سنہرے لوگ کامران ذیشان رضوی

پاکستان ٹریننگ انڈسٹری کی نام ور شخصیت

فوٹو : فائل

دُنیا کے مختلف ممالک میں کارپوریٹ ٹریننگ، پبلک اسپیکنگ اور لرننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کا شعبہ بہت وسیع اور مضبوط ہے۔ وہاں ادارے ریسرچ اور جدید نفسیات کے مطالعے کے نتیجے میں اس بات پر آمادہ ہیں کہ انسانی رویے سازگار ماحول کے اثرات اور تربیت کے عمل سے پروان چڑھتے ہیں۔

اس لیے تعلیمی اداروں سے لے کر کارپوریٹ سیکٹر تک ٹریننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کا شعبہ بہت وسیع اور سرگرم ہے، بلکہ وہاں سیلف ہیلپ اور پرسنل ڈویلپمنٹ ایک شعبہ بن چکا ہے جو زندگی کہ کئی شعبوں کے علاوہ، تحریر و تحقیق اور جدید میڈیا میں ایک انڈسٹری کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ کئی پبلک اسپیکر اور سیلف ہیلپ گرو کی زندگی پر فلمیں بن چکی ہیں۔

پاکستان میں بھی ٹریننگ انڈسٹری کا آغاز 60 اور 70 کی دہائی میں ہی ہو چکا تھا، جسے 80 کی دہائی میں عروج ملا۔ تاہم ایک شخصیت نے 90 کی دہائی میں اس انڈسٹری کو ایک منفرد پہچان اور نام دیا جس کی بدولت یہ انڈسٹری قابل قدر کام کر سکی بلکہ کارپوریٹ سیکٹر اور پبلک سیکٹر میں ایک بہتر مقام حاصل کر سکی۔ میری نظر میں اس سے قبل شاید ہی کو ئی پاکستان میں ایسا فرد ہو جس نے اپنے بل بوتے پر ٹریننگ کو بطور کیریئر اپنایا اور اسی شعبے سے نام، روزگار اور شہرت پائی۔

اس شخصیت نے نہ صرف ٹریننگ انڈسٹری کو دوام بخشا بلکہ اس کے لیے تعلیم و تربیت اور پروفیشنل انداز میں کام کرنے کے لیے ادارے بھی قائم کیے، جہاں ایک طرف تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع ہوا وہیں نئے ٹرینرز کے لیے روزگار کا بھی باقاعدہ انتظام کیا گیا، تاکہ وہ پروفیشنل زندگی کے تجربات اور ماحول سے ہم آہنگ ہو سکیں۔

ان اداروں نے ملک میں ایسے کئی شان دار نئے منصوبے اور تربیت کے پروگرام متعارف کروائے جو آنے والے وقتوں میں پاکستان کی تاریخ میں اہم سنگ میل ثابت ہوئے۔ ہم جس شخصیت کی زندگی، خدمات اور کام کے حوالے سے بات کریں گے وہ ہیں نام ور ٹرینر، اسپیکر، مصنف اور استاد کامران ذیشان رضوی۔

مجھے دادا کی ایک بات بہت یاد آتی ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ کہ بڑا انسان اپنے بڑے ہونے سے نہیں بلکہ اپنے ارد گرد موجود بڑے لوگوں کی وجہ سے بڑا ہوتا ہے۔ میری خوش قسمتی رہی ہے کہ مجھے اپنے پروفیشنل کیریئر میں اپنے شعبے کے نام ور اور بڑے لوگوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جس نے میری شخصیت، تجربے، سوچ اور زندگی کو دیکھنے کے نقطۂ نظر کو وسیع کر دیا ہے۔

میرے لیے یہ کسی اعزاز سے کم نہیں ہے کہ مجھے کامران رضوی کے ساتھ کام کرنے، اُن سے سیکھنے، اُن کے ساتھ سفر کرنے اور وقت گزارنے کا موقع ملا ہے۔

میری ان سے پہلی ملاقات 2016 میں ہوئی اور اِس وقت سے لے کر آج تک میرا ان سے علم، احساس اور محبت کا رشتہ قائم ہے۔ اس سے قبل کہ میں ان کہ بارے میں اپنی رائے کا مزید اظہار کروں اُن کی زندگی اور کارناموں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

