ڈائیلاگ ڈائیلاگ ڈائیلاگ
سیاسی محاذ پر مختلف فریقین کے درمیان اختلافات کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہوتا ہے
سیاست، جمہوریت کا بنیادی مقصد ہی آگے کا راستہ تلاش کرنا ہوتا ہے، اسی بنیاد پر ہم مضبوط ریاستی نظام کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ کیونکہ محاذ آرائی، ٹکراؤ، دشمنیوں یا تعصب کی بنیاد پر ہم ترقی کم اور اپنے لیے برے حالات زیادہ پیدا کرتے ہیں۔
سیاسی محاذ پر مختلف فریقین کے درمیان اختلافات کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہوتا ہے۔ مسئلہ اختلافات یا ٹکراؤ کے ماحول کے پیدا ہونے کا نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ سنگین مسئلہ اختلافات کا ذاتی دشمنی میں تبدیل ہونا ہوتا ہے ۔
اس کی ایک بنیادی وجہ سیاسی معاملات کا حل ہم غیر سیاسی حکمت عملیوں یاا طاقت کے استعمال میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کسی وقت طاقت کی یہ حکمت عملی فوری نتیجہ دے دیتی ہے مگر یہ مستقل حل نہیں بلکہ اس سے معاملات سدھرنے کے بجائے خرابی کی طرف زیادہ جاتے ہیں ۔
ہماری سیاسی قوتیں کسی کی حمایت او رمخالفت میں غیر سیاسی حکمت عملیوں کو نہ صرف قبول کرتی ہیں بلکہ اس میں آگے بڑھ کر اپنا کردار بھی ادا کرتی ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارا سیاسی بحران ایک بڑے ریاستی بحران کی بھی عکاسی کرتا ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ ، عدلیہ ، بیوروکریسی اور سیاست دانوں کے درمیان ٹکراؤ کا ماحول ریاستی مفادات کے برعکس ہے ۔
عمومی طور پر منطق یہ ہی دی جاتی ہے کہ ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور مفاہمت ہی کی بنیاد پر آگے بڑھنا ہماری حکمت عملی کا حصہ ہے ۔لیکن عملی طور پر ہمارے طاقت کے مراکز ہوں یا سیاسی قوتیں ان کا مفاہمت کا ایجنڈ ا ہو یا مکالمہ کا، اس کا دائرہ کار محدود بھی ہوتا ہے اور یہ پسند وناپسند کی بنیاد چلتا ہے۔
مفاہمت ہو یا ڈائیلاگ اس کی کامیابی کی واحد کنجی کھلے ذہن کے ساتھ اس راستے کا انتخاب ہوتا ہے۔ جب تک ان معاملات کی کامیابی کے لیے ہم غیر مشروط مفاہمتی ایجنڈے یا کسی کو دبانے، مٹانے، کچلنے کو ہی بنیاد بنا کر ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کریں گے، مسائل حل نہیں ہوسکیں گے ۔
اس وقت ہماری سیاست ایک جمود کا شکار ہے ۔ سیاسی اختلافات اور سیاسی تلخیاں ایک دشمنی کی شکل اختیار کرچکے ہیں ۔ہر کوئی اس بحران کا حل '' ڈائیلاگ اور ڈائیلاگ کو بنیاد بنا کر قومی مفاہمت '' پر زور دے رہا ہے ۔لیکن اس خواہش کے باوجود ہمارے یہاں ہر طبقہ یا فریقین کی سطح پر مہم جو افراد ہیں جو ایڈونچرز کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔
وہ یہ منطق اور دلیل دیتے ہیں کہ سب کچھ طاقت سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔لیکن یہ سب لوگ بھول رہے ہیں کہ طاقت اور غیر سیاسی حکمت عملیوں کی بنیاد پر ہم کہاں کھڑے ہیں اور کیا واقعی ہم نے اپنے سیاسی اورمعاشی اہداف یا ریاستی نظام کی مضبوطی کی جانب قدم بڑھالیے ہیں۔
