تاجر لوگوں کا خون نہ نچوڑیں
’’لوگوں میں سے اﷲ کے نزدیک پسندیدہ وہ لوگ ہیں جو دوسروں کو نفع پہنچائیں۔‘‘
ایثار، ہم دردی اور نفع رسانی یعنی لوگوں کو فائدہ پہنچانا وغیرہ اخلاقیات کی وہ اعلیٰ صورتیں ہیں کہ جن پر اسلام نے زور دیا ہے۔
رسولِ اکرم ﷺ نے لوگوں کو نفع پہنچانے اور دوسروں کا بھلا چاہنے کی ترغیب دلائی ہے۔
ارشاد فرمایا، مفہوم:
''لوگوں میں سے اﷲ کے نزدیک پسندیدہ وہ لوگ ہیں جو دوسروں کو نفع پہنچائیں۔''
ایک اور حدیثِ پاک میں ہے: ''دین تو خیر خواہی (یعنی دوسروں کا بھلا چاہنے کا نام) ہے۔''
مگر افسوس! آج کل تجّار کی اکثریت خرید و فروخت ، لین دین اور مالی معاملات میں اسلام کی ان خوب صورت تعلیمات پر توجہ نہیں دیتی، ان معاملات میں بھلا چاہنے کی جگہ بُرا چاہنے اور فائدہ پہنچانے کے بہ جائے مصنوعی نفع خوری سے کام لیا جاتا ہے۔ جب کہ ہماری اسلامی تعلیمات اور ہمارے بزرگوں کا انداز یہ بالکل نہیں تھا۔
قرآن کریم اور احادیث رسول کریم ﷺ میں اچھے، دین دار اور اﷲ کی یاد میں مصروف رہنے والے تاجروں کی تعریف کی گئی ہے اور ان کے مرتبے کو بیان کیا گیا ہے، جیسا کہ اﷲ پاک نے فرمایا، مفہوم:
''وہ لوگ جنہیں غافل نہیں کرتا کوئی سودا اور نہ خرید و فروخت اﷲ کی یاد (سے)۔''
اور رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''سچے امانت دار تاجر نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوں گے۔''
یہاں سچے اور امانت دار تاجروں سے مراد وہ ہیں جو (دیگر معاملات کے ساتھ) خرید و فروخت کے احکام سے تعلق رکھنے والے تمام معاملات میں بھی سچائی اور امانت داری کا دامن تھامے رہیں۔
پہلے کے مسلمان اﷲ تعالی اور رسول کریم ﷺ کے ان ارشادات پر جی جان سے عمل کیا کرتے اور تجارت و روزگار میں ایک دوسرے کے فائدے کا خیال رکھتے تھے۔
بیوپاری (بیچنے والا) خریدار کا اور خریدار بیوپاری کا خیال رکھتا تھا، جیسا کہ حضرت یونس بن عبید بصریؒ کا واقعہ ہے کہ ان کی دکان سے ایک شخص نے ان کے ملازم سے اپنی مرضی سے ایک جُبّہ چار سو درہم کا خریدا حالاں کہ اس کی قیمت دو سو درہم تھی۔ حضرت یونس بن عبید بصریؒ کو معلوم ہُوا تو انہوں نے دو سو درہم اسے واپس کر دیے۔
یہ تو خریدار کا خیال رکھنے کے بارے میں تاجر کا واقعہ تھا، اسی طرح خریدار بھی بیچنے والے کا بہت خیال رکھتے تھے۔ چناں چہ ایک واقعہ ہے کہ حضرت جریر رضی اﷲ تعالی عنہ کا غلام ان کے کہنے پر ایک گھوڑے کا سودا تین سو درہم میں طے کرکے گھوڑے اور مالک کو ان کے پاس لایا تاکہ وہ رقم ادا کردیں۔
حضرت جریرؓ نے گھوڑا دیکھ کر مالک سے کہا: تمہارا گھوڑا تین سو درہم سے تو بہت بہتر ہے، کیا تم چارسو درہم میں فروخت کرو گے ؟ اس نے کہا: جیسے آپ کی مرضی۔ پھر آپؓ بار بار یہی بات کرتے ہوئے سو، سو درہم بڑھا کر اسے گھوڑا بیچنے کی پیش کش کرتے رہے، بالآخر آپؓ نے تین سو کے بہ جائے آٹھ سو درہم دے کر گھوڑا خرید لیا۔ جب لوگوں نے آپؓ کے اس عمل کے بارے میں سوال کیا تو آٓپؓ نے فرمایا: بے شک! میں نے تمام مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر رسول اﷲ ﷺ سے بیعت کی ہے۔
