ظلم کی انتہا
اس سازشی منصوبے کا اصل روح رواں ’’ لارنس آف عریبیہ ‘‘ کا خطاب پانے والا ایک شاطر انگریز تھا
15 مئی 1948 کا دن عالم اسلام کے لیے یقیناً یوم ماتم سے کم نہیں ہے۔ اس دن مغربی استعمار نے اپنے سازشی ہتھکنڈوں کے ذریعے دنیا میں خوار درماندہ اور بکھرے ہوئے یہودیوں کو ایک آزاد وطن سے مستفید کیا۔
کیا یہ سب کچھ ممکن ہوتا اگر سلطنت عثمانیہ اپنی بقا کو برقرار رکھتی اور پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کا ساتھ دینے کے بجائے غیر جانبدار رہتی جیساکہ اس وقت کے کئی ممالک نے کیا تھا، انھی میں ایران بھی شامل تھا۔ ایک وقت تھا جب سلطنت عثمانیہ دنیا کی سپر پاور کا درجہ رکھتی تھی برطانوی سلطنت بھی اس کے مقابلے کی نہیں تھی۔
ترکی کے اولین حکمرانوں نے اپنی ذہانت اور فوجی طاقت سے یورپ سے لے کر مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے شمالی علاقوں کو اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا تھا۔ ترک چھ سو چوبیس سال تک شان و شوکت کے ساتھ ان علاقوں پر حکومت کرتے رہے مگر جیساکہ دنیا میں عروج و زوال کا کھیل شروع سے چلتا چلا آ رہا ہے چنانچہ سلطنت عثمانیہ بھی اس سانحے سے دوچار ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔
مغربی ممالک جن میں برطانیہ، فرانس اور امریکا اس تاک میں تھے کہ کب یہ سلطنت کمزور ہو اور وہ اس پر غلبہ حاصل کریں مگر انھیں ایسا کوئی موقعہ نہیں مل رہا تھا۔ ایسے میں 1914 میں پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوا۔ اس جنگ میں جرمنی کے بڑھتے ہوئے پھیلاؤ کو روکنے اور اس کی جنگی طاقت کو روکنے کے لیے برطانیہ و فرانس سمیت کئی یورپی ممالک اور امریکا اس کے خلاف صف آرا ہوگئے، ترکی نے جرمنی کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا۔ یہ جنگ بہت خوفناک ثابت ہوئی اس سے پورے یورپ میں تباہی پھیل گئی۔
ترکی اس جنگ میں شکست خوردہ ہوا اور اس کے ساتھ ہی یہ ہوا کہ اس کے تمام زیر نگیں علاقے اس کے ہاتھ سے نکل گئے۔ مشرق وسطیٰ کا علاقہ شاید ترکی کے ہاتھ سے نہ نکلتا کیونکہ یہاں کے اکثر عوام ترکی کے طرز حکمرانی سے مطمئن تھے مگر اس وقت انگریزوں نے وہاں اپنے لیے حالات ناسازگار دیکھ کر وہاں کے بااثر قبائل کو اپنا حلیف بنانے کے لیے سازشی کھیل شروع کر دیا۔
اس وقت پورے مشرق وسطیٰ میں شریف مکہ کو مرکز کی اہمیت حاصل تھی انھوں نے اسے ہی اپنے جال میں پھانس لیا اور ترکی سے علیحدگی کا اعلان کرا دیا۔
اس سازشی منصوبے کا اصل روح رواں '' لارنس آف عریبیہ '' کا خطاب پانے والا ایک شاطر انگریز تھا۔ اس کے بعد مشرق وسطیٰ میں کئی نئے ممالک وجود میں آگئے تھے یہ تمام برطانیہ اور فرانس کی بندر بانٹ کے نتیجے میں وجود میں آئے تھے تاہم مشرق وسطیٰ کا ایک بڑا خطہ برطانیہ کے زیر اثر تھا۔
پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی ناکامی میں یہودیوں کا اہم کردار تھا۔ اس وقت تک یہودیوں کا کوئی وطن نہیں تھا مگر ان کا برطانیہ اور امریکا سے انھیں ایک ملک میں بسانے کا مطالبہ موجود تھا، پھر دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست اور اتحادی ممالک کی فتح میں یہودیوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
