عروج وزوال

barq@email.com

پوروراج کے راجہ کا اصلی نام ''پرشوتم'' تھا لیکن اپنے راج کی نسبت سے ''پورو'' کہلاتا تھا لیکن یونانی زبان میں پورس لکھا جاتا ہے کیوں کہ حرف (س) یونانی زبان میں احترام کے لیے بولا جاتا ہے جسے انگریزی میں (دی ) اورعربی میں ''ال'' لگایاجاتاہے اورسنسکرت میں ''م'' کا اضافہ کیاجاتا ہے ۔

پورو نے جب اپنے ہی ہاتھیوں کی وجہ سے شکست کھائی تو فاتح سکندر نے اس سے پوچھا، بول تیرے ساتھ کیاسلوک کیاجائے تو پورونے کہا قاتل ہوتو مارڈالو، تاجر ہو تو بیچ ڈالو اوراگر بادشاہ ہوتوبخش دو۔سکندر نے اس کے ساتھ بادشاہوں کاسا سلوک کیا نہ صرف اس کی جان بخش دی بلکہ اس کی سلطنت بھی واپس کردی پھر تاریخ کا پہیہ گھومتا رہا۔

ہندوستان نام کی اس سونے کی چڑیا کو شکار کرنے کے لیے دنیا بھر کے شکاری آتے رہے جاتے رہے ۔یہاں تک کہ صدیوں کے بعد ایک مرتبہ اسی یورپ سے ایک اورقوم نے اس سونے کی چڑیاں کو شکار کرلیا جو اپنے آپ کو دنیا کی شریف ترین مہذب ترین اورمنصف ترین قوم کہلواتی ہے۔

حالانکہ یہاں کے حکمرانوں نے کوئی خاص مزاحمت بھی نہیں کی لیکن اس مہذب ترین شریف ترین اورمنصف ترین قوم نے یہاں کے بوڑھے ضعیف اوربیمار بادشاہ کے ساتھ جو سلوک کیا وہ بادشاہ تو بادشاہ کوئی شریف انسان بھی انسانوں کے ساتھ نہیں کرتا ، اس سے سانس لینے کے لیے تازہ ہوا بھی چھین لی گئی یہ چار سال اس نے برما کے حاکم نیلسن کے گیراج میں گزارے اورپھر اسی جگہ قبرکھدواکر اسے دفن کردیا۔

ہوئے مرکے ہم جو رسوا ، ہوئے کیوں نہ غرق دریا

نہ کہیں جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا

وہ غرق دریا تو نہیں ہوئے کاش برما جانے والے اس بحری جہاز کو سمندر میں حادثہ پیش آتا لیکن ایسا بھی نہیں ہوا اورنہ کہیں اس کاجنازہ اٹھانہ مزار بنا، شاید کہیںپر کوئی شکستہ خبر ہوجس میں اس تیموری شہنشاہ اورتاجدار کشورہندوستان کی ہڈیاں دفن ہوں ، اس نے خود بھی کہاتھا ۔

پئے فاتحہ کوئی آگے کیوں ، کوئی دو پھول چڑھائے کیوں

کوئی ایک شمع جلائے کیوں،میں وہ بے کسی کا مزارہوں


یہ تو خیر ایک واقعہ تھا، اصل بات ہمیں عروج وزوال پر کرنی ہے کہ عروج وزوال میں ایسے درد ناک واقعات ہوتے رہتے ہیں جس طرح زندگی میں پہلے ہی سے موت کابیج موجود ہوتاہے اسی زوال کابیج بھی عروج ہی میں موجودہوتا ہے اوریہ عین فطری عمل ہے اسے نہ کوئی روک سکتاہے نہ ختم کرسکتاہے نہ بدل سکتا ہے۔

درخت جب اگتا ہے بڑھتا رہتا ہے درجہ کمال کے سارے مرحلے طے کرتا ہے لیکن آخر کار اسے زوال کو پہنچ کر گرنا ہوتا ہے ، بہادرشاہ ظفر کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ مسلمانوں کے ساتھ بھی ہوا اورابھی تک ہورہاہے ، آپ علامہ اقبال کو پڑھیں، وہی عظمت رفتہ کا نوحہ اورسارے مسلمان اپنے شاندارماضی اورعروج کی کہانیاں سناکر دل کو بہلاتے ہیں۔

اپنی عظمت رفتہ کو واپس لانے کے لیے مسلمانوں نے بہت سارے جتن کیے یہاں تک کہ خلافت کی تحریک بھی چلائی اورترکی کے سلطان عبدالحمیدکو خلیفہ بنا کر ایک مرتبہ پھر عروج حاصل کرنا چاہا، جس کے معزول ہونے پر اس کے حرم میں چارہزار سے زیادہ کنزیں موجود تھیں اور اگر وہ خلیفہ یا امیرالمومینین یاخلیفۃ المسلمین بن بھی جاتا تو مسلمانوں کاکیا سنور جاتا؟لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ جوانی جب چلی جاتی ہے تو پھر دوبارہ کبھی لوٹ کر نہیں آتی ، چاہے کتنے ہی کشتے معجونیات اسے کھلائیے

اب نہ آئے گی جوانی نہ جوانی کی امنگ

راہ کیادیکھیے روٹھے ہوئے مہمانوں کی

دراصل دورعروج میں ہرطرف سے ''مال غنیمت'' کی بھرمار ہوجاتی ہے تو اس بے پناہ بے تحاشا اور اچانک ملنے والی دولت سے لوگ عیاش ہوجاتے ہیں اوریہی زوال کی ابتداء ہوتی ہے ، دمشق ، بغداد اورغرناطہ کو بھی اس مفت کی دولت نے تباہ کیا اورہندوستان کو بھی اورجو لوگ جوانی میں اپنے مستقبل کو بھول جاتے ہیں ان کابڑھاپا تو یقیناً کس مپرسی میں گزرے گا، چند بہت پرانے اشعار ہیں لیکن اس میں جو حقیقت بیان کی گئی ہے وہ بے بدل ہے ۔

دنیا بھی عجب سرائے فانی دیکھی

ہرچیزیہاں کی آنی جانی دیکھی

جو آکے نہ جائے وہ بڑھاپادیکھا

جو جاکے نہ آئے وہ جوانی دیکھی
Load Next Story