کڑوی گولی شفا کب ہوگی
تھرپارکر میں وقفے وقفے سے قحط سالی کی وجہ سے ہزاروں انسان و حیوانی زندگی اور املاک تباہ و برباد ہوتی رہتی ہیں ۔۔۔
BAKU:
بچے ماں کے کپڑے کھینچ کھینچ کر اس سے دودھ مانگ رہے تھے بے بس ماں کچھ نہیں کر پا رہی تھی اس کی دانست میں ایک ہی راستہ باقی رہ گیا تھا کہ بچوں کو زندگی کی قید سے آزاد کر دیا جائے سو اس نے وہی کیا۔ باپ سے بچوں کا بھوک سے بلکنا دیکھا نہیں جا رہا تھا۔ اس نے بھی بچوں کو زندگی کی قید سے رہائی دلا دی ۔ بیروزگار شخص پورا دن سو روپے ادھار لینے کی خاطر دربدر ٹھوکریں کھانے کے بعد جب خالی ہاتھ گھر واپس پہنچا تو بھوک سے بلکتے بچوں کو دیکھ کر اس کے ضبط کا بند ٹوٹ گیا اس نے گنڈاسے کے ذریعے انھیں زندگی سے آزاد کرا دیا۔
دیکھنے والوں کی چیخیں نکل گئیں مگر ارباب اختیار کو کوئی جھرجھری تک محسوس نہ ہوئی۔ ایک باپ نے اسپتال سے اپنی بیوی کی میت گاؤں لے جانے کے اخراجات کے لیے اپنا بچہ فروخت کر ڈالا۔ ایک سرکاری اسکول کی بچی دوران تعلیم غش کھا کر گر پڑی تو راز افشا ہوا کہ اس کے گھر پر تین دنوں سے فاقہ تھا۔ سالہا سال سے اس قسم کے لاتعداد دلخراش واقعات آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں۔ حکمرانوں پر تو ایسے واقعات کا کوئی اثر نہیں ہوتا البتہ این جی اوز سے نمائشی ردعمل ضرور دیکھنے میں آ جاتا ہے۔
تھرپارکر میں وقفے وقفے سے قحط سالی کی وجہ سے ہزاروں انسان و حیوانی زندگی اور املاک تباہ و برباد ہوتی رہتی ہیں، حکومتیں امداد کی اپیلیں اور فوٹو سیشن کرتی ہیں۔ ملک و بیرون ملک پاکستانیوں اور عالمی اداروں سے ملنے والی رقوم سے متاثرین کی کچھ اشک شوئی ہو جاتی ہے۔ ان رقوم کا بھی ایک بڑا حصہ حکومت اور سرکاری اہلکاروں، سیاسی پارٹیوں اور این جی اوز کے اہلکار ہڑپ کر جاتے ہیں۔
انتظامی اور ناقص منصوبہ بندی کے بدترین واقعات سامنے آتے ہیں۔ کشمیر زلزلہ اور اندرون سندھ سیلاب کے متاثرین آج بھی بے یارومددگار اور بحالی کے منتظر بیٹھے ہیں۔ مسند اقتدار پر متمکن ہونے والا ہر حکمران عوام کو بتاتا ہے کہ اسے خزانہ خالی اور قرضوں کا بوجھ وراثت میں ملا ہے وہ اپنے اقتدار میں خزانہ بھر دے گا لیکن اس کے لیے عوام کو کچھ عرصے کے لیے سخت ترین حالات سے گزرنا پڑے گا۔ ملک و قوم کے مستقبل کی خاطر انھیں کڑوی گولی نگلنا ہو گی۔
ہر حکمران اور ہر مسیحا ہمیشہ ملک اور قوم کے مستقبل کی خاطر عوام کے لیے کڑوی گولی نگلنے کا نسخہ ہی تجویز کرتا ہے۔ لیکن مرض ہے کہ اس میں افاقے کی بجائے اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ غربت کی وجہ سے پاکستان میں لاوارث بچوں (اسٹریٹ چلڈرن) کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی ہے۔ پارکوں، سڑکوں، فٹ پاتھ اور چبوتروں پر سونے والوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے، بیروزگاری، لاقانونیت اور جرائم بڑھ رہے ہیں۔ متوسط طبقہ تو بری طرح پس کر رہ گیا ہے۔ جو اپنی عزت نفس اور سفید پوشی کو برقرار رکھنے کی آخری جنگ لڑ رہا ہے دوسری جانب ارباب اقتدار عارضی، نمائشی، قلیل مدتی منصوبے، وقتی ریلیف اور پیکیجز کے ذریعے نیک نامی اور شہرت حاصل کرنے اور اپنی تجوریاں بھرنے میں لگے رہتے ہیں۔
