فلسطینیوں پر مظالم کے خلاف عالمی ردعمل فطری
بلاشبہ تین ممالک کا سفارتی سطح پر ظالم اسرائیل کا بائیکاٹ ایک صائب فیصلہ ہے
غیرملکی میڈیا کے مطابق غزہ میں اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف انسانیت سوز کارروائیوں پر احتجاج کرتے ہوئے اردن، چلی اور کولمبیا نے اسرائیل سے اپنے سفیروں کو واپس بلانے کا اعلان کردیا ہے، جبکہ غزہ میں اسرائیلی بمباری سے شہادتوں کی تعداد آٹھ ہزار 796 ہوگئی۔
غزہ کا واحد کینسر اسپتال ایندھن نہ ہونے کی وجہ سے غیر فعال ہوگیا ہے، جبکہ غزہ کے جبالیہ کیمپ پر اسرائیل نے مسلسل دوسرے روز بھی بمباری کی۔
بلاشبہ تین ممالک کا سفارتی سطح پر ظالم اسرائیل کا بائیکاٹ ایک صائب فیصلہ ہے، پاکستان سمیت دنیا بھر میں مظلوم فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے جاری ہیں، پاکستان کے عوام جہاں غزہ میں اسرائیلی وحشیانہ کارروائیوں کے خلاف سڑکوں پر نکل رہے ہیں، وہیں بین الاقوامی سطح پر بھی فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کی جا رہی ہے۔
برطانیہ میں فلسطین کا پرچم لہرانے پر پابندی کے اعلان کے باوجود ہزاروں فلسطینی پرچم اٹھائے سڑکوں پر نکلے، پاکستان کی پارلیمنٹ کے ایوان بالا سینیٹ نے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے اور اسرائیلی جارحیت اور بربریت کے خلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ اسرائیلی جارحیت فوری بند اور سیز فائر کیا جائے۔
درحقیقت پاکستان کے لیے مسئلہ فلسطین کی اہمیت قائداعظم محمد علی جناح کے دوٹوک اعلان سے واضح ہے۔ مسجد اقصیٰ کی آزادی ملک کے نظریہ اور وجود سے منسلک ہے۔
قائد اعظم نے مطالبہ کیا تھا کہ مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے سلسلے میں پہلا قدم یہ ہوگا کہ فلسطین سے اینگلو،امریکی اثر و رسوخ واپس ہوجائے اور اس امر پر زور دیا کہ نہ صرف یہودیوں کی فلسطین میں آمد کو ختم کر دیا جائے بلکہ جو یہودی پہلے سے فلسطین میں موجود ہیں ان کی آبادکاری کا بھی آسٹریلیا، کینیڈا یا کسی ایسے ملک میں اہتمام کیا جائے جہاں ان کی گنجائش ہو۔
یہ بالکل واضح ہے کہ یہودی، امریکا اور برطانیہ کی امداد سے فلسطین کو دوبارہ فتح کرنا چاہتے ہیں۔دنیا کے نقشہ پر جب سے اسرائیل کا ناجائز وجود سامنے لایاگیا ہے، اب تک لاکھوں بے گناہوں کا خون بہہ چکاہے جبکہ ساتھ ہی بہت بڑے خطے میں مستقل طور پر کشیدگی ڈیرہ جمائے ہوئے ہے۔
اسرائیل کے حوالے سے قبل ازیں مغرب کی طرف سے کم ہی حقائق پرتوجہ دی جایاکرتی تھی تاہم اب حالات بدلنے لگے ہیں جس کاایک واضح ثبوت یہ ہے کہ سرکردہ عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسرائیل کو نسل پرست ریاست قرار دے دیا ہے۔
چار سال کی کڑی چھان بین اور ریسرچ کے بعد280 صفحات پر مشتمل ایمنسٹی کی جو رپورٹ کچھ عرصہ قبل شائع ہوئی تھی اس میں شواہد اور گواہیوں کے ساتھ اسرائیل کے نسل پرستانہ اقدام اور پالیسیوں کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔
ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ''خواہ وہ اسرائیل کے زیر انتظام مقبوضہ غزہ، مشرقی یروشلم یا غرب اردن میں رہتے ہوں یا اسرائیل کے باسی ہوں، فلسطینیوں کے ساتھ کم تر نسلی گروہ کی طرح سلوک کیا جاتا ہے اور انھیں مسلسل ان کے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔''ایمنسٹی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ اسرائیلی نسل پرستی کی حقیقت کا سامنا کرے اور فلسطینیوں کو انصاف دلائے۔
ایمنسٹی نے انٹرنیشنل کریمنل کورٹ سے جو مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات کررہی ہے، درخواست کی ہے کہ وہ اپنی ان تحقیقات میں نسل پرستی کے جرم کی جانچ کو بھی شامل کرلے۔ ان سرگرمیوں سے تلملا ئی اسرائیلی حکومت نے نہ صرف نسل پرستی کے الزام کو یکسر مسترد کردیا تھا بلکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی عالمی تنظیم کو متعصب، دہشت گردوں کی طرف داراور اسرائیل دشمن قرار دے دیا تھا۔
1967ء کی جنگ کے دوران جن فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی فوج نے قبضہ کیا تھا وہ آ ج پچپن برس بعد بھی اسرائیل کے زیر تسلط ہیں۔ بین الاقوامی قوانین کی رو سے یہ غاصبانہ تسلط ہے۔
پچھلی پانچ دہائیوں میں فلسطینی اراضی کی مسلسل لوٹ اور ان پر ناجائز یہودی بستیوں کی تعمیر، فلسطینی گھروں کو بموں اور بلڈوزروں سے مسمار کرنا، نسلوں سے رہائش پذیر باشندوں کو ان کے گھروں سے جبراً نکال دینا، بے گناہ فلسطینیوں کا ٹارچر اور قتل، فلسطینیوں کے آزادانہ نقل و حرکت پر پابندیاں، یہودی شہریوں سے فلسطینیوں کو علیحدہ رکھنے کے لیے غیر قانونی دیوار تعمیر کرنا اور اسرائیل کے قیام کی خاطر اپنے گھروں سے اجاڑے گئے لاکھوں فلسطینی فوجیوں کو وطن واپسی کے حق سے محروم رکھنے پر اصرارکے باوجود صیہونی حکومت کا دعویٰ ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہورہی ہے اور انھیں برابرکا درجہ حاصل ہے۔
اسرائیل پر جب بھی تنقید کی جاتی ہے تو تل ابیب اور اس کے طرف دار ناقدین کا منہ بند کرنے کے لیے یہ راگ الاپتے ہیں کہ پورے خطے میں اسرائیل ہی واحد جمہوری ریاست ہے۔ گویا جمہوری نظام حکومت تمام نقائص اور عیوب سے پاک ہوتا ہے۔
کسی جمہوری نظام میں بھی شہریوں کے ساتھ کس طرح امتیازی سلوک کیا جاسکتا ہے اور انھیں سرکاری جبر کا شکار بنایا جاسکتا ہے، اس کا مشاہدہ آج دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔
ذرا مغرب کا دہرا معیار ملاحظہ فرمائیے!ایمنسٹی جب روس، چین، سعودی عرب یا ایران پر انسانی حقوق کی پامالی کا الزام لگاتی ہے تو اس کا خیر مقدم کیا جاتا ہے مگر جب اسرائیل کو آئینہ دکھایا گیا تو برا مان جاتے ہیں۔ اسرائیل پر نسل پرستی کا الزام کوئی نیا نہیں ہے۔ ایک سال قبل ہیومن رائٹس واچ نے بھی یہی الزام لگایا تھا۔نسل پرست ریاستی حکومت کے پاس اس سوال کا کیا جواب ہے کہ خود اس کی انسانی حقوق کی جن دو تنظیموں نے پچھلے سال اپنی حکومت کی اپارتھائیڈ کی پالیسی کی پول کھولی تھی کیا وہ بھی یہود دشمن ہیں۔
دراصل کسی کا دکھ اس وقت تک محسوس نہیں کیا جا سکتا جب تک دکھ سہنے والے کے احساسات اپنی ذات میں چبھن نہ پیدا کریں، یورپی اقوام ِ عالم اور امریکا بے حِسی کی عمیق پستیوں میں گرے ہوئے ہیں، انھیں انسانی خاص کر مخالف مذہب کی اقوام کے دکھوں سے کوئی سرو کار نہیں، اسلامو فوبیا میں ان کے احساس کی طنابیں ان کے مردہ ضمیر نے حنوط کر دی ہیں۔
