سیاست میں منافقت

پی ٹی آئی والے اکثر یہی پوچھتے ہیں کہ ایک معمولی ملازم کیسے ارب پتی بن گیا اور اہم وزارتوں تک پہنچا

m_saeedarain@hotmail.com

سیاست کو کبھی عبادت سمجھا جاتا تھا اور لوگوں کی بلاامتیاز خدمت، ان کے کام آنے کے لیے سیاست کے شوقین سیاست کو خدمت خلق کا ذریعہ سمجھ کر سیاست میں آتے تھے اور اپنا نام بتاتے تھے مگر اب کئی عشروں سے مال بنانے کا نام سیاست ہے اور غریب سے امیر پھر امیر تر بننے کے لیے سیاست میں آیا جاتا ہے جس کے بعد کوئی انھیں نہیں پوچھتا کہ موٹرسائیکل پر سفر کرنے والوں کے پاس کروڑوں روپے مالیت کی پراڈو اور پجارو جیسی قیمتی گاڑیاں کہاں سے آگئیں، جو لوگ کچی آبادیوں اور پس ماندہ علاقوں میں رہتے تھے وہ مہنگے ترین علاقوں اور پوش علاقوں میں کیسے پہنچ گئے اور ان کے پاس دولت کی ریل پیل کیسے ہوگئی۔

پی ٹی آئی والے اکثر یہی پوچھتے ہیں کہ ایک معمولی ملازم کیسے ارب پتی بن گیا اور اہم وزارتوں تک پہنچا۔ ایم کیو ایم کے بانی نے جلسوں میں اعتراف کیا تھا کہ غریب آبادیوں میں رہنے والے ایم کیو ایم کے رہنما اب پوش علاقوں میں رہتے ہیں اور موٹرسائیکلوں پر سفر کرنے والوں کے پاس قیمتی گاڑیاں آگئی ہیں اور وہ کارکنوں سے دور ہو گئے ہیں۔

ایسا اعتراف بانی ایم کیو ایم کے سوا کسی نے نہیں کیا مگر بانی ایم کیو ایم سمیت امیر ترین ہو جانے والے کسی سیاستدان یا پارٹی رہنماؤں نے خود اپنے لیے کبھی نہیں بتایا کہ سیاست کی وہ کون سی برکت تھی جس کی وجہ سے اب وہ اس مقام پر پہنچے ہیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی اپنے دو مخالف سیاسی رہنماؤں کو برسوں سے چور ،ڈاکو قرار دیتے آ رہے ہیں اور پوچھتے رہے کہ لاہور میں ایک معمولی خاندان سے تعلق رکھنے والا خود سیاست میں آ کر وزیر بن کر ارب پتی کیسے بنا۔ جن لوگوں پر انھوں نے سیاست اور حکومت میں رہ کر اندرون ملک و بیرون ملک قیمتی جائیدادیں بنانے کا الزام لگایا انھوں نے کبھی کھلے عام جلسوں میں ان الزامات کا جواب نہیں دیا کہ سیاست اور حکومتوں میں رہ کر کیسے وہ امیر کبیر بنے بلکہ انھوں نے ان الزامات کو سیاسی الزام یا بعد میں سیاسی انتقام قرار دیا مگر امیر ترین ہو جانے کے ثبوت نہیں دیے۔

دوسروں کو چور، ڈاکو، کرپٹ اور ملک لوٹنے والے قرار دینے والے چیئرمین پی ٹی آئی کسی بہت دولت مند باپ کے نہیں سرکاری افسر کے بیٹے ہیں اور ان کی شہرت کرکٹ تھی جس کے باعث وہ 1996 میں سیاست میں آئے اور انھیں ایک منصوبے کے تحت ایمان دار سمجھ کر اقتدار میں لایا گیا اور پونے چار سالہ اقتدار میں رہ کر مالی مفادات کے حصول کے لیے اب ان پر بھی کیسز چل رہے ہیں اور ان پر بھی الزامات ہیں کہ انھوں نے توشہ خانہ، فارن فنڈنگ، القادر ٹرسٹ و دیگر ذرایع سے کروڑوں روپے کمائے۔ زمینیں اور پلاٹ حاصل کیے اور انھیں یہ سب سیاست میں آنے کے بعد حاصل ہوا۔


سیاست میں آ کر صرف یوسی چیئرمین بننے کے لیے اب کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ صوبائی اور قومی اسمبلی کا الیکشن جیتنے پر ایک ارب تک کے اخراجات ہو جاتے ہیں۔

سینیٹر بننے کے لیے ارکان اسمبلی کو کروڑوں میں خرید کر ان سے ووٹ لیے جاتے ہیں تب وہ مال دار سینیٹر بنتا ہے اور یوسی کونسلر بننے کے لیے لاکھوں روپے درکار ہوتے ہیں اور بلدیاتی اداروں سے ہی لوگ سیاست میں آتے ہیں جو جمہوریت کی نرسری کہلاتے ہیں اور بلدیاتی اداروں سے حکمرانی کی دنیا میں متعدد مثالیں موجود ہیں۔

سیاست میں جھوٹ تو عشروں سے شامل تھا بعد میں یہی سیاست منافقت بنی اور اب یہ منافقت انتہا پر پہنچ چکی ہے جس میں سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی اہم کردار بن چکی ہے۔ موجودہ سیاستدانوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو سیاسی مفاد کے لیے متعدد پارٹیاں بدل چکے ہیں اور ملک کی تمام بڑی پارٹیوں میں شامل بہت کم ایسے سیاستدان ہیں جنھوں نے اپنی آبائی پارٹی نہیں بدلی اور وہ سیاسی مفاد پرست اور منافق نہیں بلکہ نظریاتی لوگ ہیں۔

انھوں نے سیاست میں مال نہیں بنایا اب نواب زادہ نصر اللہ خان جیسے سیاستدان باقی نہیں رہے جو زمینیں فروخت کرکے سیاست کرتے تھے۔ منافق نہیں بلکہ ان کی سیاست عوام کے لیے اور خدمت خلق کے لیے ہوتی تھی۔ ایسے لوگوں نے سیاست میں گنوایا ہے کمایا کچھ نہیں۔

پی ٹی آئی ملکی سیاست میں تیسری سیاسی قوت بنی اور اسے 2018 میں جس طرح کامیاب کرایا گیا اس پر خود اس کے چیئرمین کو بھی حیرت تھی کیونکہ انھوں نے عوام سے جو وعدے کیے تھے ان پر عمل کے لیے نہ ان کے پاس ٹیم تھی نہ تجربہ نہ تیاری۔ ان کی حکومت چلوانے کی بہت کوشش کی گئی جو چیئرمین کی ضد نے کامیاب نہ ہونے دی۔

پی ٹی آئی میں دوسری پارٹیوں کے رہنماؤں کو جس طرح شامل کرایا گیا تھا وہ حکومت ختم ہوتے ہی الگ ہوگئے اور انھوں نے وفاداری کی یا موقع پرستی، یہ وقت بتائے گا ۔ سیاست میں منافقت کی انتہا ہے۔ منافقانہ سیاست کرنے والے سب کو پیچھے چھوڑ کر اب تنہائی کا شکار ہیں۔
Load Next Story