اگر ایسا ہوتا تو شاید آج یہاں کوئی بھی ڈائیلاگ کی بات نہ کرتا اور آگے کی طرف چل پڑتا۔ لیکن جو حالات کی سنگینی ہے، وہ ہمیں بار بار جنجھوڑ بھی رہی ہے اور انتباہ بھی کررہی ہے کہ اگر ہم نے درست حکمت عملی اختیار نہ کی اور بڑی قومی مفاہمت کو اپنے ایجنڈے کا حصہ نہ بنایا تو حالات کا کنٹرول ہم سے اور زیادہ دور چلا جائے گا ۔جو لوگ ایک دوسرے کو سبق سکھانے یا کچلنے کی بات کررہے ہیں ان کو ماضی کی سیاسی حکمت عملیوں کا ضرور جائز ہ یا تجزیہ کرنا ہوگا ۔
ایک طرف پاکستان مجموعی طور پر ایک مستحکم اور مضبوط سیاست سمیت معیشت کا نظام چاہتا ہے ۔ اس کے اردگرد کے داخلی ، علاقائی یا خارجی حالات اس سے تقاضہ کرتے ہیں کہ تدبر ، فہم وفراست اور ہوش مندی سے آگے بڑھو۔ لیکن ہم ہیں کہ سیاسی مہم جوئی اور بدلے یا انتقام کی سیاست سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں ہورہے۔
یہ کہنا کہ کس سے ڈائیلاگ ہوگا او رکس سے نہیں ہوگا او رکس کو سیاسی کھیل میں کھیلنے کا عملی اجازت ہوگی او رکس کو نہیں ہوگی یا کس کے لیے راستہ بنانا ہے او رکس کا راستہ روکنا ہے ، یہ مسئلہ کا حل نہیں۔ ڈائیلاگ ان ہی سے ہوں گے جو اپنی اپنی سطح پر سیاسی ، انتظامی ، قانونی اور اہم فیصلہ سازی کا کنٹرول رکھتے ہیں۔
ان طاقت ور فریقوں یا طبقوں کو نظرانداز کرکے ان کی جگہ کسی مصنوعی قیادت سے ڈائیلاگ کی خواہش مسئلہ کا حل نہیں بلکہ بگاڑ کا سبب بنے گی ۔ ہم نہ پہلے درست حکمت عملی اختیار کرسکے او رنہ ہی آج درست حکمت عملی اختیار کی جارہی ہے ۔ یہ مقابلہ بازی ، ضد بازی اور ردعمل کی حکمت عملی ہے اور اس کا نتیجہ بھی ردعمل پر مبنی سیاست او رمعیشت کی صورت میں دیکھنے کو ملے گا۔
ڈائیلاگ کی کامیابی کا راستہ اسی صورت میں نکلتا ہے جب ہم جذباتیت کے مقابلے میں ٹھراو اور تدبر کی سیاست کا راستہ اختیا ر کرتے ہیں یا ایک دوسرے کی قبولیت کے لیے تیار ہوتے ہیں ۔کیونکہ سیاسی حکمت عملی سیاسی فریقوں کو جوڑنے کا کھیل ہے نہ کہ ہم سیاسی فریقوں کو دیوار سے لگانے کی حکمت عملی اختیار کریں ۔
اسی طرح سیاسی فریقین سے نمٹنے کی حکمت عملی سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ یا نئی فرضی یا مصنوعی طور پر جماعتوں کی تشکیل سے نہیں جڑا ہوا۔ سیاسی جماعتیں غلطیاں کرتیں ہیں اور ان کو غلطیوں سے ہی سیکھ کر آگے بڑھنا ہے ۔لیکن اگر ہم ان کو غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنے کا راستہ نہیں دیں گے تو اس کے نتیجہ میںسیاسی انتشار کا پیدا ہونا یقینی ہوجاتا ہے ۔اس لیے آج بھی قومی سطح پر ہمیں ایک ''بڑے گرینڈ ڈائیلاگ'' کی ضرورت ہے ۔
اس ڈائیلاگ سے کسی کو باہر نکالنا یا اندر لانا نہیںبلکہ سب کو جمہوری , آئینی , قانونی اور سیاسی راستے کی طرف پلٹنا ہے ۔ انتخابات سے قبل اس کی شفافیت کو یقینی بنانا اور لیول پلینگ فیلڈ کا ماحول صرف پیدا ہی نہیں کرنا بلکہ اس کی واضح عکاسی سب کو نظر بھی آنی چاہیے ۔ہم بطور ریاست کسی بھی بڑی محاذ آرائی اور ٹکراؤ کے متحمل نہیں ہوسکتے اور نہ ہی یہ ہمارے سیاسی ایجنڈے کی حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہیے ۔
