ڈینگی بخار کی علامات اور علاج
مچھر سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر ضروری ہیں
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال پانچ کروڑ سے زائد افراد ڈینگی بخار کا شکار اور 20 ہزار سے زائد افراد اس مرض کے سبب ہلاک ہوتے ہیں۔
دنیا کے 100 کے قریب ممالک میں ڈینگی وائرس پھیلانے والے38 اقسام کے مچھر ہیں۔ ان میں سے ایک قسم کا مچھر پاکستان میں پایا جاتا ہے۔ ڈینگی بخار سے بچاؤ کی کوئی دوا ہے نہ ہی کوئی ٹیکہ ، اسے صرف حفاظتی تدابیر سے روکا جا سکتا ہے۔
ڈینگی بخار کا باعث بننے والا مچھر بہت نفیس اور صفائی پسند ہے۔ یہ گندے جوہڑوں میں نہیں بلکہ بارش کے صاف پانی، گھریلو واٹر ٹینک کے آس پاس، صاف پانی کے بھرے ہوئے برتنوں، گھڑوں، گل دانوں اور گملوں وغیرہ میں رہنا پسند کرتا ہے۔ یہ مچھر انسان پر طلوع آفتاب یا غروب آفتاب کے وقت حملہ آور ہوتا ہے۔
بخار کا علم تین سے سات دن کے اندر ہوتا ہے۔ عام نزلہ بخار کے ساتھ شروع ہونے والا بخار شدید سر درد، پٹھوں میں درد اور جسم کے جوڑ جوڑ کو جکڑ کر انسان کو بالکل بے بس کر دیتا ہے۔ اسی وجہ سے اس بخار کو ' ہڈی توڑ بخار' بھی کہا جاتا ہے۔ جسم کے اوپری حصوں پر سرخ نشان ظاہر ہوتے ہیں۔ نوعیت شدید ہو جائے تو ناک اور منہ سے خون بھی جاری ہو تا ہے۔
ابتدائی علامات میں تیز بخار، سر میں شدید درد، آنکھوں کے ڈھیلے میں شدید درد۔ پورے جسم کی ہڈیوں، پٹھوں اور جوڑوں میں شدید درد۔ متلی، قے اور بھوک میں کمی وغیرہ شامل ہیں۔
بیماری کے حملے کے دوران میں مریض شاک میں جا سکتا ہے جس سے بلڈ پریشر کم ہو جاتا ہے، پاؤں ٹھنڈے ہو جاتے ہیں، جسم کے اندرونی اور بیرونی حصوں پر باریک سرخ دانے ابھر جاتے ہیں۔ ڈینگی وائرس کا شکار ہونے والے افراد پر اگر یہ وائرس دوبارہ حملہ آور ہو تو جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔
ڈینگی کی بیماری کی ابتدائی علامات میں بخار، کمزوری، پسینہ آنا اور بلڈ پریشر کم ہو جانا شامل ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ جسم کے سارے نظاموں پر اثر کرتا ہے۔ خون کی باریک نالیاں جنہیں ہم Capillaries کہتے ہیں وہ پھٹنا شروع ہو جاتی ہیں۔
جب یہ بیماری دماغ اور حرام مغز پر حملہ کرتی ہے تو مریض کی موت بھی ہو سکتی ہے لیکن زیادہ تر مریض ایک یا ڈیڑھ دن میں بہتر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ بہتری نہ ہونے کی صورت میں بخار، سر درد، پٹھوں، جوڑوں میں درد، بھوک کم لگنا، الٹی آنا، پسینہ زیادہ آنا، جسم ٹھنڈا ہو جانا جیسی علامات ہوتی ہیں۔ اس بیماری کی تشخیص کے لیے خون کے ٹیسٹ اور ایکسرے کیے جاتے ہیں۔ دماغ اور حرام مغز میں پہنچنے والی بیماری کی تشخیص سی ٹی CT اور ایم آر آئی MRI سکین سے کی جاتی ہے۔
پہلی سٹیج میں جب وائرس حملہ آور ہوتا ہے تو اس کی علامات میں تیز بخار، شدید سردرد، جسم، کمر اور جوڑوں میں شدید درد شامل ہے۔ چہرہ سرخ ہو جاتا ہے اور یہ سرخی جسم کے باقی حصہ میں بھی پھیل جاتی ہے۔ آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں، روشنی اچھی نہیں لگتی اور آنکھوں سے پانی بہتا ہے۔ گردن میں گلٹیاں اور اکڑاؤ ہو سکتا ہے۔ نیند متاثر ہوتی ہے۔
