امید پاکستان
میاں نواز شریف کی وطن واپسی کو امید قرار دینے کی ایک وجہ دو عوامل سے مل کر تشکیل پاتی ہے
میاں صاحب کامل چار برس کے بعد پاکستان میں ہیں۔ ان کی واپسی کے سفر کو امید پاکستان کا عنوان دیا گیا ہے۔ یہی امید رہی ہو گی کہ ان سے محبت کرنے والے پورے پاکستان سے لاہور میں امڈ آئے۔ اس واقعے پر میاں صاحب کے حامیوں اور مخالفین کا ردعمل اپنا اپنا ہے۔
ان کے حامی کون ہیں؟ یہ سوال پوچھنے کی ضرورت نہیں بالکل اسی طرح مخالفین کو بھی دنیا جانتی ہے۔ میاں صاحب کے استقبال اور استقبالی جلسے کے موقع پر مسلم لیگ ن کی خوشی جائز اور فطری ہے اس کے مقابلے میں مخالفین یعنی پی ٹی آئی کی رائے منقسم ہے۔
چیئرمین تحریک انصاف اور ان کی جماعت کی تمام تر ناکامیوں، قومی مسائل کے ادراک میں مسلسل ٹھوکر کھانے اور کارکردگی کے شعبے میں ناقابل رشک طرز عمل کے باوجود ان کے پیروکاروں کو اپنے رہنما کے مقبول عام ہونے اور اس کے ہر مخالف کے عوام میں راندہ درگاہ ہونے کا یقین تھا۔
تبدیلی کا دم بھرنے والے ایک شائستہ دوست کا خیال تھا کہ وہ میاں صاحب کی وطن واپسی پر ناخوش، مایوس اور دکھی اس لیے نہیں ہیں کہ یہی تو وہ موقع ہوگا جب ان کی مقبولیت کا بھرم کھل جائے گا اور ایک بار پھر ثابت ہو جائے گا کہ مستقبل ہمارا ہے جب کہ دوسرے طبقہ فکر کا خیال تھا کہ یہ سب ارینجڈ ہو گا۔ اس کے مقابلے میں مسلم لیگ کے کارکن کی امید ظاہر کے مختلف تھی۔ یہ امید کیا تھی اور کیا ہے، اس کے لیے میاں صاحب کی پرواز کا نام یعنی امید پاکستان ہی موضوع ترین تھا اور ہے۔
میرے نزدیک اہم ترین سوال یہی ہے کہ مسلم لیگ ن نے میاں نواز شریف کی واپسی کے سفر کو امید پاکستان کا عنوان کیوں دیا ہے؟
اس سوال کے دو جوابات ہو سکتے ہیں۔ پہلا اور سادہ جواب یہ ہے کہ واپسی کا یہ سفر مسلم کے کارکنوں اور حامیوں کے لیے امید کی کرن ہے۔
ان لوگوں کے لیے امید کی کرن اس لیے ہے کہ سال 2014 سے مسلم لیگ ن اور اس کے قائد نواز شریف کو سیاسی اور نفسیاتی طور پر توڑنے کا جو عمل شروع ہوا تھا، اسی کے نتیجے میں 2018 میں تاریخی جوڑ توڑ کے بعد ایوان میں سادہ اکثریت بھی نہ رکھنے والی پی ٹی آئی کی حکومت کا قیام ممکن ہو سکا اور وزارت عظمی کا حلف اٹھانے کی کپتان اور ان کے سرپرستوں کی دیرینہ آرزو پوری ہو سکی۔ میاں صاحب کی واپسی مایوسی اور آزمائش کے ان طویل ماہ و سال کے خاتمے کی نوید ہے۔ مسلم لیگ ن کی طرف سے واپسی کے اس سفر کو امید پاکستان کا عنوان دینے کی ایک سادہ وجہ یہ ہے۔
اس عنوان کی نسبتاً پیچیدہ اور گہری وجہ ایک اور ہے۔ تحریک انصاف حکومت نے اپنے مخالفین خاص طور پر مسلم لیگ ن اور اس کی قیادت کو کچلنے کی حتی الامکان کوشش کی بلکہ ملک کو یک جماعتی نظام کی طرف لانے کے لیے سنجیدہ کوشش کی۔ ملک کی پارلیمانی نظام سے صدارتی نظام کی طرف مراجعت ان کوششوں کی پہلی کڑی تھی۔
خدا نہ خواستہ ایسا ہو جاتا تو اس کے نتیجے میں ملک پر صرف ایک جماعت کی آمریت ہی مسلط نہ ہو جاتی بلکہ پاکستان کا وفاق بھی خطرے میں پڑ جاتا۔ نواز شریف کی واپسی اس اعتبار سے اہم بلکہ تاریخی واقعہ ہے کہ 21 اکتوبر 2023 کا دن پارلیمانی نظام کے خاتمے اور اس کے نتیجے میں وفاق پاکستان کے لیے جنم لینے والے یقینی ضعف کے خاتمے کا علامتی دن ہے۔ ان دن کو پاکستان کی امید سے منسوب کرنے کی دوسری اور بہت اہم وجہ یہ ہے۔
