اسرائیلی بربریت جاری

بے گناہ شہریوں، خواتین، معصوم بچوں کو ٹارگٹ کرنا انسانی حقوق اور انسانیت کی بدترین پامالی ہے

بے گناہ شہریوں، خواتین، معصوم بچوں کو ٹارگٹ کرنا انسانی حقوق اور انسانیت کی بدترین پامالی ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

معصوم نہتے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی صیہونی ظلم اور قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری ہے، اسرائیل مسلسل جنگی جرائم کا ارتکاب کررہا ہے۔

غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں شہید فلسطینیوں کی تعداد سات ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔اسرائیل کی جانب سے غزہ پر فضائی حملوں کے بعد زمینی کارروائی بھی کی گئی ہے۔

بے گناہ شہریوں، خواتین، معصوم بچوں کو ٹارگٹ کرنا انسانی حقوق اور انسانیت کی بدترین پامالی ہے۔ پوری دنیا میں مسلمانوں سمیت ظلم و ناانصافی کی مخالف اقوام نے اسرائیل کی مذمت اور فلسطینیوں سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔

غزہ سے فلسطینیوں کے انخلاء کا اسرائیلی مطالبہ بین الاقوامی طور پر غیر قانونی ہے، اس ناجائز مطالبہ پر عمل ایک نئے انسانی المیہ کو جنم دے گا، وہ جو اپنے ملکوں میں جانوروں کے حقوق کا بھی خیال رکھتے ہیں، انھیں فلسطین میں انسانوں کا بہتا ہوا خون بھی نظر نہیں آ رہا،جب کہ پاکستان کو آج فلسطینی کاز کے لیے حکومتی سطح پر اسی موقف کی ضرورت ہے جو بانیان پاکستان قائداعظم اور شاعر مشرق علامہ اقبال نے اپنایا تھا۔

تاریخ انسانی میں ایسے واقعات بھی کم نہیں ہوں گے جب مظلوم کے بجائے ظالم کا ساتھ دیا جائے۔ مظلوم کی مدد کے بجائے ظالم کی طاقت میں اضافے کے لیے فیصلے ہوں۔ تاریخ میں ایسی چیزیں دہرائی جاتی ہوں گی لیکن ان دنوں فلسطین کے خلاف جیسے دنیا کے بڑے ممالک اسرائیل کی حمایت میں متحد ہوئے ہیں، انھوں نے ایک مرتبہ پھر امن کے حوالے سے اپنے دہرے معیار پر مہر لگائی ہے۔

اب ایک مرتبہ پھر اہم ممالک نے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنے کے بجائے اسرائیل کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان ممالک کو اسرائیل کی دہشت گردی نظر نہیں آتی۔ انھیں اسرائیل کی فوج کے مظالم دکھائی نہیں دیتے ،انھیں دہائیوں سے جاری اسرائیلی افواج کے مظالم پر سانپ سونگھ جاتا ہے۔ یہی وہ دہرا معیار ہے جو اقوام متحدہ کی افادیت اور حیثیت پر سوالیہ نشان ہے۔ امریکا، فرانس، جرمنی، اٹلی اور برطانیہ کے رہنماؤں نے حماس کے حملوں کے خلاف دفاع کی کوششوں میں اسرائیل کی حمایت کا عہد کیا ہے۔

وائٹ ہاؤس کے مطابق حماس کے خلاف متحد ہونے والے تمام ممالک کے رہنما فلسطینی عوام کی جائز امنگوں کو تسلیم کرتے ہیں لیکن حماس فلسطینی عوام کو مزید دہشت گردی اور خونریزی کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حماس کی کارروائی دہشت گردی ہے تو کیا سارا سال اسرائیلی فوجی فلسطینیوں پر پھول پھینکتے ہیں۔

مسئلہ فلسطین اس وقت بین الاقوامی سطح پر ابھرا جب 1948میں برطانیہ نے فلسطین پر یہودیوں کے قبضے کو قانونی رنگ دینے کے لیے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو اجلاس منعقد کرنے کے لیے خط لکھا۔اقوام متحدہ نے آسٹریلیا، کینیڈا، یوگو سلاویہ، ہند، ہالینڈ اور ایران سمیت چند دیگر ریاستوں کے نمایندوں پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دیا، اس کمیشن کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ سرزمین فلسطین کا دورہ کرکے وہاں کے مقیم یہودیوں اور فلسطینیوں کا موقف سنے، نیز نزدیک سے فلسطین کی صورتحال کا جائزہ لے کر اقوام متحدہ کو اپنی رپورٹ پیش کرے۔