کامران رضوی کہتے ہیں کہ ہمارے بچپن کے تجربات ہمارے نظریات اور رویوں کو تشکیل دیتے ہیں جو ہمیں اپنی دُنیا اور اپنے تجربات کو ایک خاص انداز میں دیکھنے اور تشریح کرنے میں مدد کرتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ میری ابتدائی زندگی میں میری والدہ کا بہت گہرا اثر رہا ہے۔ میں نے اپنی والدہ سے پُرعزم ہونے، قربانی دینے، وفاداری اور ظاہری نمود نمائش کو للکارنے کی ہمت اور قدر یں سیکھی ہیں۔

ہم سب بہن، بھائیوں کو اپنے خاندان کی طرف سے کافی پیار اور توجہ ملی، حالاںکہ اس وقت ہماری والدہ اپنی ازدواجی زندگی میں مشکلات کا سامنا کررہی تھیں۔ بڑی جدوجہد کے بعد وہ طلاق حاصل کر سکیں۔ لیکن ان مسائل نے ان کی گھریلو زندگی میں خلل نہ ڈالا اور ہمیں ایک اچھی زندگی دینے کے لیے وہ اپنے راستے سے ہٹ گئیں اور ایک مشکل سفر کا انتخاب کیا۔ اُنہوں نے بہت محدود وسائل میں بھی ہمیں بہترین زندگی کا ماحول فراہم کیا، کیوںکہ وہ ہم پر اور ہماری لامحدود صلاحیتوں پر یقین رکھتی تھیں۔

ہماری والدہ نے اپنے بچوں کی حفاظت کو یقینی بنایا اور طلاق کے بعد ہمیں اپنے پاس رکھا۔ 1969 میں اُنہوں نے دوبارہ شادی کی اور ہمارا خاندان دوبارہ مکمل ہوگیا۔ ہماری ماں اور باپ دونوں نے (میں اپنے باپ کو سوتیلا نہیں کہہ سکتا، کیوںکہ وہ ہمارے لیے ایک باپ سے بھی بڑھ کر تھے) بہترین اور معیاری اسکولوں سے ہمارا تعلیمی سلسلہ آگے بڑھایا۔

ان کی مسلسل راہ نمائی، محبت اور سختی سے ہم نے اچھی تعلیم حاصل کی اور بہترین کردار کے حامل ہو کر بڑے خاندان اور ان کے دوستوں کے حلقے کے ساتھ سماجی طور پر مشغول رہے۔ اگرچہ میں اپنی نوعمری میں بہت ہی شرمیلا تھا، تاہم بعدازآں میں نے اپنے اندر خوداعتمادی پیدا کی۔

میرے بچپن میں، میرے والد نے پی آئی اے میں کام شروع کیا، جہاں انہیں بیرون اور اندرون ملک مختلف اسٹیشنوں پر پوسٹ کیا گیا۔ اُن کے ان تبادلوں کے نتیجے میں، میں میٹرک کلاس تک پہنچنے پر گیارہ اسکول اور پانچ شہر بدل چکا تھا! جن میں کراچی، جنیوا، لاہور، ڈھاکا اور گھوڑا گلی شامل ہیں۔

مختلف اسکولوں کی مختلف ثقافتوں میں غیرمعمولی انداز میں شرکت کرنے سے مجھے بعد میں زندگی میں بہت مدد ملی، جس کی بدولت میں مختلف لوگوں اور حالات کو آسانی سے اپنانے کے قابل ہوگیا تھا۔

1972 میں ہمارا پورا خاندان لندن، برطانیہ منتقل ہوگیا۔ اس وقت میری عمر 14 سال تھی جب میں نے اپنی زندگی میں ''سول سوسائٹی'' کا پہلا حقیقی تجربہ حاصل کیا، جسے حقیقی طور پر ایک بہترین انسانی اور باشعور معاشرہ کہا جاسکتا ہے۔

میں نے انسانوں کے لیے احترام، قانون کی حکم رانی، اپنی باری کا انتظار کرنا، قطار میں لگنا اور اپنے ذاتی کام خود کرنا مثلاً اپنے برتن دھونا، اپنا بستر خود تیار کرنا اور اپنے جوتے خود پالش کرنا، سیکھا۔ یہاں مجھے ''محنت میں عظمت '' کو حقیقی معنی میں سیکھنے کا موقع ملا۔ لندن میں O اور A لیولز کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد، 1976 میں، میں نے بطور مینجمنٹ ٹرینی ''بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل (BCCI)'' ابوظبی، متحدہ عرب امارات سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔

گھر سے ایک سال کی دوری کے بعد میں 1977 میں لندن، واپس آیا اور اسی بینک کے ساتھ کام جاری رکھا، جہاں میری ایک بلند پایہ شخصیت آغا حسن عابدی مرحوم سے ملاقات ہوئی جو ایک ہمہ گیر اور دُوراندیش بصیرت کے حامل انسان تھے۔ اُن کے زندگی کے بارے میں نقطۂ نظر اور انتظامی فلسفے نے میری شخصیت پر گہرے مثبت اثرات چھوڑے ہیں۔

1981 میں، میرے والد نے مجھے ڈیل کارنیگی کورس سے متعارف کرایا۔ میں پہلے تو ہچکچا رہا تھا، لیکن وہ مجھے اس میں حصہ لینے کے لیے متحرک کررہے تھے تاکہ مجھے حقیقی دُنیا سے روشناس کروایا جائے۔

اس کورس کا انعقاد ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ہو رہا تھا۔ میں اس سوچ کے ساتھ کورس میں داخل ہوگیا کہ چلو ریفریشمنٹ بھی ہوجائے گی اور چند نئے اور دل چسپ لوگوں سے ملاقات بھی ہوجائے گی! خُدا کا شکر ہے کہ میں اس کورس میں شامل ہوا کیوںکہ اس نے میری زندگی کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔

کورس کے پہلے دن، 30 شرکاء تھے، جن میں سارے اینگلو سیکسن گورے تھے، اور میں واحد جنوبی ایشیائی تھا۔ کورس کا کمرا تھیٹر نما تھا، جس میں، میں ایک درمیانی گلی سے گزر رہا تھا اور یہ سوچ کر پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا تھا کہ لیکچر سنوں گا اور پھر یہاں سے چُپکے سے کھسک جاؤں گا۔ ایڈی روڈز نامی ٹرینر کلاس لے رہے تھے۔ اپنے استقبالیہ کلمات اور تعارف کے فوراً بعد پروگرام میں وقفے کے دوران انہوں نے اعلان کیا کہ تمام شرکا کو بولنے کا موقع ملے گا جس کا موضوع ہوگا ''میری زندگی کا سب سے یادگار دن۔''

میں وہاں سے بھاگنا چاہتا تھا۔ میں باہر نکلا تو دروازے کے پاس ڈیل کارنیگی ٹیم کے دو رضاکار کھڑے تھے۔ مجھ میں ان کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ اور کوئی راستہ بھی نہیں تھا! اب میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا اس پریشانی میں سوچ رہا تھا کہ میری باری کب آئے گی۔ تقریباً 15 چند منٹ بعد ایڈی نے میرا نام پکارا، ''کامران...!'' اس وقت میری حالت تقریباً مرنے والی تھی۔


پھر وہ کہتے ہیں ناں کہ میں مرتے مرتے بچا! ہمت کر کے اٹھا اور گھبراتا ہوا کلاس کے سامنے چلا گیا۔ میں نے کلاس کا سامنا تو کیا، مگر میری آنکھیں گھوم رہی تھیں۔ میرا منہ خشک ہوچکا تھا، دل بہت تیز دھڑک رہا تھا، ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ اگر میرا مثانہ کم زور ہوتا تو میں اپنی پتلون گیلی کر لیتا، اُس لمحے میں صرف چُھپنا چاہتا تھا۔

میرا دماغ بے ترتیب سوچوں سے چکرا رہا تھا۔ میں جو کچھ بھی ایک اناڑی کے طور پر بیان کر سکتا تھا، کیا لیکن جو کچھ بھی تھا، وہ ٹھیک ہی رہا ہوگا۔ ایڈی میرے لیے سب سے زیادہ حوصلہ افزائی کا سبب بنا، جب اس نے میری بات کو دوسروں سے تفصیل سے بیان کیا۔

جیسا اس نے مجھ سے پہلے دیگر شرکاء کے لیے بھی کیا تھا۔ جب میں اپنی کرسی پر واپس آیا تو میں نے مکمل راحت اور کام یابی کا احساس محسوس کیا۔ مجھے یاد ہے کہ اسی رات میں نے اپنے کورس کے تجربے کو اپنے والدین، بیوی، بھائی اور بہن کے ساتھ شیئر کیا تھا، جنہوں نے میری بات غور سے سنی!

