میاںصاحب کی واپسی اوراُن کے مخالف

mnoorani08@hotmail.com

میاں نواز شریف بالآخر وطن واپس تشریف لے آئے۔اُن کی اس واپسی کواُن کے مخالف اسے مقتدر حلقوں کی درپردہ حمایت اورمدد قرار دے رہے ہیں۔

وہ اُن کے والہانہ استقبال کے متعلق بھی ایسی کچھ چہ میگوئیاں کررہے ہیں، اُن کا ہرگز یہ گمان نہ تھا کہ میاں صاحب کے استقبال کے لیے اتنا بڑا مجمع اکٹھا ہوجائے گا۔یہ وہی لوگ ہیں جو 30اکتوبر 2011 کے مینار پاکستان پر PTIکے ایک ایسے ہی اجتماع پر شادیانے بجارہے تھے اوراُسے خان کی بھرپور مقبولیت قرار دے رہے تھے،وہ ہرگز یہ تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے کہ اس اجتماع کے پیچھے بھی کچھ طاقتور افراد کا ہاتھ ہے۔

وہی لوگ آج میاں نواز شریف کے اس استقبال کو مبینہ طور پرغیبی قوتوں کی سہولت کاری کہتے پھر رہے ہیں۔وہ یہ بھی کہتے ہوئے کوئی شرم اورعار محسوس نہیں کرتے کہ میاں صاحب کا استقبال کیوں کیا جا رہا ہے جب کہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ میاں نوازشریف کے خلاف 2017 کے مقدمات اور انھیں عین الیکشن سے قبل سیاست سے تاحیات نااہلی اوردس سالوں کے لیے قید وبند کی سزا صرف اورصرف سیاسی بنیادوں پردی گئی تھی۔انھیں میدان سے مکمل طور پرآؤٹ کرکے کسی اورکے لیے راہیں ہموار کی گئی تھیں۔

ایک ایساشخص جو 1996 سے سیاست میں مکمل ناکام چلاآرہا تھا اور ملک کے کسی بھی عام انتخابات میں دو سے زیادہ نشستوں کا حامل بھی نہیں ہوپارہاتھا اُسے اچانک کیسے اتنا مقبول اورمحبوب سیاستداں بنادیا گیا۔اس کی اپنی شخصیت اگراتنی دلکش اور جاذب نظر ہوتی تو کب کا کامیاب و کامران ہوچکاہوتا۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں ایک ڈکٹیٹر کی غیرمشروط حمایت بھی اسے اس قابل نہیں بناسکی تھی کہ وہ دو سیٹوں سے زیادہ کامیابی سمیٹ پاتا۔ بحیثیت ایک کرکٹرکے وہ بلاشبہ ایک کامیاب کھلاڑی تھا لیکن سیاسی میدان میں وہ 2011 تک مکمل ناکام ونامراد ٹھہرا۔ اُسے نوازدشمنی میں زبردستی ہیرو بنایاگیا اور ہرطرح کے حربے آزمانے کے باوجود بھی الیکشن میں کامیابی دکھائی نہیں دی تومیاں نوازشریف کوجھوٹے اوربے بنیاد مقدمات میں ملوث کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیاگیا۔پھر بھی مطلوبہ نتائج حاصل ہوتے دکھائی نہیں دیے تو الیکشن کے نتائج RTS بند کرکے ممکن بنا دیے گئے ۔ اِن تمام کوششوں کے باوجود بھی وہ سادہ اکثریت حاصل نہیں کرپایاتو جنوبی پنجاب سے آزاد ارکان اسمبلی کو گھیرگھیر کے PTI کی جھولی میں ڈال دیا گیا۔یہ سب کچھ اس وقت جائز اوردرست تھا لیکن آج جب میاں شریف چار سال بعد واپس وطن آگئے اور عوام الناس کاایک جم غفیراُمڈ آیاتوانھیں برداشت اور ہضم نہیں ہوپا رہا۔وہ طرح طرح کی باتیں کرکے اپنے دل کے جلے پھپھولے پھوڑرہے ہیں،حالانکہ میاں نواز شریف ابھی صرف واپس ہی آیاہے ، ابھی اس نے الیکشن بھی نہیں جیتالیکن اس کے مخالف خوفزدہ ہیںکہ کہیں یہ دوبارہ وزیراعظم نہ بن جائے۔

میاں نوازشریف کے دامن اورکردار میں خاندانی شرافت اورشائستگی کا عنصر شامل ہے اس لیے وہ مینارپاکستان کے اتنے بڑے اجتماع میں بھی وہ زبان ولہجہ استعمال کرتے دکھائی نہیں دیے، جیسا انداز اورلہجہ خان صاحب اپنے ہرجلسے میں استعمال کرتے رہے ہیں،وہ کسی کوپھینٹی لگانے اورگلے سے پکڑ کرباہر پھینکنے کی باتیں بھی کرتے نظرنہیں آئے۔ سیاست کو نفرت اورعناد میں بدل کرہرگھر ، خاندان اورافراد کوتقسیم کرکے مجموعی طور پرساری قوم کوگروہوں میں بانٹ کرگزشتہ چار پانچ برسوں میں قوم کا جو نقصان کیاگیا ہے وہ اتنی جلدی پوراہونہیں سکتا۔ قوم کو واپس اپنی شناخت اور پہچان بنانے میں کئی سال درکار ہونگے۔ملک کی جواں نسل کوجس طرح بدتمیز اوربداخلاق خان صاحب نے بنادیا ہے وہ اتنی آسانی سے سدھرنہیں پائے گی۔

