سندھ پبلک سروس کمیشن کی ساکھ
پبلک سروس کمیشن سے متعلق اساتذہ کا کہنا ہے کہ امتحانات کا طریقہ کار فرسودہ ہے
پیپلز پارٹی کے پندرہ سال دورِ حکومت میں جن اداروں کی ساکھ ختم ہوئی ان میں سندھ پبلک سروس کمیشن بھی شامل ہے۔
سندھ پبلک سروس کمیشن نے گزشتہ دنوں میونسپل افسروں کے تقرر کے لیے فہرست کا اجراء کیا تو معلوم ہوا کہ کامیاب ہونے والے میونسپل افسروں میں سے 5 سندھ کے سابق وزراء کے قریبی رشتے دار ہیں۔
باقی کامیاب ہونے والے افسروں کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ وہ بھی کسی رہنما کے رشتے دار ہیں یا انھوں نے اس عہدے کی خریداری کے لیے خطیر رقم نذرانہ کے طور پر دی ہے۔
سندھ پبلک سروس کمیشن نے سندھی اخبارات میں شایع ہونے والی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ میونسپل افسر کے عہدہ کے لیے 1440 امیدوار تحریری ٹیسٹ میں شریک ہوئے تھے جن میں سے 418 کامیاب قرار پائے تھے۔
پبلک سروس کمیشن نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ انٹرویو میں پاس ہونے والے امیدواروں میں 82 امیدوار شامل ہیں جنھوں نے IBA اور دیگر اداروں کے امتحانات پاس کیے ہیں اور پرنسپل افسروں کی 46 پوسٹیں موزوں امیدوار نا ہونے کی وجہ سے خالی رہ گئی ہیں، مگر کمیشن نے اس خبر کے بارے میں خاموشی اختیار کر لی کہ منتخب ہونے والوں میں پانچ سابق وزراء کے قریبی رشتے دار ہیں۔
سندھ پبلک سروس کمیشن کے نتائج کے بارے میں یہ کوئی نیا تنازعہ نہیں ہے بلکہ ہر سال دو سال بعد کسی بھی آسامی کے امتحانات کے نتائج مشکوک قرار پاتے ہیں۔ سندھ میں میڈیکل افسروں کی تقرری کے معاملے میں سخت اعتراضات ہوئے تھے۔
چند سال قبل میڈیکل افسروں کی تقرری کے لیے کمیشن نے امتحانات کا انعقاد کیا تھا۔ تحریری امتحان میں پاس ہونے والے امیدواروں سے زبانی امتحانات لیے گئے اور کامیاب امیدواروں کی فہرست کا اجراء ہوا۔
امتحان میں ناکام ہونے والے امیدواروں نے اس فہرست کو میرٹ کے برعکس قرار دیا۔ اخبارات میں یہ خبریں شایع ہوئی کہ کچھ امیدواروں کو پیشگی طور پر سوالات کا علم تھا۔ کچھ امیدواروں نے اس فہرست کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔
سندھ ہائی کورٹ حیدرآباد سرکٹ بنچ جو جسٹس ذوالفقار احمد خان اور جسٹس سلیم پر مشتمل تھا، نے سندھ پبلک سروس کمیشن ایکٹ کا بغور جائزہ لیا اور اس ایکٹ کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے اس کی منسوخی کا حکم دیا اور 2018 میں منعقد ہونے والے میڈیکل افسروں کے تقرر کے تمام عمل کو منسوخ کردیا گیا۔ اس فیصلہ کی بناء پر میڈیکل افسر گریڈ 17 کی 1781 اسامیوں پر تقرریوں کو کالعدم قرار دیا گیا۔
اس فیصلہ میں مزید کہا گیا تھا کہ کمیشن کی ویب سائٹ کو بند کیا جائے۔ عدالت عالیہ نے اس فیصلے میں تحریر کیا تھا کہ کمیشن کے تمام معاملات میں شفافیت اور میرٹ پر عملدرآمد اشد ضروری ہے۔
