جناب جناب کرنے والے پاکستانی

ورلڈکپ کی ہی مثال دیکھ لیں کتنے پاکستانیوں کو ویزے ملے؟

ورلڈکپ کی ہی مثال دیکھ لیں کتنے پاکستانیوں کو ویزے ملے؟ (فوٹو: کرک انفو)

''اچھا تو آپ پاکستان سے آئے ہیں'' یہ کہہ کر اس سیلزمین نے مجھے غور سے دیکھا پھر کہنے لگا ''لگتے تو نہیں ہیں'' میں نے جواب دیا کہ شاید آپ بالی ووڈ فلموں سے متاثر ہو کر یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی صرف شلوار قمیض پہنتے ہیں اور ہر بات میں جناب جناب کہتے رہتے ہیں، مگر آپ یقین مانیے جو پاکستان آپ کو فلموں میں دکھایا جاتا ہے۔

اس میں اور حقیقی پاکستان میں زمین آسمان کا فرق ہے، کبھی آ کر دیکھے تو پتا چلے گا، یہ سن کر وہ تھوڑا شرمندہ ہوا اور کہنے لگا ''میرا وہ مطلب نہیں تھا'' پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں، اس کا ذمہ دار بھارت ہی ہے جس نے اپنے عام شہریوں کے ذہنوں میں بھی یہ بھر دیا کہ پاکستان دشمن دیش ہے۔

مزید پڑھیں: ورلڈکپ؛ بھارتی شائقین نامناسب پوسٹرز کے ذریعے پاکستان کا مذاق اڑانے لگے

آپ ورلڈکپ کی ہی مثال دیکھ لیں کتنے پاکستانیوں کو ویزے ملے؟ خیر اب میں اس موضوع پر زیادہ بات نہیں کرتا کیونکہ زینب عباس کا واقعہ یاد آ جاتا ہے،وہ فخر پاکستان اور خواتین کیلیے ایک رول ماڈل ہیں مگر بدقسمتی سے بھارت میں ان کے ساتھ اچھا سلوک نہ ہوا، ویسے آپس کی بات ہے کہ بھارت روانگی سے قبل مجھے بھی بعض دوستوں نے مشورہ دیا تھا کہ اپنی پرانی ٹویٹس چیک کرلو، جب میں کئی برس قبل بھارت گیا تھا تب اور اب کے ماحول میں خاصا فرق ہے۔

جب تک دونوں ممالک کے لوگ ایک دوسرے کے ملک آ کر گھومیں پھریں گے نہیں،ایک دوسرے سے ملیں گے نہیں منفی سوچ کم نہیں ہو سکے گی لیکن کیا کریں پاکستان کو تو مسئلہ نہیں ہوتا بھارت ہی ہمیشہ آگے بڑھنے سے گریز کرتا ہے۔

مزید پڑھیں: انتہا پسند بھارتی پولیس نے فینز کو 'پاکستان زندہ باد' کے نعرے لگانے سے روک دیا

ماضی میں کرکٹ ڈپلومیسی کام آئی تھی اب تو برسوں سے باہمی سیریز ہی نہیں ہوئی،ورلڈکپ ایک ایسا موقع ہے جس میں ویزے جاری کیے جاتے تو پاکستانیوں کو وہاں جانے کا موقع ملتا، اسٹیڈیم میں بھی ماحول بنتا لیکن کسی ایک شائق کو بھی ویزا نہیں ملا جس کی وجہ سے آپ دیکھ لیں احمد آباد میں کیسا ماحول تھا، گوکہ بنگلور میں بھی بعض منفی واقعات پیش آئے لیکن مجموعی طور پر کراؤڈ کا رویہ بہتر تھا، بابراعظم سوری بابراعظم جب بیٹنگ کرنے آئے تو ان کے مداحوں نے خوب نعرے لگائے تھے۔

بعض لوگ ان کے نام والے بینرز بھی ساتھ لائے، انھیں لگتا تھا کہ پاکستان کپتان کی رجوان معاف کریں رضوان کے ساتھ شراکت بنے گی لیکن ایسا نہ ہو سکا،پاکستانی بیٹنگ میں شروع سے ہی وہ جوش نظر نہیں آیا جو آنا چاہیے تھا، چھوٹی باؤنڈریز، سیدھی پچ یہاں تو آسانی سے چھکے لگ رہے تھے لیکن پاور پلے کے بعد 12،13 اوورز میں ایک بار بھی ایسا بتا دیں جب پاکستانی اوپنرز نے کوئی چانس لیا ہو۔

مزید پڑھیں: پاکستانی کھلاڑیوں سے شائقین کی بدسلوکی؛ عرفان پٹھان نے نیا جواز پیش کردیا


