روشن مثال
حیرت تو اس بات کی ہے کہ لوگ صرف وزارت کے لیے پاکستان آتے ہیں
اپنے کالم کا آغازکس بات سے کروں، شش وپنج میں ہوں، موضوعات و مسائل کا انبار ہے، یہ قوم مسائل کے ٹیلوں پر بے سکون بیٹھی ہے، بنیادی سہولتیں تو اب ناپید ہوتی جا رہی ہیں، روز اعلیٰ سطح کے اجلاس منعقد ہوتے ہیں، اجلاس کا کوئی نتیجہ تو نہیں نکلتا کوئی بات نہیں، مگر یہ پھولوں کے گلدستے کیوں وافر مقدار میں رکھے جاتے ہیں، اس کا جواب کبھی نہیں ملا اور نہ ملے گا کہ آخر اجلاس والوں کا بھی تو دل ہے۔
سپریم کورٹ نے نیب کے تمام کیسوں کا ریکارڈ عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیا ہے، اس فیصلے سے امید کا ایک چراغ جلتا ہوا نظر آرہا ہے۔ قوم محسوس کر رہی ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عوامی لحاظ سے بہت ہی خوبصورت فیصلے کر رہے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ جب سے نگراں حکومت آئی بہتر فیصلے منظر عام پر آ رہے ہیں۔
ادھر آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کہہ رہے ہیں کہ وسائل کی چوری روکنے کے لیے غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف کارروائی جاری رہے گی۔
اب تو پاک فوج اور عدالتیں ہی رہ گئی ہیں جس کی طرف قوم امید کی نگاہ سے دیکھتی ہے مانا کہ فوج سرحدوں کی حفاظت کرتی ہے اگر وہ قوم کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہوئے قومی محاذ پر کھڑی ہوتی ہے تو اس میں کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے کہ فوج بھی ہماری ہے اور وطن بھی ہمارا ہے قوم خوش ہے کہ جنرل عاصم منیر اور ان کے ساتھی ہر لحاظ سے بہتر فیصلے کررہے ہیں۔
بد نصیب ہیں ہم کہ ان سیاست دانوں نے ہمیں بے انتہا مایوس کیا ہے، بجلی، گیس، پانی غرض ہر سہولت انھیں مل رہی ہے تو انھیں عوامی تکالیف کا اندازہ ہی نہیں ہے، اصولی طور پر اگر مراعات ختم کردی جائیں تو آپ یقین کریں، ملک کی تقدیر صرف 8 ماہ میں بدل جائے گی، جب ان حضرات کے گھروں میں گیس، الیکٹرک، پانی نہیں ہوگا تو پھر انھیں احساس ہوگا۔ موسم سرما میں گھریلو صارفین کو صبح 3 بجے، دوپہر 2 بجے اور شام کو 3 گھنٹے گیس ملے گی۔ مزے کی بات دیکھیں کہ گیس کے بلوں میں اضافے کی بھی خبر ہے، کردیں اضافہ قوم یہ بھی دے گی۔ مریم نواز کہہ رہی تھیں نواز شریف کے بغیر ملک رل گیا ہے۔
بی بی! 16 ماہ تو آپ کی حکومت تھی صرف نواز شریف نہیں تھے بقیہ تو ان کی کابینہ تھی، ٹھیک ہے وہ طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے ملک میں نہیں تھے اب وہ آ گئے ہیں مگر طبیعت کی ناسازی کے باعث وہ ملک پر توجہ کیسے دیں گے؟