آج سے 82 سال قبل 8، ستمبر 1941 ء میں لینن گراڈ جو کہ اب سینٹ پیٹرز برگ کے نام سے جانا جاتا ہے اور سابقہ سویت یونین کا دوسرا بڑا شہر تھا، جرمن فوج نے اس کا محاصرہ باقاعدہ ایک مذموم منصوبہ بندی سے کیا تھا، نازی ڈکٹیٹر اڈولف ہٹلر لینن گراڈ شہر کو اسلحہ سے تباہ کرنے کے بجائے شہر کے رہائشیوں کو بھوک کی دردناک اذیت دے کر مارنا چاہتا تھا،لہٰذا نازیوں نے لینن گراڈ کا محاصرہ تقریباً نو سو دن تک کیے رکھا،اس محاصرے کی وجہ سے باہر سے اشیاء خو رونوش کی ترسیل شہر میں آنا بند ہو گئی۔
ذخیرہ شدہ اشیاء اور خوراک کے ختم ہونے پر لینن گراڈ کے باسیوں نے ابال ابال کر چمڑا کھانا شروع کر دیا، بھوک کی شدت نے لوگوں کو مجبور کر دیا اور اں نے کاغذ کو دیواروں پر چپکانے والی (لیئی) سریش کو کھروچ کھروچ کر کھا لیا،اور پھر بھوکے عوام شہر میں بلیوں اور چوہوں کو کھانے اور انسان انسان کو کھانے پر مجبور ہوگئے،آدم خوری کے واقعات اور بھوک سے لینن گراڈ کے ایک ملین انسان بھوک اور شدید سردی سے مر گئے تھے۔
عہدِ رفتہ کی تلخ اور انسانیت سوز تاریخ کی نہ مٹنے والی یاد کوعہدِ حاضر میں روسی صدر نے غزہ کے اسرائیلی محاصرے کو نازی دور کی شکل قرار دیتے ہوئے امریکا پر تنقید کی کہ امریکا کی طرف سے بھی غزہ پٹی کی ناکہ بندی کرنے کے لیے مطالبہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران لینن گراڈ کے محاصرے جیسا ہے۔
ان تلخ اور کرب ناک یادوں کے ساتھ پوتن نے حماس کی کارروائی کو غلط قرار دیا اور اسرائیلی ظالمانہ طرز طریقہ کی جوابی کارروائی کی مذمت کی، جسے کہا جا سکتا ہے کہ انسانی حقوق کے تحفظ کا سارا ملبہ ستر سال سے محکوم فلسطین کی زمین کے اصل وارثوں پر ڈال کر انھیں غلط قرار دے دیا اور غاصب، درندہ صفت اور نسل کش اسرائیل کی مذمت کر کے اس کے قبضے کو جائز قرار دے کر سرخرو ہو گئے۔
غزہ کی امن کے حوالے سے صورتحال انتہائی کشیدہ اور تشویشناک ہے اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری عسکری کشیدگی سے خطے کے ممالک پریشان ہیں، لیکن مظلوم غزہ کے باسیوں کے لیے کسی بھی قسم کا عملی اقدام کرنے سے قاصر ہیں سرِ دست غزہ کے محاصرے اور بمباری کے نتیجے میں اموات سے تعفن اٹھنے سے باقی ماندہ لوگوں کا دم گھٹ رہا ہے، ملبے تلے دبے ہوئے افراد کے اہل خانہ کو کئی کئی گھنٹے شہری دفاع اور ہنگامی ٹیموں کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
اس امید پر کہ شاید ان کے عزیز ملبے تلے سے زندہ سلامت نکل آئیں لیکن یہ امید بر نہیں آتی، پھر آہ وبکا اور اشکوں کی بارش کو روکنے والاکوئی نہیں ملتا۔ صیہونی فوج نے کیمپ، مساجد، اسپتال اور رہائشی عمارتوں پر بمباری کرکے کوئی جگہ نہیں چھوڑی جہاں انسانی لاشے بکھرے ہوئے نظر نہ آئیں، بچوں اور عورتوں کی چیخ و پکار امریکی صدر کو سنائی نہیں دیتی ۔امریکی صدر نے اسرائیلی طیاروں کا نشانہ بننے والے ہسپتال کا ملبہ بھی فلسطینیوں پر ڈال دیا، اور مزید جوبائیڈن کا سفاکانہ بیان کہ امریکا اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔
انسانی حقوق کے علمبردار نہتے غزہ کے بچوں کو دہشت گرد قرار دے رہے ہیں، اسرائیل کی مذمت کرنے کے بجائے اس سے اظہار یکجہتی عالم انسانیت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔یہی درست وقت ہے کہ دنیا کو نئی عالمی جنگ سے بچانے کے لیے اقوام متحدہ اپنا کردار ادا کرے اور غزہ میں جنگی جرائم بند کروائے۔
غزہ کا واحد کینسر اسپتال ایندھن نہ ہونے کی وجہ سے غیر فعال ہوگیا ہے، جبکہ غزہ کے جبالیہ کیمپ پر اسرائیل نے مسلسل دوسرے روز بھی بمباری کی۔
بلاشبہ تین ممالک کا سفارتی سطح پر ظالم اسرائیل کا بائیکاٹ ایک صائب فیصلہ ہے، پاکستان سمیت دنیا بھر میں مظلوم فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے جاری ہیں، پاکستان کے عوام جہاں غزہ میں اسرائیلی وحشیانہ کارروائیوں کے خلاف سڑکوں پر نکل رہے ہیں، وہیں بین الاقوامی سطح پر بھی فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کی جا رہی ہے۔
برطانیہ میں فلسطین کا پرچم لہرانے پر پابندی کے اعلان کے باوجود ہزاروں فلسطینی پرچم اٹھائے سڑکوں پر نکلے، پاکستان کی پارلیمنٹ کے ایوان بالا سینیٹ نے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے اور اسرائیلی جارحیت اور بربریت کے خلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ اسرائیلی جارحیت فوری بند اور سیز فائر کیا جائے۔
درحقیقت پاکستان کے لیے مسئلہ فلسطین کی اہمیت قائداعظم محمد علی جناح کے دوٹوک اعلان سے واضح ہے۔ مسجد اقصیٰ کی آزادی ملک کے نظریہ اور وجود سے منسلک ہے۔
قائد اعظم نے مطالبہ کیا تھا کہ مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے سلسلے میں پہلا قدم یہ ہوگا کہ فلسطین سے اینگلو،امریکی اثر و رسوخ واپس ہوجائے اور اس امر پر زور دیا کہ نہ صرف یہودیوں کی فلسطین میں آمد کو ختم کر دیا جائے بلکہ جو یہودی پہلے سے فلسطین میں موجود ہیں ان کی آبادکاری کا بھی آسٹریلیا، کینیڈا یا کسی ایسے ملک میں اہتمام کیا جائے جہاں ان کی گنجائش ہو۔
یہ بالکل واضح ہے کہ یہودی، امریکا اور برطانیہ کی امداد سے فلسطین کو دوبارہ فتح کرنا چاہتے ہیں۔دنیا کے نقشہ پر جب سے اسرائیل کا ناجائز وجود سامنے لایاگیا ہے، اب تک لاکھوں بے گناہوں کا خون بہہ چکاہے جبکہ ساتھ ہی بہت بڑے خطے میں مستقل طور پر کشیدگی ڈیرہ جمائے ہوئے ہے۔
اسرائیل کے حوالے سے قبل ازیں مغرب کی طرف سے کم ہی حقائق پرتوجہ دی جایاکرتی تھی تاہم اب حالات بدلنے لگے ہیں جس کاایک واضح ثبوت یہ ہے کہ سرکردہ عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسرائیل کو نسل پرست ریاست قرار دے دیا ہے۔
چار سال کی کڑی چھان بین اور ریسرچ کے بعد280 صفحات پر مشتمل ایمنسٹی کی جو رپورٹ کچھ عرصہ قبل شائع ہوئی تھی اس میں شواہد اور گواہیوں کے ساتھ اسرائیل کے نسل پرستانہ اقدام اور پالیسیوں کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔
ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ''خواہ وہ اسرائیل کے زیر انتظام مقبوضہ غزہ، مشرقی یروشلم یا غرب اردن میں رہتے ہوں یا اسرائیل کے باسی ہوں، فلسطینیوں کے ساتھ کم تر نسلی گروہ کی طرح سلوک کیا جاتا ہے اور انھیں مسلسل ان کے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔''ایمنسٹی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ اسرائیلی نسل پرستی کی حقیقت کا سامنا کرے اور فلسطینیوں کو انصاف دلائے۔
