فلسطین اسرائیل تنازع
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے غزہ پٹی میں جنگ بندی کی قرارداد منظور کر لی ہے
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے غزہ پٹی میں جنگ بندی کی قرارداد منظور کر لی ہے، جنگ بندی کی یہ قرارداد عرب گروپ نے پیش کی ہے، اس قرارداد کے حق 120رکن ممالک نے ووٹ دیا۔
اقوام متحدہ نے غزہ پٹی کی صورتحال پر گہری تشویش ظاہر کی ہے اور خبردار کیا ہے کہ اگر مقامی آبادی کو فوری امداد نہ پہنچائی گئی تو وہاں صورتحال مزید ابتر ہو سکتی ہے۔
یورپی یونین بھی عارضی جنگ بندی کی کوشش کررہی ہے تاہم یورپی یونین کے دو روزہ سربراہی اجلاس میں عارضی جنگ بندی پر اتفاق رائے نہ ہو سکا ہے۔
اقوام متحدہ میں غزہ کی صورت حال پر اجلاس میں فلسطین اتھارٹی کے مندوب ریاض منصور اپنی تقریر کے دوران فلسطینی بچوں کی ہلاکتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے رو پڑے۔ انھوں نے طاقتور مغربی ممالک کی اسرائیل کی حمایت اور بے حسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ اسرائیل کے لیے درد محسوس کر رہے ہیں لیکن فلسطین کی تباہی پر خاموش ہیں، ایسا کیوں ہے؟ یہ مذہبی تعصب ہے، نسلی امتیاز ہے یا کالے گورے رنگ کی نفرت انگیز سوچ ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفدی نے کہا کہ اسرائیل کی غزہ پر بمباری فلسطینیوں کو اجتماعی سزا دینا ہے، اسے اسرائیل کا اپنا حق دفاع نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ ایک جنگی جرم ہے۔
عرب پارلیمنٹ نے غزہ کی صورتحال پر عالمی برادری کی خاموشی کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر خاموشی شرمناک ہے۔
ادھر امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر رچمنڈ کے سٹی کونسل اجلاس میں فلسطین کے حق میں قرارداد سے منظور کر لی گئی ہے ۔امریکا نے مشرق وسطی میں مزید 900امریکی فوجی بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اسرائیل کی فورسز نے لبنانی سرحد کے قریب بم برسائے ہیں۔ عالمی میڈیا کے مطابق یہ حملہ لبنان کی جنوبی سرحد پر کیا گیا۔ ایک تازہ پیش رفت میں حماس کا ایک وفد ماسکو پہنچ گیا ہے،روسی وزارت خارجہ کی ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ حماس کا ایک اعلیٰ سطح کا وفد جس کی قیادت تحریک کے سیاسی بیورو کے رکن موسی ابو مرزوق کر رہے ہیں ماسکو کا دورہ کر رہا ہے، جہاں تک بات چیت کا تعلق ہے ہم آپ کو اس سے متعلق بعد میں مزید آگاہ کریں گے۔
ادھرغزہ کی صورتحال پر قائم مقام امریکی نائب وزیر خارجہ وکٹوریہ نولینڈ نے پاکستان کے نگراں وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی سے ٹیلیفونک رابطہ کیا ہے۔ امریکی نائب وزیر خارجہ نے تمام یرغمالیوں کی رہائی کے لیے امریکا کے مطالبے پر روشنی ڈالی جب کہ غزہ میں تنازع کو پھیلنے سے روکنے کی ضرورت پر اتفاق کیا ہے۔
ایک جانب یہ سرگرمیاں ہورہی ہیں تو دوسری جانب امریکا نے شام میں حملے کیے ہیں۔ پینٹاگون نے ان حملوں کی تصدیق کی ہے۔ امریکی وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے شام اور عراق پر کیے گئے حملوں کو امریکی اہلکاروں کی حفاظت اور دفاع قرار دیا ہے۔ امریکی وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا ہے کہ شام میں دفاعی حملے عراق اور شام میں امریکی فوج پر ناکام حملوں کا جواب ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حملے کا مقصد عراق اور شام میں امریکی اہلکاروں کی حفاظت اور دفاع ہے۔
