اسلام آباد ہائیکورٹ سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت مسترد

عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی اخراج مقدمہ کی درخواست بھی خارج کردی، چیف جسٹس عامر فاروق نے محفوظ فیصلہ سنادیا

(فوٹو: فائل)

ہائی کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی سائفر کیس میں درخواست ضمانت مسترد کردی۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے عمران خان کی درخواست ضمانت پر محفوظ فیصلہ سنا دیا، جس کے مطابق عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی اور سابق وزیراعظم عمران خان کی سائفر کیس میں درخواست ضمانت مسترد کردی۔

علاوہ ازیں عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی اخراج مقدمہ کی درخواست بھی خارج کردی۔

یہ بھی پڑھیں: سائفر مقدمہ خارج کرنے اور عمران خان کی ضمانت سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ

دوران سماعت دلائل کے دوران ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ یہ ایسا کیس ہے جس میں جرم کا ارتکاب کر کے اسے ملزم کی جانب سے تسلیم بھی کیا گیا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر کی معلومات پبلک تک پہنچائیں جس کے وہ مجاز نہ تھے۔ یہ سائفر ایک سیکرٹ ڈاکومنٹ تھا جس کی معلومات پبلک نہیں کی جا سکتی تھیں۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ اس جرم کی سزا 14 سال قید یا سزائے موت بنتی ہے۔ سیکرٹ ڈاکومنٹ پبلک کرنے پر بطور وزیر اعظم آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت استثنا حاصل نہیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ ان کے موکل نے کوئی اعتراف جرم نہیں کیا۔ انہوں نے پبلک کو کوئی سائفر نہیں دکھایا بلکہ علامتی طور پر ایک کاغذ لہرایا تھا۔

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد 16 اکتوبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا، جسے آج چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے سنا دیا۔

چیئرمین پی ٹی آئی اس وقت سائفر کیس میں جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔ ہائی کورٹ اس سے قبل سائفر کیس کا ٹرائل روکنے کی درخواست بھی مسترد کر چکی ہے۔

عدالت نے 20 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا


بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سائفر کیس میں عمران خان کی درخواست ضمانت اور مقدمہ اخراج کی درخواستیں مسترد کرنے کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔

20 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بادی النظر میں مقدمے میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن فائیو کا اطلاق ہوتا ہے۔ پراسیکیوشن کا کیس ہے کہ وزارت خارجہ نے سائفر کو ڈی کوڈ کر کے پرائم منسٹر سیکرٹریٹ کو بھجوایا۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے بطور وزیراعظم سائفر کو وصول کیا اور بظاہر گم کر دیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر کے مندرجات کو ٹوئسٹ کر کے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔

فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ دفتر خارجہ کے سابقہ اور موجودہ افسران بالخصوص سائفر بھیجنے والے اسد مجید کے بیانات ریکارڈ پر ہیں۔ دفتر خارجہ کے افسران کے بیانات سے واضح ہے کہ اس میں کوئی غیر ملکی سازش شامل نہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی ضمانت بعد از گرفتاری اور اخراج مقدمہ کی درخواست خارج کی جاتی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ عمران خان کیس میں ایک شریک ملزم ہیں۔ صرف ایک شریک ملزم کی حد تک ایف آئی آر کالعدم نہیں ہو سکتی۔ شریک ملزم کی وجہ سے اخراج مقدمہ کا حکم نہیں دیا جاسکتا ۔ پراسیکیوشن کے مطابق سائفر عمران خان کےقبضے میں ہے۔ بلا شک و شبہ ان کیخلاف تمام دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔ سنگین نوعیت کے الزامات پر ضمانت نہیں بنتی۔ بادی النظر میں ملزم کا کیس سے تعلق بنتا ہے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت میں پیش کی گئی دستاویزات کے مطابق دفتر خارجہ کی پالیسی واضح ہے۔ پالیسی کے مطابق سائفر کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹ ہے جسے غیر مجاز افراد کے ساتھ شیئر نہیں کیا جا سکتا۔ سائفر کو کچھ وقت کے بعد واپس فارن آفس جانا ہوتا ہے۔

فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ سائفر کیس میں وکیل کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی پابند تھے کہ وہ حکومت گرانے کے لیے غیر ملکی سازش سے عوام کو آگاہ کرتے۔ حکومت گرانے کی سازش سے عوام کو آگاہ کرنے کی دلیل میں وزن نہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی بطور وزیراعظم فرائض سر انجام دینے کے بجائے سیاسی اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کے آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت استثنا کی دلیل کو مسترد کر دیا ۔ فیصلے کے مطابق آئین کا آرٹیکل 248 بطور وزیراعظم فرائض کی ادائیگی پر استثنا سے متعلق ہے۔ پٹیشنر کا سائفر سے متعلق سیاسی اجتماع سے خطاب بطور وزیراعظم ادا کی جانے والی ذمے داریوں میں نہیں آتا۔

سائفر کیس میں فرد جرم کے حکم کیخلاف درخواست نمٹانے کا تحریری فیصلہ

دریں اثنا اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں فرد جرم کے آرڈر کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست نمٹانے کا تحریری فیصلہ بھی جاری کردیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے تحریری فیصلہ جاری کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ یہ عدالت 23 اکتوبر کے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی عدالت کے فیصلے میں کوئی مداخلت نہیں کرسکتی۔ آرٹیکل 10 اے کے تحت ملزم کو شفاف ٹرائل کا حق دیا جائے۔ ٹرائل کورٹ کی آبزرویشن سے کسی قسم کا تعصب ظاہر نہیں ہوتا ۔ اس بات سے انکار نہیں کہ شفاف ٹرائل ملزم کا بنیادی حق ہے۔
Load Next Story