ڈراؤنی فلمیں صحت کے لیے مفید ثابت ہوسکتی ہیں ماہرین
ڈراؤنی فلمیں دماغ میں ایسے کیمیا کے اخراج کا سبب بنتی ہیں جو ذہنی دباؤ کو کم کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں
ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ ڈراؤنی فلمیں صحت کے لیے مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق ہالی ووڈ فلموں ''دی ایگزورسسٹ'' یا ''دی نن'' جیسی دیگر ڈراؤنی فلمیں دماغ میں ایسے کیمیا کے اخراج کا سبب بنتی ہیں جو ذہنی دباؤ کو کم کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔
ایڈنبرا کی کوئن مارگریٹ یونیورسٹی کی نیورو سائیکولوجسٹ ڈاکٹر کرسٹن نولیس کے مطابق ڈراؤنی فلمیں انڈورفِنز اور ڈوپیمائن کی پیداوار میں مدد دیتی ہیں جو خوشی کے احساس اور دباؤ سے نجات سے تعلق رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ ڈراؤنی فلمیں دیکھنے کی وجہ سے خارج ہونے والے اینڈورفِن درد برداشت کرنے کی صلاحیت میں بہتری لاسکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ خوف اور تجسس کے ردِ عمل میں ہمارا جسم ایڈرینیلن ہارمونز کی پیداوار کو بڑھا دیتا ہے جو جسم کے توانائی کے ذرائع کو حرکت دیتے ہیں، اس کے ساتھ دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے اور توجہ یکسو ہوجاتی ہے، فلم کے اختتام میں جب تناؤ ختم ہوتا ہے تو یہ کیفیت خوشی میں بدل جاتی ہے، مثال کے طور پر اسکائی ڈائیونگ جو خوف ناک ہونے کے ساتھ پُر لطف بھی ہوتی ہے۔
سائیکالوجسٹ کے مطابق اینڈورفنز وہ ہارمون ہوتے ہیں جنہیں جسم ہمیں خوشی محسوس کرنے کے لیے بناتا ہے، دماغ یہ ہارمون کھانے اور ورزش کے دوران بنانے کے ساتھ تکلیف اور دباؤ کے احساس پر بھی بناتا ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق ہالی ووڈ فلموں ''دی ایگزورسسٹ'' یا ''دی نن'' جیسی دیگر ڈراؤنی فلمیں دماغ میں ایسے کیمیا کے اخراج کا سبب بنتی ہیں جو ذہنی دباؤ کو کم کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔
ایڈنبرا کی کوئن مارگریٹ یونیورسٹی کی نیورو سائیکولوجسٹ ڈاکٹر کرسٹن نولیس کے مطابق ڈراؤنی فلمیں انڈورفِنز اور ڈوپیمائن کی پیداوار میں مدد دیتی ہیں جو خوشی کے احساس اور دباؤ سے نجات سے تعلق رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ ڈراؤنی فلمیں دیکھنے کی وجہ سے خارج ہونے والے اینڈورفِن درد برداشت کرنے کی صلاحیت میں بہتری لاسکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ خوف اور تجسس کے ردِ عمل میں ہمارا جسم ایڈرینیلن ہارمونز کی پیداوار کو بڑھا دیتا ہے جو جسم کے توانائی کے ذرائع کو حرکت دیتے ہیں، اس کے ساتھ دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے اور توجہ یکسو ہوجاتی ہے، فلم کے اختتام میں جب تناؤ ختم ہوتا ہے تو یہ کیفیت خوشی میں بدل جاتی ہے، مثال کے طور پر اسکائی ڈائیونگ جو خوف ناک ہونے کے ساتھ پُر لطف بھی ہوتی ہے۔
سائیکالوجسٹ کے مطابق اینڈورفنز وہ ہارمون ہوتے ہیں جنہیں جسم ہمیں خوشی محسوس کرنے کے لیے بناتا ہے، دماغ یہ ہارمون کھانے اور ورزش کے دوران بنانے کے ساتھ تکلیف اور دباؤ کے احساس پر بھی بناتا ہے۔