میاں نواز شریف کے نئے سفر کا آغاز

atharqhasan@gmail.com

میاں نواز شریف بالآخر وطن واپس پہنچ چکے ہیں، ان کی وطن واپسی کے متعلق جن شکوک وشبہات اور خدشات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے، انھوں نے اپنے ناقدین کی وہ چہ مگوئیاں اور افواہیں غلط ثابت کر دیں اور وطن واپس آگئے ہیں۔

میاں نواز شریف جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں جبراً جلا وطن کیے گئے تھے اور وہ کئی برس تک سعودی حکمرانوں کے مہمان رہے اور بعد ازاں کسی نہ کسی طرح لندن پہنچ گئے لیکن وطن واپسی کی تڑپ نے انھیں بے چین کیے رکھا اور ایک دلیرانہ فیصلہ کر کے وہ لندن سے اسلام آباد پہنچ گئے لیکن ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے انھیں ایئر پورٹ سے ہی لندن کے بجائے سعودی عرب بجھوا دیا۔

تب وہ کس طرح وطن واپس لوٹے اور بھاگم بھاگ الیکشن میںحصہ لیا، یہ تاریخ کا حصہ ہے ۔ اسی الیکشن مہم میں محترمہ بینظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا جب کہ میاں صاحب پر بھی قاتلانہ حملہ کیا گیا جس میں خوش قسمتی سے وہ محفوظ رہے۔

وزیر اعظم کے منصب سے زبردستی اتارے جانے اور ملک میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ الیکشن میں عوام انھیں منتخب کریں گے کیونکہ ملکی ترقی کے لیے ان کا ویژن کئی برس گزرنے کے بعد بھی عوام کے دل ودماغ سے محو نہیں ہوا تھا لیکن محترمہ بینظیر بھٹوکی شہادت نے اقتدار کا ہما پیپلزپارٹی کے سر پر بٹھا دیا اور جناب آصف علی زرداری پاکستان کھپے کا نعرہ لگاتے ہوئے حکمران بن گئے۔

یہ شاید وقت کی ضرورت بھی تھی اور اس ضرورت کو میاں نواز شریف نے خندہ پیشانی کے ساتھ قبول بھی کر لیا تھا کیونکہ وہ الیکشن سے پہلے لندن میں محترمہ بینظیر کے ساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط بھی کر چکے تھے جس میں ایک دوسرے کے عوامی مینڈیٹ کا احترام بنیادی شرط تھی چونکہ ماضی میں دونوں پارٹیاں اقتدار کی غلام گردشوں میں سازشوں کے تانے بانے بن کر ایک دوسرے کی حکومتیں گرا چکی تھیں۔

اقتدار کی رسی کشی میں ان دونوں پارٹیوں کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ اگر وہ عوامی مینڈیٹ کا احترام نہیں کریں گے تو ان کے ساتھ پھر وہی سلوک کیا جائے گا جو ماضی میں ہوتا آیا ہے کہ دونوں پارٹیوں کا کوئی بھی وزیر اعظم اقتدار کی مدت پوری نہ کر سکا تھا۔


لندنی میثاق جمہوریت کی تجدید کے لیے کوہ مری میں آصف علی زرداری اور نواز شریف کے درمیان ملاقات میں اعلان مری کیا گیا ، بعد ازاں جناب آصف زرادری کا وہ جملہ سیاست کا موضوع بن گیا کہ سیاسی معاہدے کوئی قرآن یا حدیث نہیں ہوتے جن میں تبدیلی نہ لائی جا سکے ۔

معلوم نہیں کہ میاں صاحب وطن لوٹنے کے لیے زیادہ بے تاب تھے یا پاکستانی عوام ان کے زیادہ منتظر تھے کہ جس طرح مینار پاکستا ن کے وسیع عریض سبزہ زار میں ان کا عوام نے استقبال کیا اس نے حقیقت میں ان کو بھی حیران کر دیا۔ ان کی آمد سے پہلے ان کی جماعت میں خوف تھا کہ معلوم نہیں عوام جلسے میں آتے ہیں یا نہیں لیکن عوام نے ان کا بھر پور استقبال کر کے ان پر اپنے اعتماد کا اظہار کر دیا ہے۔

ان کے سیاسی مخالفین لاکھ برا کہیں لیکن اتنے بڑے مجمع کا مینار پاکستان کے سبزہ زار نے ایک مدت کے بعد نظارہ کیا ہے۔پرویز مشرف کے مارشل لاء کے سبب نواز شریف وزیر اعظم کے عہدے سے زبردستی بیدخل کیے جانے اور زبردستی جلاوطنی سے نجات حاصل کرنے کے بعد وہ وطن واپس پہنچے تھے تو بقول قائم چاند پوری 'کچھ دور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا 'کے مصداق وزیر اعظم بننے سے رہ گئے تھے لیکن اب قرائن بتا رہے ہیں کہ پاکستان کے آیندہ وزیر اعظم میاں نواز شریف ہی ہوں گے۔

میاں نواز شریف کی تقریر کے متعلق مختلف قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں کہ چونکہ وہ بہت دلبرداشتہ ہیں، اس لیے ان کی تقریر بھی شکوؤں سے لبریز ہو گی لیکن میاں صاحب نے اپنے ناقدین کو ایک بار پھر سر پرائز دیا ہے اور انھوں نے اپنے شکوؤں کا اظہار اسد اللہ خاںغالب اور افتخار عارف کے شعروں کی صورت میں کرنے پر ہی اکتفا کیا ہے اور انتقام نہیں بلکہ خدمت کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔

میاں نواز شریف کے لیے نہ یہ ملک نیا ہے اور نہ ہی اس کے عوام نئے ہیں، یہ وہی عوام ہیں جو انھیں دوتہائی اکثریت سے منتخب کرتے آئے ہیں، وہ تعمیر وترقی کے نئے سفر کی بات کر رہے ہیں، ملک بچانے کی بات کر رہے ہیں، ملک جن حالات سے گزر رہا ہے، اسے بچانے کے لیے دانشمندانہ حکمت عملی کی ضرورت ہے ۔

چوتھی باری لینے کے لیے میاں نواز شریف کو کچھ مختلف کر کے دکھانا ہو گا، روایتی حکمرانی کا وقت اب گزر چکا ہے، باشعور عوام کو مزید بے وقوف نہ بنایا جا سکتا ہے اور نہ اب وہ بننے کے لیے تیار ہیں۔ حقیقت میں معاشی محاذ پر ایک بڑے جہاد کی ضرورت ہے لیکن اس جہاد میں اولین اوربڑا حصہ اشرافیہ کو ڈالنا ہو گا، عوام تو اپنا حصہ پہلے ہی آئے روز مہنگائی برداشت کر کے ڈال رہے ہیں ۔

کیا میاں نواز شریف اشرافیہ کو ہاتھ ڈالیں گے؟یہ سب سے بڑا سوال ہے جو عوام کے ذہنوں میں کلبلا رہا ہے اگر انھوں نے یہ کام کر دیا تو پھر عوام ان کی طرف لوٹ آئیں گے ۔ میاں صاحب سے گزارش ہے کہ وہ تنہائی میں پاکستان کی بقاء کے لیے دعائیں جاری رکھیں البتہ عملیات سے دور رہیں کیونکہ ان عملیات نے پاکستان کو پہلے ہی بہت نقصان پہنچایا ہے۔
Load Next Story