پے پال اور اسٹرائپ کے حوالے سے ایک ماہ میں بڑی پیشرفت متوقع ہے وفاقی وزیر آئی ٹی
پے پال اور اسٹرائپ جیسے عالمی ادائیگیوں کے پلیٹ فارم کے لیے ایک مضبوط بزنس کیس تیار کرکے دیا ہے، ڈاکٹر عمر سیف
نگراں وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈاکٹر عمر سیف نے کہا ہے کہ کرنسی کی لین دین کیلیے استعمال ہونے والے پلیٹ فارم پے پال اور اسٹرائپ کے حوالے سے ایک ماہ میں بڑی پیشرفت متوقع ہے۔
کراچی میں ایچ بی ایل اور پاشا کے درمیان اشتراک عمل کے معاہدے کے موقع پر نگراں وزیر برائے آئی ٹی نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پے پال اور اسٹرائپ جیسے عالمی ادائیگیوں کے پلیٹ فارم کے لیے ایک مضبوط بزنس کیس تیار کرکے دیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے باہر نکل چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان مالیاتی اسٹریکچر مضبوط ہے اور اسٹیٹ بینک نے اس حوالے سے بہت سی اصلاحات کی ہیں، پاکستان کا شمار دنیا کے بیس فوری ادائیگیوں کے گیٹ وے کے حامل ملکوں میں کیا جاتا ہے، پاکستان میں ایک ملین فری لانسرز اگر 30 ڈالر بھی کمائیں تو سالانہ 10 ارب ڈالر کمائے جاسکتے ہیں اور یہ پوٹینشل پے پال اور اسٹرائپ جیسے عالمی پلیٹ فارمز کے لیے پاکستان کی مارکیٹ کو مضبوط بزنس کیس بناتا ہے۔
نگراں وفاقی وزیر نے آئندہ منتخب حکومت کے قیام سے قبل پاکستان میں فائیو جی ٹیکنالوجی متعارف کرانے کے لیے ہوم ورک مکمل کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ اس وقت پاکستان کی تمام ٹیلی کام کمپنیاں مل کر 274 میگا ہرٹز اسپیکٹرم استعمال کررہی ہیں، فور جی کا نفوز بڑے شہروں تک محدود ہے 56 ہزار ٹاورز میں سے صرف 6 ہزار ٹاورز کو فائبر سے منسلک کیا گیا ہے، ٹیلی کام کمپنیوں کو آسانی اور انفرااسٹرکچر مہیا کرنے کی ضرورت ہے ۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے حکومت نے موجودہ اسپیکٹرم میں مزید 300 میگاہرٹز کا اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا، یہ اضافی اسپیکٹرم نیلامی کے ذریعے ٹیلی کام کمپنیوں کو دیا جائے گا، اس میں فائیو جی بینڈ بھی شامل ہے اس طرح اس 300میگا ہرٹز اسپیکٹرم کی نیلامی سے فائیوجی بھی متعارف کرائی جاسکے گی۔
نگراں وفاقی وزیر نے کہا کہ اسپیکٹرم کی نیلامی میں کچھ قانونی مسائل درپیش تھے جنہیں تیزی سے حل کیا جارہا ہے، اسپیکٹرم کی نیلامی کے لیے کابینہ کی منظوری سے بین الوزارتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے، اب اسپیکٹرم کی نیلامی کے لیے بین الاقوامی کنسٹلنٹ کی خدمات حاصل کی جارہی ہیں تاکہ آکشن کا فریم ورک بناکر ٹیلی کام کمپنیوں کو اسپیکٹرم کی نیلامی میں حصہ لینے کے لیے مدعو کیا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ اسپیکٹرم اور انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری کے لیے ضروری ہے تاکہ ٹیلی کام کمپنیوں کے ریونیو کو بڑھایا جا سکے، اس وقت پاکستان میں خدمات انجام دینے والی ٹیلی کام کمپنیاں 0.7سے 0.8 ڈالر (ڈھائی سو روپے) اوسط صارف ریونیو کمار ہی ہیں جو دنیا کا سب سے پست اوسط ریونیو فی صارف ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ٹیلی کام کمپنیوں کے لیے ایک آسانی اسٹرکچر شیئرنگ پالیسی کی شکل میں دی گئی جبکہ اب ایکٹیو اسپیکٹرم شیئرنگ کے زریعے ریڈیو ٹاورز شیئرنگ کی بھی اجازت دی جارہی ہے ٹیلی کام کمپنیوں کے ٹیرف کے معاملات بھی حل کیے جارہے ہیں، رائٹ آف وے پالیسی کے تحت ٹیلی کام کمپنیوں کو نیشنل ہائی ویز اور ریلوے کے نیٹ ورک کے ساتھ فائبر آپٹک بچھانے کی اجازت اور سہولت بھی مہیا کی جارہی ہے تاکہ ٹیلی کام کمپنیاں ریونیو بڑھاکر سرمایہ کاری کرسکیں۔