سیکریٹری خوراک کا کہنا ہے کہ ٹارگٹڈ سبسڈی نہ ہونے کی وجہ سے ارب پتی بھی سبسڈی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پاکستان قدرتی و انسانی وسائل سے مالا مال ملک ہے، دنیا میں گندم، گنا، کپاس، پھل، سبزیاں، گوشت و دیگر غذائی اجناس پیدا کرنے والے ممالک میں سرفہرست ملک ہے مگر اس کے باوجود اشیا خور و نوش عوام کی دسترس سے باہر ہیں ۔ کبھی آلو اسمگل ہونے لگتا ہے تو کبھی پیاز، آٹا اور چینی، کبھی انڈیا ناقص بیج کی کاشت کروا کر پاکستانی عوام کو اپنے ٹماٹر خریدنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ طورخم اور چمن کے راستے بلا روک ٹوک ترسیل کی خبریں بھی ارباب اختیار کی نظروں میں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔
انتہا درجے کی بدانتظامی، لوٹ مار، کرپشن، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم، زکوٰۃ اور ٹیکس کی رقوم میں بدعنوانیوں نے معاشی و معاشرتی ناہمواری کو فروغ دیا ہے امیر اور غریب کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے معاشی ثمرات غریب عوام تک نہیں پہنچ پا رہے ہیں۔ باوجود اس کے کہ موجودہ دور حکومت میں حصص کے کاروبار میں تیزی دکھائی دیتی ہے، آئی ایم ایف نے بھی حکومت کی اقتصادی و معاشی پالیسیوں پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مزید قرضہ دینے کی منظوری دے دی ہے، توانائی کے منصوبوں پر بھی کام ہو رہا ہے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری بھی ہو رہی ہے عوام کے لیے بلاسود قرضہ اسکیموں کا اجرا بھی کیا گیا ہے، معاشی اعشاریہ بھی بہتر ہو رہے ہیں، شرح نمو میں تیزی آ رہی ہے افراط زر میں کمی اور جی ڈی پی میں اضافے کی خبریں آرہی ہیں لیکن مہنگائی، بدامنی، بیروزگاری میں کمی اور عوام کی زندگیوں میں کوئی آسانی نظر نہیں آ رہی ہے۔
(ن) لیگ نے اقتدار میں آنے سے قبل دعویٰ کیا تھا کہ وہ قومی خزانہ اور اداروں کو لوٹنے والوں کا احتساب کرے گی اور لوٹی گئی دولت کی پائی پائی وصول کر کے قومی خزانے میں جمع کرے گی لیکن برسر اقتدار آنے کے بعد صورت حال یکسر مختلف نظر آ رہی ہے سابقہ دور سے میگا کرپشن کے جو مقدمات چل رہے تھے ان کی پیش رفت اور تحقیقات میں حکومت اور متعلقہ ادارے عدم دلچسپی، سرد مہری، غیر مستعدی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور سیاسی مصلحت اور دباؤ کا شکار نظر آ رہے ہیں کیونکہ کرپشن کی تحقیقات کے نتیجے میں سیاسی سرپرستوں پر ہاتھ ڈالنے سے سیاسی ماحول خراب ہونے اور حکومت ہاتھ سے چلے جانے کے امکانات کی وجہ سے حکمراں تذبذب اور تساہل کا شکار ہیں۔
گزشتہ دنوں قومی اسمبلی کو بتایا گیا کہ پاکستان نے سیاستدانوں، بیورو کریٹس اور سرمایہ داروں کے 200 ارب ڈالر سوئس بینکوں سے واپس لانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں ۔ حکومت غیر قانونی اثاثوں کی واپسی کے لیے 2010 کے ایکٹ کی مدد لینے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہی ہے، یہ قانون اب سوئس حکومت کو اجازت دیتا ہے کہ وہ سوئس بینک انڈسٹری میں جمع کردہ ناجائز طور پر حاصل کردہ رقم کے بارے میں خفیہ معلومات کا تبادلہ کر سکتی ہے۔ اس سلسلے میں وفاقی کابینہ پہلے ہی رقوم کی واپسی کے لیے ٹیکس معاہدے کی منظوری دے چکی ہے اس سلسلے میں پاکستانی وفد سوئٹزر لینڈ کا دورہ کرے گا۔ لیکن حکومت کی کمزور ساکھ کو دیکھتے ہوئے اس بات کی کم ہی توقع کی جا سکتی ہے کہ حکومت اس سلسلے میں کوئی انتہائی عملی قدم اٹھا سکے۔