یہ جو سیاسی المیہ ہے کہ جب ایک سیاسی جماعت پر برا وقت آتا ہے تو باقی جماعتیں خوش یا ڈھول بجاکر اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل میں اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ کھڑی ہوجاتی ہیں ، جمہوری سیاست کے خلاف ہے ۔ یہ ہی کام 2018کے انتخابات کی صورت میں نواز شریف کی سیاست کے خلاف ہوا اور اب یہ ہی کام پی ٹی آئی کے خلاف ہورہا ہے۔
اس کا سب سے زیادہ عملی نقصان یہ ہورہا ہے کہ ہماری سیاست، جمہوریت، آئین اور قانون کی بالادستی کی جنگ پیچھے رہ گئی ہے ۔ جمہوری قوتیں کمزور اور غیر جمہوری قوتیں مضبوط ہورہی ہیں ۔ اس کی دیگر وجوہات میں ایک بڑی وجہ سیاسی جماعتوں کے درمیان باہمی تضادات یا ٹکراو کی حکمت عملی ہے جو کسی کو بھی مشترکہ حکمت عملی کی طرف لانے سے روکتی ہے ۔
سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادتوں کومشترکہ حکمت عملی کے تحت سیاسی و جمہوری راستہ اختیار کرنا ہے اور یہ ہی راستہ جمہوری قوتوں کے حق میں بھی ہوگا۔ یہ تاثر کہ پورے جمہوری نظام پر غیر سیاسی قوتوں کا کنٹرول ہوگیا ہے، درست تاثر نہیں ۔ سیاسی جماعتوں کا اسٹیبلیشمنٹ سے ٹکراؤ یا اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی جماعتوں سے ٹکراؤ دونوں حکمت عملی کارگر نہیں ہیں ۔
درست او رمستقل یا پائیدار سیاسی راستہ نکالنا ہے تو ہمارے پاس واحد آپشن ڈائیلاگ، ڈائیلاگ اور ڈائیلاگ ہی ہے ۔ اسی کو بنیاد بنا کر ہمیں حکمرانی کے مسائل کا علاج تلاش کرنا ہوگا۔ یہ ہی حکمت عملی آج کی جدید جمہوریت اور سیاست کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔
جہاں مکالمہ ، مفاہمت کو بنیاد بنا کر کچھ لو اور کچھ دو کی حکمت عملی کو اختیار کیا جاتا ہے ۔ اس کھیل میں کچھ لینے او ردینے کی بنیاد ذاتیات پر مبنی مفادات نہیں ہوتے بلکہ اس کے پیچھے اصل طاقت سیاسی اور جمہوری نظام کی کامیابی اور ریاستی سطح کے مفادات ہوتے ہیں ،جہاں عوام کو طاقت ور بنانا ہوتا ہے ۔
سیاسی محاذ پر مختلف فریقین کے درمیان اختلافات کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہوتا ہے۔ مسئلہ اختلافات یا ٹکراؤ کے ماحول کے پیدا ہونے کا نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ سنگین مسئلہ اختلافات کا ذاتی دشمنی میں تبدیل ہونا ہوتا ہے ۔
اس کی ایک بنیادی وجہ سیاسی معاملات کا حل ہم غیر سیاسی حکمت عملیوں یاا طاقت کے استعمال میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کسی وقت طاقت کی یہ حکمت عملی فوری نتیجہ دے دیتی ہے مگر یہ مستقل حل نہیں بلکہ اس سے معاملات سدھرنے کے بجائے خرابی کی طرف زیادہ جاتے ہیں ۔
ہماری سیاسی قوتیں کسی کی حمایت او رمخالفت میں غیر سیاسی حکمت عملیوں کو نہ صرف قبول کرتی ہیں بلکہ اس میں آگے بڑھ کر اپنا کردار بھی ادا کرتی ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارا سیاسی بحران ایک بڑے ریاستی بحران کی بھی عکاسی کرتا ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ ، عدلیہ ، بیوروکریسی اور سیاست دانوں کے درمیان ٹکراؤ کا ماحول ریاستی مفادات کے برعکس ہے ۔
عمومی طور پر منطق یہ ہی دی جاتی ہے کہ ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور مفاہمت ہی کی بنیاد پر آگے بڑھنا ہماری حکمت عملی کا حصہ ہے ۔لیکن عملی طور پر ہمارے طاقت کے مراکز ہوں یا سیاسی قوتیں ان کا مفاہمت کا ایجنڈ ا ہو یا مکالمہ کا، اس کا دائرہ کار محدود بھی ہوتا ہے اور یہ پسند وناپسند کی بنیاد چلتا ہے۔