نگراں وزیر نے مزید کہا کہ اسپیکٹرم کی نیلامی دس ماہ میں کرنے کا ہدف رکھا گیا تھا جس میں سے دو ماہ گزرچکے ہیں باقی تمام ہوم ورک آئندہ آٹھ ماہ میں مکمل کرلیا جائے گا تاکہ آنیو الی منتخب حکومت تیزی سے اس عمل کو مکمل کرسکے۔
کراچی میں ایچ بی ایل اور پاشا کے درمیان اشتراک عمل کے معاہدے کے موقع پر نگراں وزیر برائے آئی ٹی نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پے پال اور اسٹرائپ جیسے عالمی ادائیگیوں کے پلیٹ فارم کے لیے ایک مضبوط بزنس کیس تیار کرکے دیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے باہر نکل چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان مالیاتی اسٹریکچر مضبوط ہے اور اسٹیٹ بینک نے اس حوالے سے بہت سی اصلاحات کی ہیں، پاکستان کا شمار دنیا کے بیس فوری ادائیگیوں کے گیٹ وے کے حامل ملکوں میں کیا جاتا ہے، پاکستان میں ایک ملین فری لانسرز اگر 30 ڈالر بھی کمائیں تو سالانہ 10 ارب ڈالر کمائے جاسکتے ہیں اور یہ پوٹینشل پے پال اور اسٹرائپ جیسے عالمی پلیٹ فارمز کے لیے پاکستان کی مارکیٹ کو مضبوط بزنس کیس بناتا ہے۔
نگراں وفاقی وزیر نے آئندہ منتخب حکومت کے قیام سے قبل پاکستان میں فائیو جی ٹیکنالوجی متعارف کرانے کے لیے ہوم ورک مکمل کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ اس وقت پاکستان کی تمام ٹیلی کام کمپنیاں مل کر 274 میگا ہرٹز اسپیکٹرم استعمال کررہی ہیں، فور جی کا نفوز بڑے شہروں تک محدود ہے 56 ہزار ٹاورز میں سے صرف 6 ہزار ٹاورز کو فائبر سے منسلک کیا گیا ہے، ٹیلی کام کمپنیوں کو آسانی اور انفرااسٹرکچر مہیا کرنے کی ضرورت ہے ۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے حکومت نے موجودہ اسپیکٹرم میں مزید 300 میگاہرٹز کا اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا، یہ اضافی اسپیکٹرم نیلامی کے ذریعے ٹیلی کام کمپنیوں کو دیا جائے گا، اس میں فائیو جی بینڈ بھی شامل ہے اس طرح اس 300میگا ہرٹز اسپیکٹرم کی نیلامی سے فائیوجی بھی متعارف کرائی جاسکے گی۔
نگراں وفاقی وزیر نے کہا کہ اسپیکٹرم کی نیلامی میں کچھ قانونی مسائل درپیش تھے جنہیں تیزی سے حل کیا جارہا ہے، اسپیکٹرم کی نیلامی کے لیے کابینہ کی منظوری سے بین الوزارتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے، اب اسپیکٹرم کی نیلامی کے لیے بین الاقوامی کنسٹلنٹ کی خدمات حاصل کی جارہی ہیں تاکہ آکشن کا فریم ورک بناکر ٹیلی کام کمپنیوں کو اسپیکٹرم کی نیلامی میں حصہ لینے کے لیے مدعو کیا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ اسپیکٹرم اور انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری کے لیے ضروری ہے تاکہ ٹیلی کام کمپنیوں کے ریونیو کو بڑھایا جا سکے، اس وقت پاکستان میں خدمات انجام دینے والی ٹیلی کام کمپنیاں 0.7سے 0.8 ڈالر (ڈھائی سو روپے) اوسط صارف ریونیو کمار ہی ہیں جو دنیا کا سب سے پست اوسط ریونیو فی صارف ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ٹیلی کام کمپنیوں کے لیے ایک آسانی اسٹرکچر شیئرنگ پالیسی کی شکل میں دی گئی جبکہ اب ایکٹیو اسپیکٹرم شیئرنگ کے زریعے ریڈیو ٹاورز شیئرنگ کی بھی اجازت دی جارہی ہے ٹیلی کام کمپنیوں کے ٹیرف کے معاملات بھی حل کیے جارہے ہیں، رائٹ آف وے پالیسی کے تحت ٹیلی کام کمپنیوں کو نیشنل ہائی ویز اور ریلوے کے نیٹ ورک کے ساتھ فائبر آپٹک بچھانے کی اجازت اور سہولت بھی مہیا کی جارہی ہے تاکہ ٹیلی کام کمپنیاں ریونیو بڑھاکر سرمایہ کاری کرسکیں۔
نگراں وزیر نے مزید کہا کہ اسپیکٹرم کی نیلامی دس ماہ میں کرنے کا ہدف رکھا گیا تھا جس میں سے دو ماہ گزرچکے ہیں باقی تمام ہوم ورک آئندہ آٹھ ماہ میں مکمل کرلیا جائے گا تاکہ آنیو الی منتخب حکومت تیزی سے اس عمل کو مکمل کرسکے۔