چنانچہ ان کا اب ایک آزاد ملک کا مطالبہ پہلے سے زیادہ شدت اختیار کر گیا چنانچہ معاہدہ بالفورکے تحت برطانیہ اور امریکا نے مل کر انھیں بسانے کے لیے مشرق وسطیٰ کا فلسطینی علاقہ زیادہ مناسب خیال کیا چونکہ اس وقت پورے مشرق وسطیٰ پر انھیں دسترس حاصل تھی چنانچہ انھوں نے فلسطینیوں کو ان کے علاقے سے بے دخل کرکے ایک یہودی ملک اسرائیل کے قیام کا اعلان کردیا، چونکہ اسرائیل کا قیام ناجائز تھا اور عربوں کے سینے میں خنجر گھونپ کر یہ یہودی ملک بنایا گیا تھا چنانچہ جب سے لے کر اب تک فلسطینی اپنی سرزمین کی بازیابی کے لیے برسر پیکار ہیں۔
حالیہ حماس کا اسرائیل پر اچانک حملہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اسرائیل چونکہ اپنے پڑوسی عربوں سے شروع سے ہی خوفزدہ تھا کہ کہیں وہ اکٹھے ہو کر اس سے اپنی سر زمین واپس نہ لے لیں چنانچہ اس نے شروع دن سے ہی اپنی فوجی تیاری جاری رکھی اور یہ تیاری یہاں تک بڑھی کہ اس نے ایٹم بم تک تیار کر لیا۔ اس کے علاوہ اسے شروع سے امریکا اور تمام یورپی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے اور ان سے مسلسل مالی و فوجی امداد حاصل ہو رہی ہے۔
امریکا اور برطانیہ اس ناجائز ریاست کے سب سے بڑے حمایتی ہی نہیں اس کی حفاظت کے ذمے دار بھی ہیں۔ انھوں نے اسے عرب ممالک سے محفوظ بنانے کے لیے انھیں باہم دست وگریباں رکھا ہے۔
انھوں نے ہی چند سالوں سے تمام عرب ممالک میں اسرائیل کو تسلیم کرانے کی مہم جاری کر رکھی ہے۔ اس لہر میں متحدہ عرب امارات اور بحرین اسرائیل کو نہ صرف تسلیم کرچکے ہیں بلکہ انھوں نے اس سے تجارتی اور ثقافتی تعلقات بھی قائم کر لیے ہیں۔ سعودی عرب سے بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے کہا جا رہا تھا کہ موجودہ حالیہ اسرائیل اور حماس جنگ نے صورتحال پیچیدہ بنا دی ہے۔
اسرائیل فلسطینیوں کو گزشتہ 75 سالوں سے مسلسل تختہ مشق بنا رہا ہے روز ہی فلسطینیوں کو قتل کرنا اس کا معمول بن چکا ہے۔ حماس نے اسرائیل کے مسلسل ظلم و ستم کے جواب میں ہی اس پر میزائل برسائے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ حملہ خود فلسطینیوں کی تباہی کا باعث بن گیا ہے۔
اسرائیلی فضائیہ بے دھڑک غزہ کے رہائشی علاقوں پر بم برسا رہی ہے جس سے پچاسیوں فلسطینی روز ہلاک ہو رہے ہیں مگر ان حملوں کو اب تک کوئی بھی رکوانے کی ہمت نہیں کر سکا ہے کیونکہ اسرائیل کی طرف دار مغربی طاقتیں ہیں جو اسرائیل کو روکنے کے بجائے اسے مزید شے دے رہی ہیں کہ وہ عربوں پر اپنی ہیبت کو مزید گہرا کرے تاکہ پھر کبھی حماس کیا کسی عرب ملک کو اس کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے کی جسارت نہ ہو سکے۔
اسلامی ممالک میں ہی نہیں خود مغربی ممالک میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے ہو رہے ہیں پاکستان میں بھی فلسطینیوں کے قتل عام پر بڑے بڑے مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔
جماعت اسلامی کے بعد ایم کیو ایم پاکستان بھی اتوار کو فلسطینیوں کے حق میں ایک بڑا مظاہرہ کرنے جا رہی ہے ۔ ایم کیو ایم نے اپنے اورنگی ٹاؤن کے جلسے میں بھی اسرائیل کی فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے پر سخت مذمت کی ہے اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر اسرائیل کو لگام دے اور مغربی ممالک کو اسرائیل کی مدد کرنے سے روکے۔