یہ مرحلہ بہت سخت ہوتا ہے اور مریض کی حالت قابل رحم ہو جاتی ہے جس کی وجہ شدت کا بخار اور درد ہے۔ تین سے چار دنوں میں بخار میں کمی آ جاتی ہے اور مریض کی حالت سنبھلنے لگتی ہے۔ اس مرض کا بچاؤ صرف اور صرف ڈینگی مچھر سے بچاؤ ہے۔ جہاں جہاں یہ مچھر پیدا ہو، وہاں اس کے لیے مچھر مار دواؤں کا استعمال کثرت سے کرنا چاہیے۔ مارکیٹ میں ایسے تیل بھی ہیں جو جسم اور ہاتھوں کے کھلے حصوں پر لگائے جائیں تو مچھر نہیں کاٹتا۔
اس بیماری کی وجہ سے خون کے Platelets ذرات بہت کم ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے جسم سے خون بہنے پر اس کا جمنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کئی دفعہ ایک جان لیوا بیماری یعنی 'ڈینگی شاک سنڈروم' (dengue shock syndrome) کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
اس بیماری کے علاج کے لیے 'سپورٹیو تھراپی' (Supportive therapy) دی جاتی ہے۔ بیماری کے دوران مکمل آرام کیا جائے۔ پینے والی اشیائ، صاف پانی، مشروبات، تازہ پھلوں کا جوس، سوپ کا استعمال زیادہ سے زیادہ کیا جائے۔ تازہ پھلوں اور سبزیوں کے سوپ کا استعمال بھی مریض کی توانائی بحال کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ مریض زیادہ کھا پی نہ سکے تو پھر پلیٹلیٹس کی ڈرپ لگانا بہت ضروری ہے، جو بلڈ بنک سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
پرہیز علاج سے بہتر ہے، اس لیے ڈینگی پھیلانے والے مچھر کو پھلنے پھولنے سے مکمل طور پر روکا جائے۔ سب سے اہم بات ایسی جگہوں پر اسپرے کیا جائے، جہاں یہ مچھر پیدا ہوتے ہیں۔ کہیں پانی جمع نہ ہونے دیا جائے، جہاں ایسا ممکن نہ ہو وہاں فوراً اسپرے کیا جائے۔ گھروں میں مچھر سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کریں، جن میں مچھر دانی کا استعمال بہت ضروری ہے۔
ڈینگی بخار کا غذائی علاج:
ڈینگی بخارکا بہترین علاج یہ ہے کہ ایک چمچ شہد ایک کپ نیم گرم پانی میں ملا کر صبح نہار منہ جبکہ دوپہر اور رات کھانے سے ایک گھنٹہ قبل استعمال کرنا چاہیے۔ پروپولس (رائل جیلی) جو شہد کی مکھی کے چھتے سے نکلتا ہے۔ ایک طاقتور اینٹی وائرل ہے۔ یورپ میں یہ عام دستیاب ہے لیکن وطن عزیز میں ہم اسے شہد نکالے چھتے سے حاصل کر سکتے ہیں۔
اس چھتے کے تین تین گرام کے پیس کاٹ لیں اور ایک ٹکڑا صبح دوسرا شام اور رات دن میں چار مرتبہ چبا کر رس چوس لیں، پروپولس کی مطلوبہ مقدار حاصل ہو جائے گی۔ اس سے قوت مدافعت میں زبردست اضافہ ہو تا ہے جس سے ڈینگی وائرس زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
پپیتے کے پتے بھی اس مرض کا شافی علاج ہیں۔ پپیتے کے دو تازہ پتے یا ان کا رس صبح شام پینے سے Platelets حیران کن طور پر چند گھنٹوں میں بڑھ جاتے ہیں۔ کالی مرچ، کلونجی، چرائتہ، افسنتین میں سے ہر ایک دس گرام لے کر باریک پیس لیں۔ تینوں کو اچھی طرح ملا لیں اور دن میں ایک گرام تین مرتبہ صبح، دوپہر شام، اجوائن اور پودینے کے قہوے کے ساتھ مریض استعمال کرے۔
ڈینگی بخار سے متاثرہ افراد وٹامن کے وٹامن بی اور وٹامن سی سے بھرپور خوراک کا استعمال کریں۔ چاول مونگ کی دال کھچڑی، شلجم چقندر گاجر گوبھی کریلا، انار سنگترہ، مسمی میٹھا اور امرود اس میں مفید غذا ہے۔
