آئی ایم ایف شرائط پہلا جائزہ اور معیشت

بلاشبہ پاکستان معاشی استحکام کی راہ پرگامزن ہوگیا ہے

بلاشبہ پاکستان معاشی استحکام کی راہ پرگامزن ہوگیا ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان نے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران پٹرولیم لیوی کی مد میں362 فیصد اضافے، سبسڈیز اور ترقیاتی اخراجات میں خاطر خواہ کٹوتی سے بجٹ خسارہ ختم کر کے آئی ایم ایف کی ایک اہم شرط پوری کر دی ہے۔

آئی ایم کا جائزہ مشن دو نومبر کو پاکستان پہنچ رہا ہے، کامیاب مذاکرات کی تکمیل پر پاکستان کو دسمبر میں 71 کروڑ ڈالرکی اگلی قسط جاری کی جائے گی۔

بلاشبہ پاکستان معاشی استحکام کی راہ پرگامزن ہوگیا ہے۔ روپے کی مضبوطی سے بین الاقوامی تجارت کو فروغ ملنے کا امکان ہے، قیمتوں کوکنٹرول کرنے کے اقدامات سے مہنگائی کی شرح میں بھی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔

حالیہ دنوں میں سبسڈیز ختم کردی گئی ہیں، بجٹ خسارہ کم کرنے کے لیے ٹیکس لگائے گئے ہیں۔ سبسڈیز کے خاتمے سے یوٹیلٹیزکی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔

ایک بڑا مسئلہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہے، کسی بھی ملک کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانا مسئلے کا حل نہیں ہے لیکن پاکستان کی موجودہ معاشی صورت حال میں آئی ایم ایف سے معاہدہ ناگزیر تھا، ایک دوسری رائے یہ بھی ہے کہ پاکستان کو اپنے وسائل پر انحصار کر کے آئی ایم ایف کے چنگل سے نکلنا چاہیے۔

ہم اس حقیقت کا انکار نہیں کرسکتے کہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے باعث بھی مہنگائی تیزی سے اوپر جا رہی ہے، بجلی اور پٹرول کے بلند نرخوں نے معیشت کو خاصا غیر مستحکم کیا ہے ، جس مزید اضافہ کے خدشات موجود ہیں، پاکستان کا سیاسی عدم استحکام بھی معاشی عدم استحکام کی بڑی وجہ بنا رہا ہے، گو اب سیاسی خلفشار ختم ہوا تو حالات بہتر ہونا شروع ہوئے ہیں۔

پاکستان میں اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (SIFC) کا قیام اور سعودی عرب سمیت کئی غیر ملکی کان کنی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کی یقین دہانی ملکی معیشت کی مضبوطی کی جانب واضح اشارہ ہے۔ زراعت کے شعبے میں لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم کے ریفارمز انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔

پاکستان میں الیکٹرک وہیکل انڈسٹری کی نجکاری میں دلچسپی ملک میں پائیدار صنعتوں اور روزگار کے مواقعوں کی نشاندہی کرتا ہے، اسلام آباد میں سی پیک بینک آف چائنا کا آغاز ملکی معاشی استحکام کی اہم نشانی ہے، ملک میں چاول کی برآمد کے بڑھتے مواقعے کو معیشت کی مضبوطی میں اہم جزو قراردیا گیا ہے، پاک فوج اور حالیہ نگران حکومت کی مشترکہ کوششیں معیشت کو قوت فراہم کرنے کا سبب بنی ہیں۔

پاک افغان سرحد پر نگرانی سخت کرنے، اور پاکستان کے اندر مالیاتی کنٹرول سخت کرنے سے ڈالرکی اسمگلنگ پر کسی حد تک قابو پانے کی وجہ سے روپے کی قدر مستحکم ہوئی ہے۔ اسی طرح ایرانی سرحد کے ذریعے ہونے والی اسمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن کے پاکستان مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔ اس تبدیلی کی وجہ اسمگلنگ کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن، نقل وحمل، صنعت اور زراعت سمیت رسمی شعبے سے بڑھتی ہوئی مانگ ہے۔