عدالت نے بھی فیصلہ کیا تھا کہ میڈیکل افسروں کی آسامیوں کے لیے تحریری امتحان کی نگرانی کا فریضہ سکھر، حیدرآباد اور لاڑکانہ کے ایڈیشنل رجسٹرار صاحبان انجام دیں گے۔ اس فیصلہ میں فاضل جج صاحبان نے مزید تحریرکیا تھا کہ اگر سندھ کی حکومت اس بارے میں قانون سازی کرنا چاہے تو ترقیاتی ممالک خاص طور پر آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں رائج قانون سے مدد لی جائے۔
سندھ کی حکومت نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے ریلیف تو حاصل تو کر لیا مگر سندھ پبلک سروس کمیشن کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے بنیادی اقدامات نہیں کیے گئے۔
گزشتہ سال ایک سینئر اور تجربہ کار بیوروکریٹ محمد وسیم کو کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ محمد وسیم اچھی شہرت کے مالک افسر رہے ہیں، یوںکمیشن کے معاملات میں بہتری نظر آئی تھی مگر میونسپل افسروں کے حالیہ تقرر پر جو تنازعہ ہوا ہے، اس بہتر ی کی امیدیں ماند پڑ گئی ہیں۔
بعض حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ کمیشن کی کارکردگی اتنی بری نہیں ہے، اور ناکام ہونے والے امیدوار کمیشن پر بلاوجہ الزامات عائد کر رہے ہیں۔ بہرحال کمیشن کے معاملات کی اعلیٰ عدالتوں سے تحقیقات کرانا ضروری ہے۔
کہا جاتا ہے کہ کمیشن کے امیدواروں کے تقررکا طریقہ کار اب فرسودہ ہوچکا ہے۔ کمیشن ہر آسامی کے لیے تحریری امتحان لیتا ہے جن میں ہزاروں امیدوار حصہ لیتے تھے، کراچی، حیدرآباد ، سکھر اور لاڑکانہ وغیرہ میں امتحانی سینٹر قائم کیے جاتے ہیں، یوں امتحانات کی نگرانی کے لیے بہت سے افراد کی ضرورت ہوتی تھی۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں کسی امتحانی پرچہ کا آؤٹ ہونا عام سی بات ہے، جو پروفیسر صاحبان امتحانی پرچہ تیار کرتے ہیں، ان کے پاس سے بھی پرچہ آؤٹ ہوسکتا ہے۔ امتحانی پرچے کی پرنٹنگ اور امتحانی مراکز میں تقسیم تک کوئی بھی ذہین اور چالاک شخص پرچے کی تصویر واٹس ایپ کرسکتا ہے یا دیگر سماجی روابط کے ذرایع پر وائرل کرسکتا ہے۔
گزشتہ دنوں میڈیکل کالجوں میں داخلے کے لیے پورے ملک میں ایک ہی دن امتحانات منعقد ہوئے تھے مگر اسی دن الیکٹرونک میڈیا پر یہ خبریں نمایاں طور پر دکھائی گئی کہ امتحانی پرچہ آؤٹ ہوا تھا۔ سب سے بڑا اسکینڈل خیبر پختون خوا میں سامنے آیا تھا۔ خیبر پختون خوا پولیس نے میڈیکل داخلہ کے امتحان میں نقل کرانے والے گروہ کی شناخت کی تھی۔
اس گروہ کا سرغنہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا سابق اہلکار تھا۔ امریکا کی فوج نے افغانستان میں جو ہتھیار چھوڑے تھے اس میں جاسوسی کرنے والا ایک ایسا آلہ بھی شامل ہے جو پین کی طرح کا ہوتا ہے۔ اس آلہ کی مارکیٹ میں قیمت 50 ڈالر کے قریب ہے۔ گروہ کا سرغنہ اس آلے کے ذریعہ امیدواروں کو سوالات حل کرنے کے لیے خفیہ ہدایات دیتا تھا۔