ڈینگی وائرس کی روک تھام کے لیے ابھی کوئی ویکسین دریافت نہیں ہوئی، جس کے لیے سائنس دان سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی پیش رفت نارتھ کیرولینا سٹیٹ یونیورسٹی نے کی ہے جس میں خاص بیکٹیریا کو مادہ مچھر کے جسم میں داخل کیا جائے گا جس سے وہ وائرس آگے منتقل کرنے کے قابل نہیں رہے گی۔
مقامی طور پر ڈینگی کے علاج کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ اس سلسلے میں ' کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی ' کے تحت چلنے والے فلاحی ہسپتالوں میں ''پپیتہ'' کے پتوں کا جوس نکال کر اس میں چند دوسری مفید جڑی بوٹیاں شامل کر کے ''شربت پپیتہ'' تیار کیا گیا ہے۔
پپیتہ کے پتے ڈینگی کا بخار ختم کرنے، جسم میں مدافعت پیدا کرنے اور بیماری کی حالت میں خون کے پلیٹلٹس کی مقدار نارمل رکھنے میں بے حد کارآمد ہیں۔ قدرت نے پپیتہ کے پتوں میں بے پناہ صلاحیت رکھی ہے، ڈینگی سے بچاؤ اور علاج کے لیے اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں مچھر دانیوں کو پپیتہ کے پتوں میں بھگو کر تیار کیا جاتا ہے کیونکہ اس کے پتے بیماری سے بچاؤ اور علاج کے ساتھ مچھروں کو دور بھگاتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق جن گھروں کے لانوں میں پپیتہ کے درخت لگے ہوئے ہیں، ڈینگی پھیلانے والے مچھر وہاں سے دور بھاگتے ہیں۔
مزید برآں مچھروں سے بچاؤ کے لیے پپیتہ کے پتوں سے تیار کردہ Repellents بھی بنائے گئے ہیں۔ پپیتہ کے پتوں میں ایک انزائم ''پاپین'' پایا جاتا ہے۔ جس میں 212 امائنو ایسڈ ہوتے ہیں۔ یہ انزائم جسم میں داخل ہو کر ڈینگی وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز پیدا کرتا ہے جس سے وائرس کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ وائرس کے ختم ہونے سے خون میں پلیٹلٹس کی مقدار بھی نارمل ہو جاتی ہے۔
امائنو ایسڈ کے علاوہ پپیتہ کے پتوں میں وٹامن اے، سی، ای، کے، بی کمپلیکس اور بی 17 بھی پایا جاتا ہے۔ ان پتوں میں موجود فائٹو کیمیکل جسم کے مدافعتی نظام کو مضبوط کرتا ہے۔
جسم میں مدافعتی نظام مضبوط ہونے کے باعث جسم میں داخل ہونے والا وائرس زیادہ پیچیدگیاں نہیں پیدا کر سکتا۔ تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ پپیتہ کے پتوں میں موجود 'پاپین' میں اینٹی وائرل خصوصیات موجود ہیں۔ علاوہ ازیں پاپین کا استعمال دوسری بیماریوں، جوڑوں کے درد، السر، جسم میں سوجن اور کینسر کی بیماریوں میں بھی مفید ہوتا ہے۔
پپیتہ کے پتوں میں شامل امائنو ایسڈ، معدنیات اور دوسرے قدرتی اجزاء جسم میں قوت پیدا کرتے ہیں اور مدافعتی نظام کو مضبوط کرتے ہیں۔ اس میں شامل وٹامن چہرے کی جھریوں کو بھی کم کرتے ہیں۔ پپیتہ کے پتوں میں موجود فائٹو کیمیکل خون میں شامل ہو کر نہ صرف جسم کے مدافعاتی نظام کو مضبوط کرتے ہیں بلکہ خون میں اِن کے شامل ہونے سے ایسے کیمیائی اجزاء اینٹی باڈیز پیدا ہوتی ہے جو ڈینگی وائرس پر حملہ کر کے اْس کو غیر موثر بنا دیتی ہے۔
شربت پپیتہ استعمال کرنے سے جسم میں قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے اور تقویت ملتی ہے۔ بخار کا خاتمہ ہوتا ہے اور ڈینگی کا وائرس غیر موثر ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پپیتہ کے پتوں میں تمام قدرتی غذائی اجزائ، معدنیات، لحمیات، وٹامن رکھے ہیں۔ جن کی وجہ سے اس کے عرق کا استعمال ڈینگی وائرس کی بیماری کے علاوہ دوسری بیماریوں مثلاً السر، کمزوری، جسم میں درد، جوڑوں میں درد کے لیے بھی مفید ہے۔