ایمنسٹی نے انٹرنیشنل کریمنل کورٹ سے جو مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات کررہی ہے، درخواست کی ہے کہ وہ اپنی ان تحقیقات میں نسل پرستی کے جرم کی جانچ کو بھی شامل کرلے۔ ان سرگرمیوں سے تلملا ئی اسرائیلی حکومت نے نہ صرف نسل پرستی کے الزام کو یکسر مسترد کردیا تھا بلکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی عالمی تنظیم کو متعصب، دہشت گردوں کی طرف داراور اسرائیل دشمن قرار دے دیا تھا۔
1967ء کی جنگ کے دوران جن فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی فوج نے قبضہ کیا تھا وہ آ ج پچپن برس بعد بھی اسرائیل کے زیر تسلط ہیں۔ بین الاقوامی قوانین کی رو سے یہ غاصبانہ تسلط ہے۔
پچھلی پانچ دہائیوں میں فلسطینی اراضی کی مسلسل لوٹ اور ان پر ناجائز یہودی بستیوں کی تعمیر، فلسطینی گھروں کو بموں اور بلڈوزروں سے مسمار کرنا، نسلوں سے رہائش پذیر باشندوں کو ان کے گھروں سے جبراً نکال دینا، بے گناہ فلسطینیوں کا ٹارچر اور قتل، فلسطینیوں کے آزادانہ نقل و حرکت پر پابندیاں، یہودی شہریوں سے فلسطینیوں کو علیحدہ رکھنے کے لیے غیر قانونی دیوار تعمیر کرنا اور اسرائیل کے قیام کی خاطر اپنے گھروں سے اجاڑے گئے لاکھوں فلسطینی فوجیوں کو وطن واپسی کے حق سے محروم رکھنے پر اصرارکے باوجود صیہونی حکومت کا دعویٰ ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہورہی ہے اور انھیں برابرکا درجہ حاصل ہے۔
اسرائیل پر جب بھی تنقید کی جاتی ہے تو تل ابیب اور اس کے طرف دار ناقدین کا منہ بند کرنے کے لیے یہ راگ الاپتے ہیں کہ پورے خطے میں اسرائیل ہی واحد جمہوری ریاست ہے۔ گویا جمہوری نظام حکومت تمام نقائص اور عیوب سے پاک ہوتا ہے۔
کسی جمہوری نظام میں بھی شہریوں کے ساتھ کس طرح امتیازی سلوک کیا جاسکتا ہے اور انھیں سرکاری جبر کا شکار بنایا جاسکتا ہے، اس کا مشاہدہ آج دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔
ذرا مغرب کا دہرا معیار ملاحظہ فرمائیے!ایمنسٹی جب روس، چین، سعودی عرب یا ایران پر انسانی حقوق کی پامالی کا الزام لگاتی ہے تو اس کا خیر مقدم کیا جاتا ہے مگر جب اسرائیل کو آئینہ دکھایا گیا تو برا مان جاتے ہیں۔ اسرائیل پر نسل پرستی کا الزام کوئی نیا نہیں ہے۔ ایک سال قبل ہیومن رائٹس واچ نے بھی یہی الزام لگایا تھا۔نسل پرست ریاستی حکومت کے پاس اس سوال کا کیا جواب ہے کہ خود اس کی انسانی حقوق کی جن دو تنظیموں نے پچھلے سال اپنی حکومت کی اپارتھائیڈ کی پالیسی کی پول کھولی تھی کیا وہ بھی یہود دشمن ہیں۔
دراصل کسی کا دکھ اس وقت تک محسوس نہیں کیا جا سکتا جب تک دکھ سہنے والے کے احساسات اپنی ذات میں چبھن نہ پیدا کریں، یورپی اقوام ِ عالم اور امریکا بے حِسی کی عمیق پستیوں میں گرے ہوئے ہیں، انھیں انسانی خاص کر مخالف مذہب کی اقوام کے دکھوں سے کوئی سرو کار نہیں، اسلامو فوبیا میں ان کے احساس کی طنابیں ان کے مردہ ضمیر نے حنوط کر دی ہیں۔
