ٹیکسز میں اضافہ اور غیر فعال معاشی پالیسیاں

وفاقی کابینہ نے گیس کی قیمتوں میں 193 فی صد تک اضافے کی منظوری دیدی ہے

وفاقی کابینہ نے گیس کی قیمتوں میں 193 فی صد تک اضافے کی منظوری دیدی ہے۔ فوٹو: فائل

وفاقی کابینہ نے گیس کی قیمتوں میں 193 فی صد تک اضافے کی منظوری دیدی ہے جب کہ صنعتی اور سی این جی صارفین کے لیے مجوزہ نرخوں میں مزید ایڈجسٹ منٹس کی گئی ہیں۔ اس فیصلے کے تحت رواں مالی سال کے دوران صارفین سے 350 ارب روپے اضافی وصول کیے جائیں گے۔

دوسری جانب اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں اضافہ نہ کرتے ہوئے اسے 22 فیصد کی سطح پر برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے اور ایک بار پھر مہنگائی میں کمی کی امید ظاہر کی ہے۔

پاکستان کی حکومتوں کی غیردانشمندانہ پالیسیوں نے ملک کو قرضوں کے جال میں پھنسا دیا ہے، جہاں پرانے قرض کو ادا کرنے کے لیے مزید قرض لینا پڑتا ہے اور ملک کو آئی ایم ایف کی ایک سے دوسری قسط کے حصول تک آس و امید اور مہنگائی کے درمیان چھوڑ دیا گیا ہے۔

معاشی بحران اور ٹیکسز میں اضافے کا سب سے اہم عنصر غیر فعال معاشی پالیسیاں ہیں، جن پر طویل عرصے سے عمل کیا جا رہا ہے۔ 1980 سے لے کر اب تک تقریباً ہر حکومت نے معیشت کے حوالے سے غیر ذمے دارانہ انداز میں کام کیا جس کی وجہ سے ملک کی معیشت کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے۔

ملک کو بار بار ایسے مالیاتی بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو دائمی خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ پچھلی کئی دہائیوں تک، بچت اور سرمایہ کاری کی کم سطح کے ساتھ ملک کے مسائل کو حل کرنے میں ناکامی کا مطلب ہے کہ حکومت قومی اخراجات اور ملک کے بیرونی کھاتوں میں بھاری خسارے کا شکار رہی ہے۔

اس قسم کے معاشی انتظام کو یکے بعد دیگرے فوجی اور سول حکومتوں نے تقویت دی، ایک بار پھر حکمران اشرافیہ نے معیشت کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ملک کے دائمی مالیاتی عدم توازن کے شناختی ذرایع ابھی تک بے توجہ رہے ہیں۔ پاکستان کی معیشت تاحال مالیاتی بحران کے لپیٹ میں ہے، زرمبادلہ کے ذخائر محدود ہو چکے ہیں، مہنگائی عروج پر ہے، بجلی کی قیمت عوام پر ناقابل برداشت بوجھ ڈال رہی ہے۔

پٹرول کی قیمت میں مجموعی طور پر 48 روپے فی لٹر کی خاطر خواہ کمی سے عوام نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ ڈالر کی قیمت تقریباً پچاس روپے تک کم ہوچکی ہے اور ابھی روزانہ کی بنیاد پر کم ہو رہی ہے۔ فی الوقت تو یہ ایک معجزہ ہی لگتا ہے کہ بغیر معاشی سرگرمیوں میں کوئی انقلابی تبدیلی لائے صرف انتظامی اقدامات سے ڈالر سستا ہو گیا ہے۔

ڈالر سستا ہوا تو پٹرول اور ڈیزل بھی سستے ہوگئے۔ یہ بات لمحہ فکریہ ہے کہ سابقہ حکومت کے دور میں، ڈالر ان کے قابو آیا اور نہ پٹرول کے نرخ ہی کم کر سکے۔ مہنگائی کی شرح 37 فیصد تک پہنچا دی اور غربت کو آسمان پر پہنچا دیا۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ گورننس کی کمی تھی جس کے نتیجے میں ہر شعبہ آزاد ہو گیا تھا۔

