یادِ رفتگان ایس ایم ظفر ایک روشن دماغ تھا‘ نہ رہا
سید محمد ظفر نے 6 دسمبر 1930ء کو برما کے دارالحکومت رنگون میں آنکھ کھولی۔
نیم تاریک اسٹڈی روم کا ماحول پرسکون تھا۔ لاوڈ اسپیکر پہ دھیمے سروں میں بجنے والی مہدی حسن کی غزل باہر سیکرٹری کے کمرے میں سنائی دے رہی تھی؎
میں ہوش میں تھا تو پھر اس پہ مر گیا کیسے
یہ زہر میرے لہو میں اتر گیا کیسے
میں ایک طرف بیٹھ کر اپنے ساتھ لائے ہوئے نوٹس اور کتابوں کی ورق گردانی کرنے لگا، کانوں میں مہدی حسن کی آواز گونج رہی تھی؎
ضرور اس کی توجہ کی رہبری ہو گی
نشے میں تھا تو میں اپنے ہی گھر گیا کیسے
جسے بھلائے کئی سال ہو گئے کامل
میں آج اس کی گلی سے گزر گیا کیسے
کچھ دیر میں موسیقی کی آواز بند ہوئی اور برقی روشنیوں کے جلنے سے اسٹڈی روم روشن ہو گیا۔ چند لمحوں میں، میں ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر کے روبرو تھا، جو اپنی مختصر دورانیے کی نیند (power nap) کے بعد انٹرویو کی ایک نشست کے لیے چاق و چوبند بیٹھے تھے۔
سید محمد ظفر نے 6 دسمبر 1930ء کو برما کے دارالحکومت رنگون میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد رنگون کی ایک کنٹرکٹ فرم سے منسلک تھے۔
وہ وہاں کے ایک سکول میں پانچویں جماعت میں تعلیم حاصل کر رہے تھے جب دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانیوں نے سنگاپور پر قبضہ کرنے کے بعد برما کا رخ کر لیا۔ غیریقینی حالات کی وجہ سے ان کا خاندان بھی دوسرے خاندانوں کے ساتھ ہندوستان واپس آ گیا اور یہ شکرگڑھ کے قریب واقع اپنے آبائی گاؤں میں رہائش پذیر ہو گئے۔
رنگون انگریزوں کی قائم کی ہوئی بندرگاہ کی وجہ سے اہم شہر تھا، چنانچہ وہاں کے سکولوں میں تعلیم کا معیار بہت اچھا تھا۔ اچھی انگریزی کی وجہ سے ایس ایم ظفر کو شکرگڑھ کے سکول میں دو جماعت اوپر داخلہ دے دیا گیا، یوں وہ اپنے بڑے بھائی سید محمد اقبال کے ہم جماعت بن گئے۔
انہوں نے 1945ء میں غلام الدین ہائی سکول مینگڑی (شکر گڑھ) سے میڑک کیا، سکول میں اول آئے اور پنجاب یونیورسٹی سے سکالرشپ حاصل کی۔ مزید تعلیم کے لیے بڑے بھائی نے علی گڑھ کا انتخاب کیا، جبکہ ایس ایم ظفر نے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لینے کا فیصلہ کیا۔
انہیں زمانہ طالب علمی میں قائداعظم کی تقریر سننے کا موقع ملا جب قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل وہ طلبہ سے خطاب کرنے لاہور(اسلامیہ کالج ریلوے روڈ) تشریف لائے۔ دوران تعلیم پنجاب سٹوڈنٹس فیڈریشن کے رکن کی حیثیت سے، اپنے عظیم قائد کی امیدوں پر پورا اترتے ہوئے مہاجرین کی آبادکاری کے لیے کام کیا۔ گورنمنٹ کالج یونین کے جنرل سیکرٹری کا الیکشن لڑا اور اسی زمانے میں ان کا نام سید محمد ظفر سے ایس ایم ظفر ہو گیا۔
والد انہیں انجینئر بنانا چاہتے تھے کیوں کہ وہ خود کنٹریکٹر تھے، لیکن انہوں نے وکیل بننے کی ٹھان لی۔ ایس ایم ظفر کے والد سید محمد اشرف کیفی شاہ نظامی، صاحب کشف بزرگ اور اورخواجہ حسن نظامی دہلوی کے مرید تھے۔ ''کیفی شاہ نظامی'' کا لقب بھی انہیں مرشد نے دیا تھا، کیوں کہ انہیں مستقبل میں ہونے والے کچھ واقعات کا کشف ہوجاتا تھا۔