اس شخص کے پاس طلبہ میں تقسیم کیا جانے والا امتحانی پرچہ موجود تھا اور کمرہ امتحان میں موجود ممتحن کے لیے اس آلہ کا پتا چلانا مشکل تھا۔ یہ نیٹ ورک Bluetoothکے ذریعے کام کررہا تھا۔ پبلک سروس کمیشن سے متعلق اساتذہ کا کہنا ہے کہ امتحانات کا طریقہ کار فرسودہ ہے۔ امتحانات کا جدید طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے۔
ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ زبانی امتحان میں سب سے زیادہ کرپشن اورسفارش چلتی ہے ، جدید طریقوں کے تحت تحریری پرچہ کا انعقاد کرنے پر زور دیا جائے تو سارا معاملہ زبانی امتحان کی طرف مڑ جاتا ہے البتہ تحریری امتحان کے نمبر 90 فیصد اور زبانی امتحان کے نمبر 10فیصد یا اس سے کم کردیے جائیں تو پھر سفارش بھی کوئی کردار ادا نہیں کرسکے گی۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کی مخالف جماعتوں نے سندھ پبلک سروس کمیشن کی کارکردگی پر سخت تنقید کی ہے۔ جی ڈی اے کے رہنما سردار رحیم تو یہ کہہ رہے ہیں کہ کمیشن پیپلز پارٹی کا آلہ کار ہے۔
ایم کیو ایم کا اس بارے میں مؤقف یہ ہے کہ کراچی سے تعلق رکھنے والے وہ امیدوار جو تحریری امتحان میں پاس ہوئے تھے، انھیں انٹرویو کے لیے نہیں بلایا گیا، مگر ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما اپنے امیدواروں کی کامیابی کے لیے سفارش کرتے ہیں، میرٹ اور شفافیت کی بات نہیں کرتے، جب تک تمام سیاسی جماعتیں سفارش کلچر کو نہیں چھوڑیں گی، کمیشن میں شفافیت نظر نہیں آئے گی۔ نگران وزیر اعلیٰ سندھ کو اس معاملے پر توجہ دینی چاہیے۔
سندھ پبلک سروس کمیشن نے گزشتہ دنوں میونسپل افسروں کے تقرر کے لیے فہرست کا اجراء کیا تو معلوم ہوا کہ کامیاب ہونے والے میونسپل افسروں میں سے 5 سندھ کے سابق وزراء کے قریبی رشتے دار ہیں۔
باقی کامیاب ہونے والے افسروں کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ وہ بھی کسی رہنما کے رشتے دار ہیں یا انھوں نے اس عہدے کی خریداری کے لیے خطیر رقم نذرانہ کے طور پر دی ہے۔
سندھ پبلک سروس کمیشن نے سندھی اخبارات میں شایع ہونے والی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ میونسپل افسر کے عہدہ کے لیے 1440 امیدوار تحریری ٹیسٹ میں شریک ہوئے تھے جن میں سے 418 کامیاب قرار پائے تھے۔
پبلک سروس کمیشن نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ انٹرویو میں پاس ہونے والے امیدواروں میں 82 امیدوار شامل ہیں جنھوں نے IBA اور دیگر اداروں کے امتحانات پاس کیے ہیں اور پرنسپل افسروں کی 46 پوسٹیں موزوں امیدوار نا ہونے کی وجہ سے خالی رہ گئی ہیں، مگر کمیشن نے اس خبر کے بارے میں خاموشی اختیار کر لی کہ منتخب ہونے والوں میں پانچ سابق وزراء کے قریبی رشتے دار ہیں۔
سندھ پبلک سروس کمیشن کے نتائج کے بارے میں یہ کوئی نیا تنازعہ نہیں ہے بلکہ ہر سال دو سال بعد کسی بھی آسامی کے امتحانات کے نتائج مشکوک قرار پاتے ہیں۔ سندھ میں میڈیکل افسروں کی تقرری کے معاملے میں سخت اعتراضات ہوئے تھے۔