چینی مافیا اپنا کام دکھا رہا تھا، ڈالر بیچنے اور خریدنے والے اپنی دنیا میں مگن ہو چکے تھے۔ ہر طرف افراتفری مچی ہوئی تھی، اگرچہ یہ کوئی حل نہیں کہ ایک نگران حکومت بٹھا کر معاملات کو سیدھا کیا جائے، اب یہ سوال زیادہ شدت کے ساتھ پوچھا جا رہا ہے کہ جب ڈالر پچاس روپے نیچے آ گیا ہے، اب پٹرول اور ڈیزل بھی سستے ہوگئے ہیں۔

ذخیرہ اندرون کے خلاف کارروائیاں بھی جاری ہیں تو ان کے اثرات معیشت پر کیوں نہیں مرتب ہو رہے۔ کیا وجہ ہے کہ مہنگائی بڑھتی ہی جا رہی ہے؟ مہنگائی مافیا کے کاریگر ڈالر اور پٹرول و ڈیزل کے نرخوں میں اضافے پر تو فوراً قیمتیں بڑھا دیتے ہیں لیکن جب ان کی قیمت کم ہوتی ہے۔ تو ان پر ذرہ بھر اثر نہیں ہوتا ، کیا اس سے ادویات سستی ہوئیں، موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں کم قیمت پر بکنے لگیں؟ اشیائے خورونوش پر اس کا کوئی اثر پڑا؟ ۔ پہلے ادویات کی قیمتیں بڑھانے سے پہلے ڈریپ سے منظوری لی جاتی تھی۔

اب روزانہ کی بنیاد پر قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ، جائزہ لیا جائے کہ پچھلے چھ ماہ کے عرصے میں کس کس میڈیسن کی قیمت کتنی بڑھائی گئی، اس کی قیمت بڑھانے کا فارمولا کیا رکھا گیا ؟ اس وقت عام آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور اس کے لیے ادویات خریدنا ممکن نہیں رہا۔ نگران وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس بات پر بھی توجہ دیں کہ مہنگائی کے ریلیف کے لیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں


۔ صرف ڈالر کی قیمت میں کمی اور پٹرول سستا کرنے سے بات نہیں بنے گی جب تک مصنوعی مہنگائی پیدا کرنے والوں کے خلاف بھی موثر کارروائی نہیں کی جاتی۔

ملک قرض تلے دبا ہوا ہے وزراء اور دیگر افراد جو سرکاری اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں انھیں سادگی اختیار کرنی چاہیے کم از کم اتنا تو ضرور کر سکتے ہیں کہ باہر سے مہنگی گاڑیاں نہ منگوائیں جو گاڑیاں اپنے ملک میں دستیاب ہیں انھی پر سفر کریں اس طرح زرِمبادلہ کی بھی بچت ہوگی اور پٹرول بھی کم خرچ ہوگا اس کا اطلاق پورے ملک میں ہونا چاہیے باہر سے گاڑیاں آنا بند ہونا چاہیے۔ بجلی کے بلوں کی ادائیگی اعلیٰ سرکاری عہدیداران کو بھی کرنی چاہیے ریٹائرمنٹ سے پہلے بھی اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی۔

پاکستان میں ٹیکسز میں اضافے، بجلی اور گیس کے نرخوں میں مزید اضافے مے مہنگائی کی شدت نے نہ صرف عام آدمی کی مشکلات کو بڑھا دیا ہے بلکہ مڈل کلاس طبقے کے لیے بھی سفید پوشی قائم رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

اسی تناظر میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں معاشی بدحالی کے سبب مڈل کلاس کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہو رہی ہے۔

معاشی بدحالی نے پاکستان میں مڈل کلاس کی تعداد گھٹا دی ہے، اور مڈل کلاس کی شرح 42 فی صد سے کم ہو کر 33 فی صد رہ گئی ہے، کسی بھی معاشرے میں مڈل کلاس ملک کی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستان کی صورت حال یہ ہے کہ افراط زر سے غربت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

