اٹھترسالہ اقوامِ متحدہ

اس کے فیصلوں کی پاسداری اقوامِ متحدہ کے تمام ارکان پر لازم ہے

بنیادی طور پر یہ آنجہانی امریکی صدر روزویلٹ کا تصور تھا کہ پہلی عالمی جنگ کے بعد لیگ آف نیشنز کی ناکامی سے سبق سیکھتے ہوئے ایک ایسی موثر عالمی تنظیم تشکیل دی جائے جو کبھی جنگ نہ ہونے دے اور اجتماعی عالمی شعور اور تدبر کام میں لاتے ہوئے تمام ایسے مسائل کا حل ڈھونڈے جو جنگ کا سبب بن جاتے ہیں۔

چنانچہ دوسری عالمی جنگ کے اختتامی مہینوں میں نازی جرمنی اور جاپان سے نبرد آزما اتحادیوں ( امریکا ، برطانیہ ، سوویت یونین اور قوم پرست چین ) نے ایک عالمی تنظیم کی بنیاد رکھنے کا فیصلہ کیا۔

اس کا چارٹر تشکیل دینے کے لیے سان فرانسسکو وار میموریل اوپیرا ہاؤس میں پچیس اپریل تا چھبیس جون انیس سو پینتالیس پچاس اقوام کے تیرہ سو مندوبین سر جوڑ کے بیٹھے۔یہ تب تک کی انسانی تاریخ کا سب سے بڑا بین الاقوامی اجتماع تھا جسے ڈھائی ہزار صحافیوں نے کور کیا۔

چوبیس اکتوبر انیس سو پینتالیس کو اکیاون ممالک کے دستخطوں سے اقوامِ متحدہ کی باقاعدہ پیدائش عمل میں آئی۔آج اس کے ارکان کی تعداد ایک سو ترانوے ہے۔

اقوامِ متحدہ کے چھ بنیادی بازو ہیں۔سب سے اہم جنرل اسمبلی ہے جس کے ایک سو ترانوے ارکان ہر برس ستمبر میں مل بیٹھتے ہیں اور بین الاقوامی معاملات پر اظہارِ خیال کرتے ہیں ، مباحثہ ہوتا ہے ، قرار دادیں منظور ہوتی ہیں۔

جنرل اسمبلی کسی نئے رکن کی شمولیت، سیکریٹری جنرل کی پانچ سالہ مدت کی تعیناتی، سالانہ بجٹ اور دیگر اہم انتظامی امور سے متعلق فیصلے دو تہائی اکثریت سے کرتی ہے۔جب کہ عمومی فیصلے سادہ اکثریت سے ہوتے ہیں۔رکن ممالک ایک برس کے لیے اپنے میں سے کسی ایک کو جنرل اسمبلی کے لیے صدر بھی منتخب کرتے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کا دوسرا اہم بازو پندرہ رکنی سلامتی کونسل ہے جس کا بنیادی کام بین الاقوامی امن کو درپیش خطرات کی نشاندہی ، بحث اور اس بابت فیصلے اور ان پر عمل درآمد ہے۔کونسل کے پانچ ِ ( امریکا ، برطانیہ ، روس، فرانس ، چین ) مستقل اور دس غیر مستقل ارکان ہیں۔ مستقل ارکان کو ویٹو کا حق حاصل ہے۔فیصلے کثرتِ رائے سے ہوتے ہیں۔

سلامتی کونسل اقوامِ متحدہ کے کسی بھی رکن ملک کے خلاف عالمی امن کے مفاد میں تادیبی پابندیوں اور فوجی کارروائی کا حکم دے سکتی ہے۔

اس کے فیصلوں کی پاسداری اقوامِ متحدہ کے تمام ارکان پر لازم ہے۔ پندرہ ارکان گردشی بنیاد پر ماہانہ سلامتی کونسل کے اجلاس کی صدارت کرتے ہیں۔مگر سلامتی کونسل کے اکثر فیصلوں پر رکن ممالک کی جانب سے تنقید بھی ہوتی ہے اور بہت سے ممالک مستقل اور غیر مستقل ارکان کی تفریق اور ویٹو پاور پر بھی خاصے تحفظات ظاہر کرتے رہتے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کی اقتصادی و سماجی کونسل کی ذمے داریوں میں انسانی ترقی اور سماجی و ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے منصوبے بنانا ، حل تجویز کرنا اور رکن ممالک سے عمل درآمد کروانا اور ان کی نگرانی ہے۔ کونسل کے چون ارکان کا انتخاب جنرل اسمبلی تین برس کی مدت کے لیے کرتی ہے۔

اقوامِ متحدہ کا چوتھا بازو عالمی عدالتِ انصاف ہے۔یہ عدالت ہالینڈ کے دارالحکومت دی ہیگ میں بیٹھتی ہے۔یہ عدالت بین الاقوامی تنازعات کے فیصلے کرتی ہے۔ ان فیصلوں کا اخلاقی دباؤ فریقین کو ان پر عمل درآمد پر مجبور کرتا ہے۔جب کہ دی ہیگ میں ہی جرائم کی بین الاقوامی عدالت انسانیت کے خلاف جرائم کی سماعت کرتی ہے اور مجرموں کو سزا بھی سناتی ہے۔

انیس سو پینتالیس میں جب اقوامِ متحدہ کا قیام عمل میں آیا تو اس وقت نوآبادیاتی دور عروج پر تھا۔لہٰذا ایک ٹرسٹی شپ کونسل قائم ہوئی۔اس کے تحت کسی بھی غیر آزاد خطے کا انتظام عارضی طور پر کسی رکن ملک کے حوالے کر دیا جاتا۔جیسے فلسطین کا انتظام برطانیہ کے حوالے کیا گیا۔