کیا یہ سب کچھ ممکن ہوتا اگر سلطنت عثمانیہ اپنی بقا کو برقرار رکھتی اور پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کا ساتھ دینے کے بجائے غیر جانبدار رہتی جیساکہ اس وقت کے کئی ممالک نے کیا تھا، انھی میں ایران بھی شامل تھا۔ ایک وقت تھا جب سلطنت عثمانیہ دنیا کی سپر پاور کا درجہ رکھتی تھی برطانوی سلطنت بھی اس کے مقابلے کی نہیں تھی۔
ترکی کے اولین حکمرانوں نے اپنی ذہانت اور فوجی طاقت سے یورپ سے لے کر مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے شمالی علاقوں کو اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا تھا۔ ترک چھ سو چوبیس سال تک شان و شوکت کے ساتھ ان علاقوں پر حکومت کرتے رہے مگر جیساکہ دنیا میں عروج و زوال کا کھیل شروع سے چلتا چلا آ رہا ہے چنانچہ سلطنت عثمانیہ بھی اس سانحے سے دوچار ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔
مغربی ممالک جن میں برطانیہ، فرانس اور امریکا اس تاک میں تھے کہ کب یہ سلطنت کمزور ہو اور وہ اس پر غلبہ حاصل کریں مگر انھیں ایسا کوئی موقعہ نہیں مل رہا تھا۔ ایسے میں 1914 میں پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوا۔ اس جنگ میں جرمنی کے بڑھتے ہوئے پھیلاؤ کو روکنے اور اس کی جنگی طاقت کو روکنے کے لیے برطانیہ و فرانس سمیت کئی یورپی ممالک اور امریکا اس کے خلاف صف آرا ہوگئے، ترکی نے جرمنی کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا۔ یہ جنگ بہت خوفناک ثابت ہوئی اس سے پورے یورپ میں تباہی پھیل گئی۔
ترکی اس جنگ میں شکست خوردہ ہوا اور اس کے ساتھ ہی یہ ہوا کہ اس کے تمام زیر نگیں علاقے اس کے ہاتھ سے نکل گئے۔ مشرق وسطیٰ کا علاقہ شاید ترکی کے ہاتھ سے نہ نکلتا کیونکہ یہاں کے اکثر عوام ترکی کے طرز حکمرانی سے مطمئن تھے مگر اس وقت انگریزوں نے وہاں اپنے لیے حالات ناسازگار دیکھ کر وہاں کے بااثر قبائل کو اپنا حلیف بنانے کے لیے سازشی کھیل شروع کر دیا۔
اس وقت پورے مشرق وسطیٰ میں شریف مکہ کو مرکز کی اہمیت حاصل تھی انھوں نے اسے ہی اپنے جال میں پھانس لیا اور ترکی سے علیحدگی کا اعلان کرا دیا۔
اس سازشی منصوبے کا اصل روح رواں '' لارنس آف عریبیہ '' کا خطاب پانے والا ایک شاطر انگریز تھا۔ اس کے بعد مشرق وسطیٰ میں کئی نئے ممالک وجود میں آگئے تھے یہ تمام برطانیہ اور فرانس کی بندر بانٹ کے نتیجے میں وجود میں آئے تھے تاہم مشرق وسطیٰ کا ایک بڑا خطہ برطانیہ کے زیر اثر تھا۔
پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی ناکامی میں یہودیوں کا اہم کردار تھا۔ اس وقت تک یہودیوں کا کوئی وطن نہیں تھا مگر ان کا برطانیہ اور امریکا سے انھیں ایک ملک میں بسانے کا مطالبہ موجود تھا، پھر دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست اور اتحادی ممالک کی فتح میں یہودیوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