امام الحق اپنی ففٹی تو بنا گئے لیکن اس کا ٹیم کو کیا فائدہ ہوا،پاکستان 368 رنز کے ہدف کا تعاقب کر رہا تھا لیکن آپ کا اسٹرائیک ریٹ 100 کا بھی نہیں، یہ تو جرم ہے، اسی طرح عبداللہ شفیق نے کئی اچھے اسٹروکس کھیلے لیکن بات وہی ہے کہ وارنر والا کردار کوئی ادا نہ کر سکا، یہاں اپنی ذات کا نہ سوچتے ہوئے ملک کیلیے کھیلنے والے بیٹرز کی ضرورت تھی۔

کاش فخر زمان ان فٹ نہ ہوتے،ویسے کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کو ون ڈے کرکٹ کے ابتدائی پاور پلے میں کوئی چھکا نہ لگائے 1142 گیندیں ہو چکی ہیں، اپنا اسکور بنا کر رینکنگ میں ٹاپ پوزیشنز پانے سے کچھ نہیں ہوتا اصل بات ٹیم کو فتح دلانا ہے، بدقسمتی سے بابر اعظم کی ورلڈکپ میں فارم اچھی نہیں ہے۔

چار اننگز میں وہ ایک ہی ففٹی بنا سکے، اس سے ٹیم پر دباؤ پڑ رہا ہے،بطور کپتان بھی ان کے فیصلوں پر سوال اٹھ رہے ہیں، رضوان سے بھی توقعات پوری نہیں ہوئیں، گوکہ وہ ٹورنامنٹ کے ٹاپ اسکورر ہیں لیکن شاید انھیں بھی اب تک کی اپنی کارکردگی پر فخر ہو، مثبت انداز سے بیٹنگ ضروری ہے۔

انفرادی کارکردگی دیکھیں تو شاہین آفریدی نے بھی آسٹریلیا سے میچ میں 5 وکٹیں لیں لیکن اس کا ٹیم کو اتنا ہی فائدہ ہوا کہ 400 رنز نہیں بنے، حارث رؤف بہت مہنگے ثابت ہوتے ہیں،انھیں وکٹیں بھی اس وقت ملتی ہیں جب بیٹرز تیز کھیلنے کی کوشش کریں،اسپنرز کی کارکردگی پر تو اب بات ہی کرنا فضول ہے،نجانے کیوں بورڈ کو اچھے اسپنرز نہیں مل رہے، گذشتہ میچ میں ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ اکیلے بابر اعظم نے نہیں کیا ،ٹیم مینجمنٹ بھی اس میں شریک تھی،شاید یہ لوگ سمجھے کہ آسٹریلینز بچے ہیں بڑا اسکور نہیں بنائیں گے لیکن ساری کیلکولیشن غلط ثابت ہو گئی، میچ کے دوران ''دل دل پاکستان'' نغمہ بھی سنائی دیتا رہا۔

مزید پڑھیں: ورلڈکپ؛ سابق کرکٹرز کا 'مسلمانوں' سے متعلق بیان! بھارتی میڈیا آگ بگولہ

احمد آباد والا معاملہ نہیں تھا کہ باؤنڈری پر خاموشی چھا جاتی، یہاں پاکستانی کرکٹرز کو بھی اچھے شاٹس پر داد ملی،البتہ بیشتر شائقین آسٹریلیا کے ہی حامی تھے، میری شین واٹسن سے بھی ملاقات ہوئی، میں ان کے 2،3 انٹرویوز کر چکا ہوں لہذا تھوڑا بہت مجھ سے واقف بھی ہیں، وہ بہت اچھے انداز سے ملے اور اپنی ٹیم کی پرفارمنس پر خاصے خوش دکھائی دیے، میچ کے بعد واپس ہوٹل جاتے ہوئے دیکھا کہ شائقین کرکٹرز کی ایک جھلک دیکھنے کیلیے کتنے بے چین تھے، پاکستانی ٹیم کے ہوٹل میں بھی خوب رش ہوتا ہے۔

لوگ ہمارے کرکٹرز کو پسند تو کرتے ہیں لیکن ڈرتے بھی ہیں کہ پسندیدگی کا اظہار کیا تو کہیں غداری کا لیبل نہ لگ جائے، شکر ہے ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہوتا،آپ کوہلی کی شرٹ پہن کر پورے پاکستان میں گھومیں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔

خیر ورلڈکپ میں پاکستان ٹیم کے لیے سیمی فائنل میں پہنچنا دشوار ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں، ہم دراصل ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے عادی ہیں اتنے زیادہ ون ڈے متواتر کھیلنے سے پلیئرز خصوصا بولرز ایکسپوز ہو رہے ہیں،ہمیں اب بابر اعظم، محمد رضوان اور شاہین شاہ آفریدی سے کچھ خاص پرفارمنس درکار ہے تب ہی ٹورنامنٹ میں وجود برقرار رہ سکے گا،کھلاڑیوں سے بھی امید ہے کہ وہ شائقین کو مایوس نہیں کریں گے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
Load Next Story