آج سے 82 سال قبل 8، ستمبر 1941 ء میں لینن گراڈ جو کہ اب سینٹ پیٹرز برگ کے نام سے جانا جاتا ہے اور سابقہ سویت یونین کا دوسرا بڑا شہر تھا، جرمن فوج نے اس کا محاصرہ باقاعدہ ایک مذموم منصوبہ بندی سے کیا تھا، نازی ڈکٹیٹر اڈولف ہٹلر لینن گراڈ شہر کو اسلحہ سے تباہ کرنے کے بجائے شہر کے رہائشیوں کو بھوک کی دردناک اذیت دے کر مارنا چاہتا تھا،لہٰذا نازیوں نے لینن گراڈ کا محاصرہ تقریباً نو سو دن تک کیے رکھا،اس محاصرے کی وجہ سے باہر سے اشیاء خو رونوش کی ترسیل شہر میں آنا بند ہو گئی۔
ذخیرہ شدہ اشیاء اور خوراک کے ختم ہونے پر لینن گراڈ کے باسیوں نے ابال ابال کر چمڑا کھانا شروع کر دیا، بھوک کی شدت نے لوگوں کو مجبور کر دیا اور اں نے کاغذ کو دیواروں پر چپکانے والی (لیئی) سریش کو کھروچ کھروچ کر کھا لیا،اور پھر بھوکے عوام شہر میں بلیوں اور چوہوں کو کھانے اور انسان انسان کو کھانے پر مجبور ہوگئے،آدم خوری کے واقعات اور بھوک سے لینن گراڈ کے ایک ملین انسان بھوک اور شدید سردی سے مر گئے تھے۔
عہدِ رفتہ کی تلخ اور انسانیت سوز تاریخ کی نہ مٹنے والی یاد کوعہدِ حاضر میں روسی صدر نے غزہ کے اسرائیلی محاصرے کو نازی دور کی شکل قرار دیتے ہوئے امریکا پر تنقید کی کہ امریکا کی طرف سے بھی غزہ پٹی کی ناکہ بندی کرنے کے لیے مطالبہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران لینن گراڈ کے محاصرے جیسا ہے۔
ان تلخ اور کرب ناک یادوں کے ساتھ پوتن نے حماس کی کارروائی کو غلط قرار دیا اور اسرائیلی ظالمانہ طرز طریقہ کی جوابی کارروائی کی مذمت کی، جسے کہا جا سکتا ہے کہ انسانی حقوق کے تحفظ کا سارا ملبہ ستر سال سے محکوم فلسطین کی زمین کے اصل وارثوں پر ڈال کر انھیں غلط قرار دے دیا اور غاصب، درندہ صفت اور نسل کش اسرائیل کی مذمت کر کے اس کے قبضے کو جائز قرار دے کر سرخرو ہو گئے۔
غزہ کی امن کے حوالے سے صورتحال انتہائی کشیدہ اور تشویشناک ہے اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری عسکری کشیدگی سے خطے کے ممالک پریشان ہیں، لیکن مظلوم غزہ کے باسیوں کے لیے کسی بھی قسم کا عملی اقدام کرنے سے قاصر ہیں سرِ دست غزہ کے محاصرے اور بمباری کے نتیجے میں اموات سے تعفن اٹھنے سے باقی ماندہ لوگوں کا دم گھٹ رہا ہے، ملبے تلے دبے ہوئے افراد کے اہل خانہ کو کئی کئی گھنٹے شہری دفاع اور ہنگامی ٹیموں کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
اس امید پر کہ شاید ان کے عزیز ملبے تلے سے زندہ سلامت نکل آئیں لیکن یہ امید بر نہیں آتی، پھر آہ وبکا اور اشکوں کی بارش کو روکنے والاکوئی نہیں ملتا۔ صیہونی فوج نے کیمپ، مساجد، اسپتال اور رہائشی عمارتوں پر بمباری کرکے کوئی جگہ نہیں چھوڑی جہاں انسانی لاشے بکھرے ہوئے نظر نہ آئیں، بچوں اور عورتوں کی چیخ و پکار امریکی صدر کو سنائی نہیں دیتی ۔امریکی صدر نے اسرائیلی طیاروں کا نشانہ بننے والے ہسپتال کا ملبہ بھی فلسطینیوں پر ڈال دیا، اور مزید جوبائیڈن کا سفاکانہ بیان کہ امریکا اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔
انسانی حقوق کے علمبردار نہتے غزہ کے بچوں کو دہشت گرد قرار دے رہے ہیں، اسرائیل کی مذمت کرنے کے بجائے اس سے اظہار یکجہتی عالم انسانیت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔یہی درست وقت ہے کہ دنیا کو نئی عالمی جنگ سے بچانے کے لیے اقوام متحدہ اپنا کردار ادا کرے اور غزہ میں جنگی جرائم بند کروائے۔