لائیڈ آسٹن نے وضاحت کی ہے کہ امریکی دفاعی حملے اسرائیل حماس تنازع سے الگ ہیں۔ امریکا اس حوالے سے جو مرضی کہے لیکن یہ سب کچھ ایک منصوبے کے تحت ہورہا ہے جس کا مقصد اسرائیل کی مدد کرنا ہے ۔ پینٹاگون نے کے مطابق امریکا کے ایف سولہ جنگی طیاروں نے عراق کی سرحد پر واقع ایک قصبے ابو کمال کے قریب صبح ساڑھے چار بجے حملہ کیا۔
امریکی وزیر دفاع نے کہا کہ امریکی افواج کے خلاف ایرانی حمایت یافتہ حملے ناقابل قبول ہیں اور انھیں روکنا بہت ضروری ہے۔ واشنگٹن میں امریکی وزیر دفاع کے ان بیانات کے فوری بعد پینٹاگون نے بھی ان حملوں سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ان حملوں میں ایرانی فورسز کے زیر استعمال ہتھیاروں اور گولہ بارود کو ذخیرہ کرنے والے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
سیو دی چلڈرن نامی تنظیم کی دو روز قبل جاری کئی گئی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ غزہ پٹی میں 2000 بچے انتقال کرچکے ہیں۔ اس سے غزہ کی صورتحال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں کس قدر جانی و مالی نقصان ہورہا ہے۔
اس معاملے پر ترقی یافتہ ممالک کا دہرا معیار سامنے آ چکا ہے، امریکا اور مغربی یورپ کا میڈیا اور حکمران یو کرین میں تباہی پر واویلا کرتے اور روس کی مذمت کرتے نہیں تھکتے، وہ پوری دنیا پر زور ڈال ر رہے ہیں کہ یوکرین روس جنگ میں یوکرین کی مالی و عسکری نہیں تو کم از کم اخلاقی مدد تو ضرورکی جائے لیکن فلسطینوں کی بربادی پر وہ خاموش ہیں، امریکا اور یورپ حماس ظالم اور اسرائیلی مظلوم قرار دینے میں ذرہ برابر دیر نہیں لگاتے ہیں، اکثر مغربی ممالک میں فلسطین کی حمایت میں احتجاج کرنے اور اسرائیل کو ظالم کہنے پر پابندی لگا دی گئی ہے ۔
حماس کے حملے کیوں ہوئے ، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ، بہرحال اب ایک بات تو واضح ہو گئی ہے کہ اسرائیل کو جنگ میں شکست دینا مشکل نہیں ہے، حماس نے اسرائیل کی ٹیکنالوجی کو شکست دے کر ثابت کردیا ہے کہ اگر امریکا اور مغرب اس کی مدد نہ کرے تو اسرائیل کا دفاع انتہائی کمزور ہے، اس کے دفاع کی کمزوریاں بھی سامنے آ گئی ہیں۔ 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس اور غربِ اردن کے علاوہ شام میں گولان کی پہاڑیوں، غزہ کی پٹی اور مصر میں سینائی پر قبضہ کر لیا تھا۔
آج بھی غربِ اردن پر اسرائیل قابض ہے ، اس نے غزہ کی پٹی سے فوجیں نکال لی تھیں جہاں اب حماس کی محدود حکومت قائم ہے۔ اسرائیل جلاوطن پناہ گزین فلسطینیوں کو یروشلم واپسی کی اجازت نہیں دے رہا اور ایک پالیسی کے تحت غیرملکی یہودیوں کی فسطینی علاقوں میںآبادکاری کے لیے بے دخل کر رہا ہے۔یہی حربہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں استعمال کررہا ہے۔
فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان تین معاملات ابھی تک حل طلب ہیں۔ غرب اْردن اور غزہ کی پٹی کا کتنا حصہ فلسطین کو دیا جائے؟ بیت القدس یعنی یروشلم کیسے تقسیم کیا جائے؟ بے دخل فلسطینیوں کی آبادکاری کہاں اور کیسے کی جائے؟ بہترین، اصولاً غرب اردن اور غزہ کی پٹی مکمل فلسطین کے حوالے کیے جانے چاہیے،فلسطینی پناہ گزینوں کو اپنے گھروں کو واپسی کی اجازت دی جائے لیکن ان کے سابقہ گھر اسرائیل میں آگئے ہیں اور اسرائیل یہ ماننے کو تیار نہیں ہے۔
امریکا، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک آنکھیں بند کرکے اسرائیلی قبضے کی حمایت مہیا کرتی ہیں۔ سابق ٹرمپ انتظامیہ نے تو حد کردی تھی، اس نے امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کیا، یہودیوں کی مزید بستیاں تعمیر کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔ امریکا سلامتی کونسل میں اپنے ویٹو کا استعمال کر کے کئی بار اسرائیل بچا چکا ہے۔
