلسطین ایک مرتبہ پھر زندہ ہو گیا ہے، اسرائیل اس کے سرپرست اور حواری ایک طرف تو دوسری طرف مظلوم فلسطینیوں کے حق میں بھی پوری دنیا میں مظاہرے ہو رہے ہیں، چین اور روس سلامتی کونسل میں جنگ بندی کے حق میں قراردادیں پیش کر رہے ہیں تو امریکا، برطانیہ اور فرانس اس کو ویٹو کرکے مسلم دشمنی کا ثبوت دے رہے ہیں۔
یہاں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ دنیا کی بڑی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کے پیش نظر کھل کر تنازع فلسطین کے قابل قبول حل پر زور دے رہی ہیں اور نہ ہی عالمی امن کا ضامن ادارہ اقوام متحدہ اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کرانے میں سنجیدہ ہے۔ نتیجتاً اسرائیل کے حوصلے بڑھ رہے ہیں اور فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔
فلسطین کی سر زمین نصف صدی سے زائد عرصے سے اپنی شناخت کے بنیادی مسئلے سے دوچار ہے اور وہاں کے عوام اول دن سے صہیونی تسلط اور جبر کے خلاف لہو رنگ جدوجہد کر رہے ہیں، یوں تو دنیا میں کئی ایک ممالک ایسے ہیں جہاں جبر کی استحصالی قوتوں نے عوام کی اکثریت کو یرغمال بنا رکھا ہے اور وہ ظلم و ستم کے شکنجے میں جکڑی اپنے حقوق کی آواز اٹھا رہی ہیں مگر جو ظلم و ستم فلسطینیوں پر ڈھایا گیا۔
اس سے زیادہ ہولناک، خوفناک اور درد ناک عمل شاید ہی کہیں اور دہرایا گیا ہو کہ ایک خطہ امریکی و برطانوی استعماریت کے نتیجے میں اپنا جغرافیہ ہی گم کر بیٹھا ہو اور وہاں کے حقیقی باشندوں کو ان کے گھروں سے بے دخل، قتل اور منتشر کر کے یورپ و امریکا سے لائی گئی صہیونی اقلیت کو نہ صرف یہ کہ وہ خطہ دے دیا گیا ہو بلکہ اکثریت والے خطہ زمین کا حقیقی نام ہی مٹا دیا گیا ہو اور اس پہ مستزاد یہ کہ وہاں کے اصل و حقیقی باشندوں کو اپنے ہی گھر میں بغیر کسی ہجرت کے بے وطن کردیا گیا ہو اور اسرائیل نام کا عفریت ان کی حقیقی پہچان کو ہی نگل گیا ہو۔
فلسطین کی سرزمین نہ صرف وہاں کے عوام بلکہ عرب عوام کے لیے بھی وطنی تقدیس کی حامل ہے بلکہ پوری امت مسلمہ کی القدس سے ملی وابستگی بھی ہے کہ وہاں مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس جیسے دینی اہمیت کے حامل مقامات مقدسہ ہیں جو اہل عرب کی نظر میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بعد سب سے زیادہ فضیلت رکھتے ہیں۔
مسئلہ فلسطین کا دائرہ یہیں تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک اہم عالمی اور انسانی مسئلہ بھی ہے جس کو امریکا اور اس کے حواریوں کے علاوہ پوری دنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے میں مسئلہ فلسطین کے حل کی قراردادیں بھی موجود ہیں۔
اگرچہ فلسطینیوں کی لہو میں ڈوبی ہوئی جدوجہد عالمی سطح پر اپنی اہمیت منوا چکی ہے مگر اس کے خلاف استعماری پروپیگنڈے کے زیر اثر ایسے عناصر نے بھی جنم لیا جو اس جدوجہد کی اہمیت کو سبوتاژ کرنے میں سرگرم ہوگئے جس کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ فلسطین کے دل میں خنجر گھونپنے والی استعماری طاقتوں، امریکا اور یورپ کی مقتدرہ قوتوں کو عوام الناس کی نظروں سے اوجھل کرتے ہوئے ان کی نفرت کا تمام تر رخ اسرائیل یا یہودی فرقے کی طرف کردیا گیا۔ حالانکہ اگر آپ تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت اظہرمن الشمس ہے کہ یہودی ماضی میں کبھی بھی اس قابل نہیں رہے کہ وہ مسلمانوں سے ان کا کوئی خطہ اور طاقت حاصل کرسکیں چہ جائیکہ وہ کوئی مسلمانوں کا مقدس مقام چھین کر اس پر نصف صدی سے زائد عرصے کے لیے قابض ہو جائیں۔ کیا کوئی عقل مند یہ مان سکتا ہے کہ اسرائیل امریکی چھتری کے بغیر اپنا وجود قائم رکھ سکتا ہے؟ اس پہ مستزاد یہ کہ وہ پورے علاقے کا پولیس مین بن جائے۔