ادھر ایک بڑی سیاسی پارٹی کا کہنا ہے کہ جنوری 2024 میں اگر انتخاب نہ ہوئے تو ہم سڑکوں پر نکلیں گے، جناب پی ڈی ایم میں آپ کے اتحادی مولانا فضل الرحمن تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ سردی میں الیکشن نہ ہوں تو بہتر ہے ،آپ برائے مہربانی ان سے مشورہ کریں، پھر دیکھیں سردی کے حوالے سے مولانا کیا کہتے ہیں۔
حیرت تو اس بات کی ہے کہ لوگ صرف وزارت کے لیے پاکستان آتے ہیں، جب حکومت کا اختتام ہوتا ہے تو بیرون ملک روانہ ہوجاتے ہیں۔ اسمگل شدہ سگریٹ کی فروخت سے ٹیکس ریونیو میں 300 ارب نقصان کا امکان ہے۔
سابق وزیر اسحاق ڈار نے اپنی وزارت میں سگریٹ کی قیمت بڑھا دی اور ایک اچھے برانڈ کا سگریٹ پاکستانی تقریباً500 روپے کا پیکٹ ہوگیا تو پھر ظاہر ہے لوگ 200 روپے کا پیکٹ غیر ملکی ہی خریدیں گے اور فخر بھی کرتے ہیں کہ ہم غیر ملکی سگریٹ پیتے ہیں، یہ حالت تو آپ کے سیاسی حضرات نے کی۔ (ن) لیگ کے رہنما کہہ رہے تھے کہ ملک کو پاپولر لیڈرکی نہیں، پراپر لیڈرکی ضرورت ہے جناب جو پاپولر لیڈر ہیں ان پرکروڑوں کے غبن کے الزامات ہیں۔
اب رہا معاملہ پراپر لیڈرکا تو بڑے لیڈر تو سارے الزامات کی زد میں ہیں۔ آپ کی نگاہ میں کوئی پراپر لیڈر ہو تو اس قوم کو ضرور بتائیں یہ قوم آپ کی ممنون ہوگی۔
یہ سیاسی حضرات بنا سوچے سمجھے بیانات دیتے ہیں انھوں نے قوم کو بے عقل سمجھ رکھا ہے اور یہ خود عقل کل ہیں۔ اب تو لوگ سیاسی بیانات پر ہنستے ہیں ادھر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے پاکستان سے اربوں ڈالرکی مچھلی باہر اسمگل ہونے کا انکشاف کیا ہے اور ہم کتنے بدنصیب ہیں جس ملک میں مچھلی دستیاب ہے وہاں کے شہری عام سی مچھلی 600 سے لے کر 800 روپے کلو خرید رہے ہیں،کوئی ادارہ اپنی ذمے داری محسوس ہی نہیں کرنا چاہتا۔
ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ اگلی وفاقی حکومت ہماری حمایت کے بغیر نہیں بن سکے گی۔ گزشتہ 3 دہائیوں سے آپ حضرات حکومت کا حصہ رہے ہیں اور اگر نئی حکومت کی تشکیل ہوگی تو یقیناً آپ پھر حکومت کا ہی حصہ ہوں گے۔
اب رہا ! ایم کیو ایم کا آنے والی حکومت کے ساتھ تعاون کا سوال، تو جناب پہلے الیکشن تو ہوں، اس کے بعد دیکھیں گے تیل اور تیل کی دھار۔ پٹرول کی قیمت میں 40 روپے اور ڈیزل کی قیمت میں 15 روپے فی لیٹر کمی نگراں حکومت کے اس اقدام سے قوم بہت خوش ہوئی مگر دکھ اس بات کا ہے کہ نگراں حکومت ٹرانسپورٹرز سے کرائے کم نہ کروا سکی۔
ماضی میں کبھی 40 روپے لیٹر پٹرول سستا نہیں ہوا، اب جب کمی آئی ہے تو دیکھنے والا کوئی نہیں؟ کتنے طاقتور ہیں یہ لوگ کہ کرایہ کم نہ کرا سکے اور حکومت نے بھی کوئی باز پرس نہیں کی۔ ڈیزل کی قیمت میں 15 روپے کمی ہوئی ٹرانسپورٹرز سے کیا گلہ کریں ریلوے نے اپنے کرائے کم نہیں کیے تو پھر آپ پرائیویٹ ٹرانسپورٹرز سے کیا امید رکھیں گے ؟