میاں نواز شریف کی وطن واپسی کو امید قرار دینے کی ایک وجہ دو عوامل سے مل کر تشکیل پاتی ہے۔ لمحہ موجود میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت کا احیا ہے۔
یہ بحث پرانی ضرور ہو چکی ہے کہ 2018 میں مسلم لیگ ن کی حکومت رخصت ہوئی تو اس وقت ملک کی معیشت ترقی کر رہی تھی اور جی ڈی پی چھ فیصد سے زاید تھا لیکن پی ٹی آئی کی حکومت کے آتے ہی اقتصادی زوال کا سفر شروع ہو گیا۔ اقتصادی تباہی کی وجہ تو ظاہر ہے کہ حکومت کی سمت کے تعین میں ناکامی تو تھی ہی لیکن ایک وجہ اس حکومت کے زعما اور وزراء کی عاقبت نا اندیشی بھی تھی۔
کسی حکومت کا وزیر ہوا بازی اگر یہ بیان دے کہ قومی ایئرلائن کے بیشتر پائلٹ جعلی لائسنس پر جہاز اڑاتے ہیں تو اس ملک کی ایئر لائن انڈسٹری کا بیٹھ جانا کوئی حیرت کی بات نہیں۔ اسی طرح اس حکومت کے وزراء نے آتے ہی پاکستان ہی نہیں بلکہ خطے کی معیشت میں انقلاب برپا کرنے والے منصوبے پاک چین اقتصادی راہداری کو مشکوک بنا کر اسے منجمد کرنے کی باتیں کیں۔
اس حکومت کے قیام سے قبل میاں نواز شریف اور ان کی حکومت ملک کو عالمی دھڑے بندی سے نکال کر غیر جانب دارانہ خارجہ پالیسی کی طرف لے آئی تھی لیکن چیئرمین تحریک انصاف نے اقتدار میں آتے ہی ملک کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اسے ایک بار پھر امریکا کے سامنے لا پھینکا ۔
اس کے نتیجے ملک کو پہلا صدمہ قومی کشمیر پالیسی کے سلسلے میں اٹھانا پڑا۔ مودی حکومت کو بھارتی آئین میں ترمیم کر کے کشمیر کو باقاعدہ طور پر بھارت کا حصہ بنا دینے کی ہمت اسی پالیسی شفٹ کے نتیجے میں ہوئی۔
یہ پس منظر تھا جس نے وطن عزیز میں فیصلہ کن حیثیت رکھنے والے طبقات کو اپنے انداز فکر پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کیا یوں ان پر کھلا کہ ریموٹ کنٹرول حکومت کے تجربات نہ صرف یہ کہ مفید نہیں رہے بلکہ نقصان دہ ثابت ہوئے ہیں ۔
اس پس منظر میں میاں نواز شریف کی وطن واپسی ایک ایسے قومی میثاق کا اعلان بھی ہے جس کی وضاحت کے لیے شہید بے نظیر بھٹو نے Reconciliation کے نام سے ایک کتاب لکھی جب کہ میاں نواز شریف نے ٹروتھ اینڈ ری کنسیلی ایشن کاتصور پیش کیا۔ نواز شریف نے اپنے خطاب میں یہ کہہ کر وہ اب کسی سے بھی کسی انتقام کی تمنا نہیں رکھتے، قوم کے درمیان ہونے والے اس میثاق کے وجود کا اعلان کر دیا ہے۔ ہم چاہیں تو اسے میثاق پاکستان کے نام سے بھی یاد کر سکتے ہیں۔
میثاق پاکستان کے وجود میں آجانے کے بعد آنے والے دنوں میں پاکستان کی منزل کیا ہوگی؟ موجودہ صورت حال میں سب سے زیادہ اہمیت اسی سوال کی ہے۔ ملک کے اندر جو وسیع تر اتفاق رائے وجود میں آیا ہے، اس کی موجودگی میں یہ قابل فہم ہے کہ اب آیندہ کسی غیر ذمے دارانہ پالیسی کاتصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
خارجی سطح پر خطے میں جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، ان کا تقاضا یہ ہے کہ ملک میں ایک ذمے دار اور کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی حکومت قائم ہو جسے نہ صرف پوری قوم بلکہ پوری ریاست کی حمایت حاصل ہو۔
ملک سے باہر اور ہمارے ارد گرد اگرچہ بہت کچھ ہو رہا ہے لیکن اگر صرف سعودی عرب اور ایران کی دوستی ہی کی مثال پیش کی جائے تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ آنے والے دنوں ہمارے خطے میں بھرپور اقتصادی اور کاروباری سرگرمیاں شروع ہونے جا رہی ہیں جن کا محور پاکستان ہو گا۔ میاں نواز شریف کی وطن واپسی خطے میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال کی وضاحت کرتی ہے۔
