حضرت داؤد علیہ السلام
حضرت داؤد علیہ السلام شجاعت، بسالت، قوت فکر اور تدبر سے مالا مال تھے وہ ایک کامل انسان تھے
حضرت داؤد علیہ السلام کا زمانہ 970 قبل مسیح اور حضرت موسیٰ کے پانچ سو سال بعد کا ہے۔ وہ بیک وقت نبی اور بادشاہ تھے۔ حضرت داؤد علیہ السلام یہودا کی نسل سے تھے۔ ان کا شجرہ نسب حضرت یعقوب سے لے کر حضرت ابراہیم تک جا پہنچتا ہے۔
ان پر اﷲ نے زبور نازل فرمائی۔ حضرت داؤدؑ کو اﷲ تعالیٰ نے نہایت پرسوز اور مترنم آواز سے نوازا تھا۔ آپؑ سے پہلے اور آپ کے بعد کسی کی آواز اس قدر سحر آگیں نہ تھی، آپ کی آواز کے لیے '' لحن داؤدی'' کا استعارہ استعمال ہوتا ہے۔
کسی کی آواز کی تعریف کرنی ہو تو کہا جاتا ہے کہ اس کو خدا نے '' لحن داؤدی'' عطا کی ہے۔ آپ جب زبورکی تلاوت کرتے تو پہاڑ بھی ان کے ساتھ تسبیح کرتے اور چرند پرند قریب آ کر بیٹھ جاتے اور سر جھکا لیتے۔ آپ جنگل میں شیر کی سواری کرتے۔ شیر پر بیٹھتے وہ ان کے تابع ہوتا۔ قرآن مجید میں سورہ حق میں حضرت داؤد علیہ السلام کے لیے اس طرح کہا گیا ہے:
''اور ہمارے بندے داؤد نعمتوں والے کو یاد کرو۔ بے شک وہ نہایت رجوع کرنے والا ہے۔ بے شک ہم نے اس کے ساتھ پہاڑ مسخر کر دیے کہ تسبیح کرتے، شام کو اور سورج چمکتے اور پرندے جمع کیے ہوئے، سب اس کے فرمانبردار تھے۔ ہم نے اس کی سلطنت کو مضبوط کیا اور اسے حکمت اور قول فیصل دیا۔''
حضرت داؤد علیہ السلام شجاعت، بسالت، قوت فکر اور تدبر سے مالا مال تھے وہ ایک کامل انسان تھے، فتح و نصرت ان کے قدم چومتی تھی، وہ تقریر اور خطابت کے فن میں یکتا تھے اور اس طرح بولتے تھے کہ ایک ایک لفظ واضح سنائی دیتا۔ خوش الحانی میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ جن و انس، چرند پرند سب ان کے تابع تھے۔
بادشاہ ہونے کے باوجود وہ سلطنت و مملکت سے کچھ نہ لیتے تھے وہ اپنا اور اپنے اہل و عیال کا بار بیت المال پر نہ ڈالتے تھے بلکہ لوہے کی زرہ بناتے تھے جو جنگ میں لباس کے اوپر پہنی جاتی ہے تاکہ دشمن کے وار سے بچا جا سکے۔
اﷲ تعالیٰ نے ان کو ایسا معجزہ عطا کیا تھا کہ لوہا ان کے ہاتھ میں موم بن جاتا تھا، وہ زرہ بکتر بناتے اور ان کی فروخت سے اپنا اور اپنے گھر والوں کا خرچ چلاتے۔ وہ اپنے ہاتھ کی محنت سے روزی کماتے تھے۔جلیل القدر پیغمبر حضرت سلیمانؑ حضرت داؤدؑ کے فرزند تھے۔
حضرت داؤد علیہ السلام نے چالیس برس حکومت کی۔ روایتوں میں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بار حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس ایک عجیب مقدمہ آیا۔ ان کے پاس بہت سے آدمی دو آدمیوں کو لائے، ان کا گائے کا مقدمہ تھا، ایک غریب شخص نے دوسرے امیر شخص کی گائے کو ذبح کر دیا تھا اور یہ بات قبول کرنے کے باوجود یہ اپنی غلطی نہیں مان رہا۔