مسئلہ فلسطین پیدا کرنے والی قوتیں ہی اس مسئلے کی ذمے دار ٹھہرتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کی مداخلت کے بغیر فلسطین اسرائیل تنازع میں کسی بھی موقع پر کوئی قابل قبول حل تلاش نہیں کیا جاسکا۔ دراصل یہ مسئلہ امریکی سامراج کا پیدا کردہ ہے جو اسرائیل نامی کٹھ پتلی کے ذریعے اہل فلسطین، عالم عرب، امت مسلمہ اور دنیائے انسانیت کو زچ کیے ہوئے ہے۔
آزادی فلسطین کی جدوجہد کرنے اور مسجد اقصیٰ کی بازیابی کے لیے جہاد کرنے والی قوتیں ہر منصف مزاج کی نظر میں لائق تحسین اور قابل ستائش رہی ہیں اور حقیقت طشت ازبام ہے کہ ان کی قربانیوں نے تاریخ کا ایک یادگار باب رقم کیا ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسلم امہ میں ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو عالمی سامراجی مفادات کے تحفظ اس جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کے لیے ان کی کردار کشی بھی کرتے رہتے ہیں۔
1942 کی عرب اسرائیل جنگ میں انھی مفاد پرست عناصر نے اسرائیل کی امریکی فتح کو ان کی خدا کے سامنے گریہ و زاری کا نتیجہ قرار دیا۔
ان عناصر کی نظر میں عربوں کی وہ تمام قومی قیادتیں اور تنظیمیں قابل گردن زدنی ہیں جنھوں نے اسرائیل اور اس کی سرپرست استعماری قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی۔ نہرسوئز کو طاغوتی قوتوں، امریکا، برطانیہ اور فرانس کے قبضے سے آزاد کرایا اور عربوں کو صہیونیت کے خلاف متحد کرنے کے لیے اپنی پوری زندگی داؤ پر لگا دی۔ عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل کئی علاقوں پر قابض ہوگیا اور اپنی درجنوں بستیاں قائم کرلیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جب کبھی اسرائیل کے ظلم و ستم کے خلاف اور فلسطین کے حق میں کوئی قرارداد پیش ہوتی تو امریکا اس کو ویٹو کر دیتا۔ ادھر جب عربوں پر دباؤ بڑھتا تو عرب سربراہی اجلاس بلا لیا جاتا جو فلسطینیوں کے حق کے حصول اور اسرائیلی بربریت اور ظلم و ستم کے خلاف موثر آواز اٹھانے، عملی منصوبہ بندی کرنے اور کوئی متفقہ، ٹھوس، جامع لائحہ عمل مرتب کرنے کے بجائے امریکی کیمپ کے عرب سربراہوں کی طوطا چشمی کے باعث پژمردگی کا باعث ہی بنتا۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین اپنے دشمن جاں اسرائیل کے ظلم و ستم اور اپنوں ہی کی سرد مہری و بے رخی کی بدولت آج تک جبر و ستم کی چکی میں پستا چلا آ رہا ہے اور اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی محض غیر فعال بن کر رہ گئی ہے۔
فلسطینی تنظیم حماس کے اسرائیل پر تازہ حملے کے بعد اسرائیل کے مظلوم فلسطینیوں پر اپنی بربریت و درندگی کا نیا کھیل شروع کردیا ہے۔ اسرائیلی فوج آبادیوں اور اسپتالوں پر راکٹ حملے کر رہی ہے، بستیاں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں، ہزاروں فلسطینی شہید و زخمی ہیں جب کہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔
مسئلہ فلسطین ایک مرتبہ پھر زندہ ہو گیا ہے، اسرائیل اس کے سرپرست اور حواری ایک طرف تو دوسری طرف مظلوم فلسطینیوں کے حق میں بھی پوری دنیا میں مظاہرے ہو رہے ہیں، چین اور روس سلامتی کونسل میں جنگ بندی کے حق میں قراردادیں پیش کر رہے ہیں تو امریکا، برطانیہ اور فرانس اس کو ویٹو کرکے مسلم دشمنی کا ثبوت دے رہے ہیں۔
یہاں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ دنیا کی بڑی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کے پیش نظر کھل کر تنازع فلسطین کے قابل قبول حل پر زور دے رہی ہیں اور نہ ہی عالمی امن کا ضامن ادارہ اقوام متحدہ اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کرانے میں سنجیدہ ہے۔ نتیجتاً اسرائیل کے حوصلے بڑھ رہے ہیں اور فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