ان کے حامی کون ہیں؟ یہ سوال پوچھنے کی ضرورت نہیں بالکل اسی طرح مخالفین کو بھی دنیا جانتی ہے۔ میاں صاحب کے استقبال اور استقبالی جلسے کے موقع پر مسلم لیگ ن کی خوشی جائز اور فطری ہے اس کے مقابلے میں مخالفین یعنی پی ٹی آئی کی رائے منقسم ہے۔
چیئرمین تحریک انصاف اور ان کی جماعت کی تمام تر ناکامیوں، قومی مسائل کے ادراک میں مسلسل ٹھوکر کھانے اور کارکردگی کے شعبے میں ناقابل رشک طرز عمل کے باوجود ان کے پیروکاروں کو اپنے رہنما کے مقبول عام ہونے اور اس کے ہر مخالف کے عوام میں راندہ درگاہ ہونے کا یقین تھا۔
تبدیلی کا دم بھرنے والے ایک شائستہ دوست کا خیال تھا کہ وہ میاں صاحب کی وطن واپسی پر ناخوش، مایوس اور دکھی اس لیے نہیں ہیں کہ یہی تو وہ موقع ہوگا جب ان کی مقبولیت کا بھرم کھل جائے گا اور ایک بار پھر ثابت ہو جائے گا کہ مستقبل ہمارا ہے جب کہ دوسرے طبقہ فکر کا خیال تھا کہ یہ سب ارینجڈ ہو گا۔ اس کے مقابلے میں مسلم لیگ کے کارکن کی امید ظاہر کے مختلف تھی۔ یہ امید کیا تھی اور کیا ہے، اس کے لیے میاں صاحب کی پرواز کا نام یعنی امید پاکستان ہی موضوع ترین تھا اور ہے۔
میرے نزدیک اہم ترین سوال یہی ہے کہ مسلم لیگ ن نے میاں نواز شریف کی واپسی کے سفر کو امید پاکستان کا عنوان کیوں دیا ہے؟
اس سوال کے دو جوابات ہو سکتے ہیں۔ پہلا اور سادہ جواب یہ ہے کہ واپسی کا یہ سفر مسلم کے کارکنوں اور حامیوں کے لیے امید کی کرن ہے۔
ان لوگوں کے لیے امید کی کرن اس لیے ہے کہ سال 2014 سے مسلم لیگ ن اور اس کے قائد نواز شریف کو سیاسی اور نفسیاتی طور پر توڑنے کا جو عمل شروع ہوا تھا، اسی کے نتیجے میں 2018 میں تاریخی جوڑ توڑ کے بعد ایوان میں سادہ اکثریت بھی نہ رکھنے والی پی ٹی آئی کی حکومت کا قیام ممکن ہو سکا اور وزارت عظمی کا حلف اٹھانے کی کپتان اور ان کے سرپرستوں کی دیرینہ آرزو پوری ہو سکی۔ میاں صاحب کی واپسی مایوسی اور آزمائش کے ان طویل ماہ و سال کے خاتمے کی نوید ہے۔ مسلم لیگ ن کی طرف سے واپسی کے اس سفر کو امید پاکستان کا عنوان دینے کی ایک سادہ وجہ یہ ہے۔
اس عنوان کی نسبتاً پیچیدہ اور گہری وجہ ایک اور ہے۔ تحریک انصاف حکومت نے اپنے مخالفین خاص طور پر مسلم لیگ ن اور اس کی قیادت کو کچلنے کی حتی الامکان کوشش کی بلکہ ملک کو یک جماعتی نظام کی طرف لانے کے لیے سنجیدہ کوشش کی۔ ملک کی پارلیمانی نظام سے صدارتی نظام کی طرف مراجعت ان کوششوں کی پہلی کڑی تھی۔
خدا نہ خواستہ ایسا ہو جاتا تو اس کے نتیجے میں ملک پر صرف ایک جماعت کی آمریت ہی مسلط نہ ہو جاتی بلکہ پاکستان کا وفاق بھی خطرے میں پڑ جاتا۔ نواز شریف کی واپسی اس اعتبار سے اہم بلکہ تاریخی واقعہ ہے کہ 21 اکتوبر 2023 کا دن پارلیمانی نظام کے خاتمے اور اس کے نتیجے میں وفاق پاکستان کے لیے جنم لینے والے یقینی ضعف کے خاتمے کا علامتی دن ہے۔ ان دن کو پاکستان کی امید سے منسوب کرنے کی دوسری اور بہت اہم وجہ یہ ہے۔
میاں نواز شریف کی وطن واپسی کو امید قرار دینے کی ایک وجہ دو عوامل سے مل کر تشکیل پاتی ہے۔ لمحہ موجود میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت کا احیا ہے۔
