عاصمہ جہانگیر ہے کوئی دوسرا ہے کوئی دوسرا حصہ

zahedahina@gmail.com

عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی سے میرا گہرا تعلق تھا۔ عاصمہ اورحنا کے ساتھ ہندوستان میں ہم نے 15دن ساتھ گزارے ۔ اس وقت مجھے مئی 2000کے وہ دن یاد آرہے ہیں جب WIPSA (Women Initiative for Peace in South Asia) کی دعوت پر لاہور سے 64 پاکستانی خواتین کا امن وفد واہگہ کے راستے ہندوستان روانہ ہوا تھا، جس کی سربراہی عاصمہ کر رہی تھی۔ حنا جیلانی اور یہ خاکسار اس کا دایاں اور بایاں بازو تھے۔

ہم مشرقی پنجاب کے شہروں اور قصبوں سے گزرتے ہوئے دلی کے امبیدکر اسٹیڈیم پہنچے تھے۔ جہاں ہندوستان کی امن دوست خواتین نے ہمارا استقبال کیا تھا۔ یہ وہ دن تھے جب پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر تھی اور یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کسی بھی لمحے دونوں ملکوں کے درمیان جنگ چھڑ جائے گی۔ اُس سفر میں ہم دِلی، آگرہ، فتح پور سیکری، اجمیر اور جے پور گئے تھے۔

ہم نے حضرت سلیم چشتی کی درگاہ پر حاضری دی تھی۔ ان کے مزار پر پھولوں کی اور مخمل کی چادر چڑھائی تھی اور دعا کرانے کا فرض میں نے ادا کیا تھا۔ 2000 کی اس شام میں نے دعا کراتے ہوئے کہا تھا کہ '' حضرت آپ کے مزار پر اکبر بادشاہ اور جودھا بائی بیٹا مانگنے آئے تھے اور بامراد گئے تھے۔

ہم آپ سے اس خطے میں امن مانگنے آئے ہیں۔'' پاکستان اور ہندوستان کے درمیان امن کے قیام کی خواہش کے بہت شدید ہونے کے باوجود اس راستے میں کبھی کارگل کی چوٹیاں حائل ہوجاتی ہیں اور کبھی کوئی اجمل قصاب اور اس کے پسِ پردہ سرپرست۔ یہ 90 کی دہائی تھی جب میں ''روشن خیال'' کی مدیر تھی۔

عاصمہ نے ہندوستان جاکر ''کیول سنگھ لیکچر '' دیا تھا۔ یہ لیکچر جنوری 1993 کی اشاعت میں شایع ہوا تھا۔ اس کی آخری سطروں میں عاصمہ نے کہا تھا۔ '' میں تسلیم کرتی ہوں کہ تیزی سے ترقی کرنا آسان نہیں ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ عورتیں صدیوں سے مصائب جھیل رہی ہیں اور نظر آنے والے مستقبل میں بھی جھیلتی رہیں گی، لیکن ان تمام رکاوٹوں کے ہوتے ہوئے بھی عورتیں بالآخر آزاد ہوں گی۔ تبدیلی ڈرامائی ہوگی۔

یہ سماجی تبدیلی ہر باورچی خانے میں اور ہرکچن کیبنٹ میں دیکھی جاسکے گی۔ پاکستانی عورتیں پیچھے نہیں چھوڑی جائیں گی۔'' 1992 میں کہے جانے والے یہ جملے آج خود عاصمہ پر بھی صادق آتے ہیں۔ زندگی میں عاصمہ کتنے ہی مشکل امتحانوں سے گزری تھی۔

اس کتاب میں حسن مجتبیٰ نے انھیں ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اس کی زندگی کی آخری سرگرمی شاید نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل دیگر زیادتیوں پر احتجاجی دھرنے سے خطاب تھا، جس میں عاصمہ کہہ رہی تھی '' پشتونوں کی سندھیوں اور بلوچوں سے زیادہ قربانیاں ہیں۔

پشتونوں اور باچا خان کے بغیر پاکستان ایک تنگ نظر پاکستان ہوگا۔'' واقعی اگر پاکستان کو اب بھی مکمل تنگ نظر پاکستان کہنے سے جو بات روکے کھڑی ہے وہ عاصمہ جیسے لوگ ہیں۔ عاصمہ پنجاب میں بھٹہ مزدوروں کی جبری مشقت کے خلاف بھی جدوجہد کی سورما تھی۔

لاہور ہائیکورٹ میں عاصمہ کی طرف سے ان مزدوروں پر جبری مشقت کے خلاف دائر مقدمے میں تاریخی فیصلہ آیا جس میں جبری مشقت کو غیر قانونی قرار دیا گیا جس سے نہ محض پنجاب میں بھٹہ مزدور بلکہ سندھ میں بھی جبری مشقت سہتے ہاریوں، کسانوں کا فائدہ ہوا۔

حامد میر لکھتے ہیں۔'' عاصمہ کو پاکستان میں کچھ لوگ انڈین ایجنٹ اور بھارت میں پاکستانی ایجنٹ کہتے تھے، کیونکہ عاصمہ کسی ریاست کی ایجنٹ نہیں تھی وہ صرف مظلوم طبقوں کی ایجنٹ تھیں۔


ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے بڑے سے بڑے دشمن کو بھی معاف کردیتی تھیں اور دشمن پرکڑا وقت آتا تو اس کے ساتھ کھڑی ہو جاتیں۔2013 میں بنگلہ دیش کی حکومت نے ان معروف پاکستانیوں کو فرینڈز آف بنگلہ دیش ایوارڈ دینے کا فیصلہ کیا۔