دنیا کے 100 کے قریب ممالک میں ڈینگی وائرس پھیلانے والے38 اقسام کے مچھر ہیں۔ ان میں سے ایک قسم کا مچھر پاکستان میں پایا جاتا ہے۔ ڈینگی بخار سے بچاؤ کی کوئی دوا ہے نہ ہی کوئی ٹیکہ ، اسے صرف حفاظتی تدابیر سے روکا جا سکتا ہے۔
ڈینگی بخار کا باعث بننے والا مچھر بہت نفیس اور صفائی پسند ہے۔ یہ گندے جوہڑوں میں نہیں بلکہ بارش کے صاف پانی، گھریلو واٹر ٹینک کے آس پاس، صاف پانی کے بھرے ہوئے برتنوں، گھڑوں، گل دانوں اور گملوں وغیرہ میں رہنا پسند کرتا ہے۔ یہ مچھر انسان پر طلوع آفتاب یا غروب آفتاب کے وقت حملہ آور ہوتا ہے۔
بخار کا علم تین سے سات دن کے اندر ہوتا ہے۔ عام نزلہ بخار کے ساتھ شروع ہونے والا بخار شدید سر درد، پٹھوں میں درد اور جسم کے جوڑ جوڑ کو جکڑ کر انسان کو بالکل بے بس کر دیتا ہے۔ اسی وجہ سے اس بخار کو ' ہڈی توڑ بخار' بھی کہا جاتا ہے۔ جسم کے اوپری حصوں پر سرخ نشان ظاہر ہوتے ہیں۔ نوعیت شدید ہو جائے تو ناک اور منہ سے خون بھی جاری ہو تا ہے۔
ابتدائی علامات میں تیز بخار، سر میں شدید درد، آنکھوں کے ڈھیلے میں شدید درد۔ پورے جسم کی ہڈیوں، پٹھوں اور جوڑوں میں شدید درد۔ متلی، قے اور بھوک میں کمی وغیرہ شامل ہیں۔
بیماری کے حملے کے دوران میں مریض شاک میں جا سکتا ہے جس سے بلڈ پریشر کم ہو جاتا ہے، پاؤں ٹھنڈے ہو جاتے ہیں، جسم کے اندرونی اور بیرونی حصوں پر باریک سرخ دانے ابھر جاتے ہیں۔ ڈینگی وائرس کا شکار ہونے والے افراد پر اگر یہ وائرس دوبارہ حملہ آور ہو تو جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔
ڈینگی کی بیماری کی ابتدائی علامات میں بخار، کمزوری، پسینہ آنا اور بلڈ پریشر کم ہو جانا شامل ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ جسم کے سارے نظاموں پر اثر کرتا ہے۔ خون کی باریک نالیاں جنہیں ہم Capillaries کہتے ہیں وہ پھٹنا شروع ہو جاتی ہیں۔
جب یہ بیماری دماغ اور حرام مغز پر حملہ کرتی ہے تو مریض کی موت بھی ہو سکتی ہے لیکن زیادہ تر مریض ایک یا ڈیڑھ دن میں بہتر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ بہتری نہ ہونے کی صورت میں بخار، سر درد، پٹھوں، جوڑوں میں درد، بھوک کم لگنا، الٹی آنا، پسینہ زیادہ آنا، جسم ٹھنڈا ہو جانا جیسی علامات ہوتی ہیں۔ اس بیماری کی تشخیص کے لیے خون کے ٹیسٹ اور ایکسرے کیے جاتے ہیں۔ دماغ اور حرام مغز میں پہنچنے والی بیماری کی تشخیص سی ٹی CT اور ایم آر آئی MRI سکین سے کی جاتی ہے۔
پہلی سٹیج میں جب وائرس حملہ آور ہوتا ہے تو اس کی علامات میں تیز بخار، شدید سردرد، جسم، کمر اور جوڑوں میں شدید درد شامل ہے۔ چہرہ سرخ ہو جاتا ہے اور یہ سرخی جسم کے باقی حصہ میں بھی پھیل جاتی ہے۔ آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں، روشنی اچھی نہیں لگتی اور آنکھوں سے پانی بہتا ہے۔ گردن میں گلٹیاں اور اکڑاؤ ہو سکتا ہے۔ نیند متاثر ہوتی ہے۔