کراچی کے لیے دوسری بار بجلی مہنگی کرنے کی تیاری ہے، ماضی میں بچے ٹوکرے میں باجرہ ڈال کر چڑیا اور کبوتر پکڑا کرتے تھے اب بچے عمر رسیدہ ہوگئے ہیں اور قوم مہنگائی کے ٹوکرے کے نیچے پھنس چکی ہے۔
بچپن کا زمانہ چڑیوں کا تھا، اب گدھ کا زمانہ ہے، چڑیا تو ہم بہت آرام سے پکڑ لیا کرتے تھے مگر اب گدھ پکڑنا ناممکن ہے لاقانونیت کی وجہ سے ملک کے بیشتر شہروں میں لوگ روز مرتے ہیں یا زخمی ہوتے ہیں، ڈاکوؤں نے ادھم مچا رکھا ہے۔
پچھلے دنوں اخبارات میں یہ خبر بھی دیکھی کہ ایک پولیس والا جو سول ڈریس میں تھا ڈاکوؤں کے عتاب میں آگیا۔ میئر کراچی کے مشیر کھارادر میں اسٹریٹ کرمنلز کا نشانہ بن گئے۔ صحافی حضرات بھی ان کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ایک معروف صحافی کو بھی ڈاکوؤں نے زد وکوب کرنے کے بعد لوٹ لیا۔
غیر ملکیوں کے خلاف جو ایکشن نگراں حکومت نے لیا ہے، قوم نے اسے بہت سراہا سارے غیر ملکیوں کو پہلی فرصت میں واپس بھیجیں، ان کی وجہ سے بھی کرائم کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، نگراں وزیر داخلہ نے بھی سخت ایکشن لیا ہے جب کہ ماضی کی حکومتوں نے کوئی اقدام نہیں اٹھایا، جس کی وجہ سے پاکستان کے تمام صوبوں میں ڈاکوؤں نے ادھم مچا رکھا تھا۔ خود تو یہ پروٹوکول میں نکلتے ہیں اور قوم کو بے آسرا اور لاوارث چھوڑ دیا ہے۔
اب نگراں حکومت نے بہت اچھا قدم اٹھایا ہے، اس میں وزیر داخلہ بلوچستان اور صوبائی وزیر داخلہ سندھ نمایاں ہیں، ان کے اس اقدام سے قوم نے سکھ کا سانس لیا ہے۔
سپریم کورٹ نے نیب کے تمام کیسوں کا ریکارڈ عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیا ہے، اس فیصلے سے امید کا ایک چراغ جلتا ہوا نظر آرہا ہے۔ قوم محسوس کر رہی ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عوامی لحاظ سے بہت ہی خوبصورت فیصلے کر رہے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ جب سے نگراں حکومت آئی بہتر فیصلے منظر عام پر آ رہے ہیں۔
ادھر آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کہہ رہے ہیں کہ وسائل کی چوری روکنے کے لیے غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف کارروائی جاری رہے گی۔
اب تو پاک فوج اور عدالتیں ہی رہ گئی ہیں جس کی طرف قوم امید کی نگاہ سے دیکھتی ہے مانا کہ فوج سرحدوں کی حفاظت کرتی ہے اگر وہ قوم کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہوئے قومی محاذ پر کھڑی ہوتی ہے تو اس میں کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے کہ فوج بھی ہماری ہے اور وطن بھی ہمارا ہے قوم خوش ہے کہ جنرل عاصم منیر اور ان کے ساتھی ہر لحاظ سے بہتر فیصلے کررہے ہیں۔