بنیادی طور پر معیشت اور ترقی کے معاملات کو چلانا وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے، تاہم 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو بھی معیشت کے حصوں میں ترقی کرنے کے لیے نمایاں طور پر بااختیار بنایا گیا ہے۔ صوبوں کی استعداد کار میں بہتری کی ضرورت ہے، وہ معیشت کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں، خاص طور پر زرعی شعبے میں۔ وفاق اور صوبوں کی ریونیو سروسز میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔

خدمات کی تخصیص ٹیکس اور معیشت کے لیے ایک بنیادی ضرورت ہے۔ ریونیو سروسز میں بدعنوانی بہت زیادہ ہے۔ ایک ناقص اور پیچیدہ ٹیکس نظام قانون پسند سرمایہ کاروں اور کاروباری طبقے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے جب کہ بلیک اکانومی کو بڑھاوا ملتا ہے۔ معیشت کا دوسرا اہم حصہ معیشت کی لوکلائزیشن ہے۔

ہمارے حکمرانوں، معیشت دانوں اور منصوبہ سازوں کو ترقی یافتہ ممالک کے ماڈلزکو ضرور اپنانا چاہیے لیکن گہری اسٹڈی کے بعد۔ ترقی یافتہ ممالک کی ترجیحات اور پاکستان کی ترجیحات میں فرق ہوسکتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کا ماحول، موسمی تغیرات، زیرزمین پانی کی مقدار، جنگلات کا رقبہ، دریاؤں کی صورتحال، ثقافتی رجحانات، پیداواری وسائل، ٹیکنالوجی اور وافر سرمائے کی صورتحال پاکستان سے مختلف ہے۔


ہمارے ماہرین اقتصادیات کو پاکستانی زمین کی پیچیدگی، اس کی ضروریات کو سمجھنا چاہیے اور اس کے مطابق معاشی ترجیحات کا تعین کرکے معاشی پالیسیاں بنانا چاہیے۔ پاکستان کو ترقی پذیر اور پیداواری ملک ہونا چاہیے۔ چیئرمین ایف بی آر نے نگران وزیراعظم سے چین کے سات چار ارب ڈالرکے فرق کا معاملہ اٹھانے کی درخواست کی ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان تجارتی سرگرمیوں سے متعلق مکمل اعداد وشمار فراہم کرنے کا معاہدہ موجود ہے، لیکن اس پر مکمل عملدرآمد نہیں کیا جا رہا ہے، اگر ہماری نگران حکومت اس طرح کی مالیاتی گڑبڑ پر قابون پانے میں کامیاب ہوجائے تو ملکی معیشت کو مزید بہترکرنے میں مدد ملے گی۔پاکستان کو بیرونی سرمایہ کاری سے زیادہ اندرونی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔

یہ ایک حد سے زیادہ بیان ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری اندرونی ترقی اور ترقی کے عمل کی رہنمائی کرتی ہے۔ معیشت کیسے ترقی کر سکتی ہے جب غیر ملکی سرمایہ کار سرمایہ کاری کی رقم سے زیادہ پیسہ باہر لے جائیں؟ اس لیے مقامی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جائے اور برآمدات بڑھانے اور درآمدات میں کمی کے لیے پالیسیاں اپنائی جائیں۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری ہماری معیشت کا حل نہیں ہے بلکہ مقامی براہ راست سرمایہ کاری ہے۔

پاکستان بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی پاکستان میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرے۔ خدمات ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ پاکستان نوجوانوں کی آبادی والا ملک ہے اور نوجوانوں کی ہنر مندی ترقی کی بنیادی وجہ ہے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کا شعبہ معیشت کے لیے ہنر اور خدمات کے دیگر تمام پیشوں کے ساتھ بہت اہم ہے۔ طریقہ کار اتنا پیچیدہ ہے کہ مقامی سرمایہ کاروں کو بھی آسانی سے سرمایہ کاری کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ معیشت اور ٹیکس کے کوڈڈ قانون میں سہولت اور خدمات کو شامل کرنا ضروری ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق آئی ٹی صنعت نے 1.72 بلین ڈالر کا تجارتی سرپلس حاصل کیا ہے جو برآمدات اور اقتصادی ترقی کو ظاہر کرتا ہے، چیلنجوں کے باوجود پاکستان کی آئی ٹی برآمدات میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

درآمدات میں نمایاں طور پر 28.4 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، جو تجارتی توازن اور زرمبادلہ کے ذخائر پر مثبت اثر ڈال سکتی ہے ۔اصلاحاتی حکمت عملی کے تین اہم شعبے ہیں پالیسی، انتظامی اور تنظیمی اصلاحات۔ پالیسی اصلاحات میں سادہ قوانین شامل ہوتے ہیں۔