پاکستان میں امیر طبقہ اوسطا اپنی آمدن کا 20 سے 30 فی صد حصہ خوراک پر خرچ کرتا ہے، دوسری جانب متوسط اور غریب طبقے کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنی آمدن کا 70 سے 80 فی صد حصہ خوراک ہی پر خرچ کرتی ہے۔

ملک میں جاری معاشی بدحالی اور روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں اضافے اور بے روز گاری نے مڈل کلاس کو بری طرح متاثر کیا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم سے امیر مزید امیر ہوتا جا رہا ہے۔

اگر یہی حالات رہے تو کچھ ہی عرصے میں مزید 2 کروڑ کے قریب لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ کسی بھی معاشرے میں مڈل کلاس وہ طبقہ ہے جو معیشت اور معاشرت دونوں معاملات میں فروغ کے حوالے سے مرکزی کردار ادا کرتا ہے، ماہرین کا خیال ہے کہ جتنا بڑا متوسط طبقہ ہوگا اتنی ہی اس کی معیشت میں ترقی ہوگی۔

ہمارے ترقی نہ کرنے کی ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ طلبا جو اچھے نمبروں سے امتحان میں کامیابی حاصل کرتے ہیں مگر وطن ِعزیز میں ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے ملک سے باہر چلے جاتے ہیں اور ان کی صلاحیتوں سے دیار ِغیر کے لوگ مستفید ہوتے ہیں، اگر یہ طلبہ اپنے ملک کی خدمات پر مامور کیے جاتے تو یقینا وطنِ عزیز کے لیے ترقی کا باعث ہوتے، ان میں زیادہ تر ڈاکٹرز اور انجینئرز ہیں۔

ان طلبا کو وطنِ عزیز میں ملازمتیں نہ ملنے کی وجہ ان کی بد نصیبی نہیں تو اور کیا ہے ان اسامیوں پر ان کے دوسرے جو کم اہلیت کے حامل ہیں تقرر کیے جاتے ہیں اور ادارے اچھی کارگردگی سے محروم رہتے ہیں، اگر آپ چاہتے ہیں کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو تو ایسے نظام کو ختم کرنا ہوگا جس سے دوسروں کی حق تلفی ہو۔

ہر شہری کو اس کا جائز حق دینا ہوگا۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو ہمارے ماضی میں بھی اندھیرا تھا مستقبل اس سے کہیں زیادہ سیاہ ہوگا۔ ہم سب ایک ہی کشتی میں سوار ہیں' خدانخواستہ یہ کشتی ڈوبی تو اس پر سوار تمام افراد پانی کی نذر ہو جائیں گے۔ ٹیکسز کا سارا بوجھ عام آدمی پر ڈالنے کے بجائے حکومت کو اپنے اخراجات کم کرکے عام آدمی کو ریلیف دینا چاہیے۔ مہنگائی کی تازہ لہر پاکستان کے مزید لوگوں کو غربت کی لکیر کے نیچے دھکیلنے اور بہت سے بچوں کو اسکول چھوڑ کر کام پر جانے پر مجبور کر دے گی۔

نگران حکومت غریبوں کے لیے '' ٹارگٹڈ سبسڈی'' کا اعلان کرے۔ ملک میں ڈالر کی قدر بڑھنے، بجلی اورگیس کی قیمتیں بڑھنے سے قیمتوں میں جو اضافہ ہونا چاہیے تھا، اس سے کہیں زیادہ اضافہ تاجروں نے کر دیا ہے۔

حکومت مہنگائی کنٹرول کرنے میں ناکام ہو چکی ہے، اگر حکومت ذخیرہ اندوزوں، ناجائز منافع خوروں، لالچی مڈل مینوں اور بدعنوان تاجروں کو لگام ڈال سکے تو اس سے بھی مہنگائی میں کمی ہو سکتی ہے۔
Load Next Story