میاں نوازشریف ابھی تک اگر لوگوں کے دلوں میںموجود ہیں تو صرف اپنی کارکردگی کی وجہ سے، ورنہ اُن کے اندازتخاطب میں دل لبھانے والی ایسی کوئی بات نہیںہے جو اس قوم کے جوانوں کو اپنی طرف راغب کرسکے۔


وہ صرف اورصرف اپنے ادوار کی کارکردگی کی وجہ سے ابھی تک عوام کے دلوں میں موجود ہیں۔سارے ملک میں بچھائی گئی سڑکیں اورموٹرویز، میٹروبس سروسز اوراورنج لائن ٹرین سروس سمیت بہت سارے تعمیراتی کام ، سی پیک اور بجلی بنانے کے کارخانے، دہشت گردی کاخاتمہ ، کراچی شہر کاامن اور اس کی بحالی اُن کے ایسے کارنامے ہیں جن کی وجہ سے قوم ابھی تک اُن کی معترف اورممنون ہے۔

کسی اور سیاسی پارٹی کے پاس ایسا کوئی اثاثہ نہیں ہے۔اُن کے تین سابق ادوار میںگرچہ انھیں آزادانہ طورپر کام کرنے کاموقعہ بھی نہیں دیاگیااورآئین میں متعین کردہ پانچ سال پورے بھی کرنے نہیں دیے گئے اورہربار تباہ شدہ معیشت اُن کے حوالے کردی گئی مگر پھر بھی انھوں نے جانفشانی اورتندہی سے کام کرکے قوم کے دلوں میں جگہ بنائی۔

ابھی جب وہ واپس آئے ہیں،تو انھیں بہت سی مشکلات کاسامنابھی ہے۔ پہلے انھیں اپنے خلاف بنائے گئے مقدمات سے چھٹکاراحاصل کرنا ہے، سابقہ عدالتی فیصلوں پربریت بھی لینی ہے۔ نااہلی کواہلیت میں بھی بدلنا ہے۔ پھرجاکے وہ الیکشن میں حصہ لے پائیں گے ۔ وزیراعظم کے منصب تک دوبارہ پہنچنے کی راہیں بہت کٹھن اوردشوار بھی ہیں۔

اس کی راہوں میں ابھی بہت سے کانٹے بچھے ہوئے ہیں۔پہلے وہ سارے کانٹے صاف کرنا ہوں گے۔ وقت اورحالات بدل چکے ہیں۔مقدمات اورسابقہ فیصلوں پرنظرثانی کی گنجائش بہرحال ابھی موجود ہے۔اس لیے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ شاید اگلے انتخابات میں کوئی اہم رول ادا کرپائیں گے۔ اُن کے خلاف مقدمات اتنے کمزور، بے بنیاد اورناقص ہیں کہ کوئی وجہ نہیں کہ وہ کالعدم قراردے دیے جائیں۔

پانامہ اسکینڈل جس میں اُن کانام بھی نہیں تھا مگراسے بنیاد بناکے اقامہ اوربیٹے سے تنخواہ نہ لینے پرسیاست سے آؤٹ کرنے والوں کو ذراسا بھی احساس نہیں ہوا کہ وہ کیاکرنے جارہے ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی اوراعلیٰ عدالت اگر ایسے فیصلے کرے گی تو پھر اس کامعیار اوروقار کہاں قائم رہے گا۔ عوام تو 76برسوں سے یہ تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے ایسے ہی فیصلوں کی وجہ سے یہ ملک بہت پیچھے رہ گیاہے۔

قوموں کی برادری میں ہم باعزت مقام سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔ ہم اپنے ارد گردکے تمام ممالک سے بھی نظریں ملاکربات نہیں کرسکتے ہیں۔ اڑوس پڑوس کا کوئی ملک معاشی طور پراتنا بدحال اور بے آسرا نہیں جیسے ہم ہوچکے ہیں۔

یہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ایسا کیونکر ہوا، اورکیا ہم نے ابھی بھی اس سے کوئی سبق حاصل کیا ہے اورکیا آیندہ آنے والے دنوں میں ہم اپنی یہ روایت نہیں دہرائیں گے۔ ملک کے تمام اہم اداروں کو اب یہ سوچنا ہوگا اوراپنی پالیسی بدلنی ہوگی۔ تبھی جاکے اس ملک اورقوم کے حالات سدھر پائیں گے۔
Load Next Story