انتظامی اصلاحات جن کا مقصد ٹیکس جمع کرنے والے اداروں کو فعال خطوط پر تبدیل کرنا، تمام ٹیکسوں کے دستی عمل کو دوبارہ انجینئرکرنا، اداروں کی تاثیر میں اضافہ اور افرادی قوت کی مہارت اور سالمیت کو بہتر بنانا اور ٹیکس دہندگان کو سہولت فراہم کرنا، تنظیمی اصلاحات میں اداروں کی فعال خطوط پر دوبارہ تنظیم، درجات کی تعداد میں کمی اور افرادی قوت میں کمی بھی شامل ہوتی ہے۔ پاکستان زیادہ نوٹ چھاپ کر اپنے بجٹ خسارے کو پورا نہیں کر سکتا، کیوں کہ نوٹ چھاپنے سے افراط زر بڑھ جاتا ہے۔

وفاقی حکومت اور صوبوں کو ایسے طریقہ کار پر متفق ہونے کی ضرورت ہے جو مالیاتی ذمے داری کے وعدوں کے نفاذ کو یقینی بنائے۔ قومی مالیاتی صورت حال کو اس سے کہیں زیادہ واضح ہونے کی ضرورت ہے جتنا کہ اکثر دکھائی دیتی ہے۔

برآمدات کو بڑھانے کے لیے مشترکہ کوششیں درکار ہیں۔ حکومت کا کردار یہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ تاجروں کو لیکچر دے کہ سرمایہ کاری کرنا یا ٹیکس ادا کرنا ان پر حب الوطنی کے حوالے سے فرض ہے۔ ایسا ماحول پیدا کرنا چاہیے جس میں پاکستان میں سرمایہ کاری اور ٹیکس ادا کرنا سرمایہ کاروں اور تاجروں کے اپنے مفاد میں ہو۔

معاشی استحکام اور خوشحالی کے لیے طویل مدت میں سیاسی استحکام اور ٹیکس ایڈمنسٹریشن ریفارمز لازمی ہیں۔ ٹیکس لگانے کا تصور ایک رجعت پسندانہ نقطہ نظر ہے اور یہ سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ معیشت کا بنیادی مقصد ترقی اور برآمد ات کو بڑھانا ہے۔ پاکستان میں معاشی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ کرپشن ہے۔

سرکاری افسروں اور اہلکاروں کی جوابدہی کا فول پروف سٹسم نہ ہونا،ادارہ جاتی کرپشن کی جڑ ہے، ریاست کے اعلیٰ مناصب کے لیے صوبدیدی اختیارات، ادارہ جاتی ضوابط و قوانین کرپشن کو فروغ دے رہے ہیں، سرمایہ کار اتنا زچ اور مجبور ہوجاتا ہے کہ یا تو وہ کاروبار بند کردیتا ہے یا رشوت وغیرہ دے کر کاروبار جاری رکھتا ہے۔

اگر ریاستی اور حکومتی اعلیٰ عہدیداروں، عدالتی ذمے داروں اور اعلیٰ سرکاری افسروں کی جوابدہی کا آزاد ، خود مختار اور بااختیار میکنزم موجود ہو تو ادارہ جاتی کرپشن کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوسکتا ہے، اس سے سرکار کی کارکردگی میں بھی اضافہ ہوگا اور ملک کی معیشت بھی ترقی کرے گی۔ حکومت کو بدعنوانی سے نمٹنے کے لیے سخت کارروائی کرنے کی ضرورت ہے، جس میں قانونی نظام کو مضبوط کرنا اور سرکاری کاموں میں شفافیت کو بڑھانا شامل ہے۔

پاکستان ایسی اہم جگہ واقع ہے جہاں وہ خطے میں تجارت کا مرکز بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ حکومت کو پڑوسی ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کر کے اور سرحد پار تجارت کو فروغ دے کر علاقائی انضمام کو بہتر بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ سیاسی استحکام اور معاشی پالیسیوں میں حکومت کے عزم کے ساتھ مستقل مزاجی پائیدار اقتصادی بحالی اور ترقی کی جانب ایک راہ ہموار کرے گی۔
Load Next Story