چند سال قبل میڈیکل افسروں کی تقرری کے لیے کمیشن نے امتحانات کا انعقاد کیا تھا۔ تحریری امتحان میں پاس ہونے والے امیدواروں سے زبانی امتحانات لیے گئے اور کامیاب امیدواروں کی فہرست کا اجراء ہوا۔
امتحان میں ناکام ہونے والے امیدواروں نے اس فہرست کو میرٹ کے برعکس قرار دیا۔ اخبارات میں یہ خبریں شایع ہوئی کہ کچھ امیدواروں کو پیشگی طور پر سوالات کا علم تھا۔ کچھ امیدواروں نے اس فہرست کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔
سندھ ہائی کورٹ حیدرآباد سرکٹ بنچ جو جسٹس ذوالفقار احمد خان اور جسٹس سلیم پر مشتمل تھا، نے سندھ پبلک سروس کمیشن ایکٹ کا بغور جائزہ لیا اور اس ایکٹ کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے اس کی منسوخی کا حکم دیا اور 2018 میں منعقد ہونے والے میڈیکل افسروں کے تقرر کے تمام عمل کو منسوخ کردیا گیا۔ اس فیصلہ کی بناء پر میڈیکل افسر گریڈ 17 کی 1781 اسامیوں پر تقرریوں کو کالعدم قرار دیا گیا۔
اس فیصلہ میں مزید کہا گیا تھا کہ کمیشن کی ویب سائٹ کو بند کیا جائے۔ عدالت عالیہ نے اس فیصلے میں تحریر کیا تھا کہ کمیشن کے تمام معاملات میں شفافیت اور میرٹ پر عملدرآمد اشد ضروری ہے۔
عدالت نے بھی فیصلہ کیا تھا کہ میڈیکل افسروں کی آسامیوں کے لیے تحریری امتحان کی نگرانی کا فریضہ سکھر، حیدرآباد اور لاڑکانہ کے ایڈیشنل رجسٹرار صاحبان انجام دیں گے۔ اس فیصلہ میں فاضل جج صاحبان نے مزید تحریرکیا تھا کہ اگر سندھ کی حکومت اس بارے میں قانون سازی کرنا چاہے تو ترقیاتی ممالک خاص طور پر آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں رائج قانون سے مدد لی جائے۔
سندھ کی حکومت نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے ریلیف تو حاصل تو کر لیا مگر سندھ پبلک سروس کمیشن کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے بنیادی اقدامات نہیں کیے گئے۔
گزشتہ سال ایک سینئر اور تجربہ کار بیوروکریٹ محمد وسیم کو کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ محمد وسیم اچھی شہرت کے مالک افسر رہے ہیں، یوںکمیشن کے معاملات میں بہتری نظر آئی تھی مگر میونسپل افسروں کے حالیہ تقرر پر جو تنازعہ ہوا ہے، اس بہتر ی کی امیدیں ماند پڑ گئی ہیں۔
بعض حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ کمیشن کی کارکردگی اتنی بری نہیں ہے، اور ناکام ہونے والے امیدوار کمیشن پر بلاوجہ الزامات عائد کر رہے ہیں۔ بہرحال کمیشن کے معاملات کی اعلیٰ عدالتوں سے تحقیقات کرانا ضروری ہے۔
