قانون سازی کے اعتبار سے پنجاب اسمبلی کا پہلا سال کیسا رہا
پنجاب حکومت نے رواں پارلیمانی سال کے دوران مجموعی طور پر 37 قوانین ایوان میں پیش کئے جن میں سے 13 بل قائمہ کمیٹیوں۔۔۔
SUKKUR:
پنجاب اسمبلی کا آٹھوان اجلاس جاری ہے اور30 مئی تک موجودہ اسمبلی کا پہلا پارلیمانی سال مکمل ہوجائے گا۔
اسمبلی کے پہلے پارلیمانی سال میں 24 قوانین منظور کئے گئے ہیں اور رواں پارلیمانی سال کے دوران ہی مزید چار بل پاس ہونے کا امکان ہے۔ اس وقت 13 قوانین مختلف قائمہ کمیٹیوں میں زیر التواء بھی ہیں۔ 2008 ء کی اسمبلی کے پہلے پارلیمانی سال کے دوران صرف چار بل منظور کئے گئے تھے تاہم پچھلے پانچ سال میں ریکارڈ قانون سازی ہوئی اور مجموعی طور پر 134 بل منظور ہوئے ان میں ایک پرائیویٹ بل بھی شامل ہے۔
پنجاب اسمبلی میں اس سے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور کی قانون سازی کا بھی ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ بھٹو دور میں 73ء کے آئین کے تحت نئے ادارے بنائے گئے تھے جس کے باعث ان اداروں کے قیام کیلئے نئی قانون سازی بھی کی گئی ۔ سابق دور میں اٹھارویں ترمیم کے تحت 18 وفاقی وزارتیں صوبوں کے حوالے کر دی گئیں جس وجہ سے صوبائی سطح پر کافی زیادہ قانون سازی ہوئی۔ پچھلی اسمبلی کے چوتھے اور پانچویں پارلیمانی سال کے دوران 91 بل منظور کئے گئے۔ ان میں چوتھے پارلیمانی سال میں 48 اور پانچویں سال میں 43 بل پاس ہوئے۔ اس قدر زیادہ قانون سازی کا کریڈٹ یقینا سپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال اور وزیر قانون رانا ثناء اللہ کو جاتا ہے۔
حکومت کی طرف سے صوبائی وزیر قانون وپارلیمانی امور رانا ثناء اللہ کی ایوان میں کارکردگی مثالی رہی، پنجاب حکومت نے رواں پارلیمانی سال کے دوران مجموعی طور پر 37 قوانین ایوان میں پیش کئے جن میں سے 13 بل قائمہ کمیٹیوں کے پا س ہیں جن کو ایوان میں پیش کردیا جائے گا۔ ان میں ایک پرائیویٹ بل بھی متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوایا گیا ہے۔ اسی سال پنجاب حکومت نے ویمن ڈے پر خواتین کو مناسب نمائندگی دینے کیلئے پنجاب اسمبلی میں اہم قانون سازی کی اور صوبہ کی 100 نمائندہ خواتین جنہوں نے اپنی فیلڈ میں اعلیٰ کارکردگی دکھائی ان کو اس موقع پر خصوصی طور پر ارکان اسمبلی کی گیلری میں بیٹھنے کی اجازت دی گئی۔
اس اسمبلی کے پہلے پارلیمانی سال کے دوران ارکان نے 41 تحاریک استحقاق جمع کروائیں جن میں سے 19 تحاریک منظور کر لی گئیں اور 4 مسترد کر دی گئیں ، 13 نمٹا دی گئیں اور11 استحقاق کمیٹی کے سپرد کر دی گئیں۔ پچھلی اسمبلی میں پہلے پارلیمانی سال کے دوران 99 استحقاق کی تحاریک جمع کروائی گئیں جن میں سے 73 منظور کی گئیں 26 مسترد ہوئیں، 52 نمٹا دی گئیں اور 21 کمیٹی کے سپرد کردی گئیں ۔ دراصل اس اسمبلی میں مسلم لیگ(ن) کے پاس دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت ہے جس کے باعث ان کے ارکان اسمبلی کی طرف سے تحاریک استحقاق جمع کروانے کا رجحان کم ہے۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال حکومت اور اپوزیشن سب کو ساتھ لے کر چلتے ہیں اور ارکان اسمبلی ان کا بہت احترام کرتے ہیں۔ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور بیرون ملک گئے ہیں جس پر وہ 25 مئی تک قائم مقام گورنر پنجاب ہیں ۔ ڈپٹی سپیکر شیر علی گورچانی قائم مقام سپیکر کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں، وہ پنجاب اسمبلی کے سب سے کم عمر ڈپٹی سپیکر ہیں، وہ سپیکر رانا محمدا قبال کی عدم موجودگی میں ایوان کو بہت بہتر انداز میںچلا رہے ہیں ۔ پہلے پارلیمانی سال کے دوران پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور استحقاق کمیٹی سمیت 39 قائمہ کمیٹیاں تشکیل دے دی گئی ہیں تاہم 3 مختلف سٹینڈنگ کمیٹیوں کے سربراہوں کا ابھی تک چناؤنہیں ہو سکا ۔ ایک سال کے دوران صرف 17 کمیٹیوں کے اجلاس ہو سکے۔ 22 قائمہ کمیٹیوں کا الیکشن کے بعد ایک بھی اجلاس نہیں ہوسکا۔ حکومت کو اس پر توجہ دینی چاہیے۔
اس ہفتے پنجاب اسمبلی کے پہلے دو روز کے اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کافی تناؤ دیکھنے میں آیا ۔ پنجاب میں مسلم لیگ(ق) کے پارلیمانی لیڈر چوہدری مونس الٰہی سوموار کے روز ایوان میں کافی عرصے بعد متحرک نظر آئے۔ انہوں نے نے صبح گیارہ بجے افواج پاکستان کی حمایت میں قرار داد جمع کروائی اور اجلاس شروع ہوتے ہی قائم مقام سپیکر شیر احمد گورچانی سے اس قرار داد کو آؤٹ آف ٹرن ایوان میں پیش کرنے کی اجازت طلب کی،اس پر قائم مقام سپیکر نے انہیں کہا کہ وہ وقفہ سوالات کے بعد یہ قرار داد پیش کرلیں لیکن چوہدری مونس الٰہی قرار داد پیش کرنے پر بضد رہے اس پر اپوزیشن کے دیگر ارکان بھی ان کے ساتھ بنچوں پر کھڑے ہوگئے اور شور مچانا شروع کردیا۔
صوبائی وزیر انسانی حقوق و اقلیتی امور خلیل طاہر سندھو نے کہا کہ بزنس ایڈوائزری کمیٹی میں یہ بات طے ہوچکی ہے کہ وقفہ سوالات کے بعد قرارداد پیش کی جائے گی اس لئے چودھری مونس الٰہی اپنی قرارداد وقفہ سوالات کے بعد پیش کریں ۔ ا س دوران صوبائی وزیر قانون و پارلیمانی امور رانا ثناء اﷲ بھی ایوان میں آگئے اور انہوں نے کہا کہ قرار داد افواج پاکستان کے حق میں ضرور منظور ہوگی لیکن اس کی آڑ میں کسی کو نوکری کی درخواست نہیں کرنے دیں گے۔ چوہدری مونس الٰہی نے بھی رانا ثناء اﷲ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ رانا ثناء اللہ تو ایسی باتیں کرتے ہیں جس سے نواز شریف خوش ہوں اور ان کی ٹکٹ پکی ہو ، اس پر اپوزیشن نے احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔اس دوران متفقہ قرارداد لانے کی بھی تجویز پیش کی گئی مگر اس حوالے سے کوشش کامیاب نہ ہوسکی، وزیرقانون رانا ثناء اللہ نے اپنی قرارد پیش کر دی اپوزیشن نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے اس قرارداد کی کاپی پھاڑ دی۔
حکومت نے ق لیگ کی قرار داد کو فارغ کرکے اپنی قرار داد منظور کروالی جس پر اپوزیشن نے احتجاج کرتے ہوئے بائیکاٹ کردیا۔ گزشتہ روز اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید الیکشن کمیشن کی تشکیل نو، بائیو میٹرک سسٹم اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کیلئے آوٹ آف ٹرن قرارداد پیش کرنا چاہتے تھے مگر قائم مقام سپیکر نے انہیں یہ قرارداد پیش کرنے کی اجازت نہیں دی، اس پر اپوزیشن نے ایوان کے اندر اور باہر شدید احتجاج کیا۔ جاری اجلاس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اپوزیشن کا فعال کردار نظر آیا، اسے بجٹ اجلاس تک اپنے اس جاندار کردار کو برقرار رکھنا چاہیے تاکہ حکومت کو پتہ چل سکے کہ اس کی اپوزیشن بھی موجود ہے۔