افسوس کہ آج کے مسلمان ان خوب صورت جذبوں سے محروم ہوتے جا رہے ہیں، گاہک اور تاجر میں سے ہر ایک نفع خوری کے جذبات لیے ہوئے نظر آتا ہے۔ اکثریت کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ کسی طرح مجھے فائدہ ہوجائے اگرچہ سامنے والے کو نقصان ہوجائے۔
نفع خوری کی سوچ ذہن میں ایسی رَچ بَس گئی ہے کہ اس کے لیے سُود، رشوت، ملاوٹ، ناپ تول اور اعداد و شمار کی ہیرا پھیری، چرب زبانی، دھوکا دہی، بازاروں میں اشیاء کی نقل اور مصنوعی قلت اور طرح طرح کے نت نئے طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ ایک تعداد تو ایسے تاجروں کی بھی ہے کہ جو زلزلہ، سیلاب یا دیگر قدرتی آفات کے حالات میں بھی خیمے، تمبو اور دیگر ضرورت کی چیزیں بہت مہنگی کردیتے ہیں۔
بعض دفعہ تو لگتا ہے کہ یہ لوگ زلزلہ و سیلاب جسی قدرتی آفات وغیرہ کے انتظار میں ہوتے ہیں کہ کب لوگوں کی ضرورت بڑھے اور یہ تاجر لوگ اپنی چیزوں کی منہ مانگی قیمت وصول کریں۔ وبائی امراض میں اس وبا سے متعلق حفاظتی چیزوں بل کہ دواؤں تک کی قیمتوں میں اضافہ کردیا جاتا ہے، جیسے بقر عید کے موقع پر قربانی کے جانوروں اور رمضان میں افطار کے لیے پھلوں کی قیمتیں بھی گویا آسمان پر پہنچ جاتی ہیں۔
اس کے چند بُرے اثرات یہ ہیں:
٭ معاشرے میں بے حسی بڑھ رہی ہے۔
٭ ہم دردی کا خاتمہ ہو رہا ہے۔
٭ لوگوں کی مجبوریوں سے کھیلا جارہا ہے۔
٭ اسلامی بھائی چارا ختم ہو رہا ہے۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی معاشرے میں اس قسم کے بے حس لوگوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔
یقیناً اگر ہم اسلام کی تعلیمات پر خود بھی عمل کریں اور اسے دوسرے مسلمانوں تک پہنچا کر انہیں بھی ان پر عمل کی ترغیب دیں تو ہمارے معاشرے میں امن و سکون، بھائی چارے ، اتحاد و محبت اور بہتر معیشت کے حسین نظارے دیکھنے کو ملیں گے۔
رسولِ اکرم ﷺ نے لوگوں کو نفع پہنچانے اور دوسروں کا بھلا چاہنے کی ترغیب دلائی ہے۔
ارشاد فرمایا، مفہوم:
''لوگوں میں سے اﷲ کے نزدیک پسندیدہ وہ لوگ ہیں جو دوسروں کو نفع پہنچائیں۔''
ایک اور حدیثِ پاک میں ہے: ''دین تو خیر خواہی (یعنی دوسروں کا بھلا چاہنے کا نام) ہے۔''
مگر افسوس! آج کل تجّار کی اکثریت خرید و فروخت ، لین دین اور مالی معاملات میں اسلام کی ان خوب صورت تعلیمات پر توجہ نہیں دیتی، ان معاملات میں بھلا چاہنے کی جگہ بُرا چاہنے اور فائدہ پہنچانے کے بہ جائے مصنوعی نفع خوری سے کام لیا جاتا ہے۔ جب کہ ہماری اسلامی تعلیمات اور ہمارے بزرگوں کا انداز یہ بالکل نہیں تھا۔
قرآن کریم اور احادیث رسول کریم ﷺ میں اچھے، دین دار اور اﷲ کی یاد میں مصروف رہنے والے تاجروں کی تعریف کی گئی ہے اور ان کے مرتبے کو بیان کیا گیا ہے، جیسا کہ اﷲ پاک نے فرمایا، مفہوم:
''وہ لوگ جنہیں غافل نہیں کرتا کوئی سودا اور نہ خرید و فروخت اﷲ کی یاد (سے)۔''
اور رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''سچے امانت دار تاجر نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوں گے۔''
یہاں سچے اور امانت دار تاجروں سے مراد وہ ہیں جو (دیگر معاملات کے ساتھ) خرید و فروخت کے احکام سے تعلق رکھنے والے تمام معاملات میں بھی سچائی اور امانت داری کا دامن تھامے رہیں۔
پہلے کے مسلمان اﷲ تعالی اور رسول کریم ﷺ کے ان ارشادات پر جی جان سے عمل کیا کرتے اور تجارت و روزگار میں ایک دوسرے کے فائدے کا خیال رکھتے تھے۔