چنانچہ ان کا اب ایک آزاد ملک کا مطالبہ پہلے سے زیادہ شدت اختیار کر گیا چنانچہ معاہدہ بالفورکے تحت برطانیہ اور امریکا نے مل کر انھیں بسانے کے لیے مشرق وسطیٰ کا فلسطینی علاقہ زیادہ مناسب خیال کیا چونکہ اس وقت پورے مشرق وسطیٰ پر انھیں دسترس حاصل تھی چنانچہ انھوں نے فلسطینیوں کو ان کے علاقے سے بے دخل کرکے ایک یہودی ملک اسرائیل کے قیام کا اعلان کردیا، چونکہ اسرائیل کا قیام ناجائز تھا اور عربوں کے سینے میں خنجر گھونپ کر یہ یہودی ملک بنایا گیا تھا چنانچہ جب سے لے کر اب تک فلسطینی اپنی سرزمین کی بازیابی کے لیے برسر پیکار ہیں۔
حالیہ حماس کا اسرائیل پر اچانک حملہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اسرائیل چونکہ اپنے پڑوسی عربوں سے شروع سے ہی خوفزدہ تھا کہ کہیں وہ اکٹھے ہو کر اس سے اپنی سر زمین واپس نہ لے لیں چنانچہ اس نے شروع دن سے ہی اپنی فوجی تیاری جاری رکھی اور یہ تیاری یہاں تک بڑھی کہ اس نے ایٹم بم تک تیار کر لیا۔ اس کے علاوہ اسے شروع سے امریکا اور تمام یورپی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے اور ان سے مسلسل مالی و فوجی امداد حاصل ہو رہی ہے۔
امریکا اور برطانیہ اس ناجائز ریاست کے سب سے بڑے حمایتی ہی نہیں اس کی حفاظت کے ذمے دار بھی ہیں۔ انھوں نے اسے عرب ممالک سے محفوظ بنانے کے لیے انھیں باہم دست وگریباں رکھا ہے۔
انھوں نے ہی چند سالوں سے تمام عرب ممالک میں اسرائیل کو تسلیم کرانے کی مہم جاری کر رکھی ہے۔ اس لہر میں متحدہ عرب امارات اور بحرین اسرائیل کو نہ صرف تسلیم کرچکے ہیں بلکہ انھوں نے اس سے تجارتی اور ثقافتی تعلقات بھی قائم کر لیے ہیں۔ سعودی عرب سے بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے کہا جا رہا تھا کہ موجودہ حالیہ اسرائیل اور حماس جنگ نے صورتحال پیچیدہ بنا دی ہے۔
اسرائیل فلسطینیوں کو گزشتہ 75 سالوں سے مسلسل تختہ مشق بنا رہا ہے روز ہی فلسطینیوں کو قتل کرنا اس کا معمول بن چکا ہے۔ حماس نے اسرائیل کے مسلسل ظلم و ستم کے جواب میں ہی اس پر میزائل برسائے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ حملہ خود فلسطینیوں کی تباہی کا باعث بن گیا ہے۔
اسرائیلی فضائیہ بے دھڑک غزہ کے رہائشی علاقوں پر بم برسا رہی ہے جس سے پچاسیوں فلسطینی روز ہلاک ہو رہے ہیں مگر ان حملوں کو اب تک کوئی بھی رکوانے کی ہمت نہیں کر سکا ہے کیونکہ اسرائیل کی طرف دار مغربی طاقتیں ہیں جو اسرائیل کو روکنے کے بجائے اسے مزید شے دے رہی ہیں کہ وہ عربوں پر اپنی ہیبت کو مزید گہرا کرے تاکہ پھر کبھی حماس کیا کسی عرب ملک کو اس کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے کی جسارت نہ ہو سکے۔
اسلامی ممالک میں ہی نہیں خود مغربی ممالک میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے ہو رہے ہیں پاکستان میں بھی فلسطینیوں کے قتل عام پر بڑے بڑے مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔
جماعت اسلامی کے بعد ایم کیو ایم پاکستان بھی اتوار کو فلسطینیوں کے حق میں ایک بڑا مظاہرہ کرنے جا رہی ہے ۔ ایم کیو ایم نے اپنے اورنگی ٹاؤن کے جلسے میں بھی اسرائیل کی فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے پر سخت مذمت کی ہے اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر اسرائیل کو لگام دے اور مغربی ممالک کو اسرائیل کی مدد کرنے سے روکے۔