اسرائیلیوں کو نسل ختم ہونے کا خطرہ مردہ فوجیوں کے نطفے جمع کرنا شروع

حماس کے حملے میں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں پر اپنی نسل کی بقا کی فکر لاحق

حماس کے حملے میں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں پر اپنی نسل کی بقا کی فکر لاحق

اسرائیل میں حماس کے 7 اکتوبر کے حملے میں بڑے پیمانے پر یہودیوں کی ہلاکتوں پر خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی ہے۔

اس حملے نے جہاں اسرائیل میں لرزہ طاری کردیا ہے وہیں انہیں اپنی نسل کی بقا کی بھی فکر لاحق ہوگئی ہے۔ یہودیوں نے نسل آگے چلانے کے لیے اپنے مردہ اسرائیلی فوجیوں کے نطفے حاصل کرنے کی کوششیں شروع کردیں جس کے ذریعے بچوں کی پیدائش کو ممکن بنایا جائے گا۔

اسرائیلی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق 23 خاندانوں نے اپنے مردار اسرائیلی فوجیوں کے نطفے حاصل کرنے کےلیے حکومت کے پاس درخواستیں جمع کرائی ہیں۔

اسپرم بینک کے سربراہ نے بتایا کہ حماس کے حملے میں بڑی تعداد میں یہودیوں کی ہلاکت کے بعد سے ان کے پاس آنے والے درخواستوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس حوالے سے گلوکارہ شائی لی اتاری نے بھی اپنے شوہر یاہو وائینر کے نطفے کے حصول کے لیے درخواست جمع کرائی۔


اسرائیل میں کسی کی موت کے بعد اس کے نطفے کا حصول کا یہ عمل چار اسپتالوں رابن، شیبا، سوراسکی اور اسف ہاروفہ میں خصوصی طریقہ کار سے انجام دیا جاتا ہے ۔

اور پچھلے دو ہفتوں میں صرف ایک اسپتال رابن میں 6 پراسیجر کیے گئے ہیں جبکہ جنگ سے پہلے سال میں صرف ایک یا دو پراسیجیر ہوتے تھے۔ اس کافی مہنگے اور دشوار گزار سائنسی عمل کو اسرائیل میں مفت کیا جارہا ہے۔

رابن میڈیکل سنٹر میں اسپرم بینک کے سربراہ ڈاکٹر ایران آلتمین نے کہا کہ عموما موت کے 36 گھنٹوں میں نطفے کی بازیافت ہوسکتی ہے لیکن اس صورتحال میں اس کی مدت 72 گھنٹے بھی ممکن ہے۔

واضح رہے کہ یہودی اپنے نسل و نسب کے معاملے میں بہت زیادہ متشدد ہوتے ہیں اور اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے کی بجائے اسے نسل در نسل چلاتے ہیں۔
Load Next Story