وزیر خزانہ نے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں مہنگائی کے تناسب کے لحاظ سے اضافے کی جو نوید سنائی ہے وہ عملی طور پر ناممکن نظر آتی ہے۔ انھوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ڈالر کی قیمت مزید کم کر سکتے ہیں مگر ملکی مفاد کی خاطر ایسا نہیں کر رہے ہیں۔ بظاہر تو ڈالر کی قیمت میں کمی سے مالیاتی خسارے اور غیر ملکی قرضوں کے حجم میں کمی آئی ہے، پٹرول اور دیگر اشیا کی قیمتیں کم اور اس کا فائدہ عام شہری تک پہنچتا ہے مگر وہ کون سا ملکی مفاد ہے جو ڈالر میں کمی کر کے مہنگائی کی چکی میں پسے عوام کو ریلیف دینے سے مانع ہے؟ سمجھ سے قاصر ہے۔
قومی افق پر نظر آنے والے یا بتائے جانے والے معاشی ترقی کے اثرات کے ثمرات عوامی سطح تک کیوں نہیں پہنچ پا رہے ہیں، مہنگائی کا گراف بدستور اوپر کی جانب کیوں جا رہا ہے، امیر اور غریب کے درمیان خلیج کیوں بڑھتی جا رہی ہے، محض تنخواہ دار ملازمین اور صنعت کاروں پر ہی ٹیکسز کا سارا بوجھ کیوں لادا جا رہا ہے۔
حکمران طبقہ، سیاستدان اور جاگیرداروں کو ٹیکس کے زمرے میں لا کر ان سے وصولیاں کیوں نہیں کی جا رہیں جو سب سے زیادہ دنیاوی آسائشات، تعیشات اور سرکاری مراعات سے فیض یاب ہونے کے باوجود ٹیکس دینے کے معاملے میں مفلس و مسکین بن جاتے ہیں۔ متوسط طبقہ اپنی خودداری، عزت نفس اور سفید پوشی کا بھرم برقرار رکھنے کی جنگ میں بری طرح نڈھال ہو چکا ہے جس دن اس کی قوت برداشت جواب دے گی یا ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا تو ملک میں کیا صورت حال برپا ہو گی حکومت کو کم از کم اپنے مفاد کی خاطر ہی اس پہلو کو مدنظر رکھنا چاہیے۔
بچے ماں کے کپڑے کھینچ کھینچ کر اس سے دودھ مانگ رہے تھے بے بس ماں کچھ نہیں کر پا رہی تھی اس کی دانست میں ایک ہی راستہ باقی رہ گیا تھا کہ بچوں کو زندگی کی قید سے آزاد کر دیا جائے سو اس نے وہی کیا۔ باپ سے بچوں کا بھوک سے بلکنا دیکھا نہیں جا رہا تھا۔ اس نے بھی بچوں کو زندگی کی قید سے رہائی دلا دی ۔ بیروزگار شخص پورا دن سو روپے ادھار لینے کی خاطر دربدر ٹھوکریں کھانے کے بعد جب خالی ہاتھ گھر واپس پہنچا تو بھوک سے بلکتے بچوں کو دیکھ کر اس کے ضبط کا بند ٹوٹ گیا اس نے گنڈاسے کے ذریعے انھیں زندگی سے آزاد کرا دیا۔
دیکھنے والوں کی چیخیں نکل گئیں مگر ارباب اختیار کو کوئی جھرجھری تک محسوس نہ ہوئی۔ ایک باپ نے اسپتال سے اپنی بیوی کی میت گاؤں لے جانے کے اخراجات کے لیے اپنا بچہ فروخت کر ڈالا۔ ایک سرکاری اسکول کی بچی دوران تعلیم غش کھا کر گر پڑی تو راز افشا ہوا کہ اس کے گھر پر تین دنوں سے فاقہ تھا۔ سالہا سال سے اس قسم کے لاتعداد دلخراش واقعات آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں۔ حکمرانوں پر تو ایسے واقعات کا کوئی اثر نہیں ہوتا البتہ این جی اوز سے نمائشی ردعمل ضرور دیکھنے میں آ جاتا ہے۔
تھرپارکر میں وقفے وقفے سے قحط سالی کی وجہ سے ہزاروں انسان و حیوانی زندگی اور املاک تباہ و برباد ہوتی رہتی ہیں، حکومتیں امداد کی اپیلیں اور فوٹو سیشن کرتی ہیں۔ ملک و بیرون ملک پاکستانیوں اور عالمی اداروں سے ملنے والی رقوم سے متاثرین کی کچھ اشک شوئی ہو جاتی ہے۔ ان رقوم کا بھی ایک بڑا حصہ حکومت اور سرکاری اہلکاروں، سیاسی پارٹیوں اور این جی اوز کے اہلکار ہڑپ کر جاتے ہیں۔
