شاعر نخشب جارچوی فلم محل کا گیت زینت کی قوالی

ہمارا بڑا مذہبی گھرانہ تھا، فلم دیکھنا تو درکنار فلم دیکھنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے

hamdam.younus@gmail.com

یہ اس زمانے کی بات ہے جب کراچی کے ہر سینما میں اتوارکو مارننگ شو ہوا کرتا تھا اور ہم اپنے اسکول کے دوستوں کے ساتھ گھر سے چوری چھپے فلم دیکھنے جایا کرتے تھے، ہمارا بڑا مذہبی گھرانہ تھا، فلم دیکھنا تو درکنار فلم دیکھنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے اور اس زمانے میں بندر روڈ کے قریب پکچر ہاؤس والی گلی میں ایک آنے میں فلم کی کتاب جو چند صفحات پر مشتمل ہوتی تھی مل جاتی تھی۔

اس کتاب میں فلم کی کہانی اور سارے گیت بھی لکھے ہوتے تھے، کتاب کے ٹائٹل پر فلم کا نام اور ایک دو آرٹسٹوں کی تصویریں بھی چھپی ہوتی تھیں اور کسی بھی فلم کی کتاب پڑھ کر ایسا لگتا تھا کہ ہم نے وہ فلم دیکھ لی ہے مگر سینما پر جا کر فلم دیکھنے کا مزہ کچھ اور ہی ہوتا تھا۔

ان دنوں انڈیا کی فلمیں پاکستان میں تسلسل سے ریلیز ہوا کرتی تھیں اور ان کے گانے بھی ریڈیو پاکستان سے خوب نشر ہوا کرتے تھے دونوں ملکوں کے درمیان بڑا اچھا ماحول تھا، اس زمانے میں سیاست آج کی طرح گندی نہیں ہوتی تھی۔ ہندوستان سے فلمی رسالے شمع دہلی، کہکشاں اور فلم فیئر میگزین بھی بک اسٹالوں پر مل جایا کرتا تھا۔ اسی دوران انڈیا کی ایک فلم ''محل'' نمائش پذیر ہوئی تھی۔

اس میں ایک گیت جو لتا منگیشکر کی آواز میں تھا بڑا مشہور ہوا تھا جس کے بول تھے آئے گا، آئے گا، آئے گا آنے والا، الفاظ کی جتنی تکرار تھی اس سے زیادہ اچھا سروں کا تال میل تھا، وہ گیت دل کو چھو لیتا تھا۔ اس گیت کے شاعر نخشب جارچوی تھے، کیا خوبصورت گیت تھا۔ گیت کے بول بھی بہت دلکش تھے وہ گیت فلم کی جان تھا اور پھر فلم محل کی ریلیز کے بعد اس گیت نے بڑی دھوم مچائی تھی۔

اسی گیت نے سارے فلم بینوں کو فلم دیکھنے کے دوران باندھ کے رکھا ہوا تھا۔ اداکار اشوک کمار پروڈکشن کی یہ فلم 1949 میں ہندوستان میں ریلیز ہوئی تھی۔


اس فلم کی ہیروئن بمبئی فلم انڈسٹری کی حسین ترین اداکارہ مدھو بالا تھی، یہ فلم کچھ تھرلر بھی تھی، کچھ ہارر بھی تھی اور اس فلم کا اینڈ بھی ٹریجڈی تھا۔ اس فلم کے مصنف و ہدایت کار کمال امروہوی تھے جن کا گھریلو نام سید امیر حیدر کمال نقوی تھا یہ خود بھی شاعر تھے مگر انھوں نے اپنی فلموں میں ہمیشہ دیگر مشہور شاعروں سے ہی گیت لکھوائے تھے۔ موسیقار کھیم چند پرکاش نے ہی لتا منگیشکر کو فلم کے گیتوں سے شہرت کا ہم سفر بنایا تھا۔

اس سے پہلے ہر موسیقار لتا منگیشکرکی آواز سن کر کہتا تھا کہ '' لتا کی آواز بہت باریک ہے اس میں سُر تو ہیں مگر گرج اور گہرائی نہیں ہے'' مگر جب موسیقار استاد کھیم چند پرکاش نے لتا منگیشکر کو سنا تو انھوں نے کہا تھا کہ '' لتا کی آواز میں سروں کا خزانہ چھپا ہے یہ جیسے جیسے گاتی جائے گی اس کی آواز کھلتی چلی جائے گی اور اس کی آواز کا باریک پن اس کے سروں میں ڈوب کر اس کی آواز کو اور میٹھا کرتا چلا جائے گا'' اور پھر موسیقار کھیم چند پرکاش نے فلم محل کے لیے لتا منگیشکر سے پہلی بار فلم کے لیے اس انداز اور خوبصورتی کے ساتھ گیت گوائے تھے کہ لتا منگیشکر کی سارے ہندوستان میں جے جے کار ہوگئی تھی اور لتا منگیشکر کو پھر ہر موسیقار اپنی فلموں میں پلے بیک سنگر کے لیے پسند کرنے لگا تھا اور لتا منگیشکر موسیقی کے آسمان کا سب سے زیادہ جگمگاتا ستارہ بن کر ابھری تھی اور برصغیر کی ایک لیجنڈ گلوکارہ کا ٹائٹل حاصل کر چکی تھی۔

موسیقار کھیم چند پرکاش نے کشور کمار کو بھی بحیثیت پلے بیک سنگر انڈین فلم انڈسٹری سے متعارف کرایا تھا۔ ابتدا میں موسیقار غلام حیدر نے لتا منگیشکر کو پلے بیک سنگر کی حیثیت سے لانے کی کوشش کی تھی اور وہ لتا منگیشکر کے والد موسیقار دینا ناتھ کے دوست بھی تھے۔ دینا ناتھ مراٹھی سنگیت کے ساتھ ابتدا ہی سے منسلک رہے تھے۔

ان کا بھی اپنی بیٹی لتا منگیشکر کے ساتھ ایک دلچسپ قصہ ہے۔ لتا اس وقت بہت کم سن تھی، وہ اپنے باپ کو اپنے گھر میں موسیقی کی تعلیم دیتے ہوئے اکثر لڑکیوں کو دیکھتی تھی۔ اس کے والد اکثر و بیشتر مراٹھی دھنیں اپنی شاگردوں کو یاد کرایا کرتے تھے۔ ایک بار وہ ایک دھن یاد کرنے کو کہہ کر باہر کسی کام سے چلے گئے تھے۔ ان کی شاگرد لڑکیاں بتائی ہوئی دھن یاد کرتی رہیں۔

(جاری ہے)
Load Next Story