مثال کے طور پر مہاتما گاندھی کے قتل سے 20 سال پہلے سید محمد اشرف کے ایک کشف کا بیان اخباروں میں چھپا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ میں دیکھتا ہوں کہ مہاتما گاندھی کو ایک ہندو گولی سے مار دے گا۔
ایس ایم ظفر نے وکالت کا آغاز نچلے درجے سے کیا، اوراپنی محنت کے بدولت اس میں بہت سی کامیابیاں سمیٹیں۔ ملکی تاریخ کے کئی مشہور مقدمات کی پیروی کی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ہالینڈ کی عدالت میں کامیابی سے دفاع کیا۔ ایک کامیاب پیشہ ور وکیل بننے کے باوجود ملکی سیاست میں گہری دلچسپی تھی۔ 35 برس کی عمر میں ایوب کابینہ میں قانون و پارلیمانی امور کے مرکزی وزیر بنے۔ چار سال ایوب کابینہ کا حصہ رہے۔
متحدہ اپوزیشن کی طرف سے 1973ء کا آئین تشکیل دینے والی ٹیم کا حصہ بنے۔ پیرپگاڑا کی سربراہی میں آل پاکستان مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے کام کیا۔ کئی برس پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سنیٹر رہے ، سترہویں اور اٹھارویں آئینی ترامیم کی تیاری کے عمل میں بھی شامل رہے۔ وہ ملکی آئینی اور سیاسی تاریخ کے چشم دید گواہ تھے۔ 2004ء سے 2012ء تک ہمدرد یونیورسٹی کے چانسلر کی ذمہ داریاں بھی ادا کیں۔ 2011ء میں انہیں صدارتی ایوارڈ نشان امتیاز سے نوازا گیا۔
ایس ایم طفر پاکستان کے صف اول کے قانون دان تھے۔ کئی اہم مواقع پر عدالت عظمیٰ نے ان کی قانونی بصیرت سے استفادہ کیا۔ وہ انسانی حقوق، قانون اور آئین کی حکمرانی کے علم بردار تھے۔ فنون لطیفہ میں گہری دلچسپی رکھنے والے ایس ایم ظفر ایک رودار معاشرے کے قیام کے لیے کوشاں رہے۔
سیاست میں کرپشن کے چلن کو انہوں نے ہمیشہ ہدف تنقید بنایا، لیکن ان کا ایمان تھا کہ ملک میں بہتری جمہوریت، سیاسی جماعتوں اور سیاسی عمل کے ذریعے آ سکتی ہے۔ پرویز مشرف نے اپنے وعدے کے برخلاف وردی اتارنے سے انکار کیا تو اس وقت مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر ہونے کے باوجود اس طرز عمل کی مخالفت کی۔
وکالت سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے خود کو تصنیف و تالیف کے لیے وقف کر دیا، ان کی تحریروں سے اہل وطن رہنمائی لیتے رہیں گے۔ کچھ دن قبل 19 اکتوبر کو 93 برس کی عمر میں انتقال کرنے والے ایس ایم ظفر تین بیٹوں طارق ظفر، علی ظفر، عاصم ظفر اور ایک بیٹی روشانے ظفر کے مشفق والد تھے۔ بڑے بیٹے طارق ظفر کچھ برس پہلے انتقال کر گئے تھے۔
بقول الطاف حسین حالی؎
ایک روشن دماغ تھا نہ رہا
شہر میں اک چراغ تھا نہ رہا
۔۔۔
جمہوریت میں سیاسی جماعتوں کا کردار
سیاسی جماعتیں، جمہوری اور پارلیمانی نظام کی بنیاد ہیں۔ غیرجماعتی بنیادوں پر منتخب کی گئی اسمبلی، نہ تو اسمبلی ہوتی ہے اور نہ ہی یہ قوم کو آپس میں جوڑ سکتی ہے۔