مگر اس کے نتیجے میں برطانیہ نے ارضِ فلسطین کو آزادی کے لیے تیار کرنے کے بجائے یہاں ایک صیہونی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کر دی۔جسے انیس سو سینتالیس میں اقوامِ متحدہ کی سلامی کونسل نے قانونی حیثیت دے دی۔


یہ فیصلہ امن و انصاف کے بجائے ایک رستا ہوا بین الاقوامی ناسور بن گیا۔انیس سو چورانوے تک وہ تمام گیارہ علاقے آزاد یا خودمختار ہو گئے جن کا انتظام ٹرسٹی شپ کونسل سنبھالتی تھی۔چنانچہ اب اس کونسل کا وجود محض علامتی ہے۔

مگر اقوامِ متحدہ کا دماغ سیکرٹیریٹ کہلاتا ہے جہاں سے بیوروکریسی اقوامِ متحدہ کے سسٹم کو چلاتی ہے۔ سیکریٹری جنرل اس تنظیم کا چہرہ ہے۔اس کا انتخاب ہر پانچ برس بعد ہوتا ہے اور اسے ایک اور مدت کے لیے بھی چنا جا سکتا ہے۔جیسے موجودہ سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریز اس وقت دوسری مدت پوری کر رہے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو دنیا کا سب سے مصروف عہدیدار بھی کہا جاتا ہے۔اس کی معاونت کے لیے درجن سے زائد ڈپٹی اور اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل ہوتے ہیں۔سیکرٹیریٹ اور ذیلی اداروں میں دنیا کے ہر ملک سے لیے گئے عہدیدار اور ملازمین کام کرتے ہیں۔

ان کی بھرتی ہر براعظم کے کوٹے کے مطابق اہلیت کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔اقوامِ متحدہ کے ملازمین کی تعداد چالیس ہزار سے زائد ہے۔ اتنی بڑی بیوروکریسی اور اس کی مبینہ مراعات پر ناک بھوں بھی چڑھائی جاتی ہے اور امریکا سمیت اقوامِ متحدہ کو سب سے زیادہ چندہ دینے والے ممالک یہ معاملہ اکثر اٹھاتے رہتے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے ذیلی اداروں میں یونائیٹڈ نیشنز ڈویلپمنٹ پروگرام ( یو این ڈی پی ) ایک سو ستر ممالک میں پسماندگی میں کمی کے بیسیوں منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔یو این ہیبیٹاٹ ماحولیاتی مسائل سے نبرد آزما ہے۔بچوں کی فلاح و بہبود کے عالمی ادارے یونیسیف کی ایک سو نوے ممالک میں شاخیں ہیں۔

یونائیٹڈ نیشنز انوائرنمنٹ پروگرام انیس سو بہتر سے فعال ہے۔ورلڈ فوڈ پروگرام اٹھاسی ممالک میں سالانہ دس کروڑ لوگوں کو فاقے اور ناکافی غذائیت سے بچا رہا ہے۔یونائیٹڈ نیشنز پاپولیشن فنڈ سب سے بڑے عالمی مسئلے یعنی آبادی میں بے تحاشا اضافے اور موجودہ آبادی کے معیارِ زندگی کو بہتربنانے کے مقصد پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

اس کے علاوہ فوڈ اینڈ ایگری کلچرل آرگنائزیشن (ایف اے او)، یو این انڈسٹریل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن ، ورلڈ ٹورزم آرگنائزیشن ، یونیورسل پوسٹل یونین اپنی اپنی جگہ اہم ہیں۔

عالمی ادارہِ صحت ( ڈبلیو ایچ او ) نے کوویڈ کی عالمی روک تھام میں کلیدی کردار ادا کیا۔انٹرنیشنل لیبرآرگنائزیشن ( آئی ایل او ) کا مزدور دوست قوانین سازی میں کردار خاصا اہم ہے۔یونیسکو عالمی ثقافت اور آثار کے تحفظ کے لیے گرانقدر کام کر رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سال بہ سال انسانی حقوق کی پامالیوں کی روک تھام کے لیے ایک موثر احتسابی ادارہ بنتا جا رہا ہے۔

فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے یواین ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی، عالمی پناہ گزینوں کے لیے یو این ہائی کمشنر فار ریفوجیز ( یو این ایچ سی آر ) ، جوہری پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی ( آئی اے ای اے ) اپنے اپنے میدانوں میں بیش بہا خدمات انجام دے رہے ہیں۔ٹوکیو میں یو این یونیورسٹی قائم ہے جہاں قیامِ امن سے متعلق مضامین کی تعلیم و تحقیق پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔

اقوامِ متحدہ کی مختلف ذیلی تنظیمیں اپنی خدمات کے اعتراف میں انیس سو پچاس سے اب تک بارہ نوبیل امن انعامات حاصل کر چکی ہیں۔

اقوامِ متحدہ کا سالانہ بجٹ ساڑھے تین ارب ڈالر ہے جسے رکن ممالک کے چندے سے پورا کیا جاتا ہے۔اس بجٹ کا بائیس تا پچیس فیصد حصہ امریکا ، سولہ فیصد چین ، نو فیصد جاپان ، لگ بھگ چھ چھ فیصد جرمنی، برطانیہ ، فرانس اور ساڑھے تین تین فیصد اٹلی اور روس فراہم کرتا ہے۔بجٹ کا ایک تہائی حصہ بین الاقوامی امن مشنز پر صرف ہوجاتا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے ڈھانچے میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ مگر اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود اس سے زیادہ موثر عالمی ادارہ بھی اس وقت کرہِ ارض پر موجود نہیں۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
Load Next Story