اس دن 1981 سے، میری زندگی نے ایک مثبت موڑ لیا۔ میں نے ایک مثبت ذہنیت اختیار کر لی تھی۔ پُرعزم رویہ اور نئے اعتماد اور مہارت نے میری ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں میری بھرپور مدد کی۔

میں مؤثر کمیونیکیشن کے ذریعے تعلقات کو پروان چڑھانے میں بہتر ہوتا گیا۔ میں نے نئی میٹنگز کا انعقاد کرنا شروع کیا اور خوشی سے اپنے بینک میں بہتری کے لیے نئے منصوبوں کی قیادت کرنے کے لیے خود کو رضاکارانہ طور پر خدمات سرانجام دینے کے پیش کیا۔

میں اپنے کیریئر کے ان اہم لمحات کی طرف آتا ہوں جنہوں نے میرے قائدانہ انداز کو تشکیل دیا ہے۔ یہ وہ فیصلے ہیں جو ان برسوں کے سیاق و سباق میں پیش آئے تھے جو 1976 سے 1990 تک میری زندگی کے ناقابل تلافی سال تھے۔

مجھے بی سی سی آئی کے بانی چیئرمین مرحوم آغا حسن عابدی کی منفرد انتظامی فلسفے اور اختراعی سوچ کا سامنا کرنا پڑا۔ جب جولائی 1991 میں ایک معروف بین الاقوامی بینک کو فیڈرل ریزرو بینک (امریکی مرکزی بینک) کی ہدایت پر بند کردیا گیا۔ میری تعلیم وتربیت زیادہ تر میرے والد اور سرپرست کے ذریعے ہوئی اور مسٹر عابدی کے فلسفے نے میرے آئیڈیلزم کو بھرپور ہوا دی تھی۔

بی سی سی آئی میں میرے برسوں کے تجربے نے مجھے بہت کچھ سوچنا سکھایا، بلکہ میرے اندر ایک عالم گیر سوچ اور ایک عظیم الشان اور شان دار ویژن پیدا کیا۔ ایک ایسا ممکنہ فن، انسانیت کی خدمت کا جذبہ، اور وسیع پیمانے پر اشتراک اور دوسروں کو دینے کا جذبہ، یہ وہ تحائف ہیں جن سے قدرت نے ہم سب کو نوازا ہے۔

1985 میں حج کرتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ میں نے خود پر حق کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ پھر میں نے اپنی اس ''بیماری'' پر قابو پا لیا، اور جب میں نے آخر کار فیصلہ کر لیا تو خدا کے ساتھ اپنا ایمان دارانہ رشتہ بحال کرلیا۔ میں نے اکثر یہ کہا کرتا ہوں کہ ''میں نے حج 1985 میں کیا، لیکن 1987 میں گلاسگو میں خُدا سے ملا !''

جب میں یونیورسٹی آف اسٹریتھ کلائیڈ میں ایم بی اے کے آئندہ امتحانات کی تیاری کر رہا تھا تو میں انتہائی مایوسی کی حالت میں تھا۔ ایسا کوئی طریقہ نظر نہیں آرہا تھا کہ میں خود کو ان امتحانات کو کلیئر کرتے ہوئے دیکھ سکوں۔ جو ں جوں، امتحان کا مہینہ قریب آرہا تھا مجھ پر دباؤ بھی بڑھ رہا تھا۔

اپنی زندگی کی اس تاریک ترین گھڑی میں، مجھے روشن خیالی کی نئی اُمید ملی جب میں خُدا کی طرف متوجہ ہوا۔ میں نے اس کی موجودگی کو محسوس کیا۔ تب سے میرا ایمان غیرمتزلزل رہا ہے۔

چودہ سال بی سی سی آئی میں خدمات سرانجام دینے کے بعد جون 1990 میں، استعفیٰ دینا میرے لیے ایک بہت بڑا قدم تھا، کیوںکہ مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا کہ میں آگے کیا کروں گا! اس وقت میں ٹریننگ ڈپارٹمنٹ کا سربراہ تھا۔

1987 کے میامی اسکینڈل کے بعد عالمی تنازعے کی وجہ سے پیدا ہونے والا ہنگامہ دُنیا بھر کے میڈیا (الیکٹرانک اور پرنٹ) کے ذریعے منظرعام پر آیا اور چھے ماہ کے لیے برطانیہ میں بینک، بینک لیکویڈیٹرز کے ہاتھ میں تھا۔ 1987میں بینک میں چودہ ہزار سے زائد ملازمین تھے، جو ستانوے قومیتیں پر مشتمل تھے اور دنیا کے 72 ممالک میں کام کر رہے تھے۔