سیاسی جماعت جیسے ادارے عام طور پر اس معاشرے کی ثقافتی اقدار کی عکاسی کرتے ہیں، جہاں وہ پروان چڑھتے ہیں۔ 1973ء کے بعد اور اب بھی پاکستان میں زیادہ تر جاگیردارانہ اور قبائلی کلچر پایا جاتا ہے، جس میں جاگیردار یا قبائلی سردار Big Man) (The حکومت اور دوسرے پیروی کرتے ہیں۔
ایسے معاشروں میں پارلیمنٹ، انتخابات اور دوسرے جمہوری اداروں کو قائم کرنا عموماً پیچیدگی (chaos) کا باعث بنتا ہے۔ پاکستان میں مغرب کے یہ جمہوری ادارے (قومی اسمبلی، انتخابات، سیاسی جماعتیں وغیرہ) قائم توکر لیے گئے لیکن سیاسی جماعتیں نیچے (گراس روٹ لیول) سے پروان نہیں چڑھیں، بلکہ یہ کسی 'بڑے آدمی' (The Big Man) نے بنائیں یا قائم رکھیں اور 'رعایا' نے اس کی پیروی کی۔ اسی لیے پاکستان میں تمام سیاسی جماعتیں فرد واحد کے گرد گھومتی ہیں یا اس پر انحصار کرتی ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ سیاسی جماعتیں غیر جمہوری اور ذاتی بلکہ ایک شاہی خاندان کی طرح ہیں۔
سیاسی جماعتوں سے متعلق قوانین میں سیاسی جماعتوں کو جماعت کے اندر انتخابات کے لیے پابند کیا گیا ہے اور پارٹی سربراہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابات کے سات دن کے اندر الیکشن کمیشن میں نتائج جمع کرائے۔ سیاسی جماعتوں کے آئین میں بھی لکھا ہوتا ہے کہ پارٹی کے مختلف عہدے داروں کے انتخاب کا طریقہ کار کیا ہو گا، لیکن عملی طور پر ایسے زیادہ تر 'انتخابات' محض دکھاوے کے ہوتے ہیں، جن میں پارٹی سربراہ سمیت تمام عہدے داروں کے فیصلے کسی قسم کے انتخاب کے بغیر پہلے ہی کر لیے جاتے ہیں اور پارٹی کے عام اجلاس میں ان فیصلوں کی منظوری لے لی جاتی ہے۔
سیاسی جماعت کا بانی ہی جماعت کا صدر بنایا جاتا ہے، جس کے بغیر پارٹی صفر سمجھی جاتی ہے۔ اس طرح جماعت پر 'شاہی خاندان' کی طرح کنٹرول جاری رہتا ہے۔ اس ضمن میں جماعت اسلامی ایک استثنا ہے، جس میں جماعت کے محدود ارکان اپنی ترجیح کا اظہار کرتے ہیں اور اتفاق رائے سے ایک نام منتخب کیا جاتا ہے۔
پائیدار اور کمزور جمہوری روایات والے ممالک کے طرز سیاست میں واضح فرق ہے۔ مستحکم جمہوری روایات والے ممالک میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان اہم معاملات میں اختلاف رائے کے باوجود ایک دوسرے کی نیک نیتی کو پیش نظر رکھتے ہیں۔
جبکہ کمزور جمہوری روایات والے ممالک میں اس کے برعکس ہوتا ہے۔ یہاں منتخب نمائندے اپنے مخالفین کی ، جن سے وہ اختلاف رائے رکھتے ہیں، شدید مخالفت کرتے ہوئے کبھی ان پر قومی وقار کا سودا کرنے کا الزام لگاتے ہیں اور کبھی انہیں قومی خطرے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کو دو معاملات کی وجہ سے، جن کی جڑیں بہت گہری ہیں،نقصان پہنچا ہے۔ مذہب اور نسل پرستی نے عوامی نمائندوں کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا ، جس سے اسمبلی مباحثوں میں عدم برداشت اور عداوت کا چلن پیدا ہوا ہے۔