عرب ممالک اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینی زمین پر تعمیر کی گئی یہودی بستیوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں، فلسطینی لیڈر شپ چاہتی ہے ہیں کہ مشرقی یروشلم، جس میں مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے مقدس مقامات شامل ہیں، کو ان کی ریاست کا دارالحکومت بنایا جائے۔
اسرائیل یروشلم کو ناقابل تقسیم اور ابدی دارالحکومت سمجھتا ہے اور یہ تعبیر وتشریح وہ محض اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق کرتا ہے جب کہ حماس پر مذہبی انتہاپسندی کا الزام عائد کرتا ہے۔ یروشلم کے مشرقی حصے پر اسرائیل کے دعوے کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا البتہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کر لیا تھا اور 2018 میں امریکی سفارت خانے کو وہاں منتقل کر دیا گیا تھا۔
56 لاکھ فلسطینی اردن، لبنان، شام، اسرائیل کے مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ میں رہتے ہیں، فلسطینی وزارت خارجہ کے مطابق رجسٹرڈ پناہ گزینوں میں سے نصف بے وطن ہیں، بہت سے لوگ پر ہجوم کیمپوں میں رہتے ہیں۔ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی جلاوطن فلسطینی موجود ہیں،ان فلسطینی پناہ گزینوں ان کی اولادوں کو اپنے آبائی وطن میں آنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کی کوئی بھی آباد کاری اس کی سرحدوں سے باہر ہونی چاہیے۔ کیا یہ بات انصاف کے مطابق ہے کہ روس، یوکرائن، ایتھوپیا، پولینڈ اور جرمنی وغیرہ سے آنے والے یہودیوں کو تو فلسطینی علاقوں میں رہنے کی آزادی ہے لیکن فلسطینی ہزاروں سال سے اسی زمین پر بستے آ رہے ہیں، لیکن انھیں اپنے گھروں میں آنے کی اجازت نہیں ہے۔
اقوام متحدہ نے غزہ پٹی کی صورتحال پر گہری تشویش ظاہر کی ہے اور خبردار کیا ہے کہ اگر مقامی آبادی کو فوری امداد نہ پہنچائی گئی تو وہاں صورتحال مزید ابتر ہو سکتی ہے۔
یورپی یونین بھی عارضی جنگ بندی کی کوشش کررہی ہے تاہم یورپی یونین کے دو روزہ سربراہی اجلاس میں عارضی جنگ بندی پر اتفاق رائے نہ ہو سکا ہے۔
اقوام متحدہ میں غزہ کی صورت حال پر اجلاس میں فلسطین اتھارٹی کے مندوب ریاض منصور اپنی تقریر کے دوران فلسطینی بچوں کی ہلاکتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے رو پڑے۔ انھوں نے طاقتور مغربی ممالک کی اسرائیل کی حمایت اور بے حسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ اسرائیل کے لیے درد محسوس کر رہے ہیں لیکن فلسطین کی تباہی پر خاموش ہیں، ایسا کیوں ہے؟ یہ مذہبی تعصب ہے، نسلی امتیاز ہے یا کالے گورے رنگ کی نفرت انگیز سوچ ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفدی نے کہا کہ اسرائیل کی غزہ پر بمباری فلسطینیوں کو اجتماعی سزا دینا ہے، اسے اسرائیل کا اپنا حق دفاع نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ ایک جنگی جرم ہے۔
عرب پارلیمنٹ نے غزہ کی صورتحال پر عالمی برادری کی خاموشی کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر خاموشی شرمناک ہے۔
ادھر امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر رچمنڈ کے سٹی کونسل اجلاس میں فلسطین کے حق میں قرارداد سے منظور کر لی گئی ہے ۔امریکا نے مشرق وسطی میں مزید 900امریکی فوجی بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اسرائیل کی فورسز نے لبنانی سرحد کے قریب بم برسائے ہیں۔ عالمی میڈیا کے مطابق یہ حملہ لبنان کی جنوبی سرحد پر کیا گیا۔ ایک تازہ پیش رفت میں حماس کا ایک وفد ماسکو پہنچ گیا ہے،روسی وزارت خارجہ کی ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ حماس کا ایک اعلیٰ سطح کا وفد جس کی قیادت تحریک کے سیاسی بیورو کے رکن موسی ابو مرزوق کر رہے ہیں ماسکو کا دورہ کر رہا ہے، جہاں تک بات چیت کا تعلق ہے ہم آپ کو اس سے متعلق بعد میں مزید آگاہ کریں گے۔
ادھرغزہ کی صورتحال پر قائم مقام امریکی نائب وزیر خارجہ وکٹوریہ نولینڈ نے پاکستان کے نگراں وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی سے ٹیلیفونک رابطہ کیا ہے۔ امریکی نائب وزیر خارجہ نے تمام یرغمالیوں کی رہائی کے لیے امریکا کے مطالبے پر روشنی ڈالی جب کہ غزہ میں تنازع کو پھیلنے سے روکنے کی ضرورت پر اتفاق کیا ہے۔
ایک جانب یہ سرگرمیاں ہورہی ہیں تو دوسری جانب امریکا نے شام میں حملے کیے ہیں۔ پینٹاگون نے ان حملوں کی تصدیق کی ہے۔ امریکی وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے شام اور عراق پر کیے گئے حملوں کو امریکی اہلکاروں کی حفاظت اور دفاع قرار دیا ہے۔ امریکی وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا ہے کہ شام میں دفاعی حملے عراق اور شام میں امریکی فوج پر ناکام حملوں کا جواب ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حملے کا مقصد عراق اور شام میں امریکی اہلکاروں کی حفاظت اور دفاع ہے۔
لائیڈ آسٹن نے وضاحت کی ہے کہ امریکی دفاعی حملے اسرائیل حماس تنازع سے الگ ہیں۔ امریکا اس حوالے سے جو مرضی کہے لیکن یہ سب کچھ ایک منصوبے کے تحت ہورہا ہے جس کا مقصد اسرائیل کی مدد کرنا ہے ۔ پینٹاگون نے کے مطابق امریکا کے ایف سولہ جنگی طیاروں نے عراق کی سرحد پر واقع ایک قصبے ابو کمال کے قریب صبح ساڑھے چار بجے حملہ کیا۔
امریکی وزیر دفاع نے کہا کہ امریکی افواج کے خلاف ایرانی حمایت یافتہ حملے ناقابل قبول ہیں اور انھیں روکنا بہت ضروری ہے۔ واشنگٹن میں امریکی وزیر دفاع کے ان بیانات کے فوری بعد پینٹاگون نے بھی ان حملوں سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ان حملوں میں ایرانی فورسز کے زیر استعمال ہتھیاروں اور گولہ بارود کو ذخیرہ کرنے والے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
سیو دی چلڈرن نامی تنظیم کی دو روز قبل جاری کئی گئی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ غزہ پٹی میں 2000 بچے انتقال کرچکے ہیں۔ اس سے غزہ کی صورتحال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں کس قدر جانی و مالی نقصان ہورہا ہے۔
اس معاملے پر ترقی یافتہ ممالک کا دہرا معیار سامنے آ چکا ہے، امریکا اور مغربی یورپ کا میڈیا اور حکمران یو کرین میں تباہی پر واویلا کرتے اور روس کی مذمت کرتے نہیں تھکتے، وہ پوری دنیا پر زور ڈال ر رہے ہیں کہ یوکرین روس جنگ میں یوکرین کی مالی و عسکری نہیں تو کم از کم اخلاقی مدد تو ضرورکی جائے لیکن فلسطینوں کی بربادی پر وہ خاموش ہیں، امریکا اور یورپ حماس ظالم اور اسرائیلی مظلوم قرار دینے میں ذرہ برابر دیر نہیں لگاتے ہیں، اکثر مغربی ممالک میں فلسطین کی حمایت میں احتجاج کرنے اور اسرائیل کو ظالم کہنے پر پابندی لگا دی گئی ہے ۔
حماس کے حملے کیوں ہوئے ، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ، بہرحال اب ایک بات تو واضح ہو گئی ہے کہ اسرائیل کو جنگ میں شکست دینا مشکل نہیں ہے، حماس نے اسرائیل کی ٹیکنالوجی کو شکست دے کر ثابت کردیا ہے کہ اگر امریکا اور مغرب اس کی مدد نہ کرے تو اسرائیل کا دفاع انتہائی کمزور ہے، اس کے دفاع کی کمزوریاں بھی سامنے آ گئی ہیں۔ 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس اور غربِ اردن کے علاوہ شام میں گولان کی پہاڑیوں، غزہ کی پٹی اور مصر میں سینائی پر قبضہ کر لیا تھا۔
آج بھی غربِ اردن پر اسرائیل قابض ہے ، اس نے غزہ کی پٹی سے فوجیں نکال لی تھیں جہاں اب حماس کی محدود حکومت قائم ہے۔ اسرائیل جلاوطن پناہ گزین فلسطینیوں کو یروشلم واپسی کی اجازت نہیں دے رہا اور ایک پالیسی کے تحت غیرملکی یہودیوں کی فسطینی علاقوں میںآبادکاری کے لیے بے دخل کر رہا ہے۔یہی حربہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں استعمال کررہا ہے۔
فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان تین معاملات ابھی تک حل طلب ہیں۔ غرب اْردن اور غزہ کی پٹی کا کتنا حصہ فلسطین کو دیا جائے؟ بیت القدس یعنی یروشلم کیسے تقسیم کیا جائے؟ بے دخل فلسطینیوں کی آبادکاری کہاں اور کیسے کی جائے؟ بہترین، اصولاً غرب اردن اور غزہ کی پٹی مکمل فلسطین کے حوالے کیے جانے چاہیے،فلسطینی پناہ گزینوں کو اپنے گھروں کو واپسی کی اجازت دی جائے لیکن ان کے سابقہ گھر اسرائیل میں آگئے ہیں اور اسرائیل یہ ماننے کو تیار نہیں ہے۔
امریکا، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک آنکھیں بند کرکے اسرائیلی قبضے کی حمایت مہیا کرتی ہیں۔ سابق ٹرمپ انتظامیہ نے تو حد کردی تھی، اس نے امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کیا، یہودیوں کی مزید بستیاں تعمیر کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔ امریکا سلامتی کونسل میں اپنے ویٹو کا استعمال کر کے کئی بار اسرائیل بچا چکا ہے۔
عرب ممالک اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینی زمین پر تعمیر کی گئی یہودی بستیوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں، فلسطینی لیڈر شپ چاہتی ہے ہیں کہ مشرقی یروشلم، جس میں مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے مقدس مقامات شامل ہیں، کو ان کی ریاست کا دارالحکومت بنایا جائے۔
اسرائیل یروشلم کو ناقابل تقسیم اور ابدی دارالحکومت سمجھتا ہے اور یہ تعبیر وتشریح وہ محض اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق کرتا ہے جب کہ حماس پر مذہبی انتہاپسندی کا الزام عائد کرتا ہے۔ یروشلم کے مشرقی حصے پر اسرائیل کے دعوے کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا البتہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کر لیا تھا اور 2018 میں امریکی سفارت خانے کو وہاں منتقل کر دیا گیا تھا۔
56 لاکھ فلسطینی اردن، لبنان، شام، اسرائیل کے مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ میں رہتے ہیں، فلسطینی وزارت خارجہ کے مطابق رجسٹرڈ پناہ گزینوں میں سے نصف بے وطن ہیں، بہت سے لوگ پر ہجوم کیمپوں میں رہتے ہیں۔ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی جلاوطن فلسطینی موجود ہیں،ان فلسطینی پناہ گزینوں ان کی اولادوں کو اپنے آبائی وطن میں آنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کی کوئی بھی آباد کاری اس کی سرحدوں سے باہر ہونی چاہیے۔ کیا یہ بات انصاف کے مطابق ہے کہ روس، یوکرائن، ایتھوپیا، پولینڈ اور جرمنی وغیرہ سے آنے والے یہودیوں کو تو فلسطینی علاقوں میں رہنے کی آزادی ہے لیکن فلسطینی ہزاروں سال سے اسی زمین پر بستے آ رہے ہیں، لیکن انھیں اپنے گھروں میں آنے کی اجازت نہیں ہے۔