فلسطین کا دورہ کرنے کے بعد یہ کمیشن کسی مشترکہ نتیجے تک نہ پہنچ سکا اور یوں دو دھڑوں میں بٹ گیا۔ایک دھڑے کی رائے یہ تھی کہ فلسطین کو داخلی طور پر عربی اور یہودی دو حکومتوں میں تقسیم کیا جائے، جب کہ مرکزی حکومت، بیت المقدس میں اکٹھی ہو کر کام کرے۔دوسرے دھڑ ے کی رائے یہ تھی کہ فلسطین کو مستقل طور پر یہودی اور عربی نامی دو حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ یہودیوں نے دوسرے دھڑے کی رائے کو سراہا اور ایک مستقل یہودی ریاست کے قیام کے لیے کھل کر میدان سیاست و میدان جنگ میں اتر آئے۔

اقوام متحدہ نے بھی یہودیوں کو مایوس نہیں کیا اور تقسیم فلسطین کے فارمولے کو منظور کر لیا۔اسی سال برطانیہ نے فلسطین سے نکلتے ہوئے اپنا تمام تر جنگی ساز و سامان یہودیوں کے حوالے کر دیا۔ یہ ہتھیار یہودیوں کے ہاتھوں میں پہنچنے کی دیر تھی کہ انھوں نے مسلمانوں پر شب خون مارنا شروع کر دیا اور پے در پے مسلمانوں کی املاک پر قابض ہوتے چلے گئے، اس شب خون اور قتل و غارت کے نمایاں نمونے دیر یاسین، اور ناصرالدین نامی علاقے ہیں۔ اسی لمحے کہ جب برطانیہ نے یہودیوں سے ملی بھگت کرکے فلسطین سے باہر قدم رکھا تو یہودیوں نے بھی اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا۔


اِدھر اسرائیل کے قیام کا اعلان ہونا تھا، اُدھر اُس وقت کے امریکی صدر ''ٹرومن'' نے سرکاری طور پر اسرائیل کو تسلیم بھی کرلیا۔برطانیہ، امریکا اور یہودیوں کے گٹھ جوڑ کے مقابلے کے لیے اسی سال مصر، اردن، لبنان، عراق، اور شام پر مشتمل عرب افواج کے دستوں نے فلسطین میں اپنے قدم رکھے اور لمحہ بہ لمحہ جیسے جیسے جنگ کے شعلے بھڑکتے گئے، مسئلہ فلسطین عالمی برادری کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت اختیار کرتا گیا۔

عرب ریاستوں نے سب سے پہلے تو اسے عربوں کا مقامی اور داخلی مسئلہ قرار دینے کی کوشش کی، اور اس مسئلے کو عرب ممالک کا مسئلہ بنا کر اقوام عالم کے سامنے پیش کیا۔امریکا و اسرائیل نے اس کے بعد عرب حکمرانوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور انھیں ایک دوسرے کے مقابلے میں لانے کے لیے بھرپور کام کیا۔

سامراج کی سازشوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ مسئلہ سرد خانے کی نذر ہوتا ہوا دکھائی دینے لگا۔جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ حماس کی کارروائیوں سے کس کو فائدہ ہوا، بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ انھوں نے بہت سے اسٹیک ہولڈرز کے لیے طمانیت کا سامان فراہم کیا ہے،کیونکہ امریکی ثالثی میں ہونے والے ابراہیمی معاہدے کو شدید دھچکا لگا ہے۔ خطے میں متوقع استحکام کی آس میں امریکا اس خطے سے خرو ج کرکے اپنے وسائل ایشیا پیسیفک کے علاقے میں منتقل کرنے کی کوشش کر رہا تھا تاکہ چین کا مقابلہ کیا جا سکے۔

روس کے لیے یوکرین سے مغربی دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے یہ ایک نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوسکتی ہے۔ اگرچہ ایران کا حماس پر اس کا اثر و رسوخ اور لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ اس کی قربت اسرائیل کے لیے ایک کشیدہ صورتحال بناتی ہے۔اسرائیل جو ایران پر حملہ کرنے کے لیے پر تول رہا تھا، اب اس خطے میں ہی محدود ہو کر مزاحمتی گروپوں سے لڑنے میں مصروف رہے گا۔