یہ بحث پرانی ضرور ہو چکی ہے کہ 2018 میں مسلم لیگ ن کی حکومت رخصت ہوئی تو اس وقت ملک کی معیشت ترقی کر رہی تھی اور جی ڈی پی چھ فیصد سے زاید تھا لیکن پی ٹی آئی کی حکومت کے آتے ہی اقتصادی زوال کا سفر شروع ہو گیا۔ اقتصادی تباہی کی وجہ تو ظاہر ہے کہ حکومت کی سمت کے تعین میں ناکامی تو تھی ہی لیکن ایک وجہ اس حکومت کے زعما اور وزراء کی عاقبت نا اندیشی بھی تھی۔
کسی حکومت کا وزیر ہوا بازی اگر یہ بیان دے کہ قومی ایئرلائن کے بیشتر پائلٹ جعلی لائسنس پر جہاز اڑاتے ہیں تو اس ملک کی ایئر لائن انڈسٹری کا بیٹھ جانا کوئی حیرت کی بات نہیں۔ اسی طرح اس حکومت کے وزراء نے آتے ہی پاکستان ہی نہیں بلکہ خطے کی معیشت میں انقلاب برپا کرنے والے منصوبے پاک چین اقتصادی راہداری کو مشکوک بنا کر اسے منجمد کرنے کی باتیں کیں۔
اس حکومت کے قیام سے قبل میاں نواز شریف اور ان کی حکومت ملک کو عالمی دھڑے بندی سے نکال کر غیر جانب دارانہ خارجہ پالیسی کی طرف لے آئی تھی لیکن چیئرمین تحریک انصاف نے اقتدار میں آتے ہی ملک کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اسے ایک بار پھر امریکا کے سامنے لا پھینکا ۔
اس کے نتیجے ملک کو پہلا صدمہ قومی کشمیر پالیسی کے سلسلے میں اٹھانا پڑا۔ مودی حکومت کو بھارتی آئین میں ترمیم کر کے کشمیر کو باقاعدہ طور پر بھارت کا حصہ بنا دینے کی ہمت اسی پالیسی شفٹ کے نتیجے میں ہوئی۔
یہ پس منظر تھا جس نے وطن عزیز میں فیصلہ کن حیثیت رکھنے والے طبقات کو اپنے انداز فکر پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کیا یوں ان پر کھلا کہ ریموٹ کنٹرول حکومت کے تجربات نہ صرف یہ کہ مفید نہیں رہے بلکہ نقصان دہ ثابت ہوئے ہیں ۔
اس پس منظر میں میاں نواز شریف کی وطن واپسی ایک ایسے قومی میثاق کا اعلان بھی ہے جس کی وضاحت کے لیے شہید بے نظیر بھٹو نے Reconciliation کے نام سے ایک کتاب لکھی جب کہ میاں نواز شریف نے ٹروتھ اینڈ ری کنسیلی ایشن کاتصور پیش کیا۔ نواز شریف نے اپنے خطاب میں یہ کہہ کر وہ اب کسی سے بھی کسی انتقام کی تمنا نہیں رکھتے، قوم کے درمیان ہونے والے اس میثاق کے وجود کا اعلان کر دیا ہے۔ ہم چاہیں تو اسے میثاق پاکستان کے نام سے بھی یاد کر سکتے ہیں۔
میثاق پاکستان کے وجود میں آجانے کے بعد آنے والے دنوں میں پاکستان کی منزل کیا ہوگی؟ موجودہ صورت حال میں سب سے زیادہ اہمیت اسی سوال کی ہے۔ ملک کے اندر جو وسیع تر اتفاق رائے وجود میں آیا ہے، اس کی موجودگی میں یہ قابل فہم ہے کہ اب آیندہ کسی غیر ذمے دارانہ پالیسی کاتصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
خارجی سطح پر خطے میں جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، ان کا تقاضا یہ ہے کہ ملک میں ایک ذمے دار اور کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی حکومت قائم ہو جسے نہ صرف پوری قوم بلکہ پوری ریاست کی حمایت حاصل ہو۔
ملک سے باہر اور ہمارے ارد گرد اگرچہ بہت کچھ ہو رہا ہے لیکن اگر صرف سعودی عرب اور ایران کی دوستی ہی کی مثال پیش کی جائے تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ آنے والے دنوں ہمارے خطے میں بھرپور اقتصادی اور کاروباری سرگرمیاں شروع ہونے جا رہی ہیں جن کا محور پاکستان ہو گا۔ میاں نواز شریف کی وطن واپسی خطے میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال کی وضاحت کرتی ہے۔