مفاہمت ہو یا ڈائیلاگ اس کی کامیابی کی واحد کنجی کھلے ذہن کے ساتھ اس راستے کا انتخاب ہوتا ہے۔ جب تک ان معاملات کی کامیابی کے لیے ہم غیر مشروط مفاہمتی ایجنڈے یا کسی کو دبانے، مٹانے، کچلنے کو ہی بنیاد بنا کر ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کریں گے، مسائل حل نہیں ہوسکیں گے ۔
اس وقت ہماری سیاست ایک جمود کا شکار ہے ۔ سیاسی اختلافات اور سیاسی تلخیاں ایک دشمنی کی شکل اختیار کرچکے ہیں ۔ہر کوئی اس بحران کا حل '' ڈائیلاگ اور ڈائیلاگ کو بنیاد بنا کر قومی مفاہمت '' پر زور دے رہا ہے ۔لیکن اس خواہش کے باوجود ہمارے یہاں ہر طبقہ یا فریقین کی سطح پر مہم جو افراد ہیں جو ایڈونچرز کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔
وہ یہ منطق اور دلیل دیتے ہیں کہ سب کچھ طاقت سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔لیکن یہ سب لوگ بھول رہے ہیں کہ طاقت اور غیر سیاسی حکمت عملیوں کی بنیاد پر ہم کہاں کھڑے ہیں اور کیا واقعی ہم نے اپنے سیاسی اورمعاشی اہداف یا ریاستی نظام کی مضبوطی کی جانب قدم بڑھالیے ہیں۔
اگر ایسا ہوتا تو شاید آج یہاں کوئی بھی ڈائیلاگ کی بات نہ کرتا اور آگے کی طرف چل پڑتا۔ لیکن جو حالات کی سنگینی ہے، وہ ہمیں بار بار جنجھوڑ بھی رہی ہے اور انتباہ بھی کررہی ہے کہ اگر ہم نے درست حکمت عملی اختیار نہ کی اور بڑی قومی مفاہمت کو اپنے ایجنڈے کا حصہ نہ بنایا تو حالات کا کنٹرول ہم سے اور زیادہ دور چلا جائے گا ۔جو لوگ ایک دوسرے کو سبق سکھانے یا کچلنے کی بات کررہے ہیں ان کو ماضی کی سیاسی حکمت عملیوں کا ضرور جائز ہ یا تجزیہ کرنا ہوگا ۔
ایک طرف پاکستان مجموعی طور پر ایک مستحکم اور مضبوط سیاست سمیت معیشت کا نظام چاہتا ہے ۔ اس کے اردگرد کے داخلی ، علاقائی یا خارجی حالات اس سے تقاضہ کرتے ہیں کہ تدبر ، فہم وفراست اور ہوش مندی سے آگے بڑھو۔ لیکن ہم ہیں کہ سیاسی مہم جوئی اور بدلے یا انتقام کی سیاست سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں ہورہے۔
یہ کہنا کہ کس سے ڈائیلاگ ہوگا او رکس سے نہیں ہوگا او رکس کو سیاسی کھیل میں کھیلنے کا عملی اجازت ہوگی او رکس کو نہیں ہوگی یا کس کے لیے راستہ بنانا ہے او رکس کا راستہ روکنا ہے ، یہ مسئلہ کا حل نہیں۔ ڈائیلاگ ان ہی سے ہوں گے جو اپنی اپنی سطح پر سیاسی ، انتظامی ، قانونی اور اہم فیصلہ سازی کا کنٹرول رکھتے ہیں۔
ان طاقت ور فریقوں یا طبقوں کو نظرانداز کرکے ان کی جگہ کسی مصنوعی قیادت سے ڈائیلاگ کی خواہش مسئلہ کا حل نہیں بلکہ بگاڑ کا سبب بنے گی ۔ ہم نہ پہلے درست حکمت عملی اختیار کرسکے او رنہ ہی آج درست حکمت عملی اختیار کی جارہی ہے ۔ یہ مقابلہ بازی ، ضد بازی اور ردعمل کی حکمت عملی ہے اور اس کا نتیجہ بھی ردعمل پر مبنی سیاست او رمعیشت کی صورت میں دیکھنے کو ملے گا۔
ڈائیلاگ کی کامیابی کا راستہ اسی صورت میں نکلتا ہے جب ہم جذباتیت کے مقابلے میں ٹھراو اور تدبر کی سیاست کا راستہ اختیا ر کرتے ہیں یا ایک دوسرے کی قبولیت کے لیے تیار ہوتے ہیں ۔کیونکہ سیاسی حکمت عملی سیاسی فریقوں کو جوڑنے کا کھیل ہے نہ کہ ہم سیاسی فریقوں کو دیوار سے لگانے کی حکمت عملی اختیار کریں ۔