حضرت داؤد علیہ السلام نے غریب آدمی سے پوچھا کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔ اس نے کہا '' وہ کمزور غریب اور لاچار ہے، اس لیے محنت مزدوری نہیں کر سکتا، جو مل جاتا ہے اسے صبر شکر کر کے کھا لیتا ہوں، کوئی بھی ترس کھا کے مجھے کھانے کو دے دیتا ہے۔ میں ایک عرصے سے خدا سے دعا مانگ رہا ہوں کہ یا اﷲ میں کمزور اور غریب ہوں، میری مدد فرما۔ میں مزدوری نہیں کر سکتا، مجھے بلا محنت کیے کچھ کھانے کو دے۔
میں عرصہ دراز سے یہ دعا مانگ رہا ہوں۔ آج اﷲ نے میری دعا سن لی اور یہ گائے میرے گھر میں گھس آئی، میں نے جانا کہ اﷲ نے میری دعا سن لی ہے، اس لیے میں نے اسے ذبح کروا لیا اور قصاب کو مزدوری کی صورت میں گائے کے گوشت کا بڑا حصہ دے دیا۔'' حضرت داؤد علیہ السلام نے یہ سن کر حاضرین سے پوچھا کہ '' کیا یہ سچ کہہ رہا ہے؟'' لوگوں نے کہا '' جی حضرت! یہ روز کیا بلکہ ہر وقت اﷲ سے دعائیں مانگا کرتا اور محلے والے ترس کھا کر اس کو کھانا دے دیتے تھے، لیکن اس کی یہ حرکت قابل معافی نہیں کہ کسی کی گائے ذبح کر لی۔'' گائے کے مالک نے کہا کہ '' حضرت کھلا مقدمہ سامنے ہے۔
اس شخص کو سزا دیجیے اور میری گائے کی قیمت دلوائیے۔'' حضرت داؤد علیہ السلام نے ان سے ایک دن کی مہلت مانگی تو گائے والے نے کہا کہ '' سب کچھ آپ کے سامنے ہے، فیصلہ کرنے میں دیر کیوں کر رہے ہیں؟'' حضرت داؤد علیہ السلام نے کہا کہ '' نہیں، فیصلہ کل سنایا جائے گا۔ سب لوگ چلے گئے۔
رات کو عبادت کے وقت انھوں نے اﷲ سے دعا مانگی کہ یا رب! جو سچ ہے وہ مجھے بتا، تاکہ میں صحیح فیصلہ کر سکوں۔'' ان کی دعا اﷲ نے قبول کی اور ان پر سارے اسرار و رموز کھول دیے، اگلے دن وہ غریب و نادار شخص، گائے والا اور بہت سے لوگ حاضر ہوئے کہ نبی کا فیصلہ سن سکیں، تب حضرت داؤد علیہ السلام نے گائے والے سے کہا کہ '' وہ گائے اس شخص کو بخش دے۔'' گائے والے نے کہا '' یہ کیونکر ممکن ہے کہ میں اپنی گائے اسے دے دوں۔''
تب انھوں نے پھر کہا کہ '' تُو اپنا مال و اسباب بھی اسے دے دے'' وہ شخص بول اٹھا۔ '' حضرت! یہ کیسا فیصلہ ہے کہ آپ اس قصوروار کی حمایت کر رہے ہیں؟'' حضرت داؤد نے کہا کہ '' رات کو میرے پاس وحی آئی کہ فیصلہ کیسا کروں۔'' یہ کہہ کر انھوں نے سب کو اپنے ساتھ چلنے کو کہا اور سب لوگوں کو ایک انتہائی گھنے اور پرانے درخت کے نیچے لے جا کر کہا۔ '' اس درخت کے نیچے تُو نے اپنے مالک کو قتل کیا تھا اور اس کا مال و اسباب اور جائیداد پر قبضہ کر لیا تھا، یہ غریب شخص اسی امیر آدمی کا بیٹا ہے جس کو تُو نے لالچ میں آ کر قتل کیا تھا۔
تیرے نام کی چھری بھی یہاں دفن ہے'' یہ کہہ کر انھوں نے ایک جگہ کی نشان دہی کی، لوگوں نے اس جگہ کو کھودا تو ایک انسان کی کھوپڑی اور ایک چھری برآمد ہوئی جس پر اس شخص کا نام لکھا تھا۔
حضرت داؤد علیہ السلام نے تمام مال و دولت اس غریب شخص کے حوالے کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ '' اگر اس نے فیصلہ نہ مانا تو واجب القتل ہوگا۔'' لوگوں نے اس امیر آدمی کو بڑی لعن طعن کی اور برا بھلا کہا۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے کہا '' جو وہ اوپر والا جانتا ہے وہ کوئی نہیں جانتا۔ اسی لیے میں نے تم لوگوں سے ایک دن کی مہلت لی تھی تاکہ صحیح صورت حال مجھ پر منکشف ہو جائے۔''