انتظامی اور ناقص منصوبہ بندی کے بدترین واقعات سامنے آتے ہیں۔ کشمیر زلزلہ اور اندرون سندھ سیلاب کے متاثرین آج بھی بے یارومددگار اور بحالی کے منتظر بیٹھے ہیں۔ مسند اقتدار پر متمکن ہونے والا ہر حکمران عوام کو بتاتا ہے کہ اسے خزانہ خالی اور قرضوں کا بوجھ وراثت میں ملا ہے وہ اپنے اقتدار میں خزانہ بھر دے گا لیکن اس کے لیے عوام کو کچھ عرصے کے لیے سخت ترین حالات سے گزرنا پڑے گا۔ ملک و قوم کے مستقبل کی خاطر انھیں کڑوی گولی نگلنا ہو گی۔
ہر حکمران اور ہر مسیحا ہمیشہ ملک اور قوم کے مستقبل کی خاطر عوام کے لیے کڑوی گولی نگلنے کا نسخہ ہی تجویز کرتا ہے۔ لیکن مرض ہے کہ اس میں افاقے کی بجائے اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ غربت کی وجہ سے پاکستان میں لاوارث بچوں (اسٹریٹ چلڈرن) کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی ہے۔ پارکوں، سڑکوں، فٹ پاتھ اور چبوتروں پر سونے والوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے، بیروزگاری، لاقانونیت اور جرائم بڑھ رہے ہیں۔ متوسط طبقہ تو بری طرح پس کر رہ گیا ہے۔ جو اپنی عزت نفس اور سفید پوشی کو برقرار رکھنے کی آخری جنگ لڑ رہا ہے دوسری جانب ارباب اقتدار عارضی، نمائشی، قلیل مدتی منصوبے، وقتی ریلیف اور پیکیجز کے ذریعے نیک نامی اور شہرت حاصل کرنے اور اپنی تجوریاں بھرنے میں لگے رہتے ہیں۔
سیکریٹری خوراک کا کہنا ہے کہ ٹارگٹڈ سبسڈی نہ ہونے کی وجہ سے ارب پتی بھی سبسڈی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پاکستان قدرتی و انسانی وسائل سے مالا مال ملک ہے، دنیا میں گندم، گنا، کپاس، پھل، سبزیاں، گوشت و دیگر غذائی اجناس پیدا کرنے والے ممالک میں سرفہرست ملک ہے مگر اس کے باوجود اشیا خور و نوش عوام کی دسترس سے باہر ہیں ۔ کبھی آلو اسمگل ہونے لگتا ہے تو کبھی پیاز، آٹا اور چینی، کبھی انڈیا ناقص بیج کی کاشت کروا کر پاکستانی عوام کو اپنے ٹماٹر خریدنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ طورخم اور چمن کے راستے بلا روک ٹوک ترسیل کی خبریں بھی ارباب اختیار کی نظروں میں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔
انتہا درجے کی بدانتظامی، لوٹ مار، کرپشن، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم، زکوٰۃ اور ٹیکس کی رقوم میں بدعنوانیوں نے معاشی و معاشرتی ناہمواری کو فروغ دیا ہے امیر اور غریب کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے معاشی ثمرات غریب عوام تک نہیں پہنچ پا رہے ہیں۔ باوجود اس کے کہ موجودہ دور حکومت میں حصص کے کاروبار میں تیزی دکھائی دیتی ہے، آئی ایم ایف نے بھی حکومت کی اقتصادی و معاشی پالیسیوں پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مزید قرضہ دینے کی منظوری دے دی ہے، توانائی کے منصوبوں پر بھی کام ہو رہا ہے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری بھی ہو رہی ہے عوام کے لیے بلاسود قرضہ اسکیموں کا اجرا بھی کیا گیا ہے، معاشی اعشاریہ بھی بہتر ہو رہے ہیں، شرح نمو میں تیزی آ رہی ہے افراط زر میں کمی اور جی ڈی پی میں اضافے کی خبریں آرہی ہیں لیکن مہنگائی، بدامنی، بیروزگاری میں کمی اور عوام کی زندگیوں میں کوئی آسانی نظر نہیں آ رہی ہے۔