اسی طرح سیاسی فریقین سے نمٹنے کی حکمت عملی سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ یا نئی فرضی یا مصنوعی طور پر جماعتوں کی تشکیل سے نہیں جڑا ہوا۔ سیاسی جماعتیں غلطیاں کرتیں ہیں اور ان کو غلطیوں سے ہی سیکھ کر آگے بڑھنا ہے ۔لیکن اگر ہم ان کو غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنے کا راستہ نہیں دیں گے تو اس کے نتیجہ میںسیاسی انتشار کا پیدا ہونا یقینی ہوجاتا ہے ۔اس لیے آج بھی قومی سطح پر ہمیں ایک ''بڑے گرینڈ ڈائیلاگ'' کی ضرورت ہے ۔
اس ڈائیلاگ سے کسی کو باہر نکالنا یا اندر لانا نہیںبلکہ سب کو جمہوری , آئینی , قانونی اور سیاسی راستے کی طرف پلٹنا ہے ۔ انتخابات سے قبل اس کی شفافیت کو یقینی بنانا اور لیول پلینگ فیلڈ کا ماحول صرف پیدا ہی نہیں کرنا بلکہ اس کی واضح عکاسی سب کو نظر بھی آنی چاہیے ۔ہم بطور ریاست کسی بھی بڑی محاذ آرائی اور ٹکراؤ کے متحمل نہیں ہوسکتے اور نہ ہی یہ ہمارے سیاسی ایجنڈے کی حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہیے ۔
یہ جو سیاسی المیہ ہے کہ جب ایک سیاسی جماعت پر برا وقت آتا ہے تو باقی جماعتیں خوش یا ڈھول بجاکر اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل میں اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ کھڑی ہوجاتی ہیں ، جمہوری سیاست کے خلاف ہے ۔ یہ ہی کام 2018کے انتخابات کی صورت میں نواز شریف کی سیاست کے خلاف ہوا اور اب یہ ہی کام پی ٹی آئی کے خلاف ہورہا ہے۔
اس کا سب سے زیادہ عملی نقصان یہ ہورہا ہے کہ ہماری سیاست، جمہوریت، آئین اور قانون کی بالادستی کی جنگ پیچھے رہ گئی ہے ۔ جمہوری قوتیں کمزور اور غیر جمہوری قوتیں مضبوط ہورہی ہیں ۔ اس کی دیگر وجوہات میں ایک بڑی وجہ سیاسی جماعتوں کے درمیان باہمی تضادات یا ٹکراو کی حکمت عملی ہے جو کسی کو بھی مشترکہ حکمت عملی کی طرف لانے سے روکتی ہے ۔
سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادتوں کومشترکہ حکمت عملی کے تحت سیاسی و جمہوری راستہ اختیار کرنا ہے اور یہ ہی راستہ جمہوری قوتوں کے حق میں بھی ہوگا۔ یہ تاثر کہ پورے جمہوری نظام پر غیر سیاسی قوتوں کا کنٹرول ہوگیا ہے، درست تاثر نہیں ۔ سیاسی جماعتوں کا اسٹیبلیشمنٹ سے ٹکراؤ یا اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی جماعتوں سے ٹکراؤ دونوں حکمت عملی کارگر نہیں ہیں ۔
درست او رمستقل یا پائیدار سیاسی راستہ نکالنا ہے تو ہمارے پاس واحد آپشن ڈائیلاگ، ڈائیلاگ اور ڈائیلاگ ہی ہے ۔ اسی کو بنیاد بنا کر ہمیں حکمرانی کے مسائل کا علاج تلاش کرنا ہوگا۔ یہ ہی حکمت عملی آج کی جدید جمہوریت اور سیاست کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔
جہاں مکالمہ ، مفاہمت کو بنیاد بنا کر کچھ لو اور کچھ دو کی حکمت عملی کو اختیار کیا جاتا ہے ۔ اس کھیل میں کچھ لینے او ردینے کی بنیاد ذاتیات پر مبنی مفادات نہیں ہوتے بلکہ اس کے پیچھے اصل طاقت سیاسی اور جمہوری نظام کی کامیابی اور ریاستی سطح کے مفادات ہوتے ہیں ،جہاں عوام کو طاقت ور بنانا ہوتا ہے ۔