کہا جاتا ہے کہ کمیشن کے امیدواروں کے تقررکا طریقہ کار اب فرسودہ ہوچکا ہے۔ کمیشن ہر آسامی کے لیے تحریری امتحان لیتا ہے جن میں ہزاروں امیدوار حصہ لیتے تھے، کراچی، حیدرآباد ، سکھر اور لاڑکانہ وغیرہ میں امتحانی سینٹر قائم کیے جاتے ہیں، یوں امتحانات کی نگرانی کے لیے بہت سے افراد کی ضرورت ہوتی تھی۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں کسی امتحانی پرچہ کا آؤٹ ہونا عام سی بات ہے، جو پروفیسر صاحبان امتحانی پرچہ تیار کرتے ہیں، ان کے پاس سے بھی پرچہ آؤٹ ہوسکتا ہے۔ امتحانی پرچے کی پرنٹنگ اور امتحانی مراکز میں تقسیم تک کوئی بھی ذہین اور چالاک شخص پرچے کی تصویر واٹس ایپ کرسکتا ہے یا دیگر سماجی روابط کے ذرایع پر وائرل کرسکتا ہے۔
گزشتہ دنوں میڈیکل کالجوں میں داخلے کے لیے پورے ملک میں ایک ہی دن امتحانات منعقد ہوئے تھے مگر اسی دن الیکٹرونک میڈیا پر یہ خبریں نمایاں طور پر دکھائی گئی کہ امتحانی پرچہ آؤٹ ہوا تھا۔ سب سے بڑا اسکینڈل خیبر پختون خوا میں سامنے آیا تھا۔ خیبر پختون خوا پولیس نے میڈیکل داخلہ کے امتحان میں نقل کرانے والے گروہ کی شناخت کی تھی۔
اس گروہ کا سرغنہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا سابق اہلکار تھا۔ امریکا کی فوج نے افغانستان میں جو ہتھیار چھوڑے تھے اس میں جاسوسی کرنے والا ایک ایسا آلہ بھی شامل ہے جو پین کی طرح کا ہوتا ہے۔ اس آلہ کی مارکیٹ میں قیمت 50 ڈالر کے قریب ہے۔ گروہ کا سرغنہ اس آلے کے ذریعہ امیدواروں کو سوالات حل کرنے کے لیے خفیہ ہدایات دیتا تھا۔
اس شخص کے پاس طلبہ میں تقسیم کیا جانے والا امتحانی پرچہ موجود تھا اور کمرہ امتحان میں موجود ممتحن کے لیے اس آلہ کا پتا چلانا مشکل تھا۔ یہ نیٹ ورک Bluetoothکے ذریعے کام کررہا تھا۔ پبلک سروس کمیشن سے متعلق اساتذہ کا کہنا ہے کہ امتحانات کا طریقہ کار فرسودہ ہے۔ امتحانات کا جدید طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے۔
ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ زبانی امتحان میں سب سے زیادہ کرپشن اورسفارش چلتی ہے ، جدید طریقوں کے تحت تحریری پرچہ کا انعقاد کرنے پر زور دیا جائے تو سارا معاملہ زبانی امتحان کی طرف مڑ جاتا ہے البتہ تحریری امتحان کے نمبر 90 فیصد اور زبانی امتحان کے نمبر 10فیصد یا اس سے کم کردیے جائیں تو پھر سفارش بھی کوئی کردار ادا نہیں کرسکے گی۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کی مخالف جماعتوں نے سندھ پبلک سروس کمیشن کی کارکردگی پر سخت تنقید کی ہے۔ جی ڈی اے کے رہنما سردار رحیم تو یہ کہہ رہے ہیں کہ کمیشن پیپلز پارٹی کا آلہ کار ہے۔
ایم کیو ایم کا اس بارے میں مؤقف یہ ہے کہ کراچی سے تعلق رکھنے والے وہ امیدوار جو تحریری امتحان میں پاس ہوئے تھے، انھیں انٹرویو کے لیے نہیں بلایا گیا، مگر ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما اپنے امیدواروں کی کامیابی کے لیے سفارش کرتے ہیں، میرٹ اور شفافیت کی بات نہیں کرتے، جب تک تمام سیاسی جماعتیں سفارش کلچر کو نہیں چھوڑیں گی، کمیشن میں شفافیت نظر نہیں آئے گی۔ نگران وزیر اعلیٰ سندھ کو اس معاملے پر توجہ دینی چاہیے۔