ان پر اﷲ نے زبور نازل فرمائی۔ حضرت داؤدؑ کو اﷲ تعالیٰ نے نہایت پرسوز اور مترنم آواز سے نوازا تھا۔ آپؑ سے پہلے اور آپ کے بعد کسی کی آواز اس قدر سحر آگیں نہ تھی، آپ کی آواز کے لیے '' لحن داؤدی'' کا استعارہ استعمال ہوتا ہے۔
کسی کی آواز کی تعریف کرنی ہو تو کہا جاتا ہے کہ اس کو خدا نے '' لحن داؤدی'' عطا کی ہے۔ آپ جب زبورکی تلاوت کرتے تو پہاڑ بھی ان کے ساتھ تسبیح کرتے اور چرند پرند قریب آ کر بیٹھ جاتے اور سر جھکا لیتے۔ آپ جنگل میں شیر کی سواری کرتے۔ شیر پر بیٹھتے وہ ان کے تابع ہوتا۔ قرآن مجید میں سورہ حق میں حضرت داؤد علیہ السلام کے لیے اس طرح کہا گیا ہے:
''اور ہمارے بندے داؤد نعمتوں والے کو یاد کرو۔ بے شک وہ نہایت رجوع کرنے والا ہے۔ بے شک ہم نے اس کے ساتھ پہاڑ مسخر کر دیے کہ تسبیح کرتے، شام کو اور سورج چمکتے اور پرندے جمع کیے ہوئے، سب اس کے فرمانبردار تھے۔ ہم نے اس کی سلطنت کو مضبوط کیا اور اسے حکمت اور قول فیصل دیا۔''
حضرت داؤد علیہ السلام شجاعت، بسالت، قوت فکر اور تدبر سے مالا مال تھے وہ ایک کامل انسان تھے، فتح و نصرت ان کے قدم چومتی تھی، وہ تقریر اور خطابت کے فن میں یکتا تھے اور اس طرح بولتے تھے کہ ایک ایک لفظ واضح سنائی دیتا۔ خوش الحانی میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ جن و انس، چرند پرند سب ان کے تابع تھے۔
بادشاہ ہونے کے باوجود وہ سلطنت و مملکت سے کچھ نہ لیتے تھے وہ اپنا اور اپنے اہل و عیال کا بار بیت المال پر نہ ڈالتے تھے بلکہ لوہے کی زرہ بناتے تھے جو جنگ میں لباس کے اوپر پہنی جاتی ہے تاکہ دشمن کے وار سے بچا جا سکے۔
اﷲ تعالیٰ نے ان کو ایسا معجزہ عطا کیا تھا کہ لوہا ان کے ہاتھ میں موم بن جاتا تھا، وہ زرہ بکتر بناتے اور ان کی فروخت سے اپنا اور اپنے گھر والوں کا خرچ چلاتے۔ وہ اپنے ہاتھ کی محنت سے روزی کماتے تھے۔جلیل القدر پیغمبر حضرت سلیمانؑ حضرت داؤدؑ کے فرزند تھے۔
حضرت داؤد علیہ السلام نے چالیس برس حکومت کی۔ روایتوں میں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بار حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس ایک عجیب مقدمہ آیا۔ ان کے پاس بہت سے آدمی دو آدمیوں کو لائے، ان کا گائے کا مقدمہ تھا، ایک غریب شخص نے دوسرے امیر شخص کی گائے کو ذبح کر دیا تھا اور یہ بات قبول کرنے کے باوجود یہ اپنی غلطی نہیں مان رہا۔
حضرت داؤد علیہ السلام نے غریب آدمی سے پوچھا کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔ اس نے کہا '' وہ کمزور غریب اور لاچار ہے، اس لیے محنت مزدوری نہیں کر سکتا، جو مل جاتا ہے اسے صبر شکر کر کے کھا لیتا ہوں، کوئی بھی ترس کھا کے مجھے کھانے کو دے دیتا ہے۔ میں ایک عرصے سے خدا سے دعا مانگ رہا ہوں کہ یا اﷲ میں کمزور اور غریب ہوں، میری مدد فرما۔ میں مزدوری نہیں کر سکتا، مجھے بلا محنت کیے کچھ کھانے کو دے۔