لندن اور دیگر جگہوں پر ریگولیٹرز کی طرف سے اعلیٰ قیادت کو ہلا کر رکھ دیا گیا تھا۔ بینک کے پاس عملی طور پر ایک ''سر کے بغیر چکن'' رہ گیا تھا۔ نئی تشکیل شدہ، بے چہرہ کمیٹیاں اور آڈیٹر روزانہ کی بنیاد پر جلدبازی میں فیصلے کر رہے تھے، جو بینک کی بنیادی اقدار کے خلاف تھے۔ میں نے ہمیشہ حتمی وفاداری، اقدار اور اصولوں کے ساتھ زندگی گزری جو ابدی ہیں۔

کوئی بھی ایک ادارہ اقدار پر اجارہ داری کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ مجھے یقین تھا کہ جب تک جیسا کہ میں اپنے اصولوں پر قائم ہوں، میں کبھی بھوکا نہیں رہوں گا۔ اس یقین نے مجھے ہمت دی۔ ایک دہائی سے زیادہ سروس کے بعد میں نے ایک محفوظ ملازمت چھوڑنے کا بڑا قدم اٹھایا۔

1991 میں کامران رضوی نے پاکستان میں ٹریننگ کا سلسلہ شروع کیا جس کے آغاز کی کہانی بڑی دل چسپ ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ان کی زندگی کا ایک اور حقیقی ذاتی اور اخلاقی چیلینج 1991 میں KZR کے قیام کے تین سال بعد آیا۔ 1994 KZR نے مارکیٹ میں ایک متاثر کن پروفائل حاصل کر لیا تھا۔ اس کے چار اعلیٰ ٹرینرز اور کنسلٹنٹس تھے۔

ہم پاکستان کی مارکیٹ میں ناقابل شکست نظر آرہے تھے۔ تاہم، دو لیڈ ٹرینرز کے رویے 'KZR Way' سے منسلک نہیں تھے۔ یہ میرے لیے آسان ہوتا کہ اس اندرونی خلش کو نظر انداز کرتے ہوئے سمجھوتا کرتا اور 'معمول کے مطابق کاروبار' جاری رکھتا، لیکن اس کے بجائے، میں نے استعفیٰ دے دیا۔

مارکیٹ کے منفی تاثر کے اس خطرے کے باوجود، شکر ہے، ہم بچ گئے، اور پہلے سے مزید بڑے ہوئے ہیں! اس فیصلے نے ہمارے لیے ایک سبقت قائم کی، جو کہ ان تنظیموں میں جاری ہے جنہیں KZR نے 21 ویں صدی میں جنم دیا ہے۔ کارنیلین ٹریننگ کمپنی اور اسکول آف لیڈرشپ (SoL) آج KZR کی میراث کی شان دار روشن مثالیں ہیں!

کامران رضوی ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں اور ان کی شخصیت کی کئی جہتیں اور پہلو ہیں، جس کا احاطہ ایک مضمون میں ممکن نہیں ہے۔ پاکستان کا شاید ہی کوئی بڑا ادارہ ہو جہاں انہیں ٹریننگ دینے اعزاز حاصل نہ ہوا ہو۔

اس وقت مارکیٹ میں پاکستان کے بے شمار نام ور ٹرینر ان کے شاگرد رہے ہیں، جس کی بدولت وہ پاکستانی ٹریننگ انڈسٹری کے حقیقی گرو اور استاد کہلاتے ہیں۔ میں نے کامران رضوی کی شخصیت سے بے شمار چیزیں سیکھی ہیں جو میرے لیے ناقابل فراموش تجربات اور اسباق ہیں، جن میں انسانوں کی بلا رنگ و نسل، مذہب، سماجی و معاشی حیثیت، انتظامی عہدے سے بالاتر ہوکر عزت کرنا اور انسانوں کو انسان سمجھ کر پیش آنا، اپنے خاندان، معاشرے اور ملک کے لیے کارآمد بننا شامل ہیں۔

کامران رضوی جیسے افراد ہی ہمارے معاشرے کے حقیقی اور سنہرے لوگ ہیں جن کی بدولت اس معاشرے میں تعلیم وتربیت، دوسروں کی بھلائی اور اجتماعی فلاح کا کام جاری ہے۔ زندہ معاشروں میں ایسے لوگوں کی قدر درحقیقت کی ان کی پہچان ہوتی ہے۔ کامران رضوی ہمارا سرمایہ اور پہچان ہیں جن پر ہمیں فخر ہے۔ ان کی زندگی اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ انسان کی عظمت اُس کے کردار سے ہوتی ہے۔
Load Next Story