یہ مرحلہ بہت سخت ہوتا ہے اور مریض کی حالت قابل رحم ہو جاتی ہے جس کی وجہ شدت کا بخار اور درد ہے۔ تین سے چار دنوں میں بخار میں کمی آ جاتی ہے اور مریض کی حالت سنبھلنے لگتی ہے۔ اس مرض کا بچاؤ صرف اور صرف ڈینگی مچھر سے بچاؤ ہے۔ جہاں جہاں یہ مچھر پیدا ہو، وہاں اس کے لیے مچھر مار دواؤں کا استعمال کثرت سے کرنا چاہیے۔ مارکیٹ میں ایسے تیل بھی ہیں جو جسم اور ہاتھوں کے کھلے حصوں پر لگائے جائیں تو مچھر نہیں کاٹتا۔
اس بیماری کی وجہ سے خون کے Platelets ذرات بہت کم ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے جسم سے خون بہنے پر اس کا جمنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کئی دفعہ ایک جان لیوا بیماری یعنی 'ڈینگی شاک سنڈروم' (dengue shock syndrome) کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
اس بیماری کے علاج کے لیے 'سپورٹیو تھراپی' (Supportive therapy) دی جاتی ہے۔ بیماری کے دوران مکمل آرام کیا جائے۔ پینے والی اشیائ، صاف پانی، مشروبات، تازہ پھلوں کا جوس، سوپ کا استعمال زیادہ سے زیادہ کیا جائے۔ تازہ پھلوں اور سبزیوں کے سوپ کا استعمال بھی مریض کی توانائی بحال کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ مریض زیادہ کھا پی نہ سکے تو پھر پلیٹلیٹس کی ڈرپ لگانا بہت ضروری ہے، جو بلڈ بنک سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
پرہیز علاج سے بہتر ہے، اس لیے ڈینگی پھیلانے والے مچھر کو پھلنے پھولنے سے مکمل طور پر روکا جائے۔ سب سے اہم بات ایسی جگہوں پر اسپرے کیا جائے، جہاں یہ مچھر پیدا ہوتے ہیں۔ کہیں پانی جمع نہ ہونے دیا جائے، جہاں ایسا ممکن نہ ہو وہاں فوراً اسپرے کیا جائے۔ گھروں میں مچھر سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کریں، جن میں مچھر دانی کا استعمال بہت ضروری ہے۔
ڈینگی بخار کا غذائی علاج:
ڈینگی بخارکا بہترین علاج یہ ہے کہ ایک چمچ شہد ایک کپ نیم گرم پانی میں ملا کر صبح نہار منہ جبکہ دوپہر اور رات کھانے سے ایک گھنٹہ قبل استعمال کرنا چاہیے۔ پروپولس (رائل جیلی) جو شہد کی مکھی کے چھتے سے نکلتا ہے۔ ایک طاقتور اینٹی وائرل ہے۔ یورپ میں یہ عام دستیاب ہے لیکن وطن عزیز میں ہم اسے شہد نکالے چھتے سے حاصل کر سکتے ہیں۔
اس چھتے کے تین تین گرام کے پیس کاٹ لیں اور ایک ٹکڑا صبح دوسرا شام اور رات دن میں چار مرتبہ چبا کر رس چوس لیں، پروپولس کی مطلوبہ مقدار حاصل ہو جائے گی۔ اس سے قوت مدافعت میں زبردست اضافہ ہو تا ہے جس سے ڈینگی وائرس زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
پپیتے کے پتے بھی اس مرض کا شافی علاج ہیں۔ پپیتے کے دو تازہ پتے یا ان کا رس صبح شام پینے سے Platelets حیران کن طور پر چند گھنٹوں میں بڑھ جاتے ہیں۔ کالی مرچ، کلونجی، چرائتہ، افسنتین میں سے ہر ایک دس گرام لے کر باریک پیس لیں۔ تینوں کو اچھی طرح ملا لیں اور دن میں ایک گرام تین مرتبہ صبح، دوپہر شام، اجوائن اور پودینے کے قہوے کے ساتھ مریض استعمال کرے۔
ڈینگی بخار سے متاثرہ افراد وٹامن کے وٹامن بی اور وٹامن سی سے بھرپور خوراک کا استعمال کریں۔ چاول مونگ کی دال کھچڑی، شلجم چقندر گاجر گوبھی کریلا، انار سنگترہ، مسمی میٹھا اور امرود اس میں مفید غذا ہے۔
ڈینگی وائرس کی روک تھام کے لیے ابھی کوئی ویکسین دریافت نہیں ہوئی، جس کے لیے سائنس دان سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی پیش رفت نارتھ کیرولینا سٹیٹ یونیورسٹی نے کی ہے جس میں خاص بیکٹیریا کو مادہ مچھر کے جسم میں داخل کیا جائے گا جس سے وہ وائرس آگے منتقل کرنے کے قابل نہیں رہے گی۔
مقامی طور پر ڈینگی کے علاج کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ اس سلسلے میں ' کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی ' کے تحت چلنے والے فلاحی ہسپتالوں میں ''پپیتہ'' کے پتوں کا جوس نکال کر اس میں چند دوسری مفید جڑی بوٹیاں شامل کر کے ''شربت پپیتہ'' تیار کیا گیا ہے۔
پپیتہ کے پتے ڈینگی کا بخار ختم کرنے، جسم میں مدافعت پیدا کرنے اور بیماری کی حالت میں خون کے پلیٹلٹس کی مقدار نارمل رکھنے میں بے حد کارآمد ہیں۔ قدرت نے پپیتہ کے پتوں میں بے پناہ صلاحیت رکھی ہے، ڈینگی سے بچاؤ اور علاج کے لیے اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں مچھر دانیوں کو پپیتہ کے پتوں میں بھگو کر تیار کیا جاتا ہے کیونکہ اس کے پتے بیماری سے بچاؤ اور علاج کے ساتھ مچھروں کو دور بھگاتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق جن گھروں کے لانوں میں پپیتہ کے درخت لگے ہوئے ہیں، ڈینگی پھیلانے والے مچھر وہاں سے دور بھاگتے ہیں۔
مزید برآں مچھروں سے بچاؤ کے لیے پپیتہ کے پتوں سے تیار کردہ Repellents بھی بنائے گئے ہیں۔ پپیتہ کے پتوں میں ایک انزائم ''پاپین'' پایا جاتا ہے۔ جس میں 212 امائنو ایسڈ ہوتے ہیں۔ یہ انزائم جسم میں داخل ہو کر ڈینگی وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز پیدا کرتا ہے جس سے وائرس کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ وائرس کے ختم ہونے سے خون میں پلیٹلٹس کی مقدار بھی نارمل ہو جاتی ہے۔
امائنو ایسڈ کے علاوہ پپیتہ کے پتوں میں وٹامن اے، سی، ای، کے، بی کمپلیکس اور بی 17 بھی پایا جاتا ہے۔ ان پتوں میں موجود فائٹو کیمیکل جسم کے مدافعتی نظام کو مضبوط کرتا ہے۔
جسم میں مدافعتی نظام مضبوط ہونے کے باعث جسم میں داخل ہونے والا وائرس زیادہ پیچیدگیاں نہیں پیدا کر سکتا۔ تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ پپیتہ کے پتوں میں موجود 'پاپین' میں اینٹی وائرل خصوصیات موجود ہیں۔ علاوہ ازیں پاپین کا استعمال دوسری بیماریوں، جوڑوں کے درد، السر، جسم میں سوجن اور کینسر کی بیماریوں میں بھی مفید ہوتا ہے۔
پپیتہ کے پتوں میں شامل امائنو ایسڈ، معدنیات اور دوسرے قدرتی اجزاء جسم میں قوت پیدا کرتے ہیں اور مدافعتی نظام کو مضبوط کرتے ہیں۔ اس میں شامل وٹامن چہرے کی جھریوں کو بھی کم کرتے ہیں۔ پپیتہ کے پتوں میں موجود فائٹو کیمیکل خون میں شامل ہو کر نہ صرف جسم کے مدافعاتی نظام کو مضبوط کرتے ہیں بلکہ خون میں اِن کے شامل ہونے سے ایسے کیمیائی اجزاء اینٹی باڈیز پیدا ہوتی ہے جو ڈینگی وائرس پر حملہ کر کے اْس کو غیر موثر بنا دیتی ہے۔
شربت پپیتہ استعمال کرنے سے جسم میں قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے اور تقویت ملتی ہے۔ بخار کا خاتمہ ہوتا ہے اور ڈینگی کا وائرس غیر موثر ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پپیتہ کے پتوں میں تمام قدرتی غذائی اجزائ، معدنیات، لحمیات، وٹامن رکھے ہیں۔ جن کی وجہ سے اس کے عرق کا استعمال ڈینگی وائرس کی بیماری کے علاوہ دوسری بیماریوں مثلاً السر، کمزوری، جسم میں درد، جوڑوں میں درد کے لیے بھی مفید ہے۔