میں عرصہ دراز سے یہ دعا مانگ رہا ہوں۔ آج اﷲ نے میری دعا سن لی اور یہ گائے میرے گھر میں گھس آئی، میں نے جانا کہ اﷲ نے میری دعا سن لی ہے، اس لیے میں نے اسے ذبح کروا لیا اور قصاب کو مزدوری کی صورت میں گائے کے گوشت کا بڑا حصہ دے دیا۔'' حضرت داؤد علیہ السلام نے یہ سن کر حاضرین سے پوچھا کہ '' کیا یہ سچ کہہ رہا ہے؟'' لوگوں نے کہا '' جی حضرت! یہ روز کیا بلکہ ہر وقت اﷲ سے دعائیں مانگا کرتا اور محلے والے ترس کھا کر اس کو کھانا دے دیتے تھے، لیکن اس کی یہ حرکت قابل معافی نہیں کہ کسی کی گائے ذبح کر لی۔'' گائے کے مالک نے کہا کہ '' حضرت کھلا مقدمہ سامنے ہے۔
اس شخص کو سزا دیجیے اور میری گائے کی قیمت دلوائیے۔'' حضرت داؤد علیہ السلام نے ان سے ایک دن کی مہلت مانگی تو گائے والے نے کہا کہ '' سب کچھ آپ کے سامنے ہے، فیصلہ کرنے میں دیر کیوں کر رہے ہیں؟'' حضرت داؤد علیہ السلام نے کہا کہ '' نہیں، فیصلہ کل سنایا جائے گا۔ سب لوگ چلے گئے۔
رات کو عبادت کے وقت انھوں نے اﷲ سے دعا مانگی کہ یا رب! جو سچ ہے وہ مجھے بتا، تاکہ میں صحیح فیصلہ کر سکوں۔'' ان کی دعا اﷲ نے قبول کی اور ان پر سارے اسرار و رموز کھول دیے، اگلے دن وہ غریب و نادار شخص، گائے والا اور بہت سے لوگ حاضر ہوئے کہ نبی کا فیصلہ سن سکیں، تب حضرت داؤد علیہ السلام نے گائے والے سے کہا کہ '' وہ گائے اس شخص کو بخش دے۔'' گائے والے نے کہا '' یہ کیونکر ممکن ہے کہ میں اپنی گائے اسے دے دوں۔''
تب انھوں نے پھر کہا کہ '' تُو اپنا مال و اسباب بھی اسے دے دے'' وہ شخص بول اٹھا۔ '' حضرت! یہ کیسا فیصلہ ہے کہ آپ اس قصوروار کی حمایت کر رہے ہیں؟'' حضرت داؤد نے کہا کہ '' رات کو میرے پاس وحی آئی کہ فیصلہ کیسا کروں۔'' یہ کہہ کر انھوں نے سب کو اپنے ساتھ چلنے کو کہا اور سب لوگوں کو ایک انتہائی گھنے اور پرانے درخت کے نیچے لے جا کر کہا۔ '' اس درخت کے نیچے تُو نے اپنے مالک کو قتل کیا تھا اور اس کا مال و اسباب اور جائیداد پر قبضہ کر لیا تھا، یہ غریب شخص اسی امیر آدمی کا بیٹا ہے جس کو تُو نے لالچ میں آ کر قتل کیا تھا۔
تیرے نام کی چھری بھی یہاں دفن ہے'' یہ کہہ کر انھوں نے ایک جگہ کی نشان دہی کی، لوگوں نے اس جگہ کو کھودا تو ایک انسان کی کھوپڑی اور ایک چھری برآمد ہوئی جس پر اس شخص کا نام لکھا تھا۔
حضرت داؤد علیہ السلام نے تمام مال و دولت اس غریب شخص کے حوالے کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ '' اگر اس نے فیصلہ نہ مانا تو واجب القتل ہوگا۔'' لوگوں نے اس امیر آدمی کو بڑی لعن طعن کی اور برا بھلا کہا۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے کہا '' جو وہ اوپر والا جانتا ہے وہ کوئی نہیں جانتا۔ اسی لیے میں نے تم لوگوں سے ایک دن کی مہلت لی تھی تاکہ صحیح صورت حال مجھ پر منکشف ہو جائے۔''