اسرائیل کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے پر مجبور مشرق وسطیٰ کے ممالک بھی اب تل ابیب کے ساتھ مضبوط بنیادوں پر بات چیت کر سکتے ہیں کیونکہ اب اسرائیل چاہے کچھ بھی کرے وہ اپنا مضبوط اثر و رسوخ کھو چکا ہے۔ابراہیمی معاہدہ پر ثالثی کے دوران، امریکا نے بھی ازحد کوشش کی تھی کہ کسی طرح اسرائیل کو فلسطینیوں کو کوئی رعایت دینے پر تیار کیا جائے، مگر اسرائیل نے امریکی کوششوں کو کئی بار سبو تاژ کیا، جس سے امریکی صدور بھی نالاں تھے۔

حماس کی کارروائی نے پوری دنیا کوحیران تو کردیا، مگر اس خطے پر نظر رکھنے والے کچھ عرصہ سے فلسطین کے حوالے سے کسی بڑی کارروائی کی پیشگوئی کر رہے تھے۔ ایک لاوا خطے میں پک رہا تھا، جس کو بس پھٹنا تھا۔ فلسطینیوں میں ابراہیمی معاہدے کی وجہ سے مایوسی پھیل گئی تھی۔ پہلا معاہدہ متحدہ عرب امارات، بحرین اور اسرائیل کے درمیان 15 ستمبر 2020 کو ہوا تھا، جس کے بعد اسرائیل، مراکش اور سوڈان کے درمیان بھی اسی طرح کے معاہدے ہوئے۔

گزشتہ ماہ قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا تھا کہ قطر اور سعودی عرب کے ساتھ ایک بنیادی فریم ورک پر کام کیا جا رہا ہے۔ان معاہدوں نے فلسطینیوں کی زمینی صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ حماس کی کارروائی ایک پیغام ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی دوڑ میں مسئلہ فلسطین کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ ہنری کسنجر نے کئی دہائی قبل خبر دار کیا تھا کہ اگر آپ فلسطین جیسے ایشو کو نظر انداز کرتے ہیں تو یہ کسی بھی وقت پلٹ وار کرکے آپ کے چہرہ کو بگاڑ دیگا۔

امریکا اور اس کے زیر اثر بعض ممالک اسرائیل کے خلاف عالمی احتجاج کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے یہ مسئلہ روز بروز مزید گھمبیر صورت اختیار کرتا جارہاہے، اسرائیلی افواج نے غزہ پرتین اطراف سے حملے کیے ہیں جس کے باعث صورتحال بدترین ہوگئی ہے ،جب کہ اسرائیل نے غزہ پربڑے زمینی حملے کے لیے مزید توپخانہ' ٹینکس اور بکتر بند گاڑیاں غزہ کی سرحد پر پہنچا دی ہیں' ادھر امریکی افواج کی ایک بہت بڑی تعداد بھی اس جنگ میں حصہ لینے کے لیے اسرائیل پہنچا دی گئی ہے، جو جارحیت کی اپنی مثال آپ ہے۔

واقعات نے ظاہر کیا ہے کہ حالات تیزی کے ساتھ بدل سکتے ہیں۔اس لیے دیرپا امن کے لیے ضروری ہے کہ فلسطین کے مسئلے کو معتبر طریقوں کے ساتھ حل کرتے ہوئے عالمی سطح پر استحکام پیدا کیا جائے۔یہ زریں اصول نہ صرف فلسطین، بلکہ تمام متنازعہ خطوں پر صادق آتا ہے۔

اسرائیل کی تازہ جارحیت نے مسئلہ فلسطین کوانتہائی خطرناک موڑ پر پہنچا دیا ہے، اور وہاں معصوم فلسطینیوں کے قتل عام، ا ن کی نسل کشی کے حالات پیدا ہو چکے ہیں، جس طرح معصوم فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے، انھیں بھوک اور پیاس کے ہاتھوں موت کی وادی میں دھکیلا جارہا ہے اور انسانیت خاموش تماشائی بن کر اسرائیلی جارحیت اور بربریت کا نظارہ کر رہی ہے، اس کے نتائج انسانیت اور عالمی امن کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
Load Next Story