بد نصیب ہیں ہم کہ ان سیاست دانوں نے ہمیں بے انتہا مایوس کیا ہے، بجلی، گیس، پانی غرض ہر سہولت انھیں مل رہی ہے تو انھیں عوامی تکالیف کا اندازہ ہی نہیں ہے، اصولی طور پر اگر مراعات ختم کردی جائیں تو آپ یقین کریں، ملک کی تقدیر صرف 8 ماہ میں بدل جائے گی، جب ان حضرات کے گھروں میں گیس، الیکٹرک، پانی نہیں ہوگا تو پھر انھیں احساس ہوگا۔ موسم سرما میں گھریلو صارفین کو صبح 3 بجے، دوپہر 2 بجے اور شام کو 3 گھنٹے گیس ملے گی۔ مزے کی بات دیکھیں کہ گیس کے بلوں میں اضافے کی بھی خبر ہے، کردیں اضافہ قوم یہ بھی دے گی۔ مریم نواز کہہ رہی تھیں نواز شریف کے بغیر ملک رل گیا ہے۔
بی بی! 16 ماہ تو آپ کی حکومت تھی صرف نواز شریف نہیں تھے بقیہ تو ان کی کابینہ تھی، ٹھیک ہے وہ طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے ملک میں نہیں تھے اب وہ آ گئے ہیں مگر طبیعت کی ناسازی کے باعث وہ ملک پر توجہ کیسے دیں گے؟
ادھر ایک بڑی سیاسی پارٹی کا کہنا ہے کہ جنوری 2024 میں اگر انتخاب نہ ہوئے تو ہم سڑکوں پر نکلیں گے، جناب پی ڈی ایم میں آپ کے اتحادی مولانا فضل الرحمن تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ سردی میں الیکشن نہ ہوں تو بہتر ہے ،آپ برائے مہربانی ان سے مشورہ کریں، پھر دیکھیں سردی کے حوالے سے مولانا کیا کہتے ہیں۔
حیرت تو اس بات کی ہے کہ لوگ صرف وزارت کے لیے پاکستان آتے ہیں، جب حکومت کا اختتام ہوتا ہے تو بیرون ملک روانہ ہوجاتے ہیں۔ اسمگل شدہ سگریٹ کی فروخت سے ٹیکس ریونیو میں 300 ارب نقصان کا امکان ہے۔
سابق وزیر اسحاق ڈار نے اپنی وزارت میں سگریٹ کی قیمت بڑھا دی اور ایک اچھے برانڈ کا سگریٹ پاکستانی تقریباً500 روپے کا پیکٹ ہوگیا تو پھر ظاہر ہے لوگ 200 روپے کا پیکٹ غیر ملکی ہی خریدیں گے اور فخر بھی کرتے ہیں کہ ہم غیر ملکی سگریٹ پیتے ہیں، یہ حالت تو آپ کے سیاسی حضرات نے کی۔ (ن) لیگ کے رہنما کہہ رہے تھے کہ ملک کو پاپولر لیڈرکی نہیں، پراپر لیڈرکی ضرورت ہے جناب جو پاپولر لیڈر ہیں ان پرکروڑوں کے غبن کے الزامات ہیں۔
اب رہا معاملہ پراپر لیڈرکا تو بڑے لیڈر تو سارے الزامات کی زد میں ہیں۔ آپ کی نگاہ میں کوئی پراپر لیڈر ہو تو اس قوم کو ضرور بتائیں یہ قوم آپ کی ممنون ہوگی۔
یہ سیاسی حضرات بنا سوچے سمجھے بیانات دیتے ہیں انھوں نے قوم کو بے عقل سمجھ رکھا ہے اور یہ خود عقل کل ہیں۔ اب تو لوگ سیاسی بیانات پر ہنستے ہیں ادھر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے پاکستان سے اربوں ڈالرکی مچھلی باہر اسمگل ہونے کا انکشاف کیا ہے اور ہم کتنے بدنصیب ہیں جس ملک میں مچھلی دستیاب ہے وہاں کے شہری عام سی مچھلی 600 سے لے کر 800 روپے کلو خرید رہے ہیں،کوئی ادارہ اپنی ذمے داری محسوس ہی نہیں کرنا چاہتا۔
ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ اگلی وفاقی حکومت ہماری حمایت کے بغیر نہیں بن سکے گی۔ گزشتہ 3 دہائیوں سے آپ حضرات حکومت کا حصہ رہے ہیں اور اگر نئی حکومت کی تشکیل ہوگی تو یقیناً آپ پھر حکومت کا ہی حصہ ہوں گے۔
اب رہا ! ایم کیو ایم کا آنے والی حکومت کے ساتھ تعاون کا سوال، تو جناب پہلے الیکشن تو ہوں، اس کے بعد دیکھیں گے تیل اور تیل کی دھار۔ پٹرول کی قیمت میں 40 روپے اور ڈیزل کی قیمت میں 15 روپے فی لیٹر کمی نگراں حکومت کے اس اقدام سے قوم بہت خوش ہوئی مگر دکھ اس بات کا ہے کہ نگراں حکومت ٹرانسپورٹرز سے کرائے کم نہ کروا سکی۔
ماضی میں کبھی 40 روپے لیٹر پٹرول سستا نہیں ہوا، اب جب کمی آئی ہے تو دیکھنے والا کوئی نہیں؟ کتنے طاقتور ہیں یہ لوگ کہ کرایہ کم نہ کرا سکے اور حکومت نے بھی کوئی باز پرس نہیں کی۔ ڈیزل کی قیمت میں 15 روپے کمی ہوئی ٹرانسپورٹرز سے کیا گلہ کریں ریلوے نے اپنے کرائے کم نہیں کیے تو پھر آپ پرائیویٹ ٹرانسپورٹرز سے کیا امید رکھیں گے ؟
کراچی کے لیے دوسری بار بجلی مہنگی کرنے کی تیاری ہے، ماضی میں بچے ٹوکرے میں باجرہ ڈال کر چڑیا اور کبوتر پکڑا کرتے تھے اب بچے عمر رسیدہ ہوگئے ہیں اور قوم مہنگائی کے ٹوکرے کے نیچے پھنس چکی ہے۔
بچپن کا زمانہ چڑیوں کا تھا، اب گدھ کا زمانہ ہے، چڑیا تو ہم بہت آرام سے پکڑ لیا کرتے تھے مگر اب گدھ پکڑنا ناممکن ہے لاقانونیت کی وجہ سے ملک کے بیشتر شہروں میں لوگ روز مرتے ہیں یا زخمی ہوتے ہیں، ڈاکوؤں نے ادھم مچا رکھا ہے۔
پچھلے دنوں اخبارات میں یہ خبر بھی دیکھی کہ ایک پولیس والا جو سول ڈریس میں تھا ڈاکوؤں کے عتاب میں آگیا۔ میئر کراچی کے مشیر کھارادر میں اسٹریٹ کرمنلز کا نشانہ بن گئے۔ صحافی حضرات بھی ان کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ایک معروف صحافی کو بھی ڈاکوؤں نے زد وکوب کرنے کے بعد لوٹ لیا۔
غیر ملکیوں کے خلاف جو ایکشن نگراں حکومت نے لیا ہے، قوم نے اسے بہت سراہا سارے غیر ملکیوں کو پہلی فرصت میں واپس بھیجیں، ان کی وجہ سے بھی کرائم کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، نگراں وزیر داخلہ نے بھی سخت ایکشن لیا ہے جب کہ ماضی کی حکومتوں نے کوئی اقدام نہیں اٹھایا، جس کی وجہ سے پاکستان کے تمام صوبوں میں ڈاکوؤں نے ادھم مچا رکھا تھا۔ خود تو یہ پروٹوکول میں نکلتے ہیں اور قوم کو بے آسرا اور لاوارث چھوڑ دیا ہے۔
اب نگراں حکومت نے بہت اچھا قدم اٹھایا ہے، اس میں وزیر داخلہ بلوچستان اور صوبائی وزیر داخلہ سندھ نمایاں ہیں، ان کے اس اقدام سے قوم نے سکھ کا سانس لیا ہے۔