جنھوں نے 1971کے فوجی آپریشن کی مخالفت کی تھی۔ ان پاکستانیوں میں فیض احمد فیض، حبیب جالب، غوث بخش بزنجو، پروفیسر وارث میر اور ملک غلام جیلانی کے علاوہ کچھ دیگر محترم شخصیات شامل تھیں۔ وہاں ایوارڈز کی تقریب سے ایک رات قبل مجھے اور عاصمہ جہانگیر کو ایک ٹی وی پروگرام میں بلایا گیا اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں کے خلاف چلنے والے وار کرائمز ٹربیونل کے بارے میں سوالات کیے گئے۔

عاصمہ نے بڑے واضح انداز میں کہا کہ آپ لوگ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت تبدیل کرنا ووٹروں کا کام ہے ،سپریم کورٹ کا نہیں۔ ہمارے بڑے بڑے سیاستدان وقت بدلنے کے ساتھ اپنا سیاسی موقف بھی بدل لیتے ہیں لیکن عاصمہ جہانگیر اپنے پرانے موقف پر ڈٹی رہتی تھیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے دور حکومت میں انھیں ہائی کورٹ کا جج بنانے کی کوشش کی لیکن عاصمہ نے انکارکر دیا۔

2013 میں عاصمہ کو پنجاب کی نگراں وزارت اعلیٰ پیش ہوئی، انھوں نے انکار کر دیا۔ موت سے کچھ دن پہلے ان کے سامنے نگراں وزارت عظمیٰ کی بات رکھی گئی تو انھوں نے مسکرا کر رد کردی۔ 2006 میں عاصمہ جہانگیر ڈیرہ بگٹی گئیں تو ان کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی۔ واپس آکر انھوں نے ببانگ دہل کہا کہ '' اکبر بگٹی کو قتل کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔'' کچھ ہی عرصے میں نواب اکبر بگٹی پراسرار موت کا شکار ہوگئے۔

صائمہ جبار دل کو چھو لینے والے مضمون میں لکھتی ہیں۔ ان کے گھر سے قذافی اسٹیڈیم کچھ قدم ہی دور تھا۔ جہاں جنازہ پڑھایا جانا تھا۔ نہ صرف مرد بلکہ خواتین بھی بھاری تعداد میں قذافی اسٹیڈیم کی جانب عاصمہ کے جنازے میں شرکت کرنے جارہے تھے، ہم بھی اس طرف چلے گئے۔ میں جہاں بیٹھی تھی، اس کے پیچھے ایک بہت بڑا پینا فلیکس لگا تھا جس پر عاصمہ جی کی بڑی مسکراتی تصویر آویزاں تھی۔ اور لکھا تھا پوری دنیا تمہیں سلام کرتی ہے۔

اس وقت میرے لیے خود پر قابو پانا مشکل تھا۔ میرے آنسو نہیں رک رہے تھے۔ میں سامنے موجود کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گئی۔ ساتھ ہی نظر پڑی تو میں نے مشہور ٹی وی شخصیت جگنو محسن کو دیکھا جو زار و قطار رو رہی تھیں اور کسی سے فون پر کہہ رہی تھیں کہ مجھے یقین نہیں آ رہا کہ میں عاصمہ کے جنازے میں موجود ہوں۔

ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ جس طرح زہر میرے خلاف سوشل میڈیا پر اگلا جا رہا ہے حیرت ہے کہ میں زندہ کیسے ہوں۔ عاصمہ نے نہ صرف اپنے حامیوں بلکہ مخالفین کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر بھی آواز اٹھائی ۔ ایک اور لال ٹوپی والی شخصیت جو زہر اگل رہی ہے ان صاحب کو جب سعودی عرب میں کسی جرم میں کوڑوں کی سزا سنائی گئی تھی تو عاصمہ نے اس کی مخالفت بھی کی۔

ایک فون پر ہی وہ غریب لوگوں کو اپنے گھر بلا بھی لیتی تھیں اور خود ان کے گھر چلی بھی جاتی تھیں۔ ایسی ہی ایک خاتون جنازے میں مجھے ملیں جو کہہ رہی تھیں کہ اوکاڑہ میں مزارعین کی زمینوں پر قبضے کیے گئے اور ان کے والد اور بھائی کو کیس کروا کر جیل بھیجا گیا اس وقت عاصمہ نے ان کا مقدمہ مفت میں لڑا اور رہائی دلوائی۔ خاتون کا کہنا تھا کہ عاصمہ اس کے والد سے کہتی تھیں کہ'' مجھے بس دعا دے دیں۔''

عبدالحئی کاکڑ عاصمہ جہانگیرکو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں۔'' پشتو کے نامور گلوکار ہارون باچا نے زندگی میں پہلی بار اگرکسی غیر پشتون کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے گانا کمپوزکیا ہے تو وہ عاصمہ جہانگیر ہی ہیں۔

بہت سے پشتونوں کے ذہن میں عاصمہ جہانگیر کے وہ الفاظ ابھی تک محو گردش ہیں جو انھوں نے چند دن قبل اسلام آباد میں پشتونوں کے دھرنے میں شرکت کے وقت تقریر کرنے کے دوران ادا کیے تھے، '' میں سمجھتی ہوں باچا خان اور پشتونوں کے بغیر پاکستان تنگ نظر پاکستان ہوگا۔ '' جب سوات میں طالبان کا راج تھا تب عاصمہ جہانگیر پشتونوں کے ساتھ کھڑی تھی اور جب وہاں ملٹری آپریشن کے بعد لاپتہ افراد کا ایشو سامنے آیا تب بھی انھوں نے سوات جاکر بڑی جرات کے ساتھ اس مسئلے کو اجاگر کیا تھا۔ (جاری ہے)
Load Next Story