پنجاب اسمبلی کا آٹھوان اجلاس جاری ہے اور30 مئی تک موجودہ اسمبلی کا پہلا پارلیمانی سال مکمل ہوجائے گا۔
اسمبلی کے پہلے پارلیمانی سال میں 24 قوانین منظور کئے گئے ہیں اور رواں پارلیمانی سال کے دوران ہی مزید چار بل پاس ہونے کا امکان ہے۔ اس وقت 13 قوانین مختلف قائمہ کمیٹیوں میں زیر التواء بھی ہیں۔ 2008 ء کی اسمبلی کے پہلے پارلیمانی سال کے دوران صرف چار بل منظور کئے گئے تھے تاہم پچھلے پانچ سال میں ریکارڈ قانون سازی ہوئی اور مجموعی طور پر 134 بل منظور ہوئے ان میں ایک پرائیویٹ بل بھی شامل ہے۔
پنجاب اسمبلی میں اس سے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور کی قانون سازی کا بھی ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ بھٹو دور میں 73ء کے آئین کے تحت نئے ادارے بنائے گئے تھے جس کے باعث ان اداروں کے قیام کیلئے نئی قانون سازی بھی کی گئی ۔ سابق دور میں اٹھارویں ترمیم کے تحت 18 وفاقی وزارتیں صوبوں کے حوالے کر دی گئیں جس وجہ سے صوبائی سطح پر کافی زیادہ قانون سازی ہوئی۔ پچھلی اسمبلی کے چوتھے اور پانچویں پارلیمانی سال کے دوران 91 بل منظور کئے گئے۔ ان میں چوتھے پارلیمانی سال میں 48 اور پانچویں سال میں 43 بل پاس ہوئے۔ اس قدر زیادہ قانون سازی کا کریڈٹ یقینا سپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال اور وزیر قانون رانا ثناء اللہ کو جاتا ہے۔
حکومت کی طرف سے صوبائی وزیر قانون وپارلیمانی امور رانا ثناء اللہ کی ایوان میں کارکردگی مثالی رہی، پنجاب حکومت نے رواں پارلیمانی سال کے دوران مجموعی طور پر 37 قوانین ایوان میں پیش کئے جن میں سے 13 بل قائمہ کمیٹیوں کے پا س ہیں جن کو ایوان میں پیش کردیا جائے گا۔ ان میں ایک پرائیویٹ بل بھی متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوایا گیا ہے۔ اسی سال پنجاب حکومت نے ویمن ڈے پر خواتین کو مناسب نمائندگی دینے کیلئے پنجاب اسمبلی میں اہم قانون سازی کی اور صوبہ کی 100 نمائندہ خواتین جنہوں نے اپنی فیلڈ میں اعلیٰ کارکردگی دکھائی ان کو اس موقع پر خصوصی طور پر ارکان اسمبلی کی گیلری میں بیٹھنے کی اجازت دی گئی۔
اس اسمبلی کے پہلے پارلیمانی سال کے دوران ارکان نے 41 تحاریک استحقاق جمع کروائیں جن میں سے 19 تحاریک منظور کر لی گئیں اور 4 مسترد کر دی گئیں ، 13 نمٹا دی گئیں اور11 استحقاق کمیٹی کے سپرد کر دی گئیں۔ پچھلی اسمبلی میں پہلے پارلیمانی سال کے دوران 99 استحقاق کی تحاریک جمع کروائی گئیں جن میں سے 73 منظور کی گئیں 26 مسترد ہوئیں، 52 نمٹا دی گئیں اور 21 کمیٹی کے سپرد کردی گئیں ۔ دراصل اس اسمبلی میں مسلم لیگ(ن) کے پاس دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت ہے جس کے باعث ان کے ارکان اسمبلی کی طرف سے تحاریک استحقاق جمع کروانے کا رجحان کم ہے۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال حکومت اور اپوزیشن سب کو ساتھ لے کر چلتے ہیں اور ارکان اسمبلی ان کا بہت احترام کرتے ہیں۔ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور بیرون ملک گئے ہیں جس پر وہ 25 مئی تک قائم مقام گورنر پنجاب ہیں ۔ ڈپٹی سپیکر شیر علی گورچانی قائم مقام سپیکر کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں، وہ پنجاب اسمبلی کے سب سے کم عمر ڈپٹی سپیکر ہیں، وہ سپیکر رانا محمدا قبال کی عدم موجودگی میں ایوان کو بہت بہتر انداز میںچلا رہے ہیں ۔ پہلے پارلیمانی سال کے دوران پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور استحقاق کمیٹی سمیت 39 قائمہ کمیٹیاں تشکیل دے دی گئی ہیں تاہم 3 مختلف سٹینڈنگ کمیٹیوں کے سربراہوں کا ابھی تک چناؤنہیں ہو سکا ۔ ایک سال کے دوران صرف 17 کمیٹیوں کے اجلاس ہو سکے۔ 22 قائمہ کمیٹیوں کا الیکشن کے بعد ایک بھی اجلاس نہیں ہوسکا۔ حکومت کو اس پر توجہ دینی چاہیے۔
اس ہفتے پنجاب اسمبلی کے پہلے دو روز کے اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کافی تناؤ دیکھنے میں آیا ۔ پنجاب میں مسلم لیگ(ق) کے پارلیمانی لیڈر چوہدری مونس الٰہی سوموار کے روز ایوان میں کافی عرصے بعد متحرک نظر آئے۔ انہوں نے نے صبح گیارہ بجے افواج پاکستان کی حمایت میں قرار داد جمع کروائی اور اجلاس شروع ہوتے ہی قائم مقام سپیکر شیر احمد گورچانی سے اس قرار داد کو آؤٹ آف ٹرن ایوان میں پیش کرنے کی اجازت طلب کی،اس پر قائم مقام سپیکر نے انہیں کہا کہ وہ وقفہ سوالات کے بعد یہ قرار داد پیش کرلیں لیکن چوہدری مونس الٰہی قرار داد پیش کرنے پر بضد رہے اس پر اپوزیشن کے دیگر ارکان بھی ان کے ساتھ بنچوں پر کھڑے ہوگئے اور شور مچانا شروع کردیا۔
صوبائی وزیر انسانی حقوق و اقلیتی امور خلیل طاہر سندھو نے کہا کہ بزنس ایڈوائزری کمیٹی میں یہ بات طے ہوچکی ہے کہ وقفہ سوالات کے بعد قرارداد پیش کی جائے گی اس لئے چودھری مونس الٰہی اپنی قرارداد وقفہ سوالات کے بعد پیش کریں ۔ ا س دوران صوبائی وزیر قانون و پارلیمانی امور رانا ثناء اﷲ بھی ایوان میں آگئے اور انہوں نے کہا کہ قرار داد افواج پاکستان کے حق میں ضرور منظور ہوگی لیکن اس کی آڑ میں کسی کو نوکری کی درخواست نہیں کرنے دیں گے۔ چوہدری مونس الٰہی نے بھی رانا ثناء اﷲ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ رانا ثناء اللہ تو ایسی باتیں کرتے ہیں جس سے نواز شریف خوش ہوں اور ان کی ٹکٹ پکی ہو ، اس پر اپوزیشن نے احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔اس دوران متفقہ قرارداد لانے کی بھی تجویز پیش کی گئی مگر اس حوالے سے کوشش کامیاب نہ ہوسکی، وزیرقانون رانا ثناء اللہ نے اپنی قرارد پیش کر دی اپوزیشن نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے اس قرارداد کی کاپی پھاڑ دی۔
حکومت نے ق لیگ کی قرار داد کو فارغ کرکے اپنی قرار داد منظور کروالی جس پر اپوزیشن نے احتجاج کرتے ہوئے بائیکاٹ کردیا۔ گزشتہ روز اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید الیکشن کمیشن کی تشکیل نو، بائیو میٹرک سسٹم اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کیلئے آوٹ آف ٹرن قرارداد پیش کرنا چاہتے تھے مگر قائم مقام سپیکر نے انہیں یہ قرارداد پیش کرنے کی اجازت نہیں دی، اس پر اپوزیشن نے ایوان کے اندر اور باہر شدید احتجاج کیا۔ جاری اجلاس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اپوزیشن کا فعال کردار نظر آیا، اسے بجٹ اجلاس تک اپنے اس جاندار کردار کو برقرار رکھنا چاہیے تاکہ حکومت کو پتہ چل سکے کہ اس کی اپوزیشن بھی موجود ہے۔