مستحکم جمہوری روایات والے ممالک میں یہ مضبوط روایت ہے کہ وہ انتخابی عمل کی شفافیت پر سوال اٹھاتے ہوئے اسے متنازعہ نہیں بناتے۔ دھاندلی کے بے بنیاد الزامات الیکشن پر اعتماد مجروح کرتے ہوئے پارلیمنٹ کا وقار کم کرتے ہیں، جس سے لوگوں کا جمہوریت پر یقین ختم ہو جاتا ہے۔ یہ کسی کو ستانے کی خواہش میں خود کو تباہ کردینے کے مترادف ہے۔
مزید براں جمہوریت کے بنیادی اجزا (سیاسی جماعتوں) میں نقائص اور نچلی سطح پر تنظیمی ڈھانچے (مقامی حکومتوں) کی کمزوری، یہ دو بڑے مسائل ہیں، جنہوں نے پاکستان کو توانا جمہوری روایات کے فروغ سے محروم رکھا ہے۔ تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ عوامی نمائندگی کے اداروں میں سیاسی جماعتوں اور ان سے منسلک روایات کے بغیر، چاہے نظام کو کتنی ہی احتیاط سے وضع کیوں نہ کیا جائے، ایک قابل عمل اور مستحکم جمہوریت کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔ علاوہ ازیں، قوم اور اس کے نمائندوں کو کچھ مشترکہ اقدار اور اصول ضرور تشکیل دینے چاہئیں، جو ملک کے جمہوری عقائد ہوں گے۔
جمہوریت کو ان انتہاپسند اور جذباتی رہنماؤں سے بھی خطرہ ہوتا ہے جو تمام معاشروں میں کسی نہ کسی وقت سامنے آتے رہتے ہیں۔ صرف سیاسی جماعتیں اور منظم شہری ہی ایسے آمرانہ رہنماؤں کا رستہ روک سکتے ہیں، جو جمہوری اداروں کو تباہ یا انہیں اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ منتخب آمر جمہوریت کو تہہ و بالا کرنے کے ساتھ عدلیہ اور دوسرے غیرجانبدار اداروں سے کھلواڑ کرتے ہیں، میڈیا اور نجی شعبے کو خرید لیتے ہیں یا انہیں مختلف ہتھکنڈوں سے دھمکا کر خاموش کرا دیا جاتا ہے۔
(ایس ایم ظفر کی کتاب "History of Pakistan Reinterpreted" سے ترجمہ کیا گیا)
میں ہوش میں تھا تو پھر اس پہ مر گیا کیسے
یہ زہر میرے لہو میں اتر گیا کیسے
میں ایک طرف بیٹھ کر اپنے ساتھ لائے ہوئے نوٹس اور کتابوں کی ورق گردانی کرنے لگا، کانوں میں مہدی حسن کی آواز گونج رہی تھی؎
ضرور اس کی توجہ کی رہبری ہو گی
نشے میں تھا تو میں اپنے ہی گھر گیا کیسے
جسے بھلائے کئی سال ہو گئے کامل
میں آج اس کی گلی سے گزر گیا کیسے
کچھ دیر میں موسیقی کی آواز بند ہوئی اور برقی روشنیوں کے جلنے سے اسٹڈی روم روشن ہو گیا۔ چند لمحوں میں، میں ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر کے روبرو تھا، جو اپنی مختصر دورانیے کی نیند (power nap) کے بعد انٹرویو کی ایک نشست کے لیے چاق و چوبند بیٹھے تھے۔
سید محمد ظفر نے 6 دسمبر 1930ء کو برما کے دارالحکومت رنگون میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد رنگون کی ایک کنٹرکٹ فرم سے منسلک تھے۔
وہ وہاں کے ایک سکول میں پانچویں جماعت میں تعلیم حاصل کر رہے تھے جب دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانیوں نے سنگاپور پر قبضہ کرنے کے بعد برما کا رخ کر لیا۔ غیریقینی حالات کی وجہ سے ان کا خاندان بھی دوسرے خاندانوں کے ساتھ ہندوستان واپس آ گیا اور یہ شکرگڑھ کے قریب واقع اپنے آبائی گاؤں میں رہائش پذیر ہو گئے۔