بیوپاری (بیچنے والا) خریدار کا اور خریدار بیوپاری کا خیال رکھتا تھا، جیسا کہ حضرت یونس بن عبید بصریؒ کا واقعہ ہے کہ ان کی دکان سے ایک شخص نے ان کے ملازم سے اپنی مرضی سے ایک جُبّہ چار سو درہم کا خریدا حالاں کہ اس کی قیمت دو سو درہم تھی۔ حضرت یونس بن عبید بصریؒ کو معلوم ہُوا تو انہوں نے دو سو درہم اسے واپس کر دیے۔
یہ تو خریدار کا خیال رکھنے کے بارے میں تاجر کا واقعہ تھا، اسی طرح خریدار بھی بیچنے والے کا بہت خیال رکھتے تھے۔ چناں چہ ایک واقعہ ہے کہ حضرت جریر رضی اﷲ تعالی عنہ کا غلام ان کے کہنے پر ایک گھوڑے کا سودا تین سو درہم میں طے کرکے گھوڑے اور مالک کو ان کے پاس لایا تاکہ وہ رقم ادا کردیں۔
حضرت جریرؓ نے گھوڑا دیکھ کر مالک سے کہا: تمہارا گھوڑا تین سو درہم سے تو بہت بہتر ہے، کیا تم چارسو درہم میں فروخت کرو گے ؟ اس نے کہا: جیسے آپ کی مرضی۔ پھر آپؓ بار بار یہی بات کرتے ہوئے سو، سو درہم بڑھا کر اسے گھوڑا بیچنے کی پیش کش کرتے رہے، بالآخر آپؓ نے تین سو کے بہ جائے آٹھ سو درہم دے کر گھوڑا خرید لیا۔ جب لوگوں نے آپؓ کے اس عمل کے بارے میں سوال کیا تو آٓپؓ نے فرمایا: بے شک! میں نے تمام مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر رسول اﷲ ﷺ سے بیعت کی ہے۔
افسوس کہ آج کے مسلمان ان خوب صورت جذبوں سے محروم ہوتے جا رہے ہیں، گاہک اور تاجر میں سے ہر ایک نفع خوری کے جذبات لیے ہوئے نظر آتا ہے۔ اکثریت کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ کسی طرح مجھے فائدہ ہوجائے اگرچہ سامنے والے کو نقصان ہوجائے۔
نفع خوری کی سوچ ذہن میں ایسی رَچ بَس گئی ہے کہ اس کے لیے سُود، رشوت، ملاوٹ، ناپ تول اور اعداد و شمار کی ہیرا پھیری، چرب زبانی، دھوکا دہی، بازاروں میں اشیاء کی نقل اور مصنوعی قلت اور طرح طرح کے نت نئے طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ ایک تعداد تو ایسے تاجروں کی بھی ہے کہ جو زلزلہ، سیلاب یا دیگر قدرتی آفات کے حالات میں بھی خیمے، تمبو اور دیگر ضرورت کی چیزیں بہت مہنگی کردیتے ہیں۔
بعض دفعہ تو لگتا ہے کہ یہ لوگ زلزلہ و سیلاب جسی قدرتی آفات وغیرہ کے انتظار میں ہوتے ہیں کہ کب لوگوں کی ضرورت بڑھے اور یہ تاجر لوگ اپنی چیزوں کی منہ مانگی قیمت وصول کریں۔ وبائی امراض میں اس وبا سے متعلق حفاظتی چیزوں بل کہ دواؤں تک کی قیمتوں میں اضافہ کردیا جاتا ہے، جیسے بقر عید کے موقع پر قربانی کے جانوروں اور رمضان میں افطار کے لیے پھلوں کی قیمتیں بھی گویا آسمان پر پہنچ جاتی ہیں۔
اس کے چند بُرے اثرات یہ ہیں:
٭ معاشرے میں بے حسی بڑھ رہی ہے۔
٭ ہم دردی کا خاتمہ ہو رہا ہے۔
٭ لوگوں کی مجبوریوں سے کھیلا جارہا ہے۔
٭ اسلامی بھائی چارا ختم ہو رہا ہے۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی معاشرے میں اس قسم کے بے حس لوگوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔
یقیناً اگر ہم اسلام کی تعلیمات پر خود بھی عمل کریں اور اسے دوسرے مسلمانوں تک پہنچا کر انہیں بھی ان پر عمل کی ترغیب دیں تو ہمارے معاشرے میں امن و سکون، بھائی چارے ، اتحاد و محبت اور بہتر معیشت کے حسین نظارے دیکھنے کو ملیں گے۔