(ن) لیگ نے اقتدار میں آنے سے قبل دعویٰ کیا تھا کہ وہ قومی خزانہ اور اداروں کو لوٹنے والوں کا احتساب کرے گی اور لوٹی گئی دولت کی پائی پائی وصول کر کے قومی خزانے میں جمع کرے گی لیکن برسر اقتدار آنے کے بعد صورت حال یکسر مختلف نظر آ رہی ہے سابقہ دور سے میگا کرپشن کے جو مقدمات چل رہے تھے ان کی پیش رفت اور تحقیقات میں حکومت اور متعلقہ ادارے عدم دلچسپی، سرد مہری، غیر مستعدی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور سیاسی مصلحت اور دباؤ کا شکار نظر آ رہے ہیں کیونکہ کرپشن کی تحقیقات کے نتیجے میں سیاسی سرپرستوں پر ہاتھ ڈالنے سے سیاسی ماحول خراب ہونے اور حکومت ہاتھ سے چلے جانے کے امکانات کی وجہ سے حکمراں تذبذب اور تساہل کا شکار ہیں۔
گزشتہ دنوں قومی اسمبلی کو بتایا گیا کہ پاکستان نے سیاستدانوں، بیورو کریٹس اور سرمایہ داروں کے 200 ارب ڈالر سوئس بینکوں سے واپس لانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں ۔ حکومت غیر قانونی اثاثوں کی واپسی کے لیے 2010 کے ایکٹ کی مدد لینے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہی ہے، یہ قانون اب سوئس حکومت کو اجازت دیتا ہے کہ وہ سوئس بینک انڈسٹری میں جمع کردہ ناجائز طور پر حاصل کردہ رقم کے بارے میں خفیہ معلومات کا تبادلہ کر سکتی ہے۔ اس سلسلے میں وفاقی کابینہ پہلے ہی رقوم کی واپسی کے لیے ٹیکس معاہدے کی منظوری دے چکی ہے اس سلسلے میں پاکستانی وفد سوئٹزر لینڈ کا دورہ کرے گا۔ لیکن حکومت کی کمزور ساکھ کو دیکھتے ہوئے اس بات کی کم ہی توقع کی جا سکتی ہے کہ حکومت اس سلسلے میں کوئی انتہائی عملی قدم اٹھا سکے۔
وزیر خزانہ نے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں مہنگائی کے تناسب کے لحاظ سے اضافے کی جو نوید سنائی ہے وہ عملی طور پر ناممکن نظر آتی ہے۔ انھوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ڈالر کی قیمت مزید کم کر سکتے ہیں مگر ملکی مفاد کی خاطر ایسا نہیں کر رہے ہیں۔ بظاہر تو ڈالر کی قیمت میں کمی سے مالیاتی خسارے اور غیر ملکی قرضوں کے حجم میں کمی آئی ہے، پٹرول اور دیگر اشیا کی قیمتیں کم اور اس کا فائدہ عام شہری تک پہنچتا ہے مگر وہ کون سا ملکی مفاد ہے جو ڈالر میں کمی کر کے مہنگائی کی چکی میں پسے عوام کو ریلیف دینے سے مانع ہے؟ سمجھ سے قاصر ہے۔
قومی افق پر نظر آنے والے یا بتائے جانے والے معاشی ترقی کے اثرات کے ثمرات عوامی سطح تک کیوں نہیں پہنچ پا رہے ہیں، مہنگائی کا گراف بدستور اوپر کی جانب کیوں جا رہا ہے، امیر اور غریب کے درمیان خلیج کیوں بڑھتی جا رہی ہے، محض تنخواہ دار ملازمین اور صنعت کاروں پر ہی ٹیکسز کا سارا بوجھ کیوں لادا جا رہا ہے۔
حکمران طبقہ، سیاستدان اور جاگیرداروں کو ٹیکس کے زمرے میں لا کر ان سے وصولیاں کیوں نہیں کی جا رہیں جو سب سے زیادہ دنیاوی آسائشات، تعیشات اور سرکاری مراعات سے فیض یاب ہونے کے باوجود ٹیکس دینے کے معاملے میں مفلس و مسکین بن جاتے ہیں۔ متوسط طبقہ اپنی خودداری، عزت نفس اور سفید پوشی کا بھرم برقرار رکھنے کی جنگ میں بری طرح نڈھال ہو چکا ہے جس دن اس کی قوت برداشت جواب دے گی یا ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا تو ملک میں کیا صورت حال برپا ہو گی حکومت کو کم از کم اپنے مفاد کی خاطر ہی اس پہلو کو مدنظر رکھنا چاہیے۔