رنگون انگریزوں کی قائم کی ہوئی بندرگاہ کی وجہ سے اہم شہر تھا، چنانچہ وہاں کے سکولوں میں تعلیم کا معیار بہت اچھا تھا۔ اچھی انگریزی کی وجہ سے ایس ایم ظفر کو شکرگڑھ کے سکول میں دو جماعت اوپر داخلہ دے دیا گیا، یوں وہ اپنے بڑے بھائی سید محمد اقبال کے ہم جماعت بن گئے۔
انہوں نے 1945ء میں غلام الدین ہائی سکول مینگڑی (شکر گڑھ) سے میڑک کیا، سکول میں اول آئے اور پنجاب یونیورسٹی سے سکالرشپ حاصل کی۔ مزید تعلیم کے لیے بڑے بھائی نے علی گڑھ کا انتخاب کیا، جبکہ ایس ایم ظفر نے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لینے کا فیصلہ کیا۔
انہیں زمانہ طالب علمی میں قائداعظم کی تقریر سننے کا موقع ملا جب قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل وہ طلبہ سے خطاب کرنے لاہور(اسلامیہ کالج ریلوے روڈ) تشریف لائے۔ دوران تعلیم پنجاب سٹوڈنٹس فیڈریشن کے رکن کی حیثیت سے، اپنے عظیم قائد کی امیدوں پر پورا اترتے ہوئے مہاجرین کی آبادکاری کے لیے کام کیا۔ گورنمنٹ کالج یونین کے جنرل سیکرٹری کا الیکشن لڑا اور اسی زمانے میں ان کا نام سید محمد ظفر سے ایس ایم ظفر ہو گیا۔
والد انہیں انجینئر بنانا چاہتے تھے کیوں کہ وہ خود کنٹریکٹر تھے، لیکن انہوں نے وکیل بننے کی ٹھان لی۔ ایس ایم ظفر کے والد سید محمد اشرف کیفی شاہ نظامی، صاحب کشف بزرگ اور اورخواجہ حسن نظامی دہلوی کے مرید تھے۔ ''کیفی شاہ نظامی'' کا لقب بھی انہیں مرشد نے دیا تھا، کیوں کہ انہیں مستقبل میں ہونے والے کچھ واقعات کا کشف ہوجاتا تھا۔
مثال کے طور پر مہاتما گاندھی کے قتل سے 20 سال پہلے سید محمد اشرف کے ایک کشف کا بیان اخباروں میں چھپا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ میں دیکھتا ہوں کہ مہاتما گاندھی کو ایک ہندو گولی سے مار دے گا۔
ایس ایم ظفر نے وکالت کا آغاز نچلے درجے سے کیا، اوراپنی محنت کے بدولت اس میں بہت سی کامیابیاں سمیٹیں۔ ملکی تاریخ کے کئی مشہور مقدمات کی پیروی کی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ہالینڈ کی عدالت میں کامیابی سے دفاع کیا۔ ایک کامیاب پیشہ ور وکیل بننے کے باوجود ملکی سیاست میں گہری دلچسپی تھی۔ 35 برس کی عمر میں ایوب کابینہ میں قانون و پارلیمانی امور کے مرکزی وزیر بنے۔ چار سال ایوب کابینہ کا حصہ رہے۔
متحدہ اپوزیشن کی طرف سے 1973ء کا آئین تشکیل دینے والی ٹیم کا حصہ بنے۔ پیرپگاڑا کی سربراہی میں آل پاکستان مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے کام کیا۔ کئی برس پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سنیٹر رہے ، سترہویں اور اٹھارویں آئینی ترامیم کی تیاری کے عمل میں بھی شامل رہے۔ وہ ملکی آئینی اور سیاسی تاریخ کے چشم دید گواہ تھے۔ 2004ء سے 2012ء تک ہمدرد یونیورسٹی کے چانسلر کی ذمہ داریاں بھی ادا کیں۔ 2011ء میں انہیں صدارتی ایوارڈ نشان امتیاز سے نوازا گیا۔
ایس ایم طفر پاکستان کے صف اول کے قانون دان تھے۔ کئی اہم مواقع پر عدالت عظمیٰ نے ان کی قانونی بصیرت سے استفادہ کیا۔ وہ انسانی حقوق، قانون اور آئین کی حکمرانی کے علم بردار تھے۔ فنون لطیفہ میں گہری دلچسپی رکھنے والے ایس ایم ظفر ایک رودار معاشرے کے قیام کے لیے کوشاں رہے۔
سیاست میں کرپشن کے چلن کو انہوں نے ہمیشہ ہدف تنقید بنایا، لیکن ان کا ایمان تھا کہ ملک میں بہتری جمہوریت، سیاسی جماعتوں اور سیاسی عمل کے ذریعے آ سکتی ہے۔ پرویز مشرف نے اپنے وعدے کے برخلاف وردی اتارنے سے انکار کیا تو اس وقت مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر ہونے کے باوجود اس طرز عمل کی مخالفت کی۔
وکالت سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے خود کو تصنیف و تالیف کے لیے وقف کر دیا، ان کی تحریروں سے اہل وطن رہنمائی لیتے رہیں گے۔ کچھ دن قبل 19 اکتوبر کو 93 برس کی عمر میں انتقال کرنے والے ایس ایم ظفر تین بیٹوں طارق ظفر، علی ظفر، عاصم ظفر اور ایک بیٹی روشانے ظفر کے مشفق والد تھے۔ بڑے بیٹے طارق ظفر کچھ برس پہلے انتقال کر گئے تھے۔
بقول الطاف حسین حالی؎
ایک روشن دماغ تھا نہ رہا
شہر میں اک چراغ تھا نہ رہا
۔۔۔
جمہوریت میں سیاسی جماعتوں کا کردار
سیاسی جماعتیں، جمہوری اور پارلیمانی نظام کی بنیاد ہیں۔ غیرجماعتی بنیادوں پر منتخب کی گئی اسمبلی، نہ تو اسمبلی ہوتی ہے اور نہ ہی یہ قوم کو آپس میں جوڑ سکتی ہے۔
سیاسی جماعت جیسے ادارے عام طور پر اس معاشرے کی ثقافتی اقدار کی عکاسی کرتے ہیں، جہاں وہ پروان چڑھتے ہیں۔ 1973ء کے بعد اور اب بھی پاکستان میں زیادہ تر جاگیردارانہ اور قبائلی کلچر پایا جاتا ہے، جس میں جاگیردار یا قبائلی سردار Big Man) (The حکومت اور دوسرے پیروی کرتے ہیں۔
ایسے معاشروں میں پارلیمنٹ، انتخابات اور دوسرے جمہوری اداروں کو قائم کرنا عموماً پیچیدگی (chaos) کا باعث بنتا ہے۔ پاکستان میں مغرب کے یہ جمہوری ادارے (قومی اسمبلی، انتخابات، سیاسی جماعتیں وغیرہ) قائم توکر لیے گئے لیکن سیاسی جماعتیں نیچے (گراس روٹ لیول) سے پروان نہیں چڑھیں، بلکہ یہ کسی 'بڑے آدمی' (The Big Man) نے بنائیں یا قائم رکھیں اور 'رعایا' نے اس کی پیروی کی۔ اسی لیے پاکستان میں تمام سیاسی جماعتیں فرد واحد کے گرد گھومتی ہیں یا اس پر انحصار کرتی ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ سیاسی جماعتیں غیر جمہوری اور ذاتی بلکہ ایک شاہی خاندان کی طرح ہیں۔
سیاسی جماعتوں سے متعلق قوانین میں سیاسی جماعتوں کو جماعت کے اندر انتخابات کے لیے پابند کیا گیا ہے اور پارٹی سربراہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابات کے سات دن کے اندر الیکشن کمیشن میں نتائج جمع کرائے۔ سیاسی جماعتوں کے آئین میں بھی لکھا ہوتا ہے کہ پارٹی کے مختلف عہدے داروں کے انتخاب کا طریقہ کار کیا ہو گا، لیکن عملی طور پر ایسے زیادہ تر 'انتخابات' محض دکھاوے کے ہوتے ہیں، جن میں پارٹی سربراہ سمیت تمام عہدے داروں کے فیصلے کسی قسم کے انتخاب کے بغیر پہلے ہی کر لیے جاتے ہیں اور پارٹی کے عام اجلاس میں ان فیصلوں کی منظوری لے لی جاتی ہے۔
سیاسی جماعت کا بانی ہی جماعت کا صدر بنایا جاتا ہے، جس کے بغیر پارٹی صفر سمجھی جاتی ہے۔ اس طرح جماعت پر 'شاہی خاندان' کی طرح کنٹرول جاری رہتا ہے۔ اس ضمن میں جماعت اسلامی ایک استثنا ہے، جس میں جماعت کے محدود ارکان اپنی ترجیح کا اظہار کرتے ہیں اور اتفاق رائے سے ایک نام منتخب کیا جاتا ہے۔
پائیدار اور کمزور جمہوری روایات والے ممالک کے طرز سیاست میں واضح فرق ہے۔ مستحکم جمہوری روایات والے ممالک میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان اہم معاملات میں اختلاف رائے کے باوجود ایک دوسرے کی نیک نیتی کو پیش نظر رکھتے ہیں۔
جبکہ کمزور جمہوری روایات والے ممالک میں اس کے برعکس ہوتا ہے۔ یہاں منتخب نمائندے اپنے مخالفین کی ، جن سے وہ اختلاف رائے رکھتے ہیں، شدید مخالفت کرتے ہوئے کبھی ان پر قومی وقار کا سودا کرنے کا الزام لگاتے ہیں اور کبھی انہیں قومی خطرے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کو دو معاملات کی وجہ سے، جن کی جڑیں بہت گہری ہیں،نقصان پہنچا ہے۔ مذہب اور نسل پرستی نے عوامی نمائندوں کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا ، جس سے اسمبلی مباحثوں میں عدم برداشت اور عداوت کا چلن پیدا ہوا ہے۔
مستحکم جمہوری روایات والے ممالک میں یہ مضبوط روایت ہے کہ وہ انتخابی عمل کی شفافیت پر سوال اٹھاتے ہوئے اسے متنازعہ نہیں بناتے۔ دھاندلی کے بے بنیاد الزامات الیکشن پر اعتماد مجروح کرتے ہوئے پارلیمنٹ کا وقار کم کرتے ہیں، جس سے لوگوں کا جمہوریت پر یقین ختم ہو جاتا ہے۔ یہ کسی کو ستانے کی خواہش میں خود کو تباہ کردینے کے مترادف ہے۔
مزید براں جمہوریت کے بنیادی اجزا (سیاسی جماعتوں) میں نقائص اور نچلی سطح پر تنظیمی ڈھانچے (مقامی حکومتوں) کی کمزوری، یہ دو بڑے مسائل ہیں، جنہوں نے پاکستان کو توانا جمہوری روایات کے فروغ سے محروم رکھا ہے۔ تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ عوامی نمائندگی کے اداروں میں سیاسی جماعتوں اور ان سے منسلک روایات کے بغیر، چاہے نظام کو کتنی ہی احتیاط سے وضع کیوں نہ کیا جائے، ایک قابل عمل اور مستحکم جمہوریت کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔ علاوہ ازیں، قوم اور اس کے نمائندوں کو کچھ مشترکہ اقدار اور اصول ضرور تشکیل دینے چاہئیں، جو ملک کے جمہوری عقائد ہوں گے۔
جمہوریت کو ان انتہاپسند اور جذباتی رہنماؤں سے بھی خطرہ ہوتا ہے جو تمام معاشروں میں کسی نہ کسی وقت سامنے آتے رہتے ہیں۔ صرف سیاسی جماعتیں اور منظم شہری ہی ایسے آمرانہ رہنماؤں کا رستہ روک سکتے ہیں، جو جمہوری اداروں کو تباہ یا انہیں اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ منتخب آمر جمہوریت کو تہہ و بالا کرنے کے ساتھ عدلیہ اور دوسرے غیرجانبدار اداروں سے کھلواڑ کرتے ہیں، میڈیا اور نجی شعبے کو خرید لیتے ہیں یا انہیں مختلف ہتھکنڈوں سے دھمکا کر خاموش کرا دیا جاتا ہے۔
(ایس ایم ظفر کی کتاب "History of Pakistan